• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری باتیں ثابت ہو رہی ہیں یہاں دہرا معیار ہے، طلال چوہدری

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان پہلے گریبان پکڑتے ہیں بات نہیں بنتی تو پاؤں پڑجاتے ہیں، ہماری باتیں ثابت ہورہی ہیں کہ یہاں دہرا معیار ہے ، عمران خا ن کے وکیل اور پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے کہا کہ میں فواد چوہدری کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتا،جس طرح عمران خان founder ہیں اسی طرح میں پارٹی کا founder ہوں، کوئی پارٹی سے مجھے الگ نہیں کرسکتا ،ماہر قانون جسٹس (ر)رشید اے رضوی نے کہا کہ انہوں نے لفظ apology کہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ کورٹ کو یہی امپریشن convey ہوا ہے کہ یہ معافی مانگنا چاہتے ہیں، معذرت سے کورٹ satisfy نہیں ہے۔ماہر قانون جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ مجھے حامد صاحب کے اسٹیٹمنٹ پر تعجب ہوا ہے، ابھی تک جو چیزیں سامنے آئیں اس سے یہی لگتا تھا کہ شاید عمران خان صاحب کا change of thought ہوگیا، پہلے جارحانہ رویہ تھا اب ان کا مختلف رویہ ہوگیا اور اب وہ سمجھتے ہیں کہ معافی مانگ لینی چاہئے،عمران خا ن کے وکیل اور پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے کہا کہ غیرمشروط معافی اس کو نہیں کہتے،اس میں پہلے acknowledge کرنا ہوتا ہے کہ ہم سے توہین ہوئی ہے اس کیلئے ہم غیرمشروط معافی مانگ رہے ہیں، اس میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ میرا نہ مقصد تھا توہین کرنے کا نہ ہی میں عدلیہ کے خلاف کبھی کچھ کہنا چاہتا ہوں نہ ہی کبھی کہا ہے، اگر محترمہ سمجھتی ہیں کہ میں نے اپنی بات میں کوئی ریڈ لائن کراس کی ہے تو میں ان سے اس چیز کی معافی مانگنے کیلئے تیار ہوں لیکن میرے خیال میں میں نے کسی قسم کی توہین عدالت نہیں کی ہے، یہ بات انہوں نے کہی ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہیں کہ میں نے ریڈ لائن کراس کی ہے۔ یہی بات کہی ہے جو اُدھر کہی وہ بھی یہی کہی ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس کا مقصد توہین عدالت ہو لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کوئی ریڈ لائن کراس کی ہے جو مجھے نہیں کرنی چاہئے تھی یا میڈم جج سمجھتی ہیں اس صورت میں میں معذرت کرلیتا ہوں اور میں لیڈی جج سے بھی معذرت یا معافی کیلئے تیار ہوں۔ یہی صورتحال ہے، اس میں بھی یہ کہا تھا کہ اس سے اگر ہو تو میں اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار ہوں، میں معذرت کرنے کو تیار ہوں، یہی بات ہم نے in writing بھی اپنے دونوں جواب میں دی ہے۔ اسی کے تحت اور اسی کے پس منظر میں یہ بات کہی گئی ہے، یہ بالکل معذرت ہی کی گئی ہے، ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ، عدلیہ کی سربلندی کے ہم داعی ہیں اور ہم وہی کرنا چاہتے ہیں، نہ پہلے کبھی سوچا تھا کہ ہم نے کوئی توہین عدالت کرنی ہے نہ ہی ہم نے کسی طور اس نیت سے کوئی بات کہی ہے۔ یہی بات جو عدالت میں بھی ریکارڈ کی وہ یہی ہے، ہمارا حلف نامہ بھی اسی حوالے سے اسی پیرایہ میں ہوگا۔ یہ معاملہ کونسل او ر کلائنٹ کے درمیان ہوتا ہے،اس لیے اس بات کو میں ڈسکس نہیں کرنا چاہتا، جو بات عدالت کے سامنے کی گئی ہے تحریری طور پر اور زبانی وہ سارا معاملہ آپ کے سامنے، کلائنٹ اور کونسل کے درمیان کیا کانفیڈنشل کمیونی کیشن ہے وہ ہم کبھی disclose نہیں کیا کرتے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔
اہم خبریں سے مزید