نوجوان نسل کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ بلاشبہ ان ہی کے دم سے دنیا بھر کی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہے، یہ مستقبل کے معمار ہی نہیں، ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ بھی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں بھی بخوبی ہوسکتا ہے کہ، فورم چاہئے کوئی بھی ہو، کسی بھی موضوع پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو وہ نوجوانوں کے عملی کردار کے بغیر نامکمل معلوم ہوتی ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ نسل نو عہد حاضر کے تمام تقاضوں کی ضروریات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں اور صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ وہ ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی پر ان کی حکم رانی ہو۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ کا دائرہ تبدیل ہو رہا ہے، ان کے خیالات اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں بھی روز بہ روز تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ لیکن آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اس کے معمولات زندگی میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، کوئی اس سے باز پرس نہ کرے، اسی لیے ان میں خودپرستی کا عنصر غالب ہوتا جارہا ہے۔ نافرمانی، فضول خرچی، دوستوں کے ساتھ وقت گزاری، اپنے فیصلوں میں والدین کو شامل نہ کرنا، اُن کی باتوں کو نظرانداز کرنا ان میں عام ہوگیا ہے۔ بس ان کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔
نسل نو چاہے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو، خود کو دور حاضر کا بانی تصور کرتی ہے، انہیں یوں لگتا ہے کہ زمانہ ان ہی کے دم سے ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بھی پختہ ہورہی ہے کہ وہ ہر چیز پر اپنی صلاحیتوں سے مثبت اور منفی جیسے چاہئے اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ان کی گفت و شنید، حرکات و سکنات میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات اخلاقی قدروں کو پامال کرتی بھی دکھائی دیتی ہے لیکن ہر صورت وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنا چاہتےہیں ۔
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ اور افرا تفری کے ماحول میں نسل نو کو چاہئے کہ وہ علم کو محض اعلیٰ ڈگریوں تک محدود نہ کریں، بلکہ باشعور، روشن خیال بن کر سوچ، علم کی اہمیت کو سمجھیں، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے، بزرگوں کی دُعاؤں کے سائے میں آگے بڑھے اور ایسا کچھ کرے، جس میں انسانیت کا فلسفہ سب سے پہلے ہو، بعدازاں دیگر شعبہ جات سمیت معاشرتی مسائل کا خاتمہ بھی مل جل کر کریں اور اُن گروہ اور مافیا سسٹم کو ختم کریں جس نے ہمارے ملک کی جڑیں کھو کھلی کر دی ہیں۔ آزاد معاشرے کے آزاد شہری کی طرح ہر نوجوان اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اورپھر اپنی قوم کے لئے ایک مثال بن جائے۔ ( طاہرہ فاطمہ)