کراچی میں جو تاریخی اہمیت کا حامل خوبصورت دلکش اور وسیع عمارتیں موجود ہیں ان میں ایک انتہائی اہم عمارت گورنر ہاؤس کراچی ہے، یہ عمارت کراچی کے مشہور پولو گراؤنڈ پارک کے برابر اور ایوان صدر روڈ پر واقع ہے، گو کہ حفاظتی نقطہ نظر سے عام لوگ اس عمارت میں داخل نہیں ہوسکتے لیکن باہر سے ہی دیکھنے سے عمارت کے خدوخال، طرز تعمیر اور اس کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس عمارت میں سندھ کے گورنر کا دفتر اور سرکاری رہائش گاہ ہوتی ہے، اس وقت عمارت کے چار دروازے ہیں، پہلے مرکزی دروازہ ہولی ٹرینٹی چرچ کے بالمقابل عبداللہ ہارون روڈ پر واقع تھا لیکن اب مرکزی دروازہ ایوان صدر روڈ پر ہے، گورنر ہاؤس کے چاروں جانب ایک بلند حفاظتی دیوار درختوں سے گھری ہوئی ہے، اس عمارت کی تعمیر میں ڈریسڈ گذری اسٹون استعمال ہوا جبکہ بنیاد کے لئے ڈھول پور لایا گیا پتھر استعمال ہوا ، دیگر تعمیرات مقامی پتھر اور ہندوستانی سیمنٹ کے ذریعے کی گئیں، دہلی سے تعلق رکھنے والے ممتاز مالی گرینڈل نے انتہائی مہارت سے تیار کئے، دو منزلہ عمارت کو ڈریسڈ اسٹون اور آر سی سی بیم اور سلیب کے ذریعے مضبوط بنایا گیا ہے، 32 ایکڑ اراضی پر محیط اس وسیع و عریض عمارت کے عین درمیان میں انگریزی حروف یو کی شکل میں ایک شاندار مینشن بھی تعمیر کیا گیا۔
سر چارلس نیپیئر نے 1843ء میں اس عمارت کی تعمیر جس جگہ شروع کی اس وقت یہ جگہ ملٹری کیمپ کی مرکزی سڑک وکٹوریہ اسٹریٹ پر واقع تھی جس کا تذکرہ عمارت کے پورچ پر نصب سنگ مرمر کی تختی پر ملتا ہے جہاں یہ لکھا ہے کہ ”یہ عمارت سندھ کے فاتح اور گورنر سندھ سر چارلس نیپیئر نے تعمیر کی،شروع میں یہ ایک منزلہ عمارت تھی، چارلس نیپیئر کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے اس جائیداد کو کمشنر سندھ کی رہائش گاہ کے لئے 4 ہزار 800 میں خرید لیا، سندھ کا بمبئی کے ساتھ الحاق ہوا اور سندھ کمشنر تعینات کئے جانے لگے تو ان کی رہائش کے لئے بھی یہ عمارت استعمال ہونے لگی بعد میں یہ گورنرز کی رہائش گاہ کے لئے مختص کردی گئی۔
جس جگہ آج گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس اور چیف سیکریٹری ہاؤس ہیں، وہ بعد میں سول لائنز کہلائی اور شروع سے ہی یہ اراضی برطانوی افسران کے تصرف میں رہی، بعض جگہوں پر سرکاری دفاتر بھی بنے مگر زیادہ تر نجی شعبے کے زیر استعمال رہی جن میں بیشتر پارسی برادری کے کاروباری لوگ شامل تھے، یہ حکومت کے مختلف محکموں میں بطور کنٹریکٹر کام کرتے تھے، اطراف کے علاقے میں برنٹن، سنی سائٹ اور بیل گریو روڈز پر سرکاری افسران نے اپنی رہائش گاہیں بنائیں، اس علاقے میں رہنے والے زیادہ تر افسران کلکٹر یا ڈسٹرکٹ جج، اسسٹنٹ جوڈیشل کمشنر، اسسٹنٹ ریونیو کمشنر، ڈپٹی کلکٹر وغیرہ تھے جبکہ کمشنر گورنمنٹ ہاؤس میں مقیم رہے جسے قبل ازیں سر چارلس نیپیئر نے اپنے استعمال میں رکھا تھا، 1856ء میں سندھ کے کمشنر جان جیکب نے گورنر ہاؤس کے وسطی حصے میں اوپری منزل کا اضافہ کیا، کہا جاتا ہے کہ یہ جیکب آباد میں ان کی اپنی رہائش گاہ کی اوپری منزل سے ملتی جلتی تھی، 1920ء تک اس عمارت کی ساخت میں کوئی اہم تبدیلی نہیں ہوئی تاہم 1906ء میں پرنس اور پرنسز آف ویلزکی آمد کے موقع پر یہاں مکمل طور پر برقی نظام نصب کیا گیا تھا جس میں پنکھوں کی فٹنگ بھی شامل تھی۔
1936ء میں سندھ کے بمبئی سے الگ ہونے اور صوبہ بننے پر یہاں گورنر مقرر کیا گیا اور یہ عمارت صوبے کے گورنر کی سرکاری رہائش گاہ بن گئی، یہاں آنے والے پہلے گورنر سر سرلینس لٹ گراہم تھے جو 1936 ء سے لے کر 31 مارچ 1941 ء تک یہاں مقیم رہے، اسی دوران اس عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا منصوبہ بناکیونکہ سرچارلس نیپیئر کی بنائی ہوئی اصل گورنمنٹ ہاؤس کی عمارت خستہ حالت میں تھی اور محفوظ رہائش نہیں رہی تھی، عمارت کا ڈیزائن انڈیا کی حکومت کے کنسلٹنٹنگ آرکیٹکٹ رابرٹ ٹی رسل (R.T Russel) نے تیار کیاجو ا س سے قبل نئی دہلی میں مشہور کناٹ پیلس اور فلیگ اسٹاف ہاؤس تعمیر کرچکے تھے، اس وقت یہ سوچا گیا کہ یہ نیا گورنمنٹ ہاؤس ایک علیحدہ صوبے کے طور پر سندھ کی آئینی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا کیونکہ اس کے بعد سے ہی برصغیر میں صوبائی خودمختاری کی شروعات ہوئیں، سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب 2نومبر 1939ء کو منعقد ہوئی جس میں شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی موجودگی میں گورنر سندھ لینس لٹ گراہم نے اس کا سنگ بنیاد رکھا، بعدازاں سر ایچ ڈاؤ گورنر بنے اور 14 جنوری 1946ء تک تقریباً پانچ سال یہاں مقیم رہے ان کے بعد فرانسس میوڈی اور قیام پاکستان تک یہاں ٹھہرے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1947ء میں آزادی کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ سر غلام حسین ہدایت اللہ سندھ کے گورنر نامزد ہوئے، انہوں نے سیٹ چھوڑ دی مگر ہارڈلی ہاؤس میں ہی رکنا پسند کیا جو اس وقت وزیراعلیٰ کے طور پر ان کی رہائش گاہ تھی کیونکہ گورنر جنرل ہاؤس قرار پانے کے بعد یہ جگہ گورنر سندھ کے لئے دستیاب نہیں تھی تاہم گورنر جنرل ہاؤس کا یہ اسٹیٹس جلد ہی تبدیل ہوگیا جب 1956ء میں نئے آئین کے تحت سربراہ ریاست گورنر جنرل سے صدر میں تبدیل ہوگیا اور یوں یہ عمارت ایوان صدر بن گئی۔
اس کے بعد دوبارہ تبدیلی آئی اور ملک کا دارالحکومت کراچی سے منتقل ہوگیا اور صدر کو نئے دارالحکومت میں قیام کرنا پڑا لہٰذا اب یہ جگہ ایوان صدر نہیں رہی تھی، ملک کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے ساتھ 14 اکتوبر 1955 ء کو مغربی پاکستان ون یونٹ قرار دیا گیا اور اس کے نتیجے میں تمام صوبے اور علاقے ایک انتظامی یونٹ کے تحت آگئے جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا لہٰذا گورنر اور وزیراعلیٰ مغربی پاکستان لاہور میں مقیم رہے اور 1960ء میں دارالحکومت کے راولپنڈی منتقل ہونے کے بعد کراچی میں اس تاریخی گورنمنٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کے لئے کوئی وی وی آئی پی شخصیت نہیں رہی تھی۔ 1970 ء میں ون یونٹ کے خاتمے پر صوبہ سندھ کو بحال کردیا گیا اور یہ عمارت گورنر ہاؤس بن گئی اور اس طرح ایک بار پھر اسی جگہ واپس آگئی جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
گورنر ہاؤس کی اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پہلے سے موجود عمارت انتہائی خستہ حال ہونے کے باعث قابلِ استعمال نہیں رہی تھی۔ نئی عمارت کی تعمیر کا سنگِ بنیاد سندھ کے پہلے گورنر جنرل سر لینس لٹ گراہم (Lancelot Graham) نے رکھا اور 1939ء میں اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ سر گراہم کے بعد آنے والے سندھ کے گورنر جن میں سر ہیوڈاؤ (1941-1946) اور سر فرانسس میوڈی (1946-1947) شامل تھے اسی عمارت میں مقیم رہے۔
یہ عمارت تین حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ رائل سوٹ(Royal Suite) کہلاتا ہے جو ملک کے سربراہ اور دیگر اہم شخصیات کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی حصے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح بھی رہائش پذیر رہ چکی ہیں، پہلی منزل پر دربار ہال واقع ہے اس ہال میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور حکومت کے وزراء، مشیران اور معاونین کی حلف برداری کی تقریبات بھی اسی دربار ہال میں منعقد ہوتی ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے 23 مارچ کے دن حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف شخصیات کے لئے اعلان کردہ سول ایوارڈ بھی اسی دربار ہال میں دیئے جاتے ہیں، پریس کانفرنس اور میڈیا سے براہ راست گفتگو بھی یہی کی جاتی ہے، اسی دربار ہال کی تاریخی شاہی نشست شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم کے لئے تعمیر کی گئی تھی جب انہوں نے 1876 ء میں پرنس آف ویلز کی حیثیت سے کراچی کا دورہ کیا تھا، 1911ء میں یہ نشست ملکہ میری کے بھی زیر استعمال رہی۔
اگست1947ء میں پاکستان کی آزادی اور کراچی کے دارالحکومت بننے کے بعد یہ عمارت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ بن گئی۔ اسی عمارت میں قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ اس وقت سے یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس کہلائی اور قائد اعظم کے بعد آنے والے پاکستان کے تمام گورنر جنرلز کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوئی۔ قائداعظم ستمبر1948ء میں اپنی وفات تک اس عمارت میں مقیم رہے۔1956ء میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے اسے صدرِ پاکستان سے بدل دیا گیا اور یوں ملک کے آخری گورنر جنرل اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔
اس کے بعد سے یہ عمارت ایوانِ صدر بن گئی۔ 1970ء کی دہائی تک کراچی پاکستان کا دارالخلافہ نہیں رہا تھا اور وفاقی حکومت اسلام آباد منتقل ہوگئی تھی۔ چنانچہ ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کی بحالی کے بعد کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت قرار پایا اور یہ عمارت جولائی 1970 ء سے تاحال گورنر ہاؤس کہلاتی ہے۔ 1962ء میں ملکہ الزبتھ نے کراچی کا دورہ کیا تو ان کی رہائش کے لئے گورنر ہاؤس میں خصوصی انتظامات کئے گئے اور دو ماہ کی مسلسل تزئین و آرائش کے بعد ان کے رہائش کے لئے ایک علیحدہ کمرہ تیار کیا گیا اس کمرے میں تمام جدید سہولتیں فراہم کی گئیں تاکہ ملکہ عالیہ انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہوسکیں۔
ان کے ساتھ آنے والے اسٹاف اور دیگر افراد کے لئے بھی رہائش کے خاص انتظامات کئے گئے، ملکہ عالیہ کے اعزاز میں گورنر ہاؤس کے قریب واقع فریئر ہال میں 2فروری 1961 ء کو شہری استقبالیہ دیا گیا اور انہیں گورنر ہاؤس سے فریئر ہال لانے کے لئے ایک انتہائی شاندار سجی ہوئی بگھی میں فریئر ہال لایا گیا اور یہاں معززین شہر کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا ملکہ نے گورنر ہاؤس میں مختلف میٹنگز میں بھی شرکت کی اور اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔
گورنر صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کی تقرر وزیراعظم پاکستان کرتا ہے، عمومی طور پر یہ ایک رسمی عہدہ ہوتا ہے یعنی گورنر کے پاس وزیراعلیٰ کے مقابلے میں زیادہ اختیارات نہیں ہوتے جبکہ کابینہ کے ارکان، مشیران اور معاونین خصوصی بھی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں تاہم وفاقی سطح کے حوالے سے صوبے کے کچھ اختیارات گورنر کو حاصل ہوتے ہیں، ملک کی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے جب صوبائی گورنروں کو اضافی اور مکمل اختیارات دیئے گئے، خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کردی گئی ہو تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے پاس ہوتے ہیں، 1958ء سے 1972ء اور 1977 ء سے 1985ء کے مارشل لاء کے دوران صوبے کے گورنرز کو وسیع اختیارات حاصل رہے، اسی طرح 1999ء سے 2002ء کے درمیان بھی گورنر راج نافذ ر ہا اور وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کی جگہ تمام تر فیصلے گورنر ہاؤس میں ہوتے رہے، سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ کیا گیا جن کے دوران 1951ء سے 1953 ء کے دوران میاں امین الدین اور پھر اس کے بعد 1988ء میں جنرل رحیم الدین خان گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے اور تمام تر اختیارات انہیں حاصل رہے۔
صوبہ سندھ کے گورنر کی فہرست پر اگر نظر ڈالی جائے، تو سب سے پہلے گورنر شیخ غلام حسین ہدایت اللہ تھے، جنہوں نے 16 اگست 1947ء کو گورنر کا قلمدان سنبھالا، بیگم رعنا لیاقت علی خان وہ واحد خاتون ہیں جو صوبہ سندھ کی 15 فروری 1973ء سے 28 فروری 1976ء تک گورنر کےعہدے پر فائز رہیں، اب تک سب سے زیادہ اس عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز ڈاکٹر عشرت العباد خان کو حاصل رہا جو 27 دسمبر 2002ء سے 9 نومبر 2016 ء تک فرائض انجام دیتے رہے، اب تک 29 شخصیات گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں ان میں جارج بکسنڈال وہ واحد غیر مسلم شخصیت ہیں جنہوں نے 2 مئی 1953 ء سے 12 اگست 1953 ء تک گورنر سندھ کی حیثیت سے متمکن رہے۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی محترمہ شہلا رضا وہ واحد خاتون ہیں جو 9 نومبر سے 11نومبر 2016 ء قائم مقام گورنر رہیں جبکہ آغا سراج درانی اب تک تین مرتبہ قائم مقام گورنر رہ کر ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور آج کل بھی قائم مقام گورنر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، پاکستان کی گزشتہ پچھتر سالہ تاریخ میں صوبہ سندھ میں بالترتیب گورنر سندھ رہنے والی شخصیات میں شیخ غلام حسین ہدایت اللہ، شیخ دین محمد، میاں امین الدین، جارج بکسنڈال، حبیب ابراہیم رحمت اللہ، نواب افتخار حسین، رحمان گل، ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، بیگم رعنا لیاقت علی خان، نواب محمد دلاور خان جی، عبدالقادر شیخ، جنرل ایس ایم عباسی، جنرل جہانداد خان، اشرف ڈبلیو تابانی، جنرل رحیم الدین خان، قدیر الدین احمد، فخر الدین جی ابراہیم، محمود اے ہارون، حکیم محمد سعید، کمال اظفر، جنرل معین الدین حیدر، ممنون حسین، عظیم داؤد پوتہ، محمد میاں سومرو، ڈاکٹر عشرت العباد خان، چیف جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی، محمد زبیر اور عمران اسماعیل شامل ہیں۔ محمود اے ہارون اس فہرست میں وہ واحد شخصیت ہیں جو دو مرتبہ گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہے، پہلی مرتبہ 6 اگست 1990ء سے 18 جولائی 1993ء تک جبکہ دوسری مرتبہ 23 جنوری 1994 ء سے 21 مئی 1995 ء تک گورنر رہے۔
گورنر ہاؤس کی عمارت کے مکین بدلتے رہتے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر اس عمارت میں مقیم ہونے والے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔