اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی پانچ سال بعد اپنے وطن واپسی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ملک کی معیشت سیلاب کی تباہ کاریوں جیسی صورتحال پیش کر رہی ہے اور اصلاح احوال کی تمام کوششوں اور اقدامات سے مطلوبہ نتائج کی بجائے، ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق صورتحال مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔
موجودہ حکومت اور مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو آئی ایم ایف کی نظرکرم کو ہی تمام مشکلات کا نجات دہندہ سمجھ رہے تھے لیکن اس کے باوجود نہ تو ڈالر نیچے آیا اور نہ ہی پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوئی بلکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
اس طرح آئی ایم ایف کو آخری امید سمجھنے والے بھی مایوس ہوگئے اور یہ تمام صورتحال مصائب و آلام کی شکل میں عام آدمی کی زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے اب موجودہ حکومت نے تمام امیدیں اور توقعات اسحاق ڈار سے وابستہ کرلی ہیں جو پاکستان میں اپنی اولین مصروفیات کے طور پر پہلے سینٹ کے اجلاس میں اپنی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلاتاخیر وزیر خزانہ کا حلف بھی اٹھا لیں جس کے فوری بعد ہی ان کی آزمائش اور توقعات پر پورا اترنے کا مرحلہ شروع ہوجائے گا اور کائونٹ ڈائون بھی جس میں روزانہ کی بنیاد پر ان کی صلاحیتوں کو جانچا جائے گا۔
ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہ تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ روپے کی قدر میں فوری اضافہ ہوگا اور ڈالر نیچے آئے گا جیسا کہ پیر کو ان کی یقینی وطن واپسی اور آمد سے قبل ہی انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں 3 روپے 65 پیسے کی کمی ہوگئی اور روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جسے بالخصوص منی چینجرز ’’پاکستانی روپے کی اسحاق ڈار کو سلامی‘‘ جیسے جملوں سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن ان کے اقدامات کے فوری نتائج کیساتھ ساتھ ملکی معیشت کی بحالی کے دور رس نتائج بھی ضروری ہیں۔
پھر خودساختہ جلاوطنی کے پانچ سال بعد نئے وزیر خزانہ کو پاکستان میں جلسے جلوسوں کی سیاست اور مزاحمت کا سامنا بھی ہوگا جو حکومت کی رخصتی اور نئے الیکشن کے مطالبات کا نعرہ لیکر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہے ہیں اور ان کیخلاف فضا بنانے میں مصروف ہیں لیکن یہاں یہ بات ’’سیاسی علامت‘‘ کے حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ اسحاق ڈار کی پاکستان آمد اور ان کا وزیر خزانہ بنائے جانا اس تاثر کو ایک جاندار تقویت دیتا ہے کہ نہ تو ملک میں قبل ازوقت انتخابات ہو رہے ہیں اورنہ ہی حکومت کہیں جارہی ہے بلکہ وقت مقررہ پر انتخابات کرانے اور اس سے پہلے حالات کو اپنے حق میں لانے کیلئے موجودہ حکومت پرعزم انداز سے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔