1975ء میں سنیما گھروں کی زینت بننے والی فلم ’’بِن بَادل برسات‘‘ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا، جو پاک و ہند میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا، اس فلم کی پروڈیوسر زینت بیگم، جو ایک معروف اداکارہ بھی تھیں، انہوں نے فلموں کی ڈائریکشن بھی دیں، اپنی ذاتی فلم ’’بِن بَادل برسات‘‘ کی بھی وہ ڈائریکٹرتھیں۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ ایک خاتون رائٹر، جہاں آراء پاشا سے لکھوایا، فلم کی موسیقی کے لیے خاتون موسیقار شمیم نازلی کا انتخاب کیا، جو اپنے دور کی مقبول گلوکارہ مالا بیگم کی بہن تھیں اورگانوں کی ری ریکارڈنگ بیگم سرفراز ظفر کو سونپی۔
پروڈکشن کی تمام تر ذمے داری اداکارہ چُن چُن اور گلزار بیگم کے حوالے کی۔ فلم کے ملبوسات کے لیے مسز احسان کے بوتیک ایم ارم بوتیک کی خدمات لیں، اداکاروں کے میک اپ اور ہیئر اسٹائل کے ٹائٹل میں زینا اور ربیکا کے نام دیے۔ معاون ہدایت کارہ کے لیے اداکارہ سیما اور ناصرہ کو شامل کیا، جب کہ تدوین کاری کے اہم شعبے کے لیے اداکارہ آصفہ معاون تدوین کے لیے منتخب کیا۔ کسی فلم کے پسِ پردہ ہنر مندوں میں پہلی بار اس قدر زیادہ خواتین کے نام سامنے آئے۔
زینت بیگم چوں کہ خود بھی اپنے زمانے میں اداکاری کے علاوہ فلم کے دیگر شعبہ جات میں دل چسپی رکھتی تھیں اور جب انہوں نے بہ طور ہدایت کارہ پہلی فلم بنائی، تو انہوں نے اپنے یونٹ میں زیادہ تر خواتین کو ترجیح دی۔ باری اور ایورنیو اسٹوڈیوز میں جس زمانے میں اس فلم کی شوٹنگز ہورہی تھیں، تو وہاں ہر وقت ان خواتین کا کام دیکھنے کے لیے لوگوں کا جم غفیر موجود ہوتا تھا۔
اس فلم کی کہانی میں عورت نے مردوں سے ایک سوال بھی کیا تھا، جو اس فلم کی کہانی کا مرکزی خیال بھی تھا، سوال کرتی ہے، عورت جواب دو مردوں، زمانہ قدیم سے عورت پر ہونے والے مظالم کو اس فلم کے ایک گانے کی صورت میں نہایت موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے، جہاں اس فلم کی کہانی میں عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کیا گیا، وہیں دُنیا بھر سے ان معصوم بچوں کا مقدمہ بھی عوامی عدالت میں پیش کیا گیا، جو ماں باپ کے پیار سے محروم ہوکر زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے یتیم خانوں کے عقوبت گھروں میں پروان چڑھتے ہیں۔ یہ دُھول کے پُھول جب درد سے چیخ کر فریاد کرتے ہوئے کہتے ہیں؎ ’’ نہ ماں کا پیار ملا اور نہ باپ کا سایہ، قدم قدم پر زمانے نے ہم کو ٹھکرایا، وہ پھول ہیں جو بچھڑ کے چمن سے کِھلتے ہیں، ہر قدم یہ ہمیں لاکھوں درد ملتے ہیں۔‘‘
ان معصوم یتیم بچوں کی یہ فریاد سُن کر سخت سے سخت دِل بھی تڑپ اٹھتے۔ آج بھی جب فلم کا یہ گانا آپ دیکھیں گے اور سُنیں گے، تو آپ کی آنکھوں میں ’’بِن بَادل برسات‘‘ ہوجائے گی۔ یہ اس ماں کی کہانی ہے، جس کا لختِ جگر اپنے والدین اور بھائی کے ہوتے ہوئے ایک یتیم خانے میں بھیج دیا جاتا اور دُکھی ماں اپنے بیٹے کی یاد میں ہر وقت آنسو بہاتی ہوئی فریاد کرتی ہے؎ رم جھم رم جھم نیناں برسیں
پیاسے ہیں جذبات
تجھ بن، بن بادل برسات‘‘۔
یہ کہانی معاشرے کے ان گماشتہ چہروں کی ہے، جو جگو دادا کی صورت میں معاشرے کا ناسور ہیں، معصوم بچوں کو چور بنانا اور مجبور عورتوں کو بُرائی کی راہ پر ڈالنے والوں کا انجام بھی اس کہانی میں نظر آئے گا،جہاں اس فلم میں ہماری سوسائٹی کے کچھ اہم مسائل کو پردئہ سیمیں پر اداکارہ و ہدایت کارہ زینت بیگم نے نہایت موثر انداز میں پیش کیے، وہاں اس فلم میں گوری (سنگیتا) اور بادشاہ (شاہد) کے کچھ رومانٹک مناظر بھی موجود ہیں، جو فلم کے سیکنڈ پیئرمیں موجود ہیں۔ فلم کا منظرنامہ ہارون پاشا نے تحریر کیا ، جو معروف اداکار و ہدایت کار اطہر شاہ خان (جیدی) کے بھائی تھے۔ منظر نامے میں فلم بینوں کے لیے جذبات سے بھرپور مناظر ہیں ، جسے دیکھ کر نہ صرف خواتین فلم بینوں کی آنکھوں سے آنسو نکلے، بلکہ مرد فلم بین بھی ان کو دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکے ۔
خصوصاً یتیم خانے کی سالانہ تقریب میں بچوں کا رو رو کر فریاد کرنے کا منظر، اداکارہ زیبا پر فلمائے ہوئے اس گانے پر؎ ’’رم جھم رم جھم نیناں برسے‘‘ جب اسکرین پر آتے تھے، تو سنیما ہال میں موجود فلم بینوں کے بے اختیار آنسو چھلک آتے۔ آنسوئوں کے بعد اب قہقہوں کی بات کرتے ہیں، اس فلم میں مزاحیہ اداکار ننھا، شاہدہ، نِرالا، خالد سلیم موٹا اور چُن چُن موجود تھے۔ فلم کا ایک منظر، جب ننھا اپنی محبوبہ شاہدہ سے شادی کرنے جاتا ہے، تو وہاں اداکارہ چُن چُن اور خالد سلیم موٹا کی جو انٹری دکھائی گئی، اس منظر پر پُورا سنیما ہال قہقہوں سے گونج اٹھتا۔
معروف مزاحیہ اداکار لہری نے اس فلم میں ہمارے معاشرے کا تمثیلی یادگار کردار بڑی عمدگی اور سنجیدگی کے ساتھ ادا کیا،جس میں ان کے کردار کا نام بھی معاشرہ تھا۔ اداکار محمد علی نے سچے اور بااصول ایمان دار جج اکبر کا کردار ادا کیا،جو بدنام اسمگلر، بچوں کو اغوا کرنے والے مجرم جگو دادا (الیاس کاشمیری) کو عدالت سے سزا دلواتا ہے، اکبر نے جگو کو سزائے موت سنا کر جیل بھیج دیا۔ جگو نے جیل جاتے ہوئے اکبر سے انتقام لینے کی دھمکی دی۔ اکبر علی کے پاس دنیا کی ہر نعمت تھی، مگر اولاد کی محرومی نے اسے اور اس کی بیگم زرینہ (زیبا) کو غم کے سمندر میں دھکیل رکھا تھا، زرینہ کے یہاں مردہ بچے ہوتے، پھر ایک روز اُمید کی کرن روشن ہوئی، اکبر علی نے لیڈی ڈاکٹر (سیما) کو کہا کہ اس مرتبہ بھی اگر اس کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا، تو اس کی بیگم زرینہ یہ صدمہ برداشت نہ کرپائے گی۔
ڈاکٹر کی منت سماجت کرتے ہوئے اس نے کہا!! ڈاکٹر دس بیس ہزار، جتنا پیسہ چاہو لے لو ، مگر بچہ کی آس سے ہمیں محروم نہ کرنا۔ اکبر علی کی باتیں اسپتال کی لالچی ملازمہ (تمنا) نے سُن لیتی ہے، زرینہ پر قدرت مہربان ہوگئی اوراس کے یہاں زندہ بچہ پیدا ہوا، مگر لالچی ملازمہ نے اکبر علی سے جُھوٹ بولا کہ اس مرتبہ بھی مردہ بچہ پیدا ہوا تھا!! میں نے ایک طوائف کا بچہ آپ کی بیگم کی زندگی بچانے کے لیے لے لیا۔
یہ کہہ کر وہ اکبر علی سے انعام کی رقم لے کرغائب ہوجاتی ہے، مگر اکبر علی کو ایک ایسا زخم دے جاتی ہے کہ کسی طوائف کا بچہ زرینہ کی گود میں پرورش پائے گا، وہ اپنی عزت، نسل اور خون میں کسی طوائف کا بیٹا ہرگز قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، مگر بیگم کی زندگی بچانے کے لیے اسے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔ دو سال بعد اکبر علی کے یہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا، تو اکبر علی نے اپنے ہی بیٹے کو طوائف کا بیٹا سمجھتے ہوئے شہر کے ایک یتیم خانے کے منشی (ساقی) کے پاس لے گیا۔
انور اپنے باپ کے ہوتے ہوئے حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے یتیم خانے میں پرورش پانے لگا۔ زرینہ اپنے بیٹے کی جُدائی میں دِن رات آنسو بہاتی، اس طرح 12؍سال گزر گئے ، یتیم خانے کے منشی کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک روز انور اور اس کا ساتھی یتیم خانے سے فرار ہوگئے۔ اس کا ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے مر جاتا ہے، اب انور اکیلا رہ گیا، اس کی ملاقات ایک روز سڑکوں پر ناچنے والی گوری (سنگیتا) سے ہوتی ہے، جو اسے اپنا بھائی بنا کر جگو دادا کے اڈے پر لاتی ہے۔ گوری کا پیار بادشاہ (شاہد) جو کہ ایک جیب تراش، لوفر شخص تھا، جیل سے رہا ہوکر آتا ہے۔
معاشرہ (لہری) گوری کے باپ نے انور کو بھی چوری کرنے ایک دن اکبر علی سیٹھ کے گھر بھیجا، تو انور کی ملاقات اپنی سگی ماں سے ہوتی ہے، جو اسے چوری کرنے سے منع کرتی ہے۔ اکبر علی کو ایک روز وہی عورت بھکارن کے روپ میں ملتی ہے، جس نے دولت کی خاطر اکبر علی اور زرینہ کے لخت جگر کو طوائف کا بیٹا کہہ کر انعام لیا تھا۔ وہ اکبر علی سے اپنے کیے کی معافی مانگ کر اسے سچ بتا دیتی ہے کہ اس نے لالچ میں آکر ایسا کیا تھا۔ اکبر علی یہ سُن کر خود اپنی عدالت میں مجرم بن جاتا ہے کہ اپنے ہی لخت جگر کو زمانے بھر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے باپ اور ماں کے ہوتے ہوئے یتیم بنا دیا اور وہ اپنے اس کیے ہوئے گناہ پر پشیمان ہوکر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ زرینہ کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔
جگو دادا ایک روز گوری کی عزت پر ہاتھ ڈالتا ہے، تو اس کے باپ ’’معاشرہ‘‘ کا ضمیر جاگ جاتا ہے۔ اس موقع پر بادشاہ آتا ہے، اکبر علی بھی جگو کے اڈاے پر اپنے بیٹے انور کو ان کی قید سے آزاد کرانے آتا ہے۔ بادشاہ اور اکبر علی، جگو کے آدمیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ معاشرہ، جگو کو قتل کرکے جیل چلا جاتا ہے اور انور اپنے والدین اور بھائی امجد کے ساتھ بنگلے پر آتا ہے، بادشاہ جرائم کی زندگی چھوڑ کر گوری کو اپنا لیتا ہے۔
ہدایت کارہ زینت بیگم نے اس فلم کو تفریحی اور کمرشل بنانے کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے خصوصاً ایک بہت ہی اعلیٰ اور سپرہٹ قوالی شامل کی، جو اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئی۔ ؎
بھر دو جھولی میری یا محمد
لوٹ کر میں نہ جائوں گا خالی،
جسے حاجی غلام فرید حاجی مقبول صابری برادرز نے نہایت عقیدت مندی کے ساتھ پیش کرکے عالمی شہرت حاصل کی۔ آل ٹائم سپرہٹ اس قوالی کو بالی وڈ اسٹار سلمان خان نے اپنی بلاک بسٹر فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ میں عدنان سمیع خان کی آواز میں پیش کی۔ اس قوالی کو سُن کر رقت طاری ہوجاتی تھی۔ فلم میں جب محمد علی، مزار پر آکر دُعا مانگتے ، تو یہ قوالی ہوتی، سنیما ہال میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے، اس قوالی کو فلم بینوں کی فرمائش پر ایک سے زائد بار دکھانے کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ فلم کی خاتون موسیقار شمیم نازلی کی موسیقی کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا۔