• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی فیشن انڈسٹری کا مجموعی حجم تین ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے جو تین ارب 38 کروڑ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ تاہم عالمی فیشن انڈسٹری میں پاکستان کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کی فیشن انڈسٹری تاحال تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک محدود ہے جبکہ زیادہ تر فیشن ڈیزائنرز بھی مقامی شوبز انڈسٹری کے لئے کام تک محدود ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی گرمیوں کےلان سیزن پر انحصار کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے جبکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے شعبے میں بھی ہماری ترجیحات چند مخصوص مصنوعات اور شعبوں تک محدود ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے بہت کم برانڈز ایسے ہیں جنہوں نے خود کو عالمی مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے۔ اس حوالے سے اگر انڈسٹری میں کچھ برانڈز نے کام کیا ہے تو ان کی رسائی بھی مڈل ایسٹ کی مارکیٹ تک محدود ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں فیشن انڈسٹری کو تاحال ایک صنعت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے اس شعبے میں آنے والے زیادہ تر افراد اسے بطور پروفیشن اپنانے کی بجائے شوق کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایسی باصلاحیت افرادی قوت کی تیاری کے ذرائع بھی انتہائی محدود ہیں جو کہ عالمی معیار کے مطابق فیشن انڈسٹری کے مختلف شعبوں کیلئے مصنوعات کی ڈیزائننگ، تیاری اورمارکیٹنگ کے لئے ضروری ہیں۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ فیشن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اشتراک سے پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں ہمارا حصہ پانچ سے سات فیصد تک محدود ہے۔علاوہ ازیں ہمیں ٹیکسٹائل برآمدات میں نیٹ وئیر، اپیرل اور اسپیشلائزڈ فیبرک کا شیئر بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل میڈاَپس کی برآمدات میں ہوزری نیٹ وئیر کاحصہ 37فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس کا 29فیصد اور بیڈ وئیر کا حصہ 24 فیصد ہے ۔ اس لئے اگر ہم اپنے ڈیزائنز میں جدت اور میٹریل میں بہتری لانے کے لئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کرنے کے علاوہ فیشن انڈسٹری کو فروغ دیں تو برآمدات کا حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی ویلیو میں اضافہ کر کے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس طرح اگر پاکستان اسپیشلائزڈ فیبرک یا مصنوعات تیار کر رہا ہو گا تو کساد بازاری یا دیگر وجوہات کے باوجود پاکستان کی ایکسپورٹس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گی۔ صدرمملکت عارف علوی نے اسی تناظر میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کو کلیدی کردار ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلے میں رواں ماہ صدر مملکت کی سربراہی میں ہونے والےایک اہم اجلاس میں راقم کو بھی مدعو کیا گیا، بطور اسٹیک ہولڈر مجھے یہ دیکھ کر انتہائی اطمینان ہوا کہ ریاست کے سب سے اعلیٰ عہدیدار کو نہ صرف اس شعبے کی اہمیت کا اندازہ ہے بلکہ وہ اس کی سرپرستی کیلئے بھی پوری دلجمعی سے مصروف عمل ہیں۔ اس اجلاس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یونیورسٹی انتظامیہ کو آرٹ اور ڈیزائن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے نامور افراد سے رابطے بڑھانے کی ہدایت کی تاکہ ماہرین کے علم اور تجربات کی مدد سے طلباء کے سیکھنے کی رفتار کو مزید تیز کیا جا سکے۔انہوں نے فیشن ڈیزائننگ اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں میں نجی شعبے کے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کیساتھ قریبی روابط پیدا کرنےپر بھی زور دیا تاکہ ملکی مصنوعات کے معیار اور قدر میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے انسٹیٹیو ٹ کے متعلقہ صنعتوں اور کاروباری اداروں سے جوائنٹ وینچرز کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ واضح رہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن سرکاری شعبے کا اہم ادارہ ہے، جہاں اس وقت فیشن ڈیزائننگ ، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ، جیولری ڈیزائننگ، جیمالوجیکل سائنس، فرنیچر ڈیزائننگ، مینوفیکچرنگ، چمڑے کی اشیا، جوتے بنانے ، فیشن مارکیٹنگ سمیت دیگر شعبوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد طلبہ کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ ہمیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ فیصل آباد ایک ٹیکسٹائل سٹی ہے تو یہاں پر عالمی معیار کے مطابق ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فیشن ڈیزائننگ کے اداروں کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں عالمی سطح پر معروف فیشن ڈیزائننگ کے اداروں سے مقامی یونیورسٹیوں کے الحاق اور اشتراکِ کار کو روبۂ عمل لایا جا سکتا ہے جس سے ہمارے طلبہ کو آدھا کورس پاکستان اور آدھا بیرون ملک جا کر مکمل کرنے کا موقع ملے گا اور ان کے پاس انٹرنیشنل ڈگری کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ایکسپوژر بھی ہوگا ۔ اس سلسلے میں پاکستانی فیشن ڈیزائنرز کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لئے اہم نوعیت کے فیشن شوز میں شرکت کے لئے بھی معاونت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ انہیں آرڈرز کے حصول کے لئے عالمی گاہکوں سے تعلق استوار کرنے کا موقع مل سکے ۔اس سلسلے میں بزنس کمیونٹی کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت معاونت فراہم کر سکتی ہے لیکن جب تک نجی شعبہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری نہیں کرے گا،فوری نتائج کا حصول ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کی طرز پر الگ فنڈ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ فیشن انڈسٹری کے فروغ سے نہ صرف ملک میں خواتین اور نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ اس سے معاشرے میں برداشت اور رواداری کے کلچر کو بھی فروغ ملے گا اور عالمی سطح پر اسے پاکستان کی مثبت شناخت پیش کرنے کے لئے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

تازہ ترین