”جیو ٹی وی“اور ”سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ“ کی نئی پیشکش ”کیس نمبر 9“ اِن دِنوں نا صرف ہر طرف دھوم مچا رہا ہے بلکہ اس سیریل کا موضوع پبلک ڈیبیٹ بھی بن گیا ہے۔ یہ محض ایک ڈرامہ نہیں بلکہ معاشرتی ناانصافی کے خلاف ایک زور دار آواز ہے، جسے سینئر صحافی، تجزیہ کار اور ”جیونیوز“ کے اینکر ”شاہ زیب خان زادہ“ نے قلم بند کیا ہے۔
صبا قمر، فیصل قریشی، آمنہ شیخ سمیت نامور فنکاروں کی اداکاری نے اس سیریل کو ایک ایسے معرکۃ الآرا شاہکار میں تبدیل کردیا ہے جو صرف اسکرین پر ہی نہیں بلکہ ناظرین کے دلوں میں بھی اپنی گہری چھاپ چھوڑ رہا ہے۔”کیس نمبر 9“ نے محبت، خاندانی تنازعات اور روایتی کہانیوں کی روایت کو توڑ دیا ہے۔ سیریل میں ایک ایسے حساس مسئلے کو اُجاگر کیا گیا ہے جس پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں آج بھی مشکل سمجھا جاتا ہے۔
ڈرامے کی کہانی ایک ریپ کیس کے گرد گھومتی ہے۔ ایک عورت جو ظلم وستم سہنے کے باوجود خاموش رہنے کے بجائے اپنی آوازبلند کرتی ہے، اپنے اندر اتنی طاقت پیدا کرتی ہے کہ وہ نا صرف ملزمان کے خلاف کھڑی ہوتی ہے بلکہ معاشرے کو بھی آئینہ دکھاتی ہے۔ کہانی میں وہ گہرائی ہے جو ناظرین کو نا صرف اسکرین سے جوڑے رکھتی ہے بلکہ انہیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔
سحر (صبا قمر) جو ایک بااعتماد، باشعور اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے والی عورت ہے، لیکن اچانک اِس کی زندگی ایک ہولناک واقعے کے بعد یکدم بدل جاتی ہے۔ فیصل قریشی اپنے کردار میں ایک بااثر شخص کا روپ دھارے نظر آتے ہیں، جس کا غرور اور احساسِ برتری اسے ایک ناقابلِ معافی جرم پر آمادہ کرتا ہے۔پہلی قسط کے اختتام تک ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوئی عام کہانی نہیں، انصاف کی طویل اور کٹھن جدوجہد کی کہانی ہے۔
آنے والی اقساط میں سحر کا انصاف کے لیے کھڑا ہونا دکھایا گیا۔ پاکستان کے قانونی نظام میں ریپ کیس دائر کرنا کسی بھی متاثرہ عورت کے لیے آسان نہیں، ڈراما اس خوف، ہچکچاہٹ اور معاشرتی الزام تراشی کو حقیقت پسندی سے پیش کرتا ہے۔ فیصل قریشی چھپنے والا ولن نہیں، وہ طاقتور، دولت مند اور بے شرم حد تک مغرور ہے، اس کی لڑائی صرف جرم سے انکار کی نہیں بلکہ نظام کو اپنے حق میں موڑنے کی ہے۔
یوں کہانی عدالت کے اس کمرے میں داخل ہوتی ہے جہاں یہ طے ہونا ہے کہ کیا سچائی طاقت کے سامنے ٹھہر پائے گی یا نہیں؟۔ عدالت پہنچ کر یہ لڑکی اپنے مجرم کے ساتھ نا صرف لڑتی ہے بلکہ اس سے مقابلہ کرتی ہے، ہمت و طاقت اور حوصلے سے سب کا سامنا کرتی ہے۔ ”کیس نمبر 9“ کا مرکزی کردار صبا قمر کا انتخاب بھی ایک بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔ یہ اُن کے فن کی ایک اور مضبوط مثال ہے۔ وہ اپنے کردار ”سحر“ کو مظلوم نہیں بلکہ مزاحمت کرنے والی عورت کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ کبھی ٹوٹنے کے لمحے میں تو کبھی فولاد بن کر۔
ان کے مقابل ایک اور اہم کردار فیصل قریشی کا ہے، جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ چیلنجنگ کرداروں سے نہیں گھبراتے۔ کامران کے کردار میں وہ ایک ایسے مرد کو پیش کرتے ہیں جو یقین رکھتا ہے کہ طاقت اسے ہر سزا سے بچا لے گی۔ ان کی اداکاری میں نہ کوئی بناوٹ ہے نہ اوور ایکٹنگ، صرف ایک ٹھہراؤ کے ساتھ دکھائی گئی سفاکی، یہی وہ تاثر ہے جو ناظر کو بے چین کر دیتا ہے۔
ڈرامے میں سب سے زیادہ جس چیز نے ناظرین کو حیران کیا وہ ہے آمنہ شیخ کی واپسی ۔ طویل عرصے سے ڈرامہ انڈسٹری سے دور رہنے والی آمنہ شیخ نے ”کیس نمبر 9“ کے ذریعے شاندار کم بیک کیا ہے۔ آمنہ شیخ ہمیشہ سے اپنے کرداروں میں جان ڈالنے کے لئے جانی جاتی ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے اپنی اداکاری سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آج بھی اسی جذبے اور توانائی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ سیریل میں وہ وکیل کا جاندار کردار ادا کر رہی ہیں۔
وہ بینش کے روپ میں آمنہ مضبوط، ذہین اور اصول پسند پراسیکیوٹر ہیں، جو سحر کا مقدمہ لڑرہی ہیں۔ ان کا کردار نا صرف متاثرہ عورت کی حمایت کی علامت ہے بلکہ ناظرین کو یہ سمجھانے کا ذریعہ بھی ہے کہ پاکستان میں ریپ کیس قانونی طور پر کیسے آگے بڑھتا ہے۔ ان کی موجودگی ڈرامے میں اخلاقی توازن پیدا کرتی جارہی ہے۔
دوسری طرف جنید خان، نوین وقار، گوہر رشید، حنا خواجہ بیات، علی رحمان خان، نورالحسن اور دیگر فنکار بھی اپنے اپنے کرداروں کو بھرپور انداز سے نبھارہے ہیں۔ سیریل میں کوئی ایک کردار بھی اضافی نہیں لگتا۔ ہر شخص سحر کے گرد بنے سماجی جال کا حصہ ہے، کسی کا کردار ہمدردی کا، کسی کا شک کا، اور کسی کا خاموش تماشائی کا۔ تمام اداکاروں نے اپنی فنکارانہ صلاحیت سے اس کہانی کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ سب نے بہترین پرفارمنس سے ہر منظر کو یادگار بنا دیا ہے۔
ہدایتکار سید وجاہت حسین نے اس نازک موضوع کو جذباتیت کے بغیر، نرمی اور سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی ہدایت کاری میں ایک پختگی جھلکتی ہے۔ عدالت کے مناظر کی ترتیب، مکالموں کے درمیان خاموشی اور چہروں پر ٹھہرے لمحات، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ کہانی کو کب زبان دینی ہے اور کب خاموشی کو عوام کے سامنے لانا ہے۔
سید وجاہت حسین اس سے قبل ”خدا اور محبت“ اور ”خئی“ جیسے سپرہٹ ڈرامے ناظرین کو دے چکے ہیں۔ ان کا یہ کمال ہے کہ وہ ایک مشکل اور حساس موضوع کو نہایت سلیقے سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی ہدایت نے کہانی کو مزید حقیقت سے قریب کر دیا ہے، ناظرین کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ محض ڈرامہ نہیں بلکہ ہمارے اردگرد ہونے والی حقیقت کی عکاسی ہے۔ اس پروجیکٹ کو غیر معمولی باریکی سے تیار کیا گیا ہے۔
سیٹ، ملبوسات، اور روشنیوں سے لے کر عدالت، پولیس اسٹیشن کے ماحول تک، سب کچھ حقیقت کے قریب ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اس سیریل کو عام تفریح سے ہٹ کر ایک سنجیدہ رُخ ہے۔کیس نمبر 9 کی طاقت صرف اس کی کہانی نہیں بلکہ وہ سوال بھی ہیں جو ناظرین کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں کہ ایک معاشرہ اپنے متاثرین کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ طاقتور مجرم کے خلاف انصاف کی راہ کتنی دشوار ہے، جب قانون کے سامنے دولت اور اثرورسوخ والےکھڑے ہوں تو سچائی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
یہ اور ایسے بہت سے سوالات کسی نظریے کی سطح پر نہیں بلکہ کرداروں کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں اور یہی اسے مزید متاثرکن بنارہے ہیں۔ اب تک نشر کی گئی اقساط سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی اپنے ہنگا مہ خیز عروج کیساتھ بڑھ رہی ہے۔ جذباتی شدت، بہترین اداکاری اور مضبوط ہدایت کاری کے باعث کیس نمبر 9 سال کے اہم ترین ڈراموں میں سے ایک بن سکتا ہے۔
اگرچہ کہیں کہیں کچھ مناظر حد سے زیادہ سنسنی خیز محسوس ہوتے ہیں، مگر مجموعی طور پر یہ ایک جرأت مندانہ کوشش ہے۔ اور جیسے جیسے سیریل آگے بڑھ رہا ہے اس کی شہرت میں مزیداضافہ ہورہا ہے،خاص طور پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اس ڈرامے کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہے۔ ان کے خیال میں ایسے ڈرامے ہی حقیقی معنوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
یہ سیریل ہمیں بتاتا ہے کہ ریپ جیسے جرائم پر خاموشی اختیار کرنا ظلم کو مزید طاقت دیتا ہے اور متاثرہ خواتین کو پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں، انصاف کے لئے جدوجہد کریں۔ اس میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ معاشرے کو صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ پورے نظام کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالتیں اور عام عوام سب کو مل کر ایسے جرائم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔
کرداروں اور ہدایت کار کی نپے تلے انداز کی ہدایات نے اسے ایک ایسا مقبول سیریل بنا دیا ہے جو دیرپا اثر چھوڑتا ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی ڈراما نا صرف تفریح بلکہ شعور اور تبدیلی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ سیریل کی ہر نئی قسط ناظرین کو ایک نئے جذبے اور تجسس کے ساتھ اسکرین کے سامنے بیٹھنے پر مجبور کر تی ہے۔ اُمید ہے سیریل کے اختتام پر معاشرے میں بہتری آئے گی۔ ریپ، ہراسمنٹ ہی نہیں خواتین پر تشدد کا بھی خاتمہ ختم ہو جائے گا۔