• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی رائل ملٹری اکیڈمی میں جنرل باجوہ کی بطور مہمان خصوصی شرکت، اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی آرمی چیف

لندن(اے پی پی)آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان گہرے تعلقات کا اعادہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستقبل میں تاریخی بلندیوں کو چھوئیں گے۔

پاکستان اوربرطانیہ کےتعلقات دوستی اور باہمی تعاون پر مبنی ہیں‘ عصر حاضر کے چیلنجر سے نمٹنے کے لیے نوجوان جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں، عالمی امن کی خاطر ہمیں بین الاقوامی مشترکات کے اجتماعی دفاع پر اتفاق رائے اور بین الاقوامی قانون کے وقار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر ہم اس میں ناکام ہوئے تو یہ اس خوبصورت دنیا کی تباہی کا سبب بنے گا ،آج مسلح افواج کی بنیادی ذمہ داری جنگیں جیتنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے .


اس کا دارومدار ہماری اجتماعی صلاحیت پر ہے کہ ہم اکٹھے ہوں اور تصادم کے بجائے امن اور تعاون کا راستہ اختیار کریں، تصادم کی بجائے روابط مضبوط کریں اور ذاتی تحفظ کی بجائے کثیرالجہتی تحفظ کا راستہ اختیار کریں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق وہ جمعہ کو رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ میں 213 ویں کمیشننگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کر رہے تھے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نہ صرف پاکستان کےپہلے آرمی چیف بلکہ پاکستان کی پہلی معزز شخصیت ہیں جنہوں نے رائل ملٹری اکیڈمی میں سینڈ ہرسٹ میں 213 ویں کمیشننگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پریڈ کا معائنہ بھی کیا جبکہ رائل ملٹری کے چاک وچوبند دستے کی جانب سے آرمی چیف کو سلامی بھی پیش کی گئی ۔

اپنے خطاب میں پاک فوج کے سربراہ کا کہنا تھاکہ برطانیہ میں موجود تارکین پاکستان کی ایک بڑی تعداد ان تاریخی تعلقات کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے ، مجھے یقین ہے کہ یہ رشتہ آنے والے وقت میں مزید بلندیوں کو چھوئے گا۔ اسی طرح دونوں مسلح افواج کے درمیان تعلق منفرد نوعیت کا ہے اور فوجی تربیت اور دیگر عسکری سرگرمیوں میں قریبی پیشہ ورانہ رابطے کے ذریعے برسوں سے اسے زندہ رکھا گیا ہے۔

انہوں نے سر باسل لڈل ہارٹ کے الفاظ دوہراتے ہوئے کہا کہ "ایک افسر جس نے فوجی تاریخ کا سائنس کے طور پر مطالعہ نہیں کیا ہے، وہ کپتان کے عہدے سے زیادہ کام کا نہیں ہے‘‘۔ آپ کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایک منصف اور غیر جانبدار کمانڈر جو جزا اور سزا میں بھی قابلیت کا مظاہرہ کرتا ہے، وہی ہوتا ہے جو اپنے ماتحت کمانڈر کی غیر مشروط وفاداری حاصل کرے ۔     

اہم خبریں سے مزید