بات چیت: ندا سکینہ صدیقی
’’1970ء میں پہلی مرتبہ ریڈیو میں آڈیشن دیا، اس وقت کرائے کے پیسے نہ ہونے کے سبب کئی میل کا فاصلہ پیدل طے کرتا، یہ سلسلہ مہینوں تک چلا، کئی آڈیشن دینے کے بعد ایک ڈرامے میں کردار ملا، جس کا معاوضہ دس روپے تھا، یہ ریڈیو سے میری زندگی کی پہلی کمائی تھی۔
وہ دس روپے آج بھی میرے لیے بہت اہمیت کےحامل ہیں۔‘‘ یہ خیالات ہیں9جون 1954ء کو پشاور میں پیدا ہونے والے اداکار فردوس جمال کے، جن کا فنی سفر 50 سالوں پر محیط ہے، ان کے کریڈٹ پر بے شمار سپر ہٹ ڈرامے ہیں، جن میں وارث، دہلیز، دھوپ دیوار، سائبان شیشے کا، خدا اور محبت، من چلے کاسودا، پیارے افضل اور رومیوویڈز ہیر شامل ہیں۔
علاوہ ازیں 150 اسٹیج ڈرامے اور تقریباً 50 فلموں جن میں فلم دوریاں، ڈائریکٹ حوالدار، سلسلہ، چندی، ریونج آف دی ورتھلیس اور سایہ خدائے ذوالجلال شامل ہیں۔ 27 سال کی عمر میں ایک ڈرامے میں80 سال کے بوڑھے کا کردار پوری مہارت سے نبھا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1986ء میں بہتر ین اداکاری کی بناء پر سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فردوس جمال کا قیام لاہور میں ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کی فنی اور ذاتی زندگی سے متعلق گفتگو کی۔ ہمارے سوالوں کے انہوں نے کیا جوابات دئیے ذیل میں ملا حظہ کریں۔
س: تعلیم اور خاندان کے بارے میں مختصراً بتائیں ؟
ج: ہم چھ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ پشاور گورنمنٹ اسکول سے میٹرک اور اسلامیہ کالج پشاور سے انٹر کی تعلیم حاصل کی، مزید تعلیم حاصل نہ کرسکا، کیوںکہ مجھے اداکاری کے شعبے میں اپنا کیرئیر بنانا تھا تو، اس لیے میرا دھیان تعلیم سے زیادہ اداکاری پر تھا اور دوسری بات یہ بھی تھی کہ اداکاری کے شعبے میں تعلیم سے زیادہ صلاحیت اہمیت رکھتی ہے اور مجھے میں اداکاری کے جوہر تھے، میں نےاسی کوکیر ئیر بنایا۔
س: شادی کب ہوئی، ارینج تھی یا محبت کی، شریک ِحیات خاندان سے ہیں ؟
ج: 1975ء میں میری شادی ہوئی، ارینج میرج تھی، میری شریک ِحیات کو گھر والوں نے پسند کیا تھا۔ نہ میں ان کو پہلے سے جانتا تھا اور نہ ہی کبھی ملا تھا۔میرے خاندان سے نہیں ہیں۔
س: سنا ہے آپ کو اداکاری کا شوق بچپن سے تھا، پھر اسے ترک کیوں کردیا ؟
ج: اداکاری ترک نہیں کی۔ ڈراموں میں کام کرتے ہوئے آدھی صدی گزر گئی ہے، مگر اب بھی یہ شوق اُسی طرح بر قرار ہے، 70 سال کا ہوگیا ہوں لیکن کام کرنے کا جذبہ آج بھی نوجوانوں کی طر ح ہے، البتہ اب کام کم کم ملتا ہے، گرچہ میں تو ابھی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پورے پاکستان کا آرٹ اور کلچر کراچی کے ہاتھوں میں آگیا ہے، ایسا لگتا ہے جو کراچی میں رہتا ہے صرف وہی ادا کار ہے، پنجاب اور پشاور کے اداکار تو بے کار ہیں ان کو کوئی کام نہیں آتا۔
پنجاپ میں تو کوئی انویسٹر ہی نہیں ہے نہ ہی یہاں کے لوگوں کو میڈیا کا شعور ہے۔ بہر حال یہ بتادوں کہ اداکاری کے ساتھ گلوکاری کا بھی شوق تھا، چوں کہ یہ مشکل کام ہے، اس لیے اس شوق کو تر ک کردیا اور ایک بات کہ میں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار نہیں ہونا چاہتا تھا، کیوں کہ دوکشتی کا سوار ہمیشہ ڈوبتا ہے۔
خیر اداکاری کے سفر کا آغاز کچھ اس طرح ہوا جب میں فرسٹ ائیر میں تھا تو اس وقت میں نے ایک پشتو ڈرامے کے لیے آڈیشن دیا، اس کے بعد مزید ڈراموں کے لیے آڈیشنز دئیے لیکن جب بھی آڈیشن دیتا تو جواب ملتا تم کم عمر ہو، کس کردار میں تمہیں لیں لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری ٹی وی اسٹیشن کے چکر لگاتا رہا، بالاآخر ایک دن پرڈیوسر منور توفیق نے مجھے ایک ڈرامے میں کاسٹ کرلیا۔
بعد ازاں جب پشاور ٹی وی اسٹیشن قائم ہوا تو اس کے پہلے ہی ڈرامے میں مجھے کاسٹ کرلیا گیا، بس وہاں سے میرے اداکاری کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا، پشاور سے ایک ہندکو سیریل میں کام کیا۔ بعد ازاں میں کام کے سلسلے میں لا ہور آگیا یہ ہی میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ لاہور سے ہی اداکاری کے سفر کو آگے بڑھایا۔
س: اب توکافی عرصے سے اسکرین سے غائب ہیں دل چاہتا ہے کام کرنے کو؟
ج: میں نہ تو غائب ہوا ہوں اور نہ ہی تھکا ہوں، آج بھی کام کررہا ہوں۔ گزشتہ سال میرے کئی ڈرامے آئن ائیر گئے ہیں۔ میں اداکاری سے ریٹائر نہیں ہوا ہوں۔ ایک بات بتا دوں ،’’اداکار اور سیاست داں کبھی ریٹا ئر نہیں ہوتے۔ لیکن کام کم نظر آنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ لاہور میں پروڈکشن ہی نہیں ہورہی، سارے اُردو ڈرامے کراچی میں بن رہے ہیں۔
س: آج اورکل کے ڈراموں، فن کاروں، ہدایت کاروں اور کہانی نویسوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
ج: ہر لحاظ سے ہی فرق ہے نہ اب پہلے جیسے لکھنے والے ہیں، نہ ڈراما بنانے والے اور نہ کام کرنے والے۔ نئے دور میں بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ابن ِصفی اور منو بھائی جیسے ناول نگاراور ڈرامہ نگار پیدا ہی نہیں ہو ئے۔ یہ لوگ محنت اور جدوجہد کرکے آئے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ اب لکھاری ڈراما دیکھ کر ڈراما لکھتے ہیں۔
یعنی ایک طرح سے نقالی کررہے ہیں جب کہ پہلے کے لوگ حقیقت پر مبنی ڈرامے لکھتے تھے۔ لیکن اب دوسروں کا لکھا ڈراما دیکھ کر اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے، کرداروں کے نام بدل کر نیا ڈراما لکھ دیا جا تا ہے۔ اسی طرح پہلے فن کار کام کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے تھے، کئی کئی دنوں تک ریہرسل کرتےتھے ، پھر کہیں جاکر اپنے آپ کو منواتے تھے۔
اس سے انکار نہیں کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ مثلاً اپنی خواہشات، آرام، سکون اور انا کو ختم کرنا ہوتا ہے، قربانیاں دینی پڑتی ہیں، تب کہیں جاکر اداکار اپنی پہچان بناتا ہے، مقام حاصل کرتا ہے۔ نئے آنے والے لوگ کام کو سمجھ کر نہیں آتے۔ کل کا اداکار دیکھتا بھی تھا اور سمجھتا بھی تھا لیکن آج کا صرف دیکھ کر سوچ لیتا ہے کہ میں یہ کام کرلوں گا۔
کردار نگاری کرنے کے لیے پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ حالاں کہ پہلے کے مقابلے میں اب کام ملنا کافی آسان ہو گیا ہے۔ جب معاشرے سے تخلیق اور تخلیق کار اُٹھ جائیں، نقل عام ہوجائے تو پھر یہی حال ہوتا ہے جو آج ہماری انڈسٹری کا ہو رہا ہے، کوئی بھی خود سے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ بس پرانے نوالوں پر جگالی کررہے ہیں ۔جب تک نئی سوچ جنم نہیں لےگی اُس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
س: کیا آپ ایسا کچھ کرنا چاہیں گے کہ اس نسل ِنو میں بھی مقبولت حاصل کریں؟
ج: میں اب ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا، جس سے نسل ِنو مجھے جانیں، میں نے اب تک جتنا کام کیا ہے وہ میری شہرت کے لیے کافی ہے، ویسے بھی نئی نسل میں کسی بھی فنکار کو سراہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ یہ نسل سوشل میڈ یا پر اداکار، گلوکار اور دیگر نامور لوگوں کا صرف مذاق اُڑا سکتی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔
س: اداکاری کے علاوہ آمدنی کا ذریعہ کچھ اور بھی تھا؟
ج: کوئی ذریعہ نہیں تھا صرف ریڈیو اور ڈراموں سے ہی کماتا تھا اس دور میں اتنی زیادہ مہنگائی نہیں تھی تو کم آمدنی میں بھی اچھے سے گزارہ ہوجاتا تھا۔ ریڈیو پر میں اناؤئسمنٹ اور کمپیئرنگ کے فرائض بھی انجام دیتا تھا، جس کی مہینوں کی بکنگ ہوتی تھی، روزانہ کے 300 روپے ملتے تھے جو اُس وقت بہت تھے ،غرض یہ کہ اتنی آمدنی میں خوش گوار زندگی بسر ہورہی تھی۔
خیر اچھی تو اب بھی گزر رہی ہے، جو تھوڑے بہت پیسے جمع کیے تھے وہ بینک میں جمع کر دئیے تھے۔ کچھ بہن، بھائی مدد کردیتے ہیں، البتہ بچے مجھے خرچے کے لیے پیسہ نہیں دیتے۔ سچ کہوں تو اب مجھے زندگی میں کسی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں، میں کسی کے طعنے برداشت نہیں کرسکتا، بچّوں سے یہ نہیں سن سکتا کہ ہم باپ کو پال رہے ہیں۔ مجھے غلامی اور مجبوری کی زندگی نہیں چاہیے۔
س: شریک ِحیات سے پہلی لڑائی کس بات پر ہوئی ؟
ج: پہلی لڑائی تو مجھے یاد نہیں، البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ہر دوسرے دن ہی لڑائی ہوتی تھی، اصل بات یہ ہے کہ میرا مزاج بہت سخت ہے، مجھے غصے بھی جلد ی آتا ہے، خلاف مزاج کوئی بھی بات برداشت نہیں کرسکتا اور جس گھر میں میرے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو تو وہاں رہنا میرے لئے ممکن نہیں، میں اپنے کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتا ہوں۔
س: بچوں سے اختلاف کس بات پر ہوا؟
ج: اختلاف کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ میں ہر انسان کی آزادی، خود مختاری اور اس کی مرضی کا حامی ہوں۔ ہر شخص کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ میں نے اپنے بچّوں کو پوری آزادی کے ساتھ ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا۔ ان کو اعلٰی تعلیم دلوائی، آسائشوں سے بھر پور زندگی دی، ہر خواہش پوری کی۔
جب میں ان کی خواہشات پوری کرنے کے قابل نہیں رہا تو انہوں نے مجھے گھر سے جانے کا کہہ دیا، لہٰذا میں نے بھی خاموشی سے اپنا سامان سمیٹا اور چھوٹے بھائی کے گھر یہ سوچ کر شفٹ ہوگیا کہ جس گھر میں میری عزت نہ ہو اس گھر میں نہیں رہنا چاہیے۔ میری پہلی ترجیح عزت ِنفس ہے، میں بھوکا رہ سکتا ہوں لیکن عزت کے بغیر نہیں جی سکتا، بہ حیثیت باپ جو کچھ اپنے بچّوں کے لیے کرسکتا تھا، میں نے کیا۔
کام کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے دور ہوتا تھا تو ان کی ماں نے جیسی ان کی تربیت کی، وہ ویسے ہی بن گئے۔ تربیت، شخصیت سازی ہوتی ہے، ایک کمزور انسان تربیت بھی ایسی ہی کر سکتا ہے یعنی کمزور سی۔ میں نے بہت کوشش کی، ان کو سدھارنے کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر میں نے خود ان سے دوری اختیار کرلی، اس دوری کی اصل وجہ ان کی ماں کی خراب تربیت ہے۔
ویسے بھی میں نہیں سمجھتا کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی دیکھ بھال کرنا، ان کا خیال رکھنا اولاد کا فرض ہے، آخری وقت تک انسان کو خود محنت کرنی چاہیے، اپنی ذمہ داری خود اُٹھانی چاہیے۔ میں نے آج تک اپنے بچّوں سے ایک پیسہ نہیں لیا، نہ کبھی لوں گا۔ جب مجھے کینسر ہوا تو، اُس وقت بھی میری فیملی نے میرا خیال نہیں رکھا ۔ خیر 2024 ء میں اس بیماری کو شکست دے دی ۔والدین تو اب اس دنیا میں نہیں رہیں، البتہ بہن، بھائی ہیں ان سے ملنا جلنا ہے۔ سب میرا بہت احترام اور عز ت کرتے ہیں۔
س: آپ کے بیٹے حمزہ فردوس نے چند ڈراموں میں کام کیا لیکن اداکاری کو اپنا کیرئیر نہیں بنایا، کیا وجہ تھی ؟
ج: اداکاری کو کیرئیر اس لیے نہیں بنایا، کیوں کہ اُس میں ایک اچھے اداکار بننے کی صلاحیت نہیں تھی، اگر میری تربیت ہوتی تو شاید وہ ایک اچھا اداکار بن جاتا۔
آج کل وہ بیر ون ملک مقیم ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاررہا ہے، دوسرا بیٹا بلاول فردوس لاہور میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہے، اُسے اداکاری سے لگاؤ نہیں ہے۔
س: ڈراموں میں کام کرنے کے بعد جب شہرت ملی تو خود میں کوئی تبدیلی محسوس کی ؟
ج: بہت خوشی ہوتی تھی جب لوگ مجھے میرے کردار کی وجہ سے پہچانتے تھے، ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ وہ دیکھو فردوس جمال جا رہا ہے۔ یہ میرے لیے بہت فخر اور اعزاز کی بات تھی۔ عام لوگوں کی محبت اور سرہانے کی وجہ سے ہی میں آج تک ہمت نہیں ہارا اور کام کررہا ہوں۔ ابھی بھی یہی کوشش ہے کہ ڈراموں سے عوام کو پیغام دوں، ہر کردار نئے انداز میں کروں۔
عوام کا سراہنا فن کار کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے۔ شہرت حاصل کرنے کے بعد میں نے خود کو تبدیل نہیں کیا۔ جتنی محنت معروف ہونے سے پہلے کرتا تھا آج بھی اتنی ہی کرتا ہوں۔ میرا یہ یقین ہے کہ جب تک اداکار محنت کرتا رہتا ہے، شہرت بر قرار رہتی ہے، جس دن وہ یہ سوچ لے کہ میں نے سب کچھ سیکھ لیا ہے، اُس دن سے اُس کے عروج کا سورج ڈوبنے لگتا ہے۔
س: آپ نے تھیٹر ، ڈرامہ، ریڈیو اور فلموں چاروں میڈیم پر کام کیا ہے، سب سے زیادہ مزا کس میں آیا ؟
ج: تھیٹر کرنے میں بہت مزہ آتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ تھیٹر میں رسپانس اسی وقت مل جاتا ہے، آپ کو سامعین کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، جو آپ اُس وقت پر فارم کررہے ہوتے ہیں حاضرین سے اس کو جوڑنا ہوتا ہے۔
جب آپ ہنسیں تو وہ آپ کے ساتھ ہنسیں اور جب آپ رو ئیں تو وہ بھی روئیں۔ لائف پرفارم کرنے کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے، لیکن یہ بتادوں کہ تھیٹر میں کام کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ براہ راست پر فارم کرنا ہوتا ہے۔
س: آپ کے خیال میں اداکاری کیا ہے ، سب سے پسندیدہ کردار کون سا ہے ؟
ج: میں نے ایک ڈرامے میں تقریباً اسی سال کے شخص کا کردارکیا تھا، جب کہ اُس وقت میری عمر 27 سال تھی۔ مجھے اپنا وہ کردار بہت پسند ہے، اس کردار میں، میں نے بہت محنت کی تھی، جس پر مجھے سول ایوارڈ ’’ پرائیڈ آف پر فارمنس‘‘ سے نوازا گیا تھا، اس وقت کے صدرِ پاکستان نے مجھے تعریفی خط بھی لکھا تھا۔اگر میں یہ کہوں کہ اس کردار سے مجھے شہرت، پہچان اور عزت ملی تو غلط نہیں ہو گا۔ یہ کردار میرا نقطہ عروج تھا۔
علاوہ ازیں وارث اور دہلیز کے کردار بھی مجھے پسند ہیں۔ کوئی بھی کردار کرنے کے لیے آپ کو اس کردار کی حرکات و سکنات کو اپنانا پڑتا ہے، اپنی شخصیت کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اصل زندگی میں آپ جیسے ہیں، کردار میں آپ کو ویسا نظر نہیں آنا ہوتا۔ اگر کوئی اداکار ایسا نہیں کرسکتے تو آپ اداکار نہیں شو پیس ہیں۔ اداکار وہ ہوتا ہے جو اصل اور اداکاری کی زندگی میں مختلف نظر آئے۔
اپنی اصل شخصیت کو پیچھے کرکے کردار کی شخصیت کو اپنائے، اُس کی امیجینیشن بہت مضبوط ہو، کیوں کہ وہ اُس میں اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے، یہی فرق ہوتا ہے ایک عام فرد اور اداکار میں۔ میں پہلے دن سے اپنے اُصولوں پر اور کردار کی ضرورت کے مطابق کام کرتا ہوں۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی خوش آمد کے لیے کام نہیں کرتا۔
س: سوشل میڈیا پر تنقید ہوئی، آپ کی زندگی پر اثرا ندازہوئی ؟
ج: میری ذاتی زندگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو بھی تنقید ہوتی ہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، جس کو جو کہنا ہے کہتا رہے، اس سے میرے کام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
س: ڈرامہ انڈسٹری میں قدم رکھنے والے نئے چہروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
ج: انہیں میرا پیغام ہے کہ اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے اداکاری کے معنی سمجھ کر اور سیکھ کر آئیں۔ دیکھنے میں اداکاری کرنابہت آسان لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
بہت محنت و تگ ود کے بعد آپ کا شمار منجھے ہوئے اداکار میں ہوتا ہے۔ کام ایسا کرو کہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہو، کیوں کہ آج کا اداکار سوشل میڈ یا کے ذریعے بہترین اداکار بننا چاہتا ہے، جب کہ پرانے فن کار زمانے کی خاک چھان کر، محنت کرکے اداکار بنے ہیں۔