گزشتہ چاربرسوں کے دوران سندھ میں5 آئی جی سندھ تبدیل ہوئے، ہر آئی جی کی روایتی پولیسنگ کے ساتھ اپنی پالیسی بھی ہوتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سابقہ آئی جی کی اگر بہتر پالیسی بھی ہو تو، نیا آنے والا آئی جی اس تسلسل کو برقرار نہیں رکھتا۔ سابق آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سے سندھ میں ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کو سرنڈر کرانے کے لیے ایک پالیسی ’’سرینڈر فار جسٹس پالیسی‘‘ متعارف کرائی، جس کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے، لیکن ان کی تبدیلی کے بعد نئے آنے والے پولیس چیف نے اس پالیسی کو ختم کردیا۔
سابقہ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے سندھ میں نوجوان نسل کو نقصان پہنچانے والے گٹکا ماواو پان پراگ کے خاتمے کے لیے پالیسی مرتب کی، جس میں مختلف اچھی شہرت کے ایس ایس پی سطح کے پورے سندھ میں کاروائیوں کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں، لیکن موجودہ پولیس چیف نے اس پالیسی کو نظر انداز کرکے اپنا 14 یا 18 نکاتی ایجنڈا متعارف کرایا۔
غرض کہ ہر پولیس چیف کی اپنی پالیسی ہوتی ہے اور سب کی کوشش پولیس کی بہتری اور سسٹم کو پہلے سے اپ گریڈ کرنا ہوتا ہے ، ایسا ممکن کیوں نہیں ہوتا کہ اگر کسی سابق آئی جی کی بہتر پالیسی ہے، تو اس کو برقرار رکھا جائے، اب اگر ہم بات کریں سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کے تو ان کے صبح 9 بجے افسران کو دفتر میں کال کرنے کا مقصد روزانہ کی بنیاد پر قیام امن کو برقرار رکھنا اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاون تھا۔
ٹیلی فون کال نہ آجائے، اس لیے ایس ایس پیز اپنے دفتر میں موجود رہتے تھے اور ماتحت افسران بھی تھانوں اور دفاتر میں الرٹ ہوتے تھے، اب اکثر اضلاع میں پولیس افسران 12 بجے کے بعد آتے ہیں تو ماتحت عملہ بھی ویسے ہی چلتا ہے اورجو لوگ کام کاج کے سلسلے میں آتے ہیں ، انہیں صاحب کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جب کہ اہم ترین سی آر آئی سسٹم 4 سال سے غیر فعال ہے ،جس کے باعث خطیر رقم سے تھانوں پر لگائی گئی، ڈیوائس بھی شاید ناکارہ اور تھانوں پر موجود ہی نہیں ہیں۔ سابق آئی جی سید کلیم امام کی پالیسی کی بات کریں، تو انہوں نے آئی جی سندھ تعیناتی کے دوران سندھ میں جرائم کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کو بِلا معاوضہ قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے لیگل ہیلپ پالیسی کا آغاز کیا تھا۔
پولیس کے اس اقدام کے باعث ابتداء میں ہی بڑے اچھے نتائج ملے کشمور ضلع سے اس کا آغاز کیا گیا اور کشمور سمیت دیگر اضلاع میں ملزمان نے جرائم کی دنیا کو خیر باد کہہ کر خود کو پولیس کے سامنے پیش کردیا تھا، سرینڈر فار جسٹس پالیسی کے تحت بِلا معاوضہ قانونی امداد کی فراہمی کے لیے ریوالونگ فنڈ قائم کیا گیا تھا، آج بھی اس پالیسی پر نظر ثانی یا کوئی اور ایسی پالیسی جو جرائم پیشہ ، اشتہاری اور روپوش ملزمان کو سرینڈر کروائے، اس پر غور کیا جاسکتا ہے، جب یہ لوگ کسی بھی ایسی حکومت یا پولیس کی پالیسی کے تحت سرینڈر کریں گے، تو ان کے اچھا شہری بننے سے خاندان پر مثبت اثرات پڑیں گے اور اشتہاری کچے کی جرائم کی دنیا چھوڑ کر پولیس کے سامنے پیش ہوں گے، تو پولیس کی معاونت سے وہ اپنے مقدمات کا سامنا کرکے جب معاشرے میں آئیں گے، تو یقینی طور پر ایک اچھا شہری بن کر آئیں گے۔ اس سے جرائم کی دنیا ویرانی کی طرف جائے گی۔
اس طرح پولیس مزید بہتر انداز میں عوام کی خدمت کرسکے گی جو بھی اشتہاری ملزم خود کو پولیس کے حوالے کرے ان کی قانونی معاونت کی جائے۔ پولیس کی جانب سے نہ صرف وکیل کا انتظام کیا جائے گا، بلکہ غریب ہونے کی صورت میں ان کی مالی مدد بھی کی جائے، اس طرح کی پالیسی سے اشتہاریوں کی تعداد اور جرائم میں کمی کے ساتھ پولیس کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ ان کی اس پالیسی کو تبادلے کے بعد آنے والے آئی جی سندھ نے نظر انداز کردیا، اب بھی بعض ایسے افسران ہیں، جو رضاکارانہ سرینڈر کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔
ڈی آئی جی سکھر جاوید سونھارو جسکانی نے بھی اپنے عہدے کا چارج سمنھال کر یہ پیغام عام کیا کہ ڈاکو جرائم پیشہ عناصر روپوش اشتہاری سرینڈر کردیں، پولیس کوئی زیادتی نہیں کرے گی اور انہیں قانون کے مطابق مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا، اس طرح وہ اپنی بہتر زندگی کے ساتھ اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں۔ یہ ڈی آئی جی سکھر کا خوش آئند اقدام ہے ، لیکن اس حوالے سے پولیس چیف اگر صوبائی سطح پر کوئی پالیسی کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو ضرور اس کے مثبت نتائج ملنے کا امکان ہے۔
سماجی برائیوں منشیات خاص طور پر نوجوان نسل کو تباہی سے دوچار کرنے والے گٹکا اور ماوا چھالیہ سمیت نشہ آور مصنوعات کی تیاری خرید و فروخت اور استعمال کے خلاف کارروائی کے لیے سابق آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے بیڑہ اٹھایا تھا اور ایسی پالیسی مرتب کی تھی ، جو اس گھناونے دھندے کی نا صرف روک تھام بلکہ خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے ، اس پالیسی کے تحت ان عناصر پر کاری ضرب لگانے کے لیے ایس ایس پی سطح کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں، جو کسی دوسرے دو اضلاع میں کارروائی کریں۔
پولیس کے مطابق کریک ڈاون کے لیے اسپیشل برانچ اور وفاقی ادارے کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں اور اس گھناؤنے دھندے میں ملوث عناصر اور ان کی سرپرستی کرنے والے پولیس سے وابستہ افراد کی فہرستیں مرتب کی گئیں اور سب سے خاص بات یہ کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات بہتر کمانڈ کے حامل پولیس افسران کی خدمات حاصل لی گئیں، جس طرح ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کو نواب شاہ اور دادو ضلع سپرد کیا گیا تھا۔
اسی طرح مختلف ایس ایس پیز کو دو دو اضلاع دیے گئے کہ وہ ان اضلاع میں کارروائیاں کریں گے، جس کا مقصد اس ناسور کو معاشرے سے ختم کرنا تھا، ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کی ٹیم نے دادو اور نواب شاہ میں تین سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریوں گوداموں پر چھاپے مارے اور بھاری مقدار میں یہ نشہ آور تیار گٹکا، ماوا اور اس میں استعمال ہونے والا سامان برآمد کرلیا۔ یہ بھی بہتر حکمت عملی تھی، لیکن اس کو بھی شاید نظر انداز کرکے اس حوالے سے کوئی نئی پالیسی جو 14 یا 18 نکاتی ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس کے تحت پولیس کارروائیاں کرے گی ۔
موجودہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا شمار پاکستان پولیس سروس کے بہترین صفِ اول کے پولیس افسران میں کیا جاتا ہے، وہ ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور ایک مثالی امن و امان قائم کرنے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے بطور ایس ایس پی خیرپور سمیت مختلف اضلاع میں اپنی تعیناتی کے دوران ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف متعدد کام یاب اور قابل تحسین آپریشن کیے، لیکن آئی جی کے طور پر تعیناتی کے بعد جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں باعث تشویش ہیں، آخر ایسا کیوں ہے، کیوں کہ صرف کراچی ہی نہیں، دیگر شہروں میں جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اگر سکھر کی بات کی جائے، تو سکھر میں چوری ڈکیتی لوٹ مار اغوا برائے تاوان کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں، کہیں کسی سے موٹر سائیکل نقدی موبائل اسلحے کے زور پر چھین لی گئی، تو کہیں گھر دفاتر اور اسپتال کے باہر کھڑی موٹر سائکل چرا کر چور رفوچکر ہوگئے، کہیں کسی کو لاکھوں روپے مالیت کے مویشیوں سے محروم کردیا گیا، تو کسی علاقے میں ڈاکوؤں نے دن دیہاڑے ایک شہری سے اسلحے کے زور پر تین لاکھ روپے لوٹ لیے ،جب کہ لوگوں سے موبائل فونز، نقدی چھینے یا چوری کے واقعات معمول کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اکثر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ، لیکن پولیس ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا الاگ لاپ رہی ہے، جب کہ اگر معاشرتی برائیوں منشیات فروشوں کی بات کی جائے، تو پولیس کی کارروائیاں سامنے آتی ہیں، لیکن اس کے باوجود شہر سمیت ضلع بھر میں گٹکا، پان پراگ، ماوا اور دیگر نشہ آور مصنوعات کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور شہر کے بعض علاقوں میں نشہ آور گٹکا پان پراک فروخت کرنے والوں کی دکان پر بعض پولیس افسر یا اہل کار بھی بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، جس سے شہر میں یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ فلاں کو پولیس کی سپورٹ حاصل ہے۔
آئی جی سندھ کے ایجنڈے میں خاص طور پر پان پراگ، چھالیہ ، گٹکے ماوا اور دیگر نشہ آور مصنوعات کے خاتمے کی واضح ہدایات شامل ہیں، لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ پولیس کو سب کچھ معلوم ہونے اور نظر آنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ کارروائی کا نہ ہونا، پولیس چیف کے احکامات اور پولیس کی کارکردگی پر سوال ہے، کیوں کہ شہر کے تھانوں پر ہیڈ محرر کئی کئی سالوں سے تعینات ہیں، جن کا تبادلہ نہیں ہوتا، یا ہو نہیں سکتا، لیکن صورت حال سے پولیس مکمل باخبر ہے۔