• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک ایسے نازک دوراہے سے گزر رہا ہے جہاں آئے روزہمیں کسی نہ کسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اب وہ بحران قدرتی آفات کی وجہ سے ہو یا انسانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہو،اسکا منفی اثر ملک کی معیشت پر پڑتا ہے اور پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آزادی کے75 سالہ دور میں ہمارے حکمرانوں اور عوام کا خود کا قصور ہے کہ ہم نے کبھی اپنی ترجیحات میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مقدم نہیں رکھا،مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو کہ آفات کے وقوع پذیر ہونے کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان کے بعد حکمت عملی بناتے ہیں۔ آج بھی ہم پاکستان کے اندر کبھی برسات آنے کی وجہ سے ڈوب جاتے ہیں اور کبھی برسات نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ جاتے ہیں۔ زیادہ بارشوں کا ہونا دنیا کو درپیش موسمیاتی تغیرات کا ایک بھیانک نتیجہ ہے لیکن اگر ہم اپنے آس پاس نظر ڈالیں تو باقی ممالک اس طرح سے متاثر نہیں ہوئے جس طرح کی خوفناک صورتحال کا سامنا ہمیں کرنا پڑا ہے، افغانستان جیسے ملک میں بھی پانی میں پھنسے لوگوں کو بچا لیا گیا،بھارت نے ڈیم بنا کر پانی کے ذخائر محفوظ کرلیے ہیں، راجستھان جیسے خشک علاقے میں نہروں کاجال بچھا کر سرسبز کردیا گیا ہے، بنگلہ دیش جو کسی زمانے میں بدترین سیلاب کا نشانہ بنتا تھا،آج ہمیں امداد دینے کا اعلان کررہا ہے ۔حالیہ سیلاب کے دوران مختلف علاقوں میں پانی میں پھنسے لوگوں کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں لیکن کوئی حکومتی ادارہ ریسکیو کیلئے نہیں آسکاکیونکہ ہم نے ریسکیو کو بدقسمت لوگوں کی لاشیں نکالنے کا کام سمجھ رکھا ہے۔ ہم بھی اگر دیگر ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دریاؤں کے پانی کیلئے جو شمالی علاقوں سے نکلتے ہوئے سندھ سمیت مختلف علاقوں سے گزرتا ہے،کو خدا کی ایک عظیم رحمت سمجھتے ہوئے درست پلاننگ کرتے تو آج یوں تباہی نہ ہوتی بلکہ تھرپارکر جیسے علاقے بھی گل و گلزار ہوتے ۔ افسوس، ہم نے پانی کے ان صدیوں پرانے راستوں پر بھی تعمیرات قائم کرلیں جسکا قبضہ چھڑانے کیلئے پانی کو خود ایکشن میں آنا پڑا۔ ہم نے نہ کبھی اپنے لوگوں کو سمجھایاجو پانی کے راستے پر رہتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی خودسمجھ میں آیاکہ یہاں کبھی کوئی آفت بھی آسکتی ہے۔ پاکستان پچھلے دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے شدید ممالک کی فہرست میں شامل ہے، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے اثر انداز ہونے ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے،عالمی ماہرین نے بار ہا پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی ، تیزی سے بڑھتی آبادی اور عدم شجر کاری کے نقصانات سے آگاہ بھی کیا، لیکن کسی بھی برسر اقتدار حکومت نے اس جانب کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نے 2005 کے زلزلے سے، 2010 کے سیلاب سے بھی کچھ نہ سیکھا، جس کا خمیازہ ہمیں 2022 کی طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں بھگتنا پڑا اور مستقبل میں بھی ناگہانی آفات کے خطرات ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں چین کی جانب سے عالمی ترقیاتی اقدام کا ایک پروگرام تجویز کیا گیا ، گوکہ عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کے حل کیلئے دنیا کے کافی ممالک متفق ہیں لیکن مستقبل قریب میں عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی کشیدگیاں کسی بھی قدرتی آفات سے بڑی آفات کا باعث بن سکتی ہیں، ورلڈ فوڈ پروگرام کی 2022 کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح کے چھ بڑے تنازعات مستقبل میں بہت بڑے بحرانوں کا سبب بن سکتے ہیں،ان بین الاقوامی تنازعات کے نتائج اتنی سنگین نوعیت کے ہو سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کی بڑی آبادی کو خوراک کی قلت ،پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور بجلی و توانائی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یوکرائن روس تنازع نے پہلے ہی یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، اسی طرح سفارتی سطح پردنیا ایک نئی سرد جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں ماضی کی طرح کچھ ممالک روس کی حمایت کررہے ہیں تو امریکہ اور مغربی ممالک کا بلاک یوکرائن کا ہمنوا ہے۔ تائیوان کے ایشو پر چین اور امریکہ کے مابین کشیدگیوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، ایک ذرا سی غلطی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔میری نظر میں آج پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے اہم ترین قومی مفادکو ترجیح دینا ہے،اگرچہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں اپنے بیشتر معاملات میں خودمختار ہیں لیکن ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے ہمیں بھی ترقی یافتہ قوموں کی طرح پہلے سے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔ ہم پہلے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور آفت آنے کے بعد باہرکشکول لیکرامدادکیلئے گھومتے ہیں ، ہم اپنے ملک کی خودمختاری کی بات ضرورکرتے ہیں لیکن اپنی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے بیرونی اثرورسوخ قبول کرنے پر مجبور ہیں، ہماری معیشت کا دارومدار آئی ایم ایف سمیت غیرملکی قرضوں پر ہے،گزشتہ ماہ ہم نے آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی دھوم دھام سے منائی ہے لیکن مجھے خوشی ہوتی کہ اگرہمارے حکمرانوں کی طرف سے قومی ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک ایسا روڈ میپ دیا جاتا جیسا سرحد پار نریندر مودی نے بھارت میں دیا۔ میری تجویز ہے کہ حکومتی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ایک ایسی باقاعدہ فورس بنائی جائے جو مشکلات میں گھرے لوگوں کو بروقت زندہ سلامت ریسکیو کرسکے، ہیلی کاپٹرز ، کشتیوں اور دیگر جدید لائف سیونگ آلات سے آراستہ تربیت یافتہ افرادی قوت پر مشتمل فورس قدرتی ریلیف اور خوراک کی فراہمی بھی یقینی بنائے،میری اطلاعات کے مطابق پڑوسی ملک نے اپنی فوج سے ایک بریگیڈ الگ کر کے اسکو باقاعدہ ایک ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس میں تبدیل کردیاہے،آج اکیسویں صدی میں پاکستان کو دہشت گردی سے کہیں زیادہ بڑا حقیقی خطرہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب ، زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں درپیش ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین