”کیس نمبر 9“ کے لکھاری شاہ زیب خان زادہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ معروف صحافی اور جیو نیوز کے مشہور پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ کے میزبان ہیں۔ اب ناظرین نے انہیں اسکرپٹ رائٹرکے روپ میں دیکھا ہے۔ پہلا سیریل وہ بھی ایسے موضوع پر جس پر بات کرتے ہوئے بھی لوگ گریز کرتے ہیں، انہوں نے دیدہ دلیری سے قلم اُٹھایا ہے۔ اس سیریل کے حوالے سے ہم نے شاہ زیب خان زادہ سے ہلکی پھلکی گفتگو کی۔
آغاز گفتگو میں شاہ زیب نے کہا، پاکستان میں ریپ کیس رپورٹ نہیں کیے جاتے اور اگر ہو بھی جائیں تو اکثر ملزمان پکڑ میں نہیں آتے۔ اس جرم میں ملزمان کو گرفت میں لینے کا تناسب صرف3 فیصد ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ، سیریل کے ذریعے خواتین کو یہ پیغام ملے کہ اب قوانین موجود ہیں، اسپیشل کورٹس ہیں اور اگر وقت پر رپورٹ کی جائے تو اُنہیں انصاف مل سکتا ہے۔”یہی سوچ ”کیس نمبر 9“ کو ایک ڈرامے سے بڑھ کر ایک سماجی مہم بناسکتی ہے۔
ڈرامہ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال کے جواب میں شاہ زیب خانزادہ کا کہنا ہے کہ، ہم اپنے نیوز شو میں خواتین کے حقوق پر بہت بات کرتے ہیں لیکن نیوز سیاسی تبدیلی لانے میں تو اہم کردار ادا کرسکتا ہے، مگرپورے معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے اتنا بڑا میڈیم نہیں ہے۔
دراصل میں نے اپنی بیوی سے ضد میں آکر یہ ڈرامہ لکھا۔ میری اہلیہ، رُشنا خان اداکارہ ہیں اور اس سیریل میں بھی کام کر رہی ہیں، وہ ایک دِن ہاتھ میں اسکرپٹ لیے اپنے کسی ڈرامے کی تیاری کررہی تھیں، میں نے اُن کے ہاتھ سے اسکرپٹ لے کر پڑھا تو کہا کہ یہ تو میں بھی لکھ سکتا ہوں، وہ سمجھیں میں مذاق کررہا ہوں۔
اُن دِنوں میری کندھے کی انجری ہوئی تھی، بیگم نے مجھے چیلنج کردیا کہ آپ ایسا اسکرپٹ لکھ ہی نہیں سکتے۔ میں نے سوچا! چلو میں اپنے طور پر لکھ کر دیکھتا ہوں، بعد ازاں اس پر ریسرچ شروع کی اور لکھنا شروع کردیا۔ شروع میں بیگم بہت ناراض ہوئیں، وہ میری تصاویر لے کر میرے ڈاکٹرز کو بھیجتیں اور کہتیں آپ اِنہیں سمجھائیں اِن کے کندھے میں انجری کے سبب شدید تکلیف رہتی ہے لیکن پھر بھی یہ دِن رات بیٹھ کر لکھتے رہتے ہیں۔
خیر رات کو جب رُشنا سوجاتیں تو میں اسکرپٹ لکھنا شروع کردیتا۔ مجھے علم تھا کہ جب میں لکھنے بیٹھوں گا تو رُشنا آجائے گی اس لئے میں کبھی بالکنی میں بیٹھ کر اسکرپٹ لکھتا، کبھی کچن میں۔ ایک دِن رُشنا چھٹیوں پر کینیڈا چلی گئیں، عموماً جب وہ چھٹیوں پر کینیڈا جاتی تھیں تو میں 20-25 دِن بعد ہی اُن سے واپس آنے کا کہنا شروع کردیتا تھا لیکن اس بار دو ماہ گزر گئے۔
میں نے رُشنا کو فون نہیں کیا، ایک دن رُشنا کا فون آگیا، کہا میں آرہی ہوں۔ میں نے کہا نہیں مزید ایک دو ماہ اور رُک جاؤ، بہرحال تین ماہ بعد رُشنا واپس آئیں تو اس وقت میں نے اُن نے کہا دیکھو! میں نے ڈرامے کا پورا اسکرپٹ لکھ لیا ہے۔ کیا آپ نے پورا سیریل ڈھائی ماہ میں لکھ لیا تھا ؟
اس سوال کے جواب میں شاہ زیب نے کہا، ایسا نہیں ہے، میں اکثر اپنے شو کے بعد آفس میں بیٹھ کر اسکرپٹ لکھتا تھا اور تاخیر سے گھر جاتا تھا اور گھر جاکر بہانے بناتا تھا کہ آج میٹنگ ہورہی تھی، آج مصروف تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بتا دوں جب ڈرامے کا اسکرپٹ مکمل ہوگیا تو سب سے پہلے میں نے اپنی بہنوں کو، اپنی بیوی کو اور اپنی والدہ کو اسکرپٹ پڑھنے کیلئے دیا کیوںکہ مجھے اس اسکرپٹ پر ”وومن ٹچ“ چاہیئے۔
اپنے گھر والوں کے بعد میں شوبز انڈسٹری میں اُن خواتین سے ملا جو لکھتی ہیں، پروڈیوس کرتی ہیں، ڈائریکٹ کرتی ہیں، میں اُن سب کے پاس گیا، ویسے تو میں بہت کم لوگوں سے ملتا ہوں، ہفتہ اتوار گھر پر گزارتا ہوں باہر جانے سے مجھے بہت اُلجھن ہوتی ہے لیکن میں اس اسکرپٹ کیلئے خواتین سے ٹائم لیکر اُن کے پاس جاتا تھا، اس اسکرپٹ کیلئے میں نے تمام خواتین سے اُن کی رائے لی کہ وہ اِس کے بارے میں کیا سوچتی ہیں، سب نے ایک ہی جواب دیا کہ، اسکرپٹ بہت اچھا ہے مگر اسے اِتنے بڑے اسکیل پر یہاں کوئی بنائے گا نہیں۔
میرا بھی یہی خیال تھا کہ جب تک یہ اسکرپٹ بڑے اسکیل پر نہیں بنے گا لوگ اِسے دیکھیں گے نہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ”جیو نیوز“ میں ہوں۔ میں نے ادارے کے سربراہ سے وقت لیا، اُن کے پاس گیا۔ اُنہیں اسکرپٹ سنایا۔ اُنہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ ہم اس سیریل کو بڑے اسکیل پر بنائیں گے۔
اس کے بعد وہ ”سیونتھ اسکائی“ کے پاس اسکرپٹ لیکر گئے، وہاں عبداللہ کادوانی صاحب نے مجھے حوصلہ دیا کہ جب آپ نے اس اسکرپٹ پر اتنی ریسرچ کی ہے تو ہم بھی اس کے ساتھ پورا انصاف کریں گے۔ اسد قریشی نے کہا کہ ہم اس ڈرامے کو بھر پور بنائیں گے کیونکہ میں بھی اپنی بیٹی کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے یہ ڈرامہ بنایا ہے اور ہم اس ڈرامے کا کریڈٹ ضرور لیں گے۔
ڈرامے کے اداکاروں پر بات کرتے ہوئے شاہ زیب کا کہنا تھا کہ صبا قمر نے بہت زبردست کام کیا ہے، صبا قمر انتہا سے زیادہ پروفیشنل ہیں۔ صبا نے بہت پیشن سے کام کیا۔ فیصل قریشی بہت بہترین کام کررہے ہیں۔ مجھے خدشہ تھا کہ جب بھی کوئی ریپ کرنے والے کا کردار ادا کرے گا تو لوگوں سے اُسے بہت زیادہ گالیاں پڑیں گی اس لئے میں نے سوچا تھا کہ اس کردار کے مثبت پہلو بھی دکھائے جائیں تاکہ کردار میں توازن آجائے۔ اور یہ بات جب میں نے فیصل قریشی سے ڈسکس کی تو اُن کا کہنا تھا میں اس کردار کو ڈوب کر نبھاؤں گا اور مجھے اگر گالیاں پڑتی ہیں تو پڑنے دیں کیونکہ اس ڈرامے کے اندر جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ بالکل ایسے ہی عوام تک جانا چاہیئے۔
شاہ زیب کا مزید کہنا تھا کہ جب میں اسکرپٹ آمنہ شیخ کے پاس لیکر گیا تو وہ کہنے لگیں کہ میں کافی عرصے سے انڈسٹری میں کام نہیں کررہی تھی، کیونکہ میں ایک اچھے اسکرپٹ کی تلاش میں تھی، آج مجھے ایک زبردست اسکرپٹ ملا ہے، اس میں کام ضرور کروں گی۔
نور الحسن، گوہر خان اور دیگر تمام اداکاروں نے بھی اپنے کرداروں سے اس میں جان ڈال دی ہے۔ وجاہت حسین جو اس سیریل کے ڈائریکٹر ہیں، بہت باصلاحیت ہیں، اُنہوں نے اسکرپٹ کی ایک ایک لائن کے بارے میں پوچھا کہ یہ آپ نے کیوں اور کیا سوچ کر لکھی ہے، گھنٹوں میرے ساتھ بیٹھ کر اُنہوں نے ایک ایک چیز ڈسکس کی تاکہ وہ ہر سین کو حقیقت میں ڈھال سکیں۔
غرض یہ کہ ڈرامہ صرف ایک کیس نہیں ہے، میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ جب خدانخواستہ کسی کے ساتھ ریپ ہو جائے تو پھر سوسائٹی اُسے کس نظر سے دیکھتی ہے، پولیس اسٹیشن میں اس کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے۔ یہاں لوگ سوشل میڈیا کو بھی اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
شاہ زیب خان زادہ کا کہنا ہے، کیس نمبر 9 میں صرف ایک خاتون، ایک گھر، ایک پولیس اسٹیشن نہیں دیکھا گیا بلکہ بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ایسے کرداروں کے حوالے سے کیا کردار ادا کرتا ہے، الیکٹرونک میڈیا اور نیوز چینلز کا کیا کردار ہوتا ہے، پاور فل شخصیات کیس کو کس طرح موڑنے کی کوشش کرتے ہیں، معاشرے کا ایک طبقہ کس طرح حمایت کرتا ہے اور دوسرا طبقہ کس طرح تاویلیں پیش کرتا ہے۔
کچھ لوگ خواتین کو صرف محدود زاویئے سے دیکھتے ہیں کہ وہ ا چھی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہوسکتی ہے، لیکن جب اُن کو کہا جائے کہ خاتون اداکارہ بھی ہوسکتی ہے، پروڈیوسر اور پائلٹ بھی ہوسکتی ہے تو ایسی باتیں اُنہیں ہضم نہیں ہوتی۔
آپ کو اس سیریل میں معاشرے کی دوطرفہ تقسیم بھی نظر آئے گی۔ ہم نے اپنے ڈرامے میں بتایا ہے کہ، اگر ہمارا موبائل چھن جائے، گھر میں ڈکیتی ہوجائے تو ہم اُسے ایک جرم کے طور پر دیکھتے تو ریپ بھی ایک جرم ہے اور یہ انتہائی گھناؤنا اور بھیانک جرم ہے، جو کسی بھی خاتون کے ساتھ ہوجائے تو معاشرے کو، قانون کو، پولیس، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی اِسے ایک جرم کی طرح ٹریٹ کرنا چاہیئے۔
شاہ زیب خانزادہ نے بتایا کہ جب میں اس ڈرامے کی ریسرچ کررہا تھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں ریپ کے حوالے سے بہت سارے قوانین بن گئے، سپریم کورٹ کے بہت سارے فیصلے بھی آگئے ہیں لیکن اُن پر عملدرآمد اس طریقے سے نہیں ہورہا۔ آج بھی جب کوئی خاتون رپورٹ کرانے جاتی ہے تو اُنہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو میں اُمید کرتا ہوں کہ حکومت قوانین پر عملدرآمد ضرور کرائے گی۔