• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی سیاسی بصیرت کتنی ہے؟ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں، لیکن ایک اہم نکتہ شاید وہ نہیں سمجھ سکے کہ افواج پاکستان صرف اور صرف ملک کو مقدم سمجھتی ہیں اور شخصیات یا افراد کی اہمیت بھی تب ہی ہے جب وہ ملک کی سلامتی، دفاع اور ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

 اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ ملک کا دفاع کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کا احترام کیا جائے۔ اگر کوئی سیاستدان ہے تو اپنی سیاست ضرور کرے لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے سیاسی یا ذاتی مفادات کے لئے ان اداروں کی عزت و تکریم ہی بھول جائے اور پھر بالخصوص ان اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی کرے جو ملکی دفاع کے ضامن ہیں۔ یا ملک کے دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی ناپاک کوشش کرے۔ لیکن یہاں تو بات اس سے بھی آگے چلی گئی۔

 پہلے ان اداروں میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور جب اس کوشش میں کامیابی نہیں ملی تو آخری حد بھی کراس کر دی گئی اور ان اہم ترین اداروں میں بغاوت کرانے کی مذموم جسارت کی گئی جو کہ ایک خطرناک عمل اور سنگین جرم ہے، جسے برداشت کرنا بھی بذات خود ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔

لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثے کے شہدا کے خلاف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیاسیل سے جو غلیظ اور انتہائی مذموم خرافات بکی گئیں، حکومت ملوث افراد کے خلاف تیزی سے کارروائی تو کر رہی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی کو مسجد نبویؐ اور اب ان شہداء کے بارےمیں انتہائی گھٹیا سوشل میڈیائی حرکتوں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ ابھی تو شروعات ہیں، دیکھتے جائیے کہ پی ٹی آئی کے بارے میں معاملات بہت دور تلک جائیں گے جو اس سے وابستہ بعض افراد نے سوچا بھی نہیں ہو گا جو ہونے کا امکان ہے۔

یہ میں نہیں کہہ رہا یہ تو ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ مسجد نبویؐ کتنی مقدس اور محترم جگہ ہے۔ سعودی عرب میں آج تک کسی بھی مقدس مقام کی بے حرمتی کرنے والا ذلیل و خوار ہوا ہے تو وہ لوگ اب کیسے بچ سکتے ہیں جو ایسی گھنائونی حرکت کر کے واپس آئیں اور پھر یہاں بعض لوگوں نے نہ صرف اس واقعہ کی اہمیت کو ہی نظر انداز کیا بلکہ ان کو تحفظ بھی فراہم کیا اس طرح وہ بھی شریکِ گناہ ہوگئے۔

گزشتہ دنوں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والوں کے عظمت و احترام کو بالائے طاق رکھ کر جوزبان استعمال کی گئی تو کیا وہ پھر بھی باعزت اور سکون میں رہ سکتے ہیں؟قابلِ فکر بات یہ ہے کہ مسجد نبویؐ کا واقعہ ہو یا حالیہ ہیلی کاپٹرحادثہ میں شہداء کے خلاف مہم ،ان واقعات کو باقاعدہ پلان بنا کر ترتیب دیا گیا اور پھر اپنے کارندوں کے ذریعے اس منصوبے پر عملدرآمد کرایا گیا۔

شہدا کے بارے میں گھٹیا مہم چلانے کا مقصد اس عظیم ادارے کی عزت و تکریم کو گھٹانےکی ناکام کوشش تھی جس سے ان شہداء کا تعلق تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسی جماعت کے چند بڑوں نے آخری حربے کے طور پر پاک فوج کے اندر بغاوت پیدا کرنے کا قابلِ شرم منصوبہ بنایا ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس کے بعد دو تین افراد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ایک مخصوص نجی ٹی وی چینل کے ساتھ مل کر اس کاربد کو آگے بڑھائیں۔ ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میٹنگ میں مذکورہ چینل کا اہم عہدیدار بھی موجود تھا اور شہباز گل کو یہ خصوصی ذمہ داری دی گئی جو عمران خان کے چیف آف اسٹاف برائے خرافات و بکواسیات ہیں جب کہ ایک دوسرے اہم عہدیدار کنی کترا گئے تھے۔ لیکن وہ اس منصوبے میں شامل تھا، جس کی باری شاید آنے والی ہے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ہر روز بلکہ ہر چند گھنٹے بعد صورتحال تبدیلی ہوتی ہے اور مبینہ طور پر عمران خان سمیت اکثر ساتھی جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اب بھی وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید دھونس، دھمکیوں سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ بعض لوگ بھی انکو ڈٹ جانے کے غلط اور تباہ کن مشورے دیتے ہیں ، جس سے نقصان میں مزید اضافہ یقینی ہے۔

ایک منصوبے کے تحت پنجاب بھر میں مسلم لیگ (ن) کے جن جن اہم عہدیداروں کے خلاف جس طرح کے پرانے مقدمات ہیں، ان کو تازہ کر کے اس کی آڑ میں ان کو گرفتار کیا جائے اور اس کام کیلئے ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ’’اپنا کام‘‘ شروع کر دیاگیا ہے۔

 دوسری طرف ایف آئی اے نے مونس الہٰی کی ضمانت کی تنسیخ کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 13؍اگست کے لاہور والے جلسے کی کامیابی اور انتظامات کی ذمہ داری بھی پنجاب حکومت کو دی گئی ہے۔

 ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ جلسے میں حکومت کو ایک ماہ میں انتخابات کا اعلان کرانے کا الٹی میٹم دینے کا پلان تھا لیکن اب شاید اس اعلان کو ملتوی کیاجائے جس کی کئی وجوہات ہیں۔

 شہباز گل کے معاملے کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اب اس کی اور شاخیں نکل رہی ہیں اور شاید یہ معاملہ ’’دور تک ‘‘ پہنچے۔ بہرحال اس معاملے سمیت دیگر چند معاملات میں آئندہ چند دنوں میں بعض اہم گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بعض لوگوں کی اس جماعت کو چھوڑ کر ایک نئی جماعت بنانے کا بھی امکان ہے۔ ان تمام باتوں کیلئے انتظار کرنا پڑیگا۔ نظام کی تبدیلی بھی ممکن ہے۔

تازہ ترین