• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیلاب میں ڈوبے شہریوں کو لوٹنے کیلئے لٹیرے سرگرم

آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن نے بینظیر آباد ڈویژن کا دورہ کرکے خصوصی طور پر پولیس حکام کوسیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ہدایات دیں۔ تاہم آئی جی پولیس غلام نبی میمن کی ہدایات کے برعکس ضلع شہید بینظیرآباد میں جرائم کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور جرائم پیشہ افراد نے اس موقع کو غنیمت جان کر اپنی مزموم کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور صورتِ حال یہ ہے کہ بارش متاثرین بھی ان چوروں لٹیروں کی لُوٹ مار سے محفوظ نہیں رہے۔ گزشتہ روز سکرنڈ میں ایک ایسے خاندان، جس کا سب کچھ بارش کے پانی میں بہہ گیا تھا، سڑک کنارے ٹینٹ لگائے اور چارپائیوں کا سایہ کیے بیٹھے تھے، کچھ لوگ آئے اور انہیں کھانا اور پانی دیا۔ 

تاہم اس کھانے اور پانی کے استعمال کے ساتھ ہی ان کی حالت غیر ہوگئی اور الٹیاں شروع ہوگئی، جس کے بعد وہاں موجود دیگر لوگوں نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں تعلقہ اسپتال سکرنڈ پہنچایا ،جہاں بہ مشکل ان کی جان بچائی گئی اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر کچھ دیر ہوجاتی تو یہ دس افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، موت کی وادی میں اتر سکتے تھے اس لیے کہ اس کھانے اور پانی میں بڑی مقدار میں بے ہوشی کی دوا شامل کی گئی تھی، جس کے باعث ان کی موت واقع ہو سکتی تھی۔ 

جب کہ اس واردات کے بارے میں متاثرین کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چوں کہ ان کے پاس مال مویشی بہت بڑی تعداد میں تھا اور وہ سارا مویشی روڈ کنارے درختوں سے بندھا ہوا تھا اور اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر واردات کام یاب ہو جاتی، تو وہ لاکھوں روپے کے مویشی سے محروم ہوسکتے تھے، جب کہ بارش متاثرین کے مال مویشی اور اثاثے چوری اور لوٹ مار کے واقعات تواتر سے جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ضلع کے مختلف تھانوں میں رپورٹ درج ہو رہی ہے، جب کہ دوسری جانب بارش متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک تو روزگار کی طرف سے پریشان ہیں اور کام کاج کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب لٹے پٹے گھر سے وہ جو کچھ آسانی سے نکال سکے، لے کر بیٹھے ہیں، لیکن ان کی حفاظت بھی ان کے لیے ایک بڑی مشکل صورت حال بنی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دن بھر اپنے اثاثوں کی فِکر رہتی ہے اور رات بھر مچھروں سے لڑنا پڑتا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے ملیریا اور ڈینگی کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں ، لیکن اس کی کسی کو فکر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روٹی کے ایک نوالے اور پانی کے ایک گھونٹ کے لیے دن بھر مارے مارے پھرنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ روز بیت المال اسکول میں کنگ سلمان فاونڈیشن کی طرف سے امدادی راشن اور مچھر دانی تقسیم کیا گیا، جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور بارش میں سامان تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم دوسرے روز کسی نے یہ خبر اڑا دیں کہ اس سامان میں سے حصہ جو کہ بچ گیا تھا۔ 

آج دوبارہ دیا جائے گا اور پھر کیا تھا کہ دیکھتے دیکھتے سینکڑوں خواتین بزرگ نوجوان وہاں پر جمع ہوئے اور انہوں نے راشن اور امدادی سامان کا مطالبہ کیا، جس پر بیت المال کی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ گزشتہ روز جو سامان تقسیم ہوا اس میں سے کچھ بھی نہیں بچا ہے، لیکن متاثر نے بارش اصرار کرتے رہے اور بعد ازاں بعد گرمی اور نعرے بازی پر پہنچیں، اسی اثنا میں انتظامیہ کی جانب سے پولیس طلب کرلی گئیں اور ان افراد کو بیت المال اسکول کے احاطے سے نکالا گیا، جب کہ اس سلسلے میں متاثرین بارش کا کہنا تھا کہ سندھ کے کھانے پڑگئے ہیں، ہمارے بچے بھوکے ہی رہے ہیں اور انہیں دھکے دیے جا رہے ہیں۔

اُدھر بارش متاثرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ قدرتی آفت نے بھی ظالم لوگوں کی فطرت نہیں بدلی اور بچیوں کی عزت لوٹنے کے واقعات ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ پردہ ختم ہوگیا اور ہماری جوان بچیاں اور خواتین کُھلے آسمان تلے سڑک کنارے یا نہروں کے پشتوں پر بیٹھی ہیں، جہاں پر پردہ کرنا ممکن نہیں اور ایسے میں شیطان صفت لوگوں کی چیرہ دستیاں بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ روز ایک انتہائی شرم ناک منظر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک خاتون ٹینٹ سٹی میں دہائی دیتی نظر آئیں۔ اس کا کہنا تھا کہ علاقے کے ایک بااثر شخص نے اپنے گماشتے کو وہاں بھیجا اور اس کے فون سے ان سے بات کرائی، جس میں انہیں کہا کہ وہ اکیلے میں ملے۔ 

اس کی مدد کی جائے گی، اس خاتون کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمیں قدرتی آفت نے برباد کیا اور اب ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر یہ جنسی بھیڑیے ہماری عزت لوٹنا چاہتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے بار بار مجبور کیا گیا کہ وہ اکیلے ملے تو اس کی مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھوک برداشت کر لیں گی، لیکن بےغیرتی کی زندگی برداشت نہیں کریں گی اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس خاتون نے ہمت کی اور اس طبقے کو جو کہ بااثر اور سرکردہ شمار کیا جاتا ہے، اس کی شیطانیت ظاہر کیا، لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ حکومتی سطح پر اگر اسی طرح کی سردمہری جاری رہی اورلاکھوں افراد کی آباد کاری کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، تو بہت سے انسانی المیے رونما ہوسکتے ہیں۔ 

ادھر نواب شاہ شہر میں جرائم کی شرح میں اچانک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ایک ہی دن میں کئی کئی موٹر سائیکل چوری کر لی جاتی ہیں اور اس کے علاوہ دکانوں کے تالے توڑ کر چوریاں عام بات ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایئرپورٹ تھانہ کی حدود میں واقع شہر کے گنجان آباد محلوں منو آباد اور پاک کالونی میں گھروں کے باہر کھڑی کئی موٹر سائیکلیں تالے توڑ کر چوری کرلی گئی ہیں، جب کہ موٹرسائیکل چھیننے کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے علاوہ اسلحہ کے زور پر موبائل اور نقدی چھینے کی وارداتیں بھی بڑھتی جا رہی ہے، گو کہ پولیس نے اپنی کارکردگی بھی دکھانے کے لیے گزشتہ روز ڈی ایس پی حبیب لاشاری نے اپنے آفس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے موٹرسائیکل چوروں کے ایک گروہ کو گرفتار کرکے،23 موٹر سائیکل برآمد کی ہیں ، لیکن ان میں صرف تین موٹر سائیکل صحیح حالت میں تھیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید