آواز کا جادو جگانا آسان نہیں ’’باتھ روم سنگر ‘‘ تو غالباً سب ہی ہوتے ہیں لیکن گلوکار سب نہیں ہوتے۔ کچھ گلوکار کا نام سنتے ہی ان کی آواز کے زیرو بم مدہوش کردیتے ہیں، کچھ کی آواز کانوں میں ہتھوڑے برساتی ہے لیکن ایسے گلوکار بھی ہیں جنہوں نے گائیگی میں ایسا نام پیدا کیا جن کی جگہ اب تک کوئی نہیں لے سکا۔
گلوکاروں کے ساتھ گیت، نغمے فلمی گانے لکھنے والے بھی اہمیت رکھتے ہیں نام ور شاعروں کے کلام کو چند گلوکاروں نے اس انداز میں گایا کہ وہ گانے ،گیت ہی امر نہیں ہوئے، اُن کے لکھنے والوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور ِزمانہ گانوں، غزلوں اور گلوکاروں کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں اور عہد ساز گانوں کی یادیں تازہ کریں۔
’’مجھے سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ گلوکارہ، نور جہاں
عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’’مجھے سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘‘جب ملکہ ترنم نور جہاں نے گائی تو فیض احمد فیض نے کہا کہ بھئی یہ نظم ہم نے نور جہاں کے نام کردی ۔ وہ اب ہماری نہیں ہے۔
ہر طرف بس اس نظم کے چرچے ہونے لگے، یہاں تک کہ بھارت میں گانے لکھنے والے مجروح سلطان پوری نے بھی اس نظم کی ایک سطر ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘ مستعار لی تھی جسے بعد میں 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’چراغ‘ ‘کے گانے میں شامل کیا گیا۔
’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘گلوکار، مہدی حسن
فیض احمد فیض بلاشبہ اُن شاعروں میں سے ہیں جن کا کلا م 20 ویں صدی میں کئی گلوکاروں نے بہت گایا۔ اس کی وجہ ان کی شاعری میں پائے جانے والے منفرد خیالات ہیں۔ ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے‘‘ بھی انہی گانوں میں سے ہے جنھیں مہدی حسن نے گا کر امر کر دیا ۔
’’ دشتِ تنہائی‘‘گلوکارہ، اقبال بانو
اُردو غزل، کلاسیکی اور نیم کاسیکی ٹھمری گا کر شہرت پانے والی اقبال بانو نے فیض احمد فیض کی غزل دشتِ تنہائی کو اس انگ میں گایا کہ یہ غزل ان کی وجہ شہرت اور پہچان بن گئی۔ اقبال بانو کے بعد اس غزل کو بیشتر گلوکاروں نے گانے کی سعی کی۔ لیکن اقبال بانو کا مقابلہ کوئی نہ کرسکا۔
'’’جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں‘‘گلوکار، شرافت علی
1957 میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کی ریلیز ہونے والی فلم وعدہ میں یہ گانا اس وقت کے خوبرو اداکار سنتوش کمار پر فلمایا گیا، شرافت علی نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔
گانے کے بول سیف الدین سیف نے لکھے تھے، جب کہ موسیقار رشید عطرے تھے۔برسوں گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ گیت یادگار ہے۔
’’تو جو نہیں ہے‘‘گلوکار،ایس بی جون
1959 میں ریلیز ہونے والی فلم سویرا تو شاید ہی کسی کو یاد ہو البتہ اس فلم کا یہ گیت آج بھی زبانِ زدِ عام ہے۔ سنی بنجمن جون، جنہیں لوگ ایس بی جون کے نام سے جانتے ہیں۔
انہوں نے ماسٹر منظور حسین کا ترتیب دیا ہوا اور فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا یہ گیت گا کر امر کر دیا۔ ایس بی جون، جو اس وقت شوقیہ گلوکاری کرتے تھے، ان کی آواز میں وہ درد تھا جو اس گانے کی ضرورت تھی۔ اس گانے کے بعد انہوں نے کئی اور گیت گائے لیکن ’تو جو نہیں ہے‘ ہی ان کی وجہ شہرت بنا۔
’’آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘گلوکارہ: فریدہ خانم
فریدہ خانم ان چند پاکستانی گلوکاراؤں میں سے ہیں جنھوں نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی وگرنہ فن کی اس صنف کو عموماً مرد گلوکاروں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ فریدہ خانم نے شاعر فیاض ہاشمی کی غزل ’’آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘ گا کر اس کلام کو امر کر دیا۔
’’ انشا جی اٹھو‘‘ گلو کار ، امانت علی خان
معروف شاعر ابنِ انشا کی لکھی گئی اس غزل کے مشہور ہونے میں اہم کردار استاد امانت علی خان کا بھی ہے، جنھوں نے 1970 کی دہائی میں اسے گایا۔ امانت علی کی آواز میں اس غزل کی آج بھی گونج ہے۔
’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ گلو کارہ ،ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید
ملکہ پکھراج کا پی ٹی وی پر نشر ہونے والا گانا ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ غالباًآج بھی سب کو یاد ہو گا۔ اس گانے کو ملکہ پکھراج نے اپنی بیٹی طاہرہ سید کے ساتھ گایا تھا ۔ مشہور شاعر حفیظ جالندھری کا کلام ہےجسے اس ماں بیٹی کی جوڑی نے گا کر دھوم مچادی تھی۔
’’ کو کو کورینا‘‘ گلوکار، احمد رشدی
احمد رشدی کا گایا ہوا ’’کو کو کورینا‘ ‘ویسے تو 1960 کی دہائی کا ہے لیکن اپنی دھن اور احمد رشدی کی کھنکتی آواز کی وجہ سے اپنے دور سے کافی آگے کا نغمہ لگتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی شادیوں بیاہ کی تقریبات میں اسےگایا جاتا ہے۔
’’ آئے موسم رنگیلے سہانے‘‘ گلوکارہ ،زبیدہ خانم
’ ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ ‘ 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سات لاکھ‘ کے لیے زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ ان کی آواز صبیحہ خانم پر جچی تھی۔
’’ کاٹے نہ کٹے رے‘‘ گلوکارہ، رونا لیلٰی
60 کے عشرے میں بطور پلے بیک سنگر اپنے کریئر کا آغاز کرنے والی رونا لیلی نے ویسے تو بہت سے مشہور گانے گائے مگر ان کی وجہ شہرت ’کاٹے نہ کٹے رے‘ نامی گانا بنا۔ نثار بزمی کا یہ گانا 1972 میں بننے والی فلم امراؤ جانِ ادا کا حصہ تھا۔
’’اکھیاں نوں رہن دے‘‘گلوکارہ، ریشماں
ریشماں کی آواز کو ’صحرا کی آواز‘ کہا جاتا ہے ، اس کی بڑی وجہ ان کی سُر اور لے کا کھنکتا پن ہے۔ انھوں نے پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری کے لیے بیشتر گانے گائے۔ راج کپور نے ریشماں کے اس گانے کو معمولی ترامیم کے ساتھ اپنی فلم بوبی میں لتا منگیشتر سے گوایا تھا۔
’’ دیکھا نہ تھا‘‘ گلوکار، عالمگیر
عالمگیر کو پاکستان میں بابائے پاپ موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ان کے عہد ساز گانوں میں سے ہے، اگرچہ یہ گانا جس فلم کے لیے لکھا گیا وہ فلاپ ہوئی مگر گانا اور گلو کار دونوں بہت مشہور ہوئے۔
’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ گلو کار ،حبیب ولی محمد
20 کی دہائی میں مرزا غالب کی غزل فلم پلے بیک سنگر حبیب ولی محمد کی وجہ شہرت بنی۔ حبیب ولی نے ویسے تو غالب اور بہادر شاہ ظفر کا بہت سا کلام گایا مگر وہ اتنا مشہور نہ ہو سکا جتنی یہ غزل۔
’’ ڈِسکو دیوانے‘‘گلو کار، نازیہ حسن
نازیہ حسن اور ان کے بھائی صہیب کی جوڑی آج بھی پاکستانی موسیقی میں لیجنڈز کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1981 میں ریلیز ہونے والے نازیہ حسن اور صہیب کے پہلے سانگ البم کا ٹائٹل بھی اسی گانے کے نام پر تھا۔ اس گانے کی مقبولیت نے تمام پرانے ریکارڈ توڑے تھے ، اسے 14 مختلف ممالک کے سانگ چارٹس کا حصہ بنایا گیا۔
’’ ہوا ہوا‘‘، گلوکار: حسن جہانگیر
حسن جہانگیر نے موسیقی کی دنیا میں باقاعدہ قدم اسی کی دہائی میں رکھا، تاہم جون 1987 میں ان کا گایا ہوا گانا ’ہوا ہوا‘ ایسا ریکارڈ توڑ ثابت ہوا کہ حسن جہانگیر کے شاید ہی کسی اور گانے کو اتنی مقبولیت ملی ہو۔ اس گانے کی ڈیڑھ کروڑ کاپیاں صرف انڈیا میں فروخت ہوئی تھیں جو اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔