گفتگو: محمد ناصر
پاکستان کا سُپر اسٹار، عالمی شہرت یافتہ، نوجوانوں کے ہر دل عزیز ”فواد خان“ آج کل پاکستان آئیڈل میں ججز پینل میں شامل ہیں اور تعریف کے ساتھ تنقید کی زد میں ہیں لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ وہ تنقید سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ڈراموں سے لے کر فلموں تک، موسیقی سے لے کر عالمی پروجیکٹس تک ہر جگہ اپنا مقام بناتے ہوئے اسکور بڑ ھاتے جارہے ہیں۔ 2005 میں پاکستان کے راک بینڈ انٹائنٹی ’ پیرا ڈیم (EP entity paradigm) کی بنیاد رکھتے ہوئے چمکتی دمکتی دنیا میں قدم رکھا ، گیٹار بجاتے، آواز کا جادو جگاتے۔2007 میں شعیب منصور کی فلم ’’ خدا کے لئے‘‘ میں کام کر کے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور پھر چھکے پر چھکے لگاتے رہے۔
ڈراما سیریل ،’’ ہم سفر‘‘ سے زندگی گلزار ہے، داستان اور اصغری اکبری جیسے یادگار ڈراموں میں کام کرکے ناظرین کے دلوں میں نہ صرف گھر کیا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں پرپہنچ گئے، وہ گلوکار جس نے(EP) کے ساتھ نوجوانوں کے دلوں میں ایک نیا چراغ روشن کیا، جس نے فلم ’’خدا کے لیے ‘‘سے بڑے پردے پر قدم رکھا، پھر”خوبصورت“ کپور اینڈ سنز“ اور”اے دل ہے مشکل“ جیسی بالی ووڈ فلموں میں مقام بنایا ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ پروجیکٹس سے تاریخ رقم کی۔ لیکن نہ گردن میں سریہ آیا نا چہرے پر مغروریت کی جھلک دکھائی دی۔ پے در پے کامیابیوں کے باوجو آج بھی، تحمل اور انکساری ایسی ہی نظر آتی ہے جیسے کیریئر کے آغاز میں تھی۔
فلموں کی شوٹنگ، میوزک پروڈکشن، اسکرپٹس، برانڈ کولیبریشنز اور بین الاقوامی کمیٹمنٹس کے باوجود فواد خان کا 'پاکستان آئیڈل میں بطور جج شامل ہوناخوش آئند ہے۔
اس شو میں فواد خان کا کردار صرف ایک جج کا نہیں بلکہ ایک مینٹور، ایک مشیر اور ایک استاد کا بھی ہے۔ نوجوان گلوکاروں کے حوصلے بڑھانا، سُر اور لہجے کی باریکیاں سمجھانا، اور ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا آسان نہیں۔
2007 میں ”خدا کے لیے“ سے فلمی ڈیبیو، 2010 میں“داستان”سے ڈرامائی بلندی اور پھر EP بینڈ کی تشکیل یہ سب ایک نوجوان فنکار کی مسلسل محنت کی کہانی ہے۔ بطور گلوکار انہیں غیر معمولی شہرت تو نہ مل سکی مگربقول فواد خان کے’’میوزک سے میری شخصیت میں نکھار آیا، اداکاری نے پہچان دی۔
اب پرو ڈکشن میں بھی قدم رکھ دیا ہے، جس کا اندازہ ناظرین کو فلم ’’نیلو فر‘‘ دیکھ کرہو جائے گا۔گذشتہ دنوں ’’جنگ اورجیو‘‘نےان سے خصوصی انٹرویو کیا جو نذرِ قارئین ہے۔
س: آپ کی فلم ’’نیلو فر‘‘ جو حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے ،اس کی پروڈکشن آپ کی ہے، پروڈکشن کی طرف کیسے آگئے؟
ج: ایسا کرنے کا خیال آیاتو سوچا کوشش کرکے دیکھتا ہوں، گر چہ کام کے دوران اندازہ ہو ا، یہ آسان کام نہیں، بہر حال پروڈکشن کر تو لی، اَب عوام ہی بتا سکتے ہیں کہ بطور پروڈیوسر میں کتنا کام یاب یا نا کام رہا۔ فلم کی تیاری میں وقت تو بہت لگا، مگر کر گزرا ،اب انتظار ہے فلم دیکھنے والوں کی قیمتی رائے کا۔
س: سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن آپ اس سے دور ہیں، کوئی خاص وجہ؟
ج: کوئی خاص وجہ نہیں ہے، بس میری مصروفیات ہیں، زیادہ اپنے کام پر توجہ دیتا ہوں، اس لئے سوشل میڈیا پر نظر نہیں آتا، میڈیا وقت کا متقاضی ہے، میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، ویسے اس سے دوری ہی میں سکون ہے۔
س: پاکستان آئیڈل میں بطور جج شامل ہوکر کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ج: بہت اچھا بلکہ بہت ہی اچھا، مجھے خوشی ہے کہ 10 برس بعد پاکستان آئیڈل ایک بار پھر پاکستان میں رنگ دکھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایسے گلوکار بھی اس شو میں شامل ہیں جن کے شہروں میں کوئی میوزک انسٹیٹیوٹ نہیں، ان کی پر فارمنس دیکھ کر فخر ہوتا ہے۔ پاکستان آئیڈل نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا میوزیکل پلیٹ فارم ہے۔
س: بطور جج آپ پر تنقید ہو رہی ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ج: یہ سب تو ہوتا ہے ،ہر کام میں کم ہو یا زیادہ تنقید ہوتی ہے، ہر کسی کو اپنی رائے دینے کا حق ہے اور ضروری نہیں کہ ہر شخص تعریف کرے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ میں صرف اداکارہوں، گلوکاری سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تو یہ اُن کی بھول ہے۔ اب وہ اس سے بےخبر ہیں تو کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں نے تو اپنے فنی سفر کا آغازہی گلوکاری سے کیا تھا، اداکاری تو بعد میں کی۔
س: آپ کے خیال میں نئے گلوکاروں کو اسٹیج پر لانے کے لیے پاکستان آئیڈل کتنا موثر ہے؟
ج: یہ شو صرف مقابلے کا ہی نہیں، بلکہ تربیت کا بھی ایک مکمل سفر ہے۔ یہاں ہر اُمیدوار کو نا صرف گانا ہے بلکہ سیکھنا بھی ہے۔ اس پلیٹ فارم نے موسیقی کو ایک نئی پہچان دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان آئیڈل آنے والی نسل کے میوزک کو عالمی معیار تک لے جائے گا۔
س: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج کے گلوکار پرانے مشہور گانے گا کر آگے بڑھ رہے ہیں، کیا انہیں اپنے گانے نہیں بنانے چاہئیں؟
ج: (مسکراتے ہوئے) یہ تو ابھی آغاز سفر ہے، کچھ بچے تو ایسے آئے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی بار مائیکروفون دیکھا ہے، جب ان کی مناسب تربیت ہوگی، تجربہ ہو گا تو وہ نا صرف اپنے گانے بنائیں گے بلکہ دنیا بھر میں کمال بھی دکھائیں گے۔
س: نئے گلوکاروں کے لیے آپ کا مشورہ؟
ج: خود کو سیکھنے کے عمل سے کبھی نہ نکالیں۔ موسیقی صرف آواز نہیں، ریاضت ہے، برداشت ہے، حساسیت ہے، جتنا سیکھیں گے، اتنا بہتر گائیں گے۔ اسٹیج کا احترام کریں، اپنی پہچان پر یقین رکھیں اور مستقل مزاجی سے کام کریں۔
س: پاکستان کی میوزک انڈسٹری کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
ج: بہت روشن، جتنے بچے پاکستان آئیڈل میں سامنے آئے ہیں، انہیں دیکھ کر یقین ہے کہ مستقبل میں یہاں خطے کی سب سے مضبوط میوزک انڈسٹری بنے گی۔ اب ضرورت صرف صحیح پلیٹ فارم، تربیت اور مستقل مزاجی کی ہے۔
س: ڈرامے اور میوزک دونوں میں مستقبل میں آپ کا فوکس کس پر ہو گا؟
ج: کبھی ایک کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف مکمل نہیں جاؤں گا۔ اداکاری میرے لیے اظہار کا ذریعہ ہے اور میوزک میرے دل کی آواز، میں کوشش کرتا ہوں دونوں کے درمیان توازن قائم رہے۔
س: ڈراموں کی طرح پاکستانی موسیقی سے بھی دُنیا بھر میں ملک کا نام روشن ہونے کے امکان ہیں؟
ج: جس طرح پاکستانی ڈرامے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں، اُسی طرح ہمارا میوزک بھی ہماری بڑی طاقت ہے۔ اگر ہم اسے صحیح سمت میں لے کر جائیں تو یہ عالمی سطح پر بہت بڑی جگہ بنا سکتا ہے۔ پاکستان آئیڈل جیسے پلیٹ فارم سے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا جو ہمارے میوزک کو مزید پالش کرے گا اور دنیا میں روشناس کرائے گا۔
س: کیا آپ کو لگتا ہے کہ نئے گلوکار موسیقی سیکھ کر آرہے ہیں؟
ج: سیکھنے کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج بھی جب نیا راگ سنتا ہوں یا کسی فنکار کو دیکھتا ہوں، تو دل چاہتا ہے میں بھی کچھ نیا سیکھوں۔ موسیقی ایک سمندر ہے، جس میں جتنا اترتے جائیں، اتنی گہرائی ملتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے گلوکاروں میں کسی چیز کی کمی نہیں اُن میں قابلیت ہے، جذبہ ہے، صرف ”استاد سے ریاِض“ کی کمی نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا نے راستے کھول دیئے ہیں، مگر اصل فن وہی ہے جو محنت اور مشق سے نکھرتا ہے۔ میں خود بھی ٹھنڈا پانی کم پیتا ہوں، چیخنے چلانے سے گریز کرتا ہوں، اور سب سے بڑھ کر ہر پرفارمنس سے پہلے مشق ضرور کرتا ہوں۔
س: آپ کو کون سا گلوکار زیادہ پسند ہے؟
ج: عاطف اسلم ، پاکستان اور عوام کے دِلوں کی دھڑکن ہے، وہ ورسٹائل آرٹسٹ ہے، اگر مجھے اُس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔
س: کوئی بھی کام کرنے سے پہلے کس چیز پرتوجہ ہوتی ہے؟
ج: کسی بھی منصوبے پر کام کرتے وقت جانداراسکرپٹ ضرور دیکھتا ہوں، میرا کردار بھر پور ہواور میں اُس میں اپنی فنی صلاحیتیں بھر پورپیش کرسکوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اب تک میں نے جن ڈراموں میں کام کیا جو فلمیں ملیں وہ بہترین تھیں،ان میں اپنے کردار سے انصاف کیا۔
س: جدید ٹیکنالوجی سے آواز کو ٹیون کرنا آج ایک عام بات ہے، کیا یہ موسیقی کے لیے نقصان دہ ہے؟
ج: یہ درست ہے کہ آج بڑے بڑے آرٹسٹ بھی اپنی آواز ٹیون کراتے ہیں۔ پرانے دور میں یہ سہولتیں نہیں تھیں۔ لیکن اگر ٹیکنالوجی آواز میں نکھار لا سکتی ہے تو اسے استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں، بلکہ ایک مہارت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان خود کو بہتر بناتا رہے۔
س: آپ کی زندگی میں گائیکی اور اداکاری کا تعلق کیسا رہا ؟
ج: میری زندگی کے دونوں پہلو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں گانے لکھتا ہوں، کمپوز کرتا ہوں، نئے بینڈز سے بات چیت کرتا ہوں۔ اداکاری ہو یا گائیکی، دونوں میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ زندگی کے مختلف مراحل میں بہت کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کو ملا ہے۔
س: آج کل نوجوان گلوکاروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
ج: آن لائن کمپٹیشن بہت بڑھ گیا ہے۔ دنیا بھر کی آوازیں ایک ہی اسکرین پر موجود ہیں۔ ایسے میں اپنی پہچان بنانا مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں۔ جو فن لگن، جذبے سے کیا جائے وہ ہمیشہ شناخت بنا لیتا ہے۔
س: ناظرین کی اکژیت مائرہ خان اور آپ کی جوڑی کو پسند کرتی ہے،کیا آپ بھی مائرہ خان کے سوا کسی کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتے ؟
ج: ایسا نہیں ہے، ہم نے کافی عرصے کے بعد فلم میں کام کیا ہے، اس دوران ہم دیگر پروجیکٹس کا حصہ تھے، جن کے تجربات فلم کی شوٹنگ کے دوران کافی مددگار ثابت ہوئے اور یہ بھی تجربہ خوشگوار رہا۔ فلم کی پہلی جھلک ناظرین دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ یہ ایک دل سے جڑی ہوئی کہانی ہے جس پر ہم نے بہت محنت کی ہے۔
س: آپ کی کراچی شہر سے دوری کی کیا وجہ ہے؟
ج: میں لاہور میں رہتا ہوں۔ لاہور ایک بہترین کلاسیکل رومانوی شہر ہے۔ مجھے اس شہر سے محبت ہے ، میری پہلی محبت بھی اسی شہر کی ہے، کراچی کی اپنی بات ہے۔ یہاں زندگی بہت تیز رفتار ہے، بڑا شہر ہے۔ لیکن اس شہر سے نہ پہلے دور تھا نہ اب ہوں، بندہ جہاں رہتا ہے وہیں زیادہ وقت گزارتا ہے، جب جب اس زندہ دل شہر نے بلایا دوڑا چلا آیا۔
س: اپنی شادی کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے، محبت کی شادی ہے یا ارینج؟
ج: جی محبت کی شادی ہے۔ اہلیہ صدف سے پہلی نظر ہی میں محبت ہوگئی تھی۔ میں نے انہیں پہلی مرتبہ ایک ریسٹورنٹ میں دیکھا تھا، سردیوں کا موسم تھا، یہ1998 کی بات ہے، بس پھر سلسلہ چل پڑا۔ 2005 میں ہماری شادی ہو گئی، ایک بیٹا اور دوبیٹیوں کا باپ ہوں۔
فواد خا ن نے مسکراتے ہوئے کہا، اب بقیہ پھر کبھی، بہت دیر ہوگئی، کچھ مصروفیت بھی ہے، یوں ہماری گفتگو اختتام پزیر ہوئی۔