’’ہر لمحہ ہنستا چہرہ، دھیما لہجہ، شائستہ اندازِ گفتگو، ہر کسی کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آنا، جتنا سادہ اسکرین پر، اتنی ہی سادہ پسند عام زندگی میں۔ یہ ہیں پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ، سلمیٰ ممتاز (مرحوم ) کی بیٹی پاکستان کی نامور اداکارہ، ندا ممتاز۔
اپنے عروج کے زمانے میں شوبز کی دنیا سے کنارہ کرلیا، یہ بات ہے 1997ء کی، جب ایک کوکنگ شو کی میزبانی اور کوکنگ بھی کررہی تھیں، اسی دوران گھراور بچّوں کی مصروفیت ایسی آڑے آئیں کہ انڈسٹری کو خیربآد کہہ دیا۔
بعدازاں17 سال کے طویل عر صے بعد ڈرامہ انڈسٹری کی دنیا میں دوبارہ قدم رکھا۔ بقول ندا ممتاز کے دوبارہ سے خود کو متعارف کروانے اور کام ملنے میں کئی مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا لیکن چند مہینوں کی جدوجہد کے بعد کام ملنے لگا۔ گزشتہ دنوں ہم نے ’’نداممتاز ‘‘ سے ان کے گھر پر تفصیلی ملاقات کی۔ اس دوران ہونے والی گفتگو ملا حظہ کریں۔
س: سب سے پہلے اپنے بارے میں بتائیں ؟
ج: میرا تعلق پاکستان کے تاریخی شہر لاہور سے ہے ۔میٹرک سے گریجویشن تک کی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور پھر تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ شادی خاندان سے باہر گھر والوں کی پسند سے ہوئی ، بیاہ کر کراچی آگئی ۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹی کی شادی کردی ہے ۔
س: اداکاری کا شوق والدہ سے آیا یا آپ کو اداکاری کا شوق بچپن سے تھا ؟
ج: اداکاری کا شوق نہ بچپن سے تھااور نہ ہی والدہ سے آیا۔ اس دنیا میں آنا اتفاقاً ہوا۔ایک دن امی کے ساتھ پی ٹی وی اسٹوڈیو جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک ڈائریکٹر نے مجھے دیکھااور اپنی ایک ٹیلی فلم میں زبردستی کا سٹ کرلیا۔ میں نے ان کو بتایا بھی کہ مجھے اداکاری نہیں آتی، پھر بھی وہ نہیں مانے۔ بس یہی سے میری اداکاری کے سفر کا آغاز ہوا۔
کچھ عر صے بعدڈرامہ سیریل ’’پیاس‘‘ آفرہوا، پھر دن، دلدل اورخواہش میں کام کیا ۔یہ میرے پی ٹی وی کے سپر ہٹ سیریلز تھیں۔ ڈراموں کے ساتھ کئی فلموں میں بھی کام کیا ۔ پہلی فلم’’غریبوں کا بادشاہ ‘‘جاوید شیخ کے ساتھ کی۔بعدازاں اللہ راکھ، فرض ِقانون، باغی حسینہ اور سرمایہ میں کام کرنے کے بعد کئی سال کام نہیں کیا۔ غرض یہ کہ لاہور میں مستقل مزاجی سے کبھی اداکاری نہیں کی ،جب موڈ ہوتا تھا کر تی تھی۔
لیکن اُس وقت کی اچھی بات یہ تھی کہ کم کام کرنے اور تھوڑے عرصے کام کرنے پر بھی عوام پہچانتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ کسی پبلک پلیس پر جانا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ لوگ فوراً پہچان لیتے تھے، ساتھ تصاویر کھینچواتے، آٹوگراف لیتے، کام کی تعریف کرتے۔ شادی کے بعد کراچی آئی تویہاں بھی کام کیا ۔1997 ء میں ایک تیل کی کمپنی کا کوکنگ شو کیا ،جس میں کوکنگ اور میزبانی دونوں فرائض سرانجام دیتی تھی۔
اُس شو سے مجھے بہت شہرت ملی۔ کوکنگ کا مجھے بہت شوق ہے اور میں نے باقاعدہ طور پر کوکنگ سیکھی بھی ہے۔ اب میرا پلان بن رہا ہے یوٹیوب پر اپنا کوکنگ چینل شروع کرنے کا۔ اُس وقت میری بیٹی چھوٹی تھی، اس کو اور گھر کو توجہ کی ضرورت تھی، سو میں نے اداکاری کی دنیا کو چھوڑ دیا۔ جب میرے بچے بڑے ہوئے تو 17 سال بعد 2013 ءمیں دوبارہ اس دنیا میں قدم رکھا اور مستقل مزاجی سے اداکاری کے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔
س: طویل عر صے کے بعد جب واپس آئیں تو کیا فرق محسوس کیا اور کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ؟
ج: 17 سال میں انڈسٹری سے بالکل دور تھی، نہ کسی سے رابطے میں تھی ،نہ کسی سے دوستی تھی اور نہ ہی کسی پروگرام میں شرکت کرتی تھی۔ اگر یہ کہوں کہ میں مکمل طور پر ایک عام گھر یلو خاتون بن چکی تھی توغلط نہیں ہوگا۔ جب دوبارہ سے اداکاری کی دنیا میں آنے کا ارادہ کیا تو میں نے پروڈیوسر، حسن ضیا ء کو کال کر کے کہہ کہ ،’’میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘
انہوں نے اگلے دن مجھے اپنے آفس بلا یا اور ایک سوپ میں ماں کا کردار آفر کیا۔مجھے یہ بات معلوم تھی کہ اب میری مرکزی کردارکرنے کی عمر نہیں ہے ، ماں یا ساس کے کردار ہی ملیں گے۔ اس سوپ میں میرے ساتھ اقرا عزیز، حبا خان تھیں، پہلا تجربہ اچھا رہا۔
یوں سمجھ لیں میں نے اداکاری کا آغاز زیرو سے کیا، اپنے آپ کو دوبارہ سے متعارف کرانے میں مجھے کافی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا، کیوںکہ انڈسٹری بہت زیادہ گروم کر چکی تھی، فن کاروں کے ریٹس بہت بڑھ گئے تھے، پروٹوکول ملنے لگا تھا، غرض یہ کہ کوئی بھی چیز پہلی جیسی نہیں رہی تھی، کافی نئے پروڈکشن ہاؤسز آچکے تھے، سب سے اہم بات یہ کہ لوگ مجھے بھول گئے تھے۔
ان کو نہیں یاد تھا کہ میں کون ہوں، اپنی دوبارہ پہچان کروانے میں کافی وقت لگا۔ ابتداء میں کام حاصل کرنے کے لیے بھی بہت محنت کرنی پڑی۔ کچھ سنیئیرز اداکاراؤں نے میرے ساتھ برا رویہ اختیار کیا، وہ ڈائریکٹر سے کہتی تھیں کہ ان کو کیوں کاسٹ کیا ہے، میرے منہ پر ہی کہتی تھیں کہ تم تو اداکاری نہیں کرسکتیں۔
میں ان کی با توں پر باکل بھی توجہ نہیں دیتی تھی اور نہ مجھےان کے کہنے سے کوئی فرق پڑتا تھا۔ اس موڑ پر مجھے یہ احساس ہوا کہ انڈسٹری میں صرف نئے آنے والوں کو چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ جو طویل عرصے کے وقفے کے بعد دوبارہ کام شروع کرتے ہیں ان کی بھی راہ میں مشکلات حائل ہوتی ہیں ۔ بہت سارے پروڈیوسرز سے میں نےخود سے رابطہ کیا، جن میں سے کچھ نے تو مجھے جواب تک نہیں دیا۔
چند مہینے کام کرنے کے بعد جب لوگوں نے مجھے پہچان لیا تو پروڈکشنز ہاؤسز نے خود سے آفر کرنی شروع کی، آہستہ آہستہ میرا یہ سفر آگے بڑھا اور اب تک متعدد ڈرامے مختلف چینلز کے ساتھ کر چکی ہوں۔
جیو چینل کے پروڈکشن ہاؤس، سیونتھ اسکائی کے ساتھ بیک وقت دو دوڈراموں ’’ڈائن اور مہرہ‘‘ میں کام کیا جن میں سے ڈائن چند ہفتے قبل ہی ختم ہوا ہے، مہرہ ابھی جاری ہے ۔
س: اتنے سالوں کے وقفے کے بعد کل اور آج کی ڈرامہ انڈسٹری میں کیا فرق محسوس کیا؟
ج: ابتداء میں مجھے ایسا لگتا تھا کہ، یہ وہ انڈسٹری نہیں ہے، جہاں میں نے کبھی کام کیا تھا، کیوںکہ ہر لحاظ سے تبدیلی آچکی تھی۔ اپنے ساتھی فنکار جب سین کررہے ہوتے تو میں بہ غور دیکھتی تھی۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کس طرح کا کام کروانا چاہتے ہیں۔ بعض دفعہ تو مجھے لگا کہ، میں کام نہیں کرسکتی، خیرآہستہ آہستہ سمجھ آگیا۔
دوسرا فرق یہ تھا کہ پہلے ڈراموں کی 13 سے 15 اقساط ہوتی تھیں، اب حال یہ ہے کہ ہم شوٹنگ کرکرکے تھک جاتے ہیں لیکن اقساط پوری نہیں ہوتیں۔ سیریل کی اقساط کم ہونی چاہیے، تاکہ کہانی کا مزہ برقرار رہے۔ میرے خیال سے آج کے ڈراموں کامعیاراسی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔
س: پی ٹی وی کےدور میں شوٹنگ سے پہلے باقاعدہ ریہرسل ہوتی تھی اب ایسا نہیں ہوتا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس چیز نے بھی ڈرامے کے معیار کو متاثر کیا ہے ؟
ج: ریہر سل کا سلسلہ ختم کرنے سے ڈرامے کا معیار بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ریہر سل سے یہ ہوتا تھا کہ فن کاراپنے کرداروں میں بالکل پرفیکٹ ہوجاتے تھے۔ اس دور کے ڈرامہ رائٹرزخود ریہر سل میں ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک سین کی کئی کئی مرتبہ پریکٹس کرواتے تھے، یہاں تک کہ اگر کوئی گلاس رکھنے کا سین ہوتاتھا تو ہم اس کی بھی ریہر سل کرتے تھے۔
ہمیں باقاعدہ بتا یا جاتا تھا کہ کہاں پر کس انداز سے ڈائیلاگز بولنے ہیں، کہاں آواز دھیمی رکھنی ہے، کہاں تیز رکھنی ہے۔ اُس دور کے نئے اور پرانے تمام اداکار پریکٹس کرنے کے لیے رائٹر کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ وہ ہمیں بتاتے تھے کہ کون سی لائن ،کس طرح بولنی ہے۔ لفظوں کی ادائیگی اور تلفظ پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ لیکن اب کمزشلزم کی وجہ سے یہ سب ختم ہو گیا ہے۔
س: پہلے کے دور میں کام کا کیا پریشر ہوتا تھا اور آج کس پریشر کا سا منا کرنا پڑتا ہے؟
ج: لیڈنگ رول کررہے ہو یا سائیڈ رول دونوں میں کام کا پریشر ہوتا تھا، کیوںکہ دونوں رول اہمیت رکھتے تھے۔ اب آرٹسٹ بیک وقت کئی پروجیکٹس پر کام کررہے ہوتے ہیں، جس سے کام کا پریشر بہت زیادہ ہوتا ہے، پر فارمنس بھی متاثر ہوتی ہے۔
س: آپ نے کئی نامور اداکاروں کے ساتھ کام کیا ہے، کس کے ساتھ کام کرکےکچھ سیکھا ؟
ج: سینئیر فن کاروں کے ساتھ کام کا ہر تجربہ کافی اچھا رہا۔ کبھی کسی قسم کی مشکلا ت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سب سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملا۔بہروز سبزاری کے ساتھ میرا ایک کمرشل بہت مشہور ہوا تھا۔ اب آج کل ہم دونوں جیو کی ڈرامہ سریل ’’مہرہ ‘‘ میں کام کررہے ہیں۔
س: آپ نے فلم میں بھی کام کیا جو کہ ایک الگ میڈم ہے، آپ کو فلم کرنے میں زیادہ مزہ آتا تھا یا ڈرامہ کرنے میں ؟
ج: دونوں میں کام کرنےکا مزہ الگ ہے اور تجربہ بھی ایک دوسرے سے جدا ہو تا ہے۔میں نے تقریباً15 فلموں میں کام کیا لیکن ایک میں بھی ہیروئن کا کردار نہیں کیا، کیوںکہ مجھے ڈانس نہیں آتا تھا۔ سارے فلموں میں، میں نے سیکنڈ لیڈ یا سائیڈ رولز ہی کیے۔ مزید سائیڈ رولز میں کر نہیں سکتی تھی۔
اسی لیے میں نے فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ دیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہماری فلم انڈسٹری کا حال بہت برا ہوگیا ہے، غیر معیاری فلمیں بن رہی ہیں۔ نہ میوزک اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی کہانی۔
چند سال پہلے میں نے یاسر نواز کے ساتھ ایک فلم میں کام کیا تھا لیکن اب مجھے کوئی فلم میں کام کرنے کی آفر کرتا ہے تو میں صاف انکار کردیتی ہوں۔ البتہ فلم کے مقابلے میں ہمارے ڈرامے بہت بہتر ہیں۔ بھارت اور بیرونِ ملک میں پاکستانی ڈرامے بہت پسند کیے جاتے ہیں۔
س: پرانے دنوں کی ایک چیز جو آج بھی بہت یاد کرتی ہیں ؟
ج: ماضی کے کام کو یاد کرتی ہوں کہ پہلے کس طرح ڈراموں کی شوٹنگ ہوتی تھی، شوٹ شروع ہونے سے پہلے کتنی تیار کی جاتی تھی۔ ظاہر ہے جب وقت نے کروٹ لی تو سب چیزوں کے انداز بدل گئے۔
ہم آج کے نئے طریقے کار میں اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن پچھلے کام کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ چاہے ڈرامہ ہو یا فلم ۔ہر ڈرامہ اور فلم کا اپنا الگ انداز ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں ماضی کا موزانہ حال سے نہیں کرنا چاہیے، البتہ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہر چھ مہینے بعد چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔
س: کیا آپ کو ڈرامہ کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ڈرامہ کام یاب ہو گا یا نہیں؟
ج: کچھ ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جن کا اندازہ پہلے دن ہی ہوجاتا ہے کہ یہ ہٹ ہوگا جیسا کہ ساس، بہو کی کہانی پرمبنی ڈراموں کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلاپ نہیں ہوں گے لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جب، جب میں نے کوئی کردار بیزاریت سے کیا ہے تو وہ ہٹ ہوا ہے اور جو پلاننگ کے ساتھ کیا، اُس کو اتنی زیادہ شہرت نہیں ملی، مگر میں کوئی بھی ڈرامہ کرتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ یہ ہٹ ہو گا یا نہیں۔
س: پہلے شہرت حاصل کرنا زیادہ مشکل تھا یا اب زیادہ مشکل ہے ؟
ج: پہلےاداکاروں کو شہرت اور پہچان ان کی اداکاری کی وجہ سے ملتی تھی ،اس لیے اس کو حاصل کرنا مشکل تھا، کیوںکہ اس کے لیے آپ کو کام میں بہت محنت کرنی پڑتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں سب کے لیے شہرت حاصل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے، آپ کسی کے لیے چندغلط باتیں کہہ دیں یا کسی کے حوالے سے کوئی خبر وائرل کردیں، آپ کو بآسانی شہرت مل جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اچھے کام پر شہرت نہیں ملتی وہ اپنی جگہ ہے لیکن سستی اور جلدی شہرت حاصل کرنے کے لیے لوگ کچھ نہ کچھ ایسا بول دیتے ہیں، جس سے عوام آپ کو پہچانے لگتے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہےکہ اب اداکار اچھی اداکاری سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے مشہور ہونا چاہتے ہیں۔
یہ ایک نیا ہی سلسلہ چل گیا ہے کہ فن کاروں کی شہرت کا اندازہ انسٹا گرام پر موجود ان کے فالورز سے لگایا جاتا ہے۔ ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا، میں نے دو سال قبل انسٹاگرام پر اپنا اکاؤنٹ بنایا ہے ورنہ اس سے پہلے تو مجھےمعلوم ہی نہیں تھا کہ انسٹا گرام کس بلا ّ کا نام ہے اور سچ تو یہ کہ مجھے اس کی کبھی ضرورت بھی نہیں پڑی۔
دور رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنا آپ سوشل میڈیا پر فعال ہوں گے، اتنا ہی زیادہ عوام کی تنقید اور رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے اثرات نجی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔
س: آپ کا اپنا پسندیدہ کردار کون سا ہے ؟
ج: سیونتھ اسکائی کا ایک ڈرامہ سیریل کیا تھا ’’میرا رب وارث ‘‘ وہ میرا اپنا پسندیدہ کردار ہے۔
س: اب تک کئی اداکاروں اور اداکاراؤں کی ماں کا کردار کرچکی ہیں، سب سے اچھی کیمسٹری کس کے ساتھ رہی ؟
ج: اب تو میں بے شمار فن کاروں کی ماں اور ساس کا کردار کرچکی ہوں، ان میں سے کچھ تو نام بھی یاد نہیں ہیں۔ لیکن جن کے ساتھ بہت اچھی کیمسٹری رہی۔ ان میں رمشا خان، سوہائے علی ابڑو، سمیع خان اور عمران اشرف شامل ہیں۔
عمران کے ساتھ تو میں نے کئی ڈراموں میں کام کیا ہے اور ہمیشہ اس کی ماں بن کر کام کو بہت انجوائے کیا ہے۔ اتنی مرتبہ ماں کا کردار کرنے کے بعد اب مزید کسی کی ماں کا رول کرنے کی خواہش نہیں رہی ۔
س: اسکرپٹ ملتا ہےتو اس میں سب سے پہلی چیز کیا دیکھتی ہیں ؟
ج: لیڈرول پر جو ماں کا کردار ہے وہ میرا ہےیا نہیں ،اگر نہیں ہوتا تو اُس اسکرپٹ پر کام کرنے سے انکار کردیتی ہوں۔ دوسرے چیز ڈائریکٹر کا پوچھتی ہوں کہ کون ہے، کیوں کہ اچھا ڈائریکٹر ڈرامے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جب آپ ڈائریکٹر اور ڈرامے کی کاسٹ کے ساتھ مطمئن نہیں ہوں گے اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں گے۔ اچھا اسکرپٹ، اچھا ڈائریکٹر ،اچھا ڈی او پی(ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی) اور اچھا میک اپ آرٹسٹ کردار کو جاندار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
س: کردار میں اپنی اسٹائلنگ پر خود کتنی توجہ دیتی ہیں؟
ج: میری کوشش ہوتی ہے کہ کردار میں نیچرل نظر آؤں، بلا ضرورت جیولری پہننا اور ضرورت سے زیادہ میک اپ کرنا۔ کردار کو حقیقت سے دور کردیتا ہے۔ وارڈ روپ خود ڈیزائن کرتی ہوں اور بالوں کی اسٹائلنگ بھی خود کرتی ہوں۔
ان چیزوں پر میں کسی پر بھروسہ نہیں کرتی، کیوں کہ مجھے زیادہ بہتر پتا ہوتا ہے کہ میرے چہرے پر کون سا اسٹائل اور کس طرح کا ڈریس اچھا لگے گا ۔میں اپنے کسی کردار میں بھاری جیولری اور کپڑے نہیں پہنتی۔
س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ہمارے ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ؟
ج: ہم ڈراموں میں وہی دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ہورہا ہے۔ معاشرے میں بگاڑ ڈراموں کی وجہ سے ہر گز نہیں آرہا۔ اسکرین پر وہی دکھایا جا رہا ہے جو پہلے سے ہمارے اردگرد بگڑا ہوا ہے۔
س: چند ماہ قبل عائشہ خان اور حمیرا اصغر کے اندوہناک واقعات سامنے آئے،اس کے بعد، آپ کو لگتا ہے کہ آرٹسٹوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ویلفیئر ہونی چاہیے؟
ج: حکومت کو چاہیے کہ کوئی ایسا ادارہ بنائیں جہاں پر آرٹسٹ اپنے مسائل بتا سکیں، اگر ان کو مالی مدد کی ضرور ت ہے تو وہ بآسانی مل جائے، کیوں کہ ہم نے اپنے بہت سارے آرٹسٹوں کو کسمپرسی کی زندگی گزارتے دیکھا ہے۔
س: شوبز انڈسٹری میں نئے آنئے والے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟
ج: میرا پیغا م یہی ہے کہ جب انڈسٹری میں آنے کا فیصلہ کیا ہے تو پوری ایمانداری سے کا م کریں۔ شارٹ کٹ کاراستہ نہیں اپنائیں۔
اس راستے سے جو کام یابی ملے گی، اس کی مدت بہت کم ہوگی۔ پوری محنت اور لگن سے کام کریں گے تو، کام یابی اور شہرت آپ کا مقدر بن جائے گی۔