• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے کے رستے زخموں پر نمک پاشی کرنے والے بہت ملیں گے لیکن ان زخموں کے لیے مرہم کا کردار ادا کرنے والوں سے بھی ہمارا معاشرہ خالی نہیں ہے، بس درد مند دل ہونا چاہیےجو کسی کے درد کو اپنا سمجھ کر گلے لگائے۔ جب ارادے اور ہمت بلند ہوں تو ایسے نوجوان آسمانوں کو اپنی منزل مقصود بنا لیتے ہیں۔ حالات کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوں اور فضا کتنی ہی ناسازگاروہ مایوس نہیں ہوتے، ایسا ہی ایک نوجوان سعد ایدھی ہے جو بے پناہ محنت، ہمت اور استقامت کے ساتھ ہر تکلیف اور پریشانی کو خاطرمیں لائے بغیرلوگوں کی مدد کا جذبہ لیے آگے بڑھتاچلا جا رہا۔ 

اس کی شکل صورت بھی اچھی ہے۔ جوان بھی ہے لیکن اس کا عشق ہی مختلف ہے۔ اس عمر کے نوجوان یقیناََ کسی چائے کے ہوٹل یا کیفے پر گپ لگا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ گزشتہ ایک ماہ ہے سےچوبیس گھنٹے کشتی پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام کر رہا ہے جس میں سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ لاشوں کی تلاش، ان کی تدفین، بے گھروں کو گھروں کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ 

سخت گرمی اور پانی میں کشتی چلانا آسان نہیں اور جب آپ مقامی نہ ہوں تو راستے بھی بھٹک جاتے ہیں یہ ان سب مشکلات سے گزرہا ہے۔ نہ تو اپنے آرام کا کوئی خیال کیا اور نہ ہی اس نے کھانے پینے کا کوئی انتظام کیا۔ جہاں اور جب کچھ کھانے کو مل جاتا ہے کھا لیتا ہے پانی مل جائے تو پی لیتا ہے ورنہ پیاسا کاموں میں لگا رہتا ہے۔ اس کا اوڑھنا بچھونا اس وقت اس کی وہ کشتی ہے جس کو لے کر وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کونے کونے میں جا رہا ہے۔ 

یہ سوشل میڈیا پر کہیں نہیں یہ تو مشکل میں پھنسے لوگوں میں ہے۔ سعد انسانیت کے ناتے غریبوں کی مدد کر رہا ہے، مگر اس نے کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اپنی اس نیکی کی تشہیر نہیں کی۔ سعد ایدھی20 جون 1998 کو پیدا ہوئے۔ وہ اِس وقت کراچی کی ایک یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ میں بیچلرز کے طالب علم ہیں۔ 2005 میں شمالی پاکستان اور کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں عبدالستار ایدھی سات سالہ سعد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ بھی فلاحی کاموں میں حصہ لے سکیں۔

وہ اس وقت ایدھی ایمبولینس کے مواصلاتی کنٹرول اور ایدھی میرین (سمندری) سروس کو سنبھالتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی فلاحی کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سعد ایدھی کے روپ میں کراچی کو پھر ایک ایسا فرزند مل گیا ہے جو آنے والے دور میں اپنے دادا کے نام کو چار چاند لگائے گا۔ واقعی وہ اپنے والد فیصل اور دادا عبدالستار ایدھی کے لئے قابل فخر ہے۔ یہ باہمت نوجوان دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے، آگے بڑھے اور بڑھتا ہی چلا جائے۔ امین