• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھنڈے برف پانی میں گلاب کا تیرتا ہوا پھول دیکھا ہے اپنے؟ حنوط شدہ تتلی دیکھی ہے آپ نے؟ زرد چہرے پر منجمند سسکی دیکھی ہے؟ اچھا دکھ کی تصویر دیکھی ہےآپ نے؟ میں نے دیکھی ہے۔ یہ تصویر میری روح میں اتر گئی ہے۔ یہ تصویر میرے اندر خاموشی اور تاریکی کو بڑھا رہی ہے۔ اس منجمند برف چہرے نے میرے دل و دماغ کو سلگا دیا ہے۔ یہ بلوچستان کے سیلابی پانی میں ملنے والی ایما کا بے جان جسم ہے،جس کے چہرے پر کبھی جگنو چمکتے تھے، مگر اب اس چہرے پر خاموشی ہے۔

آنسو بے رنگ ہوتے ہیں اسی لئے اس بچی کے آنسو نظر نہیں آرہے، مگر پانی میں ڈوبے انسان کے آنسو بھلا کیوں کر نظر آسکتے ہیں۔ دنیا میں سارے بچے ایک جسے ہوتے ہیں۔ سب بچوں کے ہونٹوں پر ایک سی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ سب بچوں کے چہروں پر گلاب کھلتے ہیں جن کا لمس زندگی بن کر خون میں دوڑنے لگتا ہے۔ جن کی بند مٹھیوں میں دنیا سمٹی ہوتی ہے۔ ساری مائیں اپنے بچوں کے لئے ایک جیسے خوبصورت خواب بنتی ہیں۔ 

انھیں لوریاں سنانے کا خواب، ان کے بڑے ہونے کا خواب ،ننھے ننھے قدم اٹھا کر آگے بڑھنے کا خواب، تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کا خواب، مسکراتے چہرے کے ساتھ معصوم سوالات کا خواب، چڑیوں کی طرح چہکنے کا خواب۔ رنگوں کو سمجھنے اور روشنیوں کو پرکھنے کا خواب، مگر خواب مر چکا ہے۔ روشنی کی کرن بجھ چکی ہے۔ یہ میری اور آپ کی بچی ہے۔ یہ پاکستان کی بچی کی لاش ہے۔ یہ صرف ایک لاش نہیں ہے۔ اس کے ساتھ کتنی ساری اور بہت سی لاشیں نظر آ رہی ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی انسانیت، محبت، غیرت اور حمیت کی لاشیں ہیں۔ یہ ہمارے ضمیر کی لاشیں ہیں۔ 

یہ ہمارے اخلاق اور حقوق العباد کی لاشیں ہیں۔ میدڈیٹرینین سی کے کنارے ایلن کرد کی لاش دیکھ کر پوری دنیا درد و الم کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی تھی، جن میں میرے پاکستانی بہن بھائی بھی شامل تھے، مگر میرے ملک کے لوگوں کو یہ بچی اور اس کی لاش نظر ہی نہیں آتی۔ میرے ملک کے برساتی سیلاب میں فوت ہو جانے والے قریباً ساڑھے پانچ سو انسان نظر نہیں آتے۔ اپنے ملک کے بے گھر، بیمار، لاچار اور بے یارومددگار انسان نظر نہیں آتے۔ ان کے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے گھر اور مال مویشی نظر نہیں آتے۔ 

ان کے اجڑے کھیت اور کھلیان نظر نہیں آتے۔ نہیں آتے نا۔ کیوں کے امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے اور ہم وطن کم نظری کا شکار ہیں۔ کہاں ہیں اس وقت سارے حکمران، وہ جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے شرکاء وہ موسیقی سے مزین بدزبانی بدکلامی سے لبریز تقاریر پر سر دھننے اور ناچنے والے کہاں ہیں؟ کوئی نہیں ہے۔ 

جب میرا ملک سیلابی پانیوں میں ڈوب رہا ہے تو ایسے میں سازش کرپشن عدم اعتماد عدلیہ نیوٹرلز چور ڈاکو توشہ خانہ اور الیکشن کی کیا زیادہ اہمیت ہے؟ کیا یہی ہمارے مسائل ہیں؟ کاش جلسے جلوسوں میں نظر آنے والے شرکاء کا دسواں حصہ بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے نکل پڑے، مگر یہ سب بہت مشکل ہے۔ کیا بصارت اور سماعت سے محروم انسانوں کے لئے یہ ممکن ہے؟ بس یہی ایک خیال ہے جو مجھے پریشان کیے دے رہا ہے، سوچ رہی ہوں کہ ہم کیسی قوم ہیں جو دوسروں کے دکھ درد کو ہی نہیں سمجھتے۔