• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کے قاتلوں سے مذاکرات کیوں، کس نے اجازت دی، جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سوات میں بچوں کے قاتلوں سے مذاکرات کیوں ، کس نے اجازت دی ، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ججوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسران کو کاریں دینا بند کردیں، اور وہ پیسہ سائیکل کے راستوں، پیدل چلنے کے راستوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر خرچ کیا جائے، فیملی پلاننگ کو سسٹم سے نکالنے سے آج ہماری آبادی بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہوگئی ہے،

ہفتے کے روز انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہمیں دنیا کی جانب دیکھنے کی بجائے خود عملی اقدامات کرنے ہوں گے، غریب تو اپنا حصہ ڈال رہا ہے وہ پیدل چلتا ہے یا سائیکل پر سفر کرتا ہے، مغرب نے آج کہا ہے کہ پیدل چلیں اور سائیکل استعمال کریں یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی مدد ہم سب پر فرض ہے، بنیادی حقوق میں سب سے اہم زندگی اور تعلیم کی فراہمی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ان دونوں حقوق پر ہمیشہ ہی حملہ ہوتا رہا ہے ، کئی تعلیمی اداروں کو اڑاہی دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک میں قلم اور علم کی بات کی گئی ہے، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل بھی یہاں مسئلہ ہے، ہمارا ایمان عورتوں کی عزت کا درس دیتا ہے، قرآن میں بھی عورت کے احترام کا حکم دیا ہے،انہوں نے کہاکہ آئین کے تحت عدلیہ کو بڑی مقدس ذمہ داری دی گئی ہے، ایک جج کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان شہری کی حیثیت سے بات کروں گا، نبی پاکﷺ کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا مسائل کی وجہ ہے۔

کانفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسی سے سوال پوچھا گیا کہ جی ایچ کیو میں آئینی و بین الاقوامی مسائل سے متعلق ریسرچ اینڈ لیگل لاء ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا ہے، عدلیہ ان سے کوآرڈینیشن کیوں نہیں کر رہی ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ فوج نے ایسا کوئی ادارہ قائم کیا ہے، اگر وہ چاہیں تو میں انھیں یہ کوآرڈینیشن دینے کیلئے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ آئینی یا بین الاقوامی ایشوز سے متعلق کوآرڈینیشن چاہتے ہیں تو مجھے یا کسی کو بھی دعوت دے سکتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید