• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرد جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ اگر کسی ایک شخص کو دیا جا سکتا ہے، تو وہ سابق روسی صدر،میخائل گور باچوف ہیں، جن کا انتقال چند روز قبل91 سال کی عُمر میں ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سرد جنگ پُرامن طور پر ختم ہوئی ،تو اس میں بھی بنیادی کردار گورباچوف ہی کا تھا کہ سوویت یونین اور مغرب کے پاس جس قسم کے نیوکلیئر ہتھیار تھے، وہ پوری دنیا میں تباہی پھیلانے کے لیے کافی تھے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سرد جنگ کے بعد جو قوتیں پروان چڑھیں، انہوں نے سوویت یونین جیسی سُپر پاوَر کو بھی انجام تک پہنچا دیا۔ 

سوویت یونین کمیونسٹ نظریے پر کھڑی ہونے والی پہلی طاقت تھی۔گو رباچوف نے 1985ء میں اقتدار سنبھالا اور 1991ء میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہوگئے۔ ان کا ایجنڈا صرف دو عناصر’’نظام میں اصلاحات اور سوویت یونین میں مکمل آزادی‘‘ پر مشتمل تھا، لیکن یہ ایجنڈا سوویت یونین کی بحالی کا تھا، نہ کہ تباہی کا۔ یاد رہے، وہ کمیونسٹ پارٹی میں اس عُہدے تک پہنچنے والے کم عُمر ترین شخص تھے۔ سوویت یونین کو مغرب میں آئرن کرٹن یا آہنی پردے کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

گور باچوف کے اقتدار میں آنے سے چند سال قبل پہلی افغان وار کا آغاز ہوا تھا۔ہماری دل چسپی اس سارے عمل میں اس لیے بھی رہی، کیوں کہ پاکستان براہِ راست پہلی افغان وار میں ملوث تھا اور اس کے تمام منفی اثرات ہم پر بھی براہِ راست مرتّب ہوئے۔ ذرا سوچیں کہ ایک کم زور معیشت اور ٹوٹے پھوٹے سیاسی نظام کے حامل مُلک کو ستّر لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کتنی منہگی پڑی ہوگی، اتنی منہگی کہ جس کے اثرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

ذراغور تو کریں کہ اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھانے والا امریکا چھے ہزار میل دُور، یورپ چار ہزار میل کے فاصلے پر اور سب سے زیادہ نقصان اُٹھانے والا پاکستان، عین دروازے پر تھا، تویہ کون سی حکمتِ عملی تھی، کم از کم ہماری سمجھ سے تو بالا تر ہی ہے۔اُس میزبانی کے بعد پہلے مُلک میں کلاشن کوف، ہیروئین کلچر آیا، پھر دہشت گردی کی لہر، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ نیز، کیا کسی نے نوجوانوں میں نشے کی لت کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی۔

گورباچوف کے اصلاحات کے اصل اثرات مشرقی یورپ پرمرتّب ہوئے، جن ملکوں کو وارسا پیکٹ ممالک کہا جاتا تھا، ان میں آزادی کی لہر اتنی شدّت اختیار کر گئی کہ سب کچھ بہا لے گئی۔ نہ نظام رہا، نہ مملکتیں اور نہ ہی نظریے۔ہنگری، پولینڈ، چیکو سلو واکیہ اور سب سے بڑھ کر مشرقی جرمنی میں بغاوتیں ہوئیں، جنہیں پھر سوویت یونین جیسی بڑی طاقت بھی کنٹرول نہ کر سکی۔ 

یاد رہے، اُس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایٹم اور ہائیڈورجن بمز سوویت یونین ہی کے پاس تھے۔ اس کی فوجوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ تھی، لیکن آزادی کی اس لہر کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا اور سوویت یونین جیسی ایمپائر بھی اپنے وجود میں آنے کے 60 سال بعد جڑ سے اُکھڑ گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد بائی پولر دنیا، یونی پولر رہ گئی اور صرف ایک ہی سُپر پاوَر بچی اور وہ بھی امریکا تھا۔

دَرحقیقت،سوویت یونین رُوس اور اس کے زیرِ تسلّط وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل تھا، لیکن اس کے مختلف آہنگ تھے۔سوویت یونین مارکس کے فلسفۂ حکم رانی کا تابع تھا۔اس میں سنگل پارٹی نظام تھا اور حکم رانی کمیونسٹ پارٹی کے پاس تھی۔ جسے رُول آف پرولیٹریٹ،یعنی عوام کا راج کہا جاتا تھا،حالاں کہ اصل طاقت کمیونسٹ پارٹی کے طاقت وَر امرا کے ہاتھ میں تھی۔ جو ممالک سوویت یونین کے زیرِنگیں تھے، وہ بھی اسی نظامِ حکم رانی پر چلتے تھے۔ درحقیقت کمیونسٹ پارٹی ہی طاقت کا منبع تھی، جس کے بانی،کارل مارکس تھے، ان کے بعد لینن، اسٹالن اوربرزنیف جیسے بڑے نام دنیا پر اثر انداز ہوئے۔ 

کمیونسٹ نظام سے قبل روس میں بادشاہت تھی اور ان بادشاہوں کو زار اور زارین کہا جاتا تھا۔ ان میں سے دو ،زار پیٹر اور زارین کیتھرائیں بہت مشہور ہوئے، ان کا شمار اپنے زمانے کے بڑے فاتحین میں ہوتا ہے۔ روس، وسطی مسلم ایشیا اور تُرک عثمانی خلافت میں بڑی طویل جنگیں ہوئیں۔کبھی کوئی حاوی ہوجاتا، تو کبھی کوئی۔ ہمارے مُلک میں تاریخ میں برطانیہ اور یورپ کی نو آبادیات کابہت ذکر ہوتاہے، لیکن جس طرح روس نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کو شکست دے کر غلام بنایا، اس پر کبھی بات نہیں ہوتی۔ 

سوویت یونین بننے کے بعد تمام وسطی مسلم ریاستیں رُوس کی غلام بن گئیں، جو سوویت سوشلسٹ ری پبلک کا حصّہ تھیں۔ دَرحقیقت ان کی حیثیت صوبوں سے زیادہ نہ تھی۔ کمیونسٹ نظام چاہے بادشاہت کے نظام سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، لیکن اس میں دو قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ ایک تو کمیونسٹ پارٹی کے کسی حکم سے سرتابی کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ اظہارِ رائے پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سوویت وزیرِ اعظم خروشیف نے مغربی صحافیوں کو رُوس کے مختلف شہر اور ادارے دیکھنے کی دعوت دی، دَورے کے اختتام پر رُوسی وزیر اعظم نےصحافیوں سے بات چیت، سوال وجواب کیے۔ یہ ملاقات بڑے خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ تاہم، آخر میں ایک صحافی نےکہا،’’جناب! سب کچھ شان دار، بلکہ بہت شان دار ہے۔واقعی آپ کا مُلک سُپر پاوَر ہے، لیکن بس ایک چیز کی کمی ہے۔‘‘روسی وزیرِ اعظم نے پوچھا، ’’کس چیز کی؟‘‘تو صحافی نےجواب دیا’’آزادیِ رائے کی۔‘‘’’نہیں، بالکل نہیں۔ جس صحافی کا دل چاہے ،حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرسکتا ہے، ہم نےبھرپور آزادی دی ہوئی ہے۔ یہ عوام کی حکومت ہے، اس لیے کوئی کام عوام کی اچھائی کے سوا ہوتا ہی نہیں۔‘‘وزیرِ اعظم نے جواب دیا۔

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہمیں وسط ایشیا کے کئی ممالک کے دَوروں کے کئی مواقع ملے۔ جہاں سےظلم و جبر کی ایسی ایسی داستانیں سُننے کو ملیں کہ دل دہل کر رہ گیا۔ اسی لیے سوویت یونین کے روس میں سکڑنے کے بعد یہ سوال اب تک اکثر ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ ’’کیا یہ سارا نظام ایسے ہی چل سکتا تھا…؟؟‘‘ سارے ہتھیار اور طاقت اپنی جگہ، لیکن ریاست کی اصل حقیقت اور طاقت عوام ہوتے ہیں، جن کی رائے، شکایات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوویت یونین ایک نظریے پر قائم تھا ، جس کابراہِ راست ٹکرائو مغربی نظام سےتھااور جس کی لیڈر شِپ امریکا کے پاس تھی۔

اگر سوویت یونین کا وارسا ملٹری پیکٹ تھا، تو مغربی طاقتوں کا نیٹو فوجی اتحاد۔لیکن اس کا اصل مقابلہ ہمیشہ یورپ ہی سے رہا اور اس مقابلے کے اثرات دیگر ممالک پر بھی مرتّب ہوئے۔ مثال کے طور پر ہمارا پڑوسی مُلک ،بھارت، ابتدا ہی سےسوویت یونین کا قریبی دوست رہا ہے۔ نہرو، سوشلزم کے بڑے داعی تھے، گرچہ مُلک میں مغربی جمہوریت قائم کی۔قریبی دوستی کا اندازہ اس امر سے لگالیں کہ سقوطِ ڈھاکا کے وقت سوویت یونین نے کُھل کر بھارت کا ساتھ دیا۔ یہ ساتھ، فوجی اتّحاد کی صُورت بھی تھا اور بین الاقوامی سفارت کاری کی صورت بھی۔ اگر صرف مشرقِ وسطیٰ ہی کو دیکھ لیا جائے، تو مصر، شام، عراق، لیبیا، الجزائر اور کئی ممالک میں اسی طرز کا ’’سنگل پارٹی نظام‘‘ رائج ہوا۔

اسی کے نام پر عوامی انقلاب کا چرچا بھی رہا، جو درحقیقت ہمیشہ ایسی ہی آمرانہ حکومتوں اور آمروں پر منتج ہوتے۔ یہ آمر، 20،20 سال حکومتیں کرتے اور مُلک کو معاشی طور پر دیوالیہ کر کے چلے جاتے۔مصر کے جمال عبدالناصر، شام کے حافط اسد،عراق کے صدّام حُسین، لیبیا کے کرنل قذافی سب آمر ہی تو تھے۔ ان کے رائج کردہ نظام کو’’ سوشلزم‘‘ کہا جاتا اور ان کے چند وفاداروں پر مشتمل سوشلسٹ پارٹی ہی حاکم بنتی۔

مجال ہے کہ کوئی حکومتِ وقت کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ لیکن مصر میں جمال عبدالناصر کے اسرائیل کے ہاتھوں مختلف جنگوں میں شکست کھانے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں سوویت یونین کا اثر ختم ہوتاچلا گیا۔یاد رہے، رُوس کے صدر پیوٹن نے صدر بشارالاسد کی شامی خانہ جنگی میں کُھل کے مدد کی تھی، یہاں تک کہ روسی فضائیہ نے عوام پر بم باری بھی کی اوراقوامِ متّحدہ میں ہر اُس قرارداد کو ویٹو کیا، جو بشار الاسد کے خلاف تھی۔

گورباچوف کے اقتدار میں آنے کے بعد جب دنیا کو نظر آنے لگا کہ سوویت دَور گزر رہا ہے، تو اس کے ساتھ ہی سوشلزم کے اثرات بھی ختم ہونے لگے۔کیوبا وہ آخری مُلک تھا، جس میں فیڈل کاسترو کی حکم رانی میں پندرہ سال تک کمیونسٹ نظام چلتا رہا، لیکن کاسترو کے بعد کیوبا نے بھی امریکا سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور اب دونوں ممالک کے عوام بآسانی ایک دوسرے مُلک آتے جاتے ہیں۔ حقیقتاً اس صدی کے بعد آزادی کےنام پر بس عوام کو بے وقوف ہی بنایا جاتا رہا۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ آزادی کے بعد معیشت کیسے چلے گی، عوام کا گزارہ کیسے ہو گا، آمروں کے بعد مُلک کون سنبھالے گا۔ 

سوال یہ ہے کہ’’ آخر گورباچوف چاہتے کیا تھے،ان کی اصلاحات کا مقصد کیا تھا؟‘‘بہت سے ذہنوں میں سوال اُٹھتا ہے کہ شاید گورباچوف کی اصلاحات نے انتشارپیدا کیا،جس نے بالآخر سوویت یونین کو توڑ دیا۔لیکن گورباچوف کا اصل چیلنج سوویت یونین کی گرتی ہوئی معیشت تھی ۔ ایک طرف تو پہلی افغان جنگ نے اس کی اقتصادیات پر اثرڈالا اوراسی لیے اپنے اقتدار میں انہوں نے روسی فوجوں کو افغانستان سے واپس بلا کر یہ جنگ ختم کردی۔

یہ الگ بات ہے کہ سوویت یونین، جو افغانستان کا سب سے قریبی دوست رہا،اس کی اسی جنگ نے افغانستان میں خانہ جنگی کا وہ سلسلہ شروع کیا، جس کا اختتام بالآخرگزشتہ اگست میں امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہوا۔لیکن اب بھی افغانستان ایک مُلک سے زیادہ کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے، جس کا نظام بنتے بنتے جانے کتنے سال لگ جائیں ۔فی الحال تو کسی مُلک نے اسے تسلیم تک نہیں کیا۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی سے گورباچوف کا مقصد اُن اخراجات میں کمی تھی، جو جنگ پر اُٹھ رہے تھے۔ لیکن سوویت یونین کی مشرقی یورپی اور وسط ایشیائی ریاستیں بہت بُری حالت میں تھیں۔ 

گورباچوف کو مغرب نواز کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ، ان کی عزّت سوویت یونین سے زیادہ مغربی ممالک میں ہے، جس کی وجہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کو آزادی کی راہ پر ڈالنا تھا، جس کا آغاز جرمنی کے دوبارہ متّحد ہونے سے ہوا، لیکن گو رباچوف فری اکانومی پریقین نہیں رکھتے تھے، وہ مغرب سے اچھے تعلقات کے خواہاں تھے، اس لیے اُن کا سب سے اہم اقدام ہتھیاروں کی کمی اور جنگ بندی سے متعلق پیش رفت تھی۔

وہ سوشلسٹ نظام پریقین رکھتے اور یہی کہتے تھے کہ اسی نظام کے تحت معیشت سنبھالی جائے، لیکن یہ ممکن نہیں تھا، کیوں کہ اقتصادی بیماری سوویت یونین کی معیشت کی جڑوں تک پہنچ چُکی تھی۔ علاوہ ازیں آزادی کے بعد جو بغاوت کی لہر مشرقی جرمنی اور وسط ایشیا میں آئی، اُس کے لیے سوویت یونین کے پاس سرمایہ نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر سیٹلائٹ کا دَور شروع ہوچُکا تھا،مشرقی یورپ کے باسی اپنے ہی یورپی ساتھیوں کامعیارِ زندگی بہتر ہوتا دیکھ رہے تھے۔

دنیا نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے یہ سبق سیکھا کہ اقتصادی کم زوری بڑے سے بڑے،مضبوط سے مضبوط ترمُلک کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے ۔اس لیےاس نئی صدی کی شروعات ایک نئی سوچ و فکر سے ہوئی۔ اسی لیے اکیسویں صدی کی حکومتوں نے جس امر پر سب سے زیادہ زور دیا، وہ معیارِ زندگی میں اضافہ تھا۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سبق روس کے قریب ترین مُلک یاد کر کے عمل کرتے، لیکن اسے چین اور جنوب مشرقی ایشیا نے اپنایا۔

اسی لیے جلد ہی یہ خطّہ دنیا کا سب سے ترقّی یافتہ خطّہ بن کے اُبھرا۔امریکا نے بِنا سوچے سمجھے تو بندرگاہ جنوب مشرقی ایشیا کی جانب منتقل نہیں کی ناں۔بہت سے لوگ افغانستان سے امریکا کے انخلا کو ہار،جیت کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، لیکن معاشی نقطٔہ نظر سے دیکھا جائے، تو وسط ایشیا قطعی وہ توقعات پوری نہیں کر پایا، جس کا موقع اسے سوویت آزادی سے ملا تھا کہ پہلے تو وہ اندرونی سیاست میں اُلجھا رہا، پھر معیشت کی بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کیے۔ 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کی طرح ایک مُلک، دوسرے ملک کے لیے وہ راہیں تلاش کرتا،جن سے تعمیر وترقّی ہوتی۔ وسط ایشائی ممالک اور ریاستوں کے پاس سوویت دَور کی چھوڑی ہوئی جدید ٹیکنالوجی موجود تھی، لیکن وہ صرف تیل اور گیس ہی میں اُلجھے رہے۔اب حال یہ ہے کہ ایک بھی وسط ایشیائی ریاست ترقّی کی مثال کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی۔سی پیک منصوبہ انہی ریاستوں کو راہ داری فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا ، لیکن اگر وہاں ہی کوئی ترقی نہ ہوئی تو اس راہ داری سے کیسے فائدہ اُٹھایا جائے گا۔ 

دوسری مثال افغانستان کی لے لیں کہ ہر سال امریکا نے یہاں سترہ،اٹھارہ بلین ڈالرزخرچ کیے، لیکن اس کا افغانستان نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جب یہ طے ہوچُکا تھا کہ امریکا کُوچ کرنے کو ہے، تو کم از کم تب ہی ایسا انتظام کر لیا جاتا، جس سے عوام کو فائدہ ہوتا۔ ایسی حالت میں کسی بھی بڑے سرمایہ کار مُلک کو کیا پڑی ہے کہ وہ یہاں ترقیاتی منصوبوں کا حصّے دار بنے، جب کہ افغانستان میں تو بنیادی ڈھانچہ تک موجود نہیں اور سردی، گرمی دونوں ایک چیلنج بن گئے ہیں۔

عرب ممالک، جو گزشتہ صدی تک یہاں پیٹرول اور ڈالرز خرچ کرنے کے لیے مشہور تھے، آج کابل کا نام تک لینے سے کتراتے ہیں۔ سوویت یونین نے افغانستان طرز کی ایک اورطویل جنگ چھیڑ دی ہے۔ صدر پیوٹن، یوکرین پر حملے سے متعلق بہت پُر جوش تھے، لیکن اب اس دلدل سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے، یوکرین افغانستان نہیں، یورپ ہے،کیا ہوا کہ اس کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں۔ صدر پیوٹن پرانے سوویت یونین کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں،مگر اب رُوس کس عظمت کی بحالی کی طرف جائے گا، یہ تاریخ دیکھ رہی ہے۔