روبینہ یوسف
عورت تہذیب کی بنیاد رہی ہے۔ تاریخ میں ہر ترقی یافتہ قوم اور تہذیب میں عورت کو تعلیم وتربیت ثقافت اور روحانیت کی بنیاد کے طور پر مانا گیا ہے لیکن اس کے باوجود عورتوں کو وہ خاطر خواہ مقام نہیں دیا جاتا، جس کی وہ حقدار ہیں۔ یہ وجوہات تاریخی، سماجی، ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور معاشی پہلو سے جڑی ہوئی ہیں۔ عورت کو اگر علم سے محروم رکھا جائے تو وہ اپنے حقوق، حیثیت اور قابلیت سے ناواقف رہتی ہے۔
آج بھی کئی معاشروں میں تعلیم کا حق صرف مرد کا سمجھا جاتا ہے جو عورت کے پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ ہے۔ روایتی جبر اور پدر شاہی نظام کے تحت ایسے معاشرے جہاں مرد کو ہمیشہ حاکم اور عورت کو تابع سمجھا جاتا ہے وہاں عورت کی ترقی ممکن نہیں۔ اس نظام میں عورت کو خود مختاری، فیصلہ سازی اور آواز سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جب وہ معاشی طور پر مرد پر انحصار کرتی ہے تو وہ کمزور سمجھی جاتی ہے اور اکثر ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
معاشی خود مختاری عورت کی آزادی اور عزت نفس کی بنیاد ہے، جس کی کمی زوال کا سبب بنتی ہے۔ کئی علاقوں میں جہیز، ونی، کاروکاری کم عمری کی شادی جیسے رواج آج بھی عورت کو پستی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ قانونی تحفظ کی کمی یا عمل درآمد نہ ہونے سے وہ غیر محفوظ رہتی ہے خاص طور پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی یا وراثت جیسے معاملات میں۔
تعلیم، شعور، مساوات، قانونی تحفظ، خود انحصاری اور مذہبی تعلیم کی صحیح تفہیم سے عورت کو اس کے اصل مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اپنے آپ کو پہچانو۔ تمہاری ذات وہ آئینہ ہے، جس کا عکس ہر منزل کا تعین کرتا ہے۔ تمہیں جو بلند مقام اسلام اور قرآن نے دیا ہے وہ اوجِ ثریّا کو مات کرتا ہے۔ تمہیں شروع سے ہی صنف نازک کہہ کر تمہاری توہین کی گئی ہے اور تم ہو کہ خوشی سے پھولی نہیں سماتی ہو۔
یاد رکھنا الفاظ کی بازگشت وہی پیکر تراشتی ہے ،جس کی بار بار گردان کی جائے۔ تم جتنی مضبوط ہو، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ فطرت نے بھی اس بات پر تصدیق مہر ثبت کر دی ہے۔ ڈپریشن، انیزائٹی اور عدم تحفظ اس ہستی کے لیے لازم و ملزم کر دیے گئے ہیں جو زمانوں کو لے کر چلتی ہے۔ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ عورتیں بھی قیادت، تجزیہ اور تخلیقی شعبوں میں اتنی ہی قابلیت رکھتی ہیں جتنی کہ مرد ۔آج کے ماہرِ نفسیات صنفی مساوات کو اہمیت دیتے ہیں۔
عورت کو ایک مکمل انسان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس میں محبت، خود مختاری، تعقّل اور خواہشات کی مکمل دنیا آباد ہے۔ ہر عورت منفرد ہوتی ہے۔ کوئی بھی عمومی بیان سب پر لاگو نہیں ہوتا تو اے میری ہم نفس! سب آئینے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں تم تو نسلوں کی امین ہو ۔اپنے زور بازو پر حالات کا دھارا بدل سکتی ہو۔
یہی باہمت ،بہادر ،خود مختاراور ہر مشکل کا سامنا ڈٹ کرنے والی خوا تین جب ذہنی تھکاوٹ اور ڈپریشن کا شکار ہوکر تنہائی میں زندگی گزارنے لگتی ہیں تو اپنا اعتماد، بھروسہ، ہمت سب گھو دیتی ہے، گھر میں موجود خاموشی کو اپنے اوپر طاری کرلیتی ہیں۔ ’’تنہائی‘‘ عورتوں کی زندگی میں ایک بنیادی اور جڑ سے جُڑا مسئلہ ہے، جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے چاہے وہ شادی شدہ ہو، اکیلی، ماں ہو، یا بزرگ۔ ان کی داخلی دنیا اکثر ایسی خاموشیوں سے بھری ہوتی ہے جنہیں الفاظ نہیں ملتے۔ ان میں سے سب سے گہری اور چھپی ہوئی خاموشی تنہائی ہے۔
عورت کے وجود کا وہ پہلو ہے جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ تنہائی کیا ہے؟تنہائی صرف کسی کے ساتھ نہ ہونے کا نام نہیں، یہ اُس خالی پن کا نام ہے جو عورت اپنے اندر محسوس کرتی ہے چاہے وہ ایک ہنستے بستے گھر میں ہو، یا ایک پرہجوم دفتر میں۔ یہ وہ احساس ہے جب کوئی سننے والا نہ ہو، جب جذبات دب جائیں، جب ہر تعلق صرف ذمہ داریوں اور توقعات کا بوجھ بن جائے۔عورت اور تنہائی کے مختلف روپ ہوتے ہیں۔
اکثر عورتیں شریکِ حیات کے ہوتے ہوئے بھی جذباتی طور پر تنہا ہوتی ہیں۔ شوہر کے ساتھ بات نہ ہونا، احساسات کو نہ سُننا، یا صرف ’’بیوی‘‘ کا کردار نبھانا یہ سب اندرونی خلا پیدا کرتے ہیں۔ بیوہ، طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ عورتوں کو سماج میں الگ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی تنہائی صرف جذباتی نہیں بلکہ معاشرتی، معاشی اور روحانی بھی ہوتی ہے۔
اس کی اپنی ذات، خواہشات اور جذبات پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ خاص طور پر گھریلو خواتین میں یہ احساس زیادہ ہوتا ہے۔ اولاد کے ہوتے ہوئے بھی بوڑھی عورت اکثر تنہا رہ جاتی ہے۔ وقت، رشتہ پیچھے رہ جاتے ہیں صرف یادیں رہ جاتی ہیں اور ایک خاموش کمرہ۔
اپنے جیسے تجربات رکھنے والی عورتوں کے ساتھ میل جول عورت کی خودی کو جِلا دیتا ہے۔ ہر عورت کو کسی نہ کسی کی ضرورت ہوتی ہے، اُس کی بات سنے۔تھراپی، آن لائن کونسلنگ یا خود سے بات کرنا یہ سب مددگار ہو سکتے ہیں۔ نماز، دعا اور ذکر اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے اور دل کو ایک خاص سکون دیتا ہے۔مطالعہ، کوئی ہنر سیکھنا، سفر، یا صرف خاموشی سے چائے پینا یہ سب عورت کے ’’اندر کی عورت ‘‘کو زندہ رکھتے ہیں۔
عورت کی تنہائی صرف اُس کا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔ جب ہم عورت کو صرف ایک رشتہ، ایک کردار یا ایک ذمہ داری سمجھتے ہیں، تب ہم اُس کے انسان ہونے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ عورت کی آواز کو، اُس کی خاموشی کو سنا جائے، تاکہ وہ تنہا نہ رہے، صرف اکیلی ہو، لیکن مکمل ہو۔ تنہائی ایک ایسا لفظ ہے جو اکثر اداسی، ویرانی اور تنہاپن کے احساس سے جُڑا ہوتا ہے، زندگی کے ہنگاموں میں کھوئے ہوئے ہمارے اندر کے سکوت کو پھر سے زندہ کرتی ہے۔
جب دنیا کی آوازیں خاموش ہو جاتی ہیں، تب دل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تنہائی میں انسان اپنے خیالات کو سنوارتا ہے، اپنے احساسات کی گہرائیوں میں اُترتا ہے اور وہ سوال کرتا ہے جن کا جواب صرف وقت اور خلوص دے سکتے ہیں۔ یہ خود شناسی کا پہلا قدم ہے۔
یہاں کوئی دکھاوا نہیں، کوئی مجبوری نہیں بس سچ ہوتا ہے، جو دل کے آئینے میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ تنہائی فنکاروں کو شاہکار دیتی ہے، مفکروں کو نظریے اور درویشوں کو معرفت۔ یہ سوچ کی زمین کو زرخیز کرتی ہے جہاں تخلیق کے بیج پھوٹتے ہیں۔ جو لوگ اس سے گھبراتے ہیں، وہ دراصل اپنے آپ سے ملاقات سے ڈرتے ہیں۔ لیکن جو اسے گلے لگاتے ہیں، وہ دنیا سے الگ ہو کر بھی اس سے قریب تر ہو جاتے ہیں۔
عورتوں کے لیے ڈپریشن سے نمٹنے کا ایک مؤثر ڈیلی پلان جسمانی، ذہنی، اور روحانی پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ ایک متوازن روزانہ کا منصوبہ حاضر ہے جو روزمرہ کی زندگی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
٭نماز فجر کے بعد 5 سے 10 منٹ اللہ سے باتیں کریں، شکریہ ادا کریں۔
٭میڈیٹیشن کریں یعنی گہرے سانس لیں، دل پر ہاتھ رکھ کر مثبت الفاظ دہرائیں۔ ’’میں محفوظ ہوں، میں اہم ہوں، میں اللہ کی نعمت ہوں ۔‘‘
٭گھر میں یا کسی پارک میں15 سے 30 منٹ چہل قدمی کریں۔
٭صحت مند نا شتہ کریں۔ جیسا کہ انڈا، دلیا، فروٹ اور دہی۔
٭ زیادہ دباؤ نہ لیں ایک وقت میں ایک ہی کام کریں۔
٭ممکن ہو تو دستوں سے ملیں، بہن، بھائی، ماں باپ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کریں۔
٭اچھی سی کتاب پڑھیں یا ذاتی ڈائری میں جذبات لکھیں۔
٭سونے سے پہلے شکریہ ادا کریں اور ذہن کو ہلکا کریں۔