• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیدہ ناجیہ شعیب احمد

کسی بھی قوم و ملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزلی اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان غرض سب ہی میدانوں میں نوجوانوں کا رول نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔پاکستان میں نوجوان کل آبادی کا 65 فیصد ہے۔ اتنی بڑی تعداد کا بری طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ 

بجائے اس کے کہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا، الٹا ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ وہ عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ہمارے نوجوان پاکستان کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کیسے، ان کے پاس کھلی راہیں نہیں ہیں، اب تو لگتا ہے کہ ان کا مصرف بس یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ووٹوں میں اضافہ کریں، یا کسی جماعت کے نعروں کی گونج کو اور گرجدار بنائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قوانین اور پالیسیاں تو بنا دی جاتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ نوجوانوں کے لیے بھی متعدد پالیسیاں متعارف کرائی گئیں اور ہر حکومت کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کیے جاتےرہے لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوا، البتہ جس چیز پہ زور دیا جاتا ہے وہ روزگار کے وسائل پیدا کرنا اور نوجوانوں کی معاشی کھپت جیسے امور ہوتے ہیں، جو طویل المدتی اقتصادی منصوبوں پر استوار نہیں ہوتے، بلکہ وقتی اور سیاسی مفادات کے حصول کی غرض سے یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، چونکہ روزگار اور معاشی کھپت کے ذرائع اس قدر محدود اور مسدود ہوچکے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو قطرہ قطرہ بھی دستیاب ہوتا ہے تو وہ اسی کو غنیمت جانتے ہیں۔

اب تو صورت حال یہ ہے وہ اپنے سماجی مسائل سے سرے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ اب وہ سیاسی جماعتوں کے لیے باہر نکلتے ہیں، دن رات اسی بارے بات کرتے ہیں، سوشل میڈیا پہ یہی گفتگو کرتے ہیں۔ حالاں کہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت تعلیمی اداروں میں اب نہیں ہوتی۔ طلبا یونین پر پابندی لگائے ہوئے بھی سالوں بیت گئے ہیں، اگر طلبا یونین سے عائد پابندیاں ہٹا لی جائیں تو یہ پاکستانی سیاست کو بدل کر رکھ دیں، کیونکہ اس سے طلباء اور سیاست کو ایک نیا پلیٹ فارم ملے گا ، نئے دروازے کھلیں گے۔ 

اگر ہم موروثی سیاست یا ایک خاص طبقے کی سیاست سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کو موقع دیا جانا چاہیے۔ ہمارے سیاست دان تو نوجوانوں کے مسائل سے آگاہ ہیں اور نہ ہی وہ انھیں سمجھ سکتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والوں کے درمیان ایک نسل کی خلیج ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ پارلیمان میں نوجوانوں کو بھی نمائندگی ملے۔

ملک کے سماجی مسائل کتنے زیادہ ہیں، اس کا اندازہ سب کو ہے لیکن اس بابت کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ستم یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے موجودہ صورتحال میں بھی اپنی توجہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے دیگر معاملات میں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی وقت کا تقاضہ ہے کہ نوجوانوں کو ان مسائل کے حلمیں شامل کیا جائے۔ ان کی صلاحیتوں کو زنگ نہ لگنے دیا جائے۔

انہیں ان کی ذہنی صلاحیتوں اور چھپی قوتوں کا احساس دلانا ضروری ہے۔ نوجوان بھی کھیل تماشوں اور فضول کاموں میں الجھنے کے بجائے اپنی زندگی کے مقصد پر نظر رکھیں تو وہ اُوج ثریا تک جا سکتے ہیں اور پھر ان کی منزل یقیناً ستاروں سے بھی آگے ہوگی۔ معاشرے میں پھیلی بے چینی ، بدعنوانی اور انتشار کے خار زار کو گل و گلزار میں بدلنے کے لیے نوجوانوں کو اپنی فکری توانائیوں کو بروئے کار لانے کی اشد ضرورت ہے۔