اسلام آباد (جائزہ رپورٹ/فاروق اقدس) وزیراعظم شہباز شریف کے اولین دورہ قطر کے حوالے سے دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں اسلام آباد اور دوحہ سے سرکاری سطح پر جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور دورے کے دوران بالخصوص پاکستان کے نکتہ نگاہ سے مطلوبہ مقاصد کے ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف اور امیر قطر شیخ تمہیم بن حمد الثانی کے درمیان ملاقات اور وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں جن امور پر بات چیت ہوئی اور پیشرفت کیلئے یقین دھانیاں بھی سامنے آئی ہیں وہ خاصی حوصلہ افزا ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا دورہ قطر ایک ایسی صورتحال میں ہوا ہے جب ان کی حکومت کو اقتدار میں آئے کم وبیش چار ماہ کا عرصہ ہوا ہے جو گرتی پڑی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے تو دور کی بات اسے سنبھالنے کیلئے بھی انتہائی قلیل عرصہ ہے پھر ملک میں سیاسی افراتفری کے باعث غیر یقینی صورتحال اور سیلاب کی شکل میں ناگہانی آفات نے بھی ملکی نظام درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے ظاہر ہے ملک میں معاشی حوالوں سے بھی اس کے منفی اثرات پیدا ہوں گے۔ اب ایک طرف تو پاکستان کے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ جو گزشتہ ماہ جولائی میں ریکارڈ حد یعنی 24 فیصد سے بھی افراط زر کی شکل اختیار کر گیا تھا پھر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کمی جو ملک میں مہنگائی کا عفریت بن کر موجود ہے اور دوسری طرف آئندہ ہفتے عالمی مالیتی ادارے (آئی ایم ایف) کا اجلاس بھی ہونے والا ہے جس سے پاکستان کی بڑی توقعات وابستہ ہیں کے اجلاس میں اسے ایک ارب سے زیادہ 1.2 ڈالر کے قرضے کی منظوری مل جائے گی جو رواں سال کے آغاز سے تعطل کا شکار ہے اس کے علاوہ بھی بے شمار عوامل ہیں جن میں کسی دوست، ہمدرد اور قابل اعتماد ملک کا دورہ ناگزیر تھا جس کیلئے وزیراعظم نے بجا طور پر قطر کا انتخاب کیا جسے مذکورہ خبروں کے حوالے سے بامقصد اور کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ قطری حکومت کے ایوان ’’الدیوان امیری‘‘ نے باضابطہ طور پر جاری بیان میں اس خواہش کا واضح عندیہ دیا ہے کہ قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے مختلف شعبوں میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا ہے۔ پھر دورے کے دوران قطر جو پہلی مرتبہ فٹ بال کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے جو طے شدہ شیڈول کے مطابق 20 نومبر کو دوحہ میں ہوں گے اس میگا ایونٹ کی سکیورٹی کیلئے خدمات کی درخواست قطر کی حکومت نے کی تھی اور پاکستانی فوج نے اس حوالے سے اپنی حکومت کو ایک معاہدہ تجویز کیا تھا جس کی سمری کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہمہ جہت پہلوئوں اور دور رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے اور اب جمعرات کو سعودی فرمانروا نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ پاکستان کی معیشت کیلئے سعودی عرب کے روایتی تعاون کے کردار کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ فیصلہ جمعرات کو سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ان کے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو کے درمیان ایک ٹیلیفونک رابطے کے دوران ہوا۔ اب ایک ایسی صورتحال میں جب پاکستان کو سنگین نوعیت کی معاشی بدحالی کا سامنا ہے، ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے بارے میں ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ ذخائر اس حد تک گر چکے ہیں کہ ایک ماہ سے زیادہ کی درآمدات کیلئے بھی بمشکل ہی کافی ہوں گے۔ ایسے میں قطر اور سعودی عرب کی جانب سے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عندیے، اعلان یا فیصلے پر اگر بلاتاخیر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں یہ فیصلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا، اسی طرح اگر آئی ایم ایف بھی ایک ارب ڈالر سے زیادہ قرضے کی فراہمی کیلئے پاکستان کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے تو پاکستان یقیناً کافی حد تک معاشی طور پر سنبھلنے کی پوزیشن میں آجائے گا ۔