• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیّد اقبال حیدر۔۔فرینکفرٹ
پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں سے پانی تو آہستہ آہستہ اترنا شروع ہوگیا ہے مگر سیلابی ریلوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں جوخطرناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے وہ بہت پریشان کن اور بڑی آفت کا پیش خیمہ نظر آ رہی ہے، ملیریا،ڈائیریا،جلد کی الرجی اور متعلقہ بیماریوں کی بھرمار ہے، اس کے ساتھ ساتھ مچھروں کی بہتات سے خطرناک ڈینگی بھی میدان میں اتر آیا ہے اور ان سے اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، خاص طور پر صوبہ سندھ بہت زیادہ مشکل میں گھرا نظر آ رہا ہے، ملک بھرمیں مریضوں کی تعداد ہزاروں سے شروع ہوئی اور لاکھوں تک پہنچ رہی ہے۔یو این ایچ سی آر کے مطابق سیلابی صورتحال سے متاثرہ بچوں کی تعداد16 ملین اور ان متاثرہ بچوں میں زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے بچوں کی تعداد 3.4 ملین بتائی جارہی ہے ،یونیسیف کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں 34 لاکھ سے زائد بچے شدید خطرات کا شکار ہیں،متاثرہ حاملہ خواتین کی تعداد6لاکھ90 ہزار اور ان میں سے انتہائی سیریس حالت میں 88 ہزار ہیں،ڈاکٹرز بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان بھوکی پیاسی حاملہ خواتین کے بطن سے دنیا میں آنے والے بچے کس حد تک تندرست ہونگے، پاکستان کا بڑا حصہ آج بھی سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے ،بے رحم سیلابی ریلوں سے11 لاکھ گھر تباہ اور13 لاکھ مویشی آج تک مر چکے ہیں جبکہ40 لاکھ ایکڑ پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔ سیلاب سے ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں،ملک کامواصلاتی نظام بھی سخت متاثر ہوا۔پاکستان میں 33ملین لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ملک کی مجموعی معشیت کا نقصان لگ بھگ30 ارب ڈالر سے بھی کہیں آگے چلا گیا ہے،IMF سے ڈیڑھ ارب قرضے کے لئے ہماری حکومت کو کتنی بار IMFکی چوکھٹ پر سجدے کرنا پڑے، اب ہمارا ملک30 ارب ڈالر کے نقصان کو کیسے پورا کرے گا، یہ اللہ ہی بہترجانتا ہے ۔دنیا بھر کی موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے، ملک میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں، بھوک سے لوگوں کے مرنے کے قصے سُن تو رکھے تھے مگر دل نہیں مانتا تھا کہ انسانوں کی بھیڑ میں ایک انسان کیسے بھوکا پیاسا مر سکتا ہے مگر آج ہم نے یہ مناظر بھی دیکھ لئے،گھر تباہ ہونے سامان بہہ جانے کے بعد بچوں اور خواتین کے جسم پر کپڑے بھی گل کر اتنے خستہ ہوگئے کہ جسم ڈھانپنے سے قاصر ہیں، ایسی صورت حال میں پاک فوج ہر جگہ نظر آئی، اس علاوہ الخدمت،جے ڈی سی،القائم ٹرسٹ ،ایدھی اور ایسی بہت سے عوامی فلاحی تنظیمیں بھوکے آفت زدہ افراد کو راشن دیتی نظر آ رہی ہیں۔ خیمہ بستیوں سے ہٹ کرآج بھی ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور دو وقت کی روٹی کے منتظر ہیں اورحکومت سے بڑھ کر عوامی فلاحی تنظیمیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک خیمہ بستی دکھائی گئی جہاں سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ آئے کچھ تصاویر بنیں، کچھ تسلیاں دی گئیں اور انکے جانے کے بعد خیمے اکھاڑ لئے گئے جس کے مناظر کچھ نجی ٹی وی چینل نے بھی دکھائے،حال ہی میں سندھ کی ایک مصیبت زدہ بستی میں شہباز شریف آئے تو متاثرین نے وزیراعلیٰ سندھ کی موجودگی میں شکایت کی وہ بے یارو مددگار ہیں، کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا،وزیراعظم نے سوالیہ نظروں سے وزیراعلیٰ کی طرف دیکھا تو انھوں نے کہا کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں،یہ تمام واقعات میڈیا پر میں نے بھی دیکھے اور عوام دیکھ رہے ہیں ۔کسی ایک صوبے کی بات نہیں ہر طرف سیاستدان ہیلی کاپٹرز اور آرام دہ گاڑیوں میں فوٹو سیشن کرتے ہی نظر آئے۔آج ہمارے آفت زدہ ملک کے وزراء کی تعداد بڑھا کر72کر دی گئی ہے اور ان میں سے 22کے پاس کوئی محکمہ ہی نہیں ہے، میری وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست ہے کہ ان وزراء کو ان آفت زدہ بستیوں میں بھیج کر ان سے رفاہی کام ہی لے لیں، اس طرح ان کی عاقبت ہی سنور جائیگی، کتابوں میں یہ پڑھا تھا کہ جن قوموں اور قبیلوں پرناگہانی آفات یلغار کرتی ہیں وہاں دلوں میں خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے، حاکم وقت ارباب اختیار سمیت حلقوں میں ملکر انفرادی واجتماعی توبہ و استغفار کی جاتی ،مگر ہمارے ہاں کہیں ایسا نظر نہیں آ رہا، ہمارے ہاں ویڈیو لیک ہو رہی ہیں،وزیراعظم ہائوس غیر محفوظ ہے، قومی سلامتی کے راز بکنے کے خدشات سنے جا رہے ہیں،حکومتی صفوں سے فتنہ خان، توشہ خانہ چور اورحکومت مخالفین چیری بلاسم بوٹ پالش امپورٹڈ حکومت کے نعرے لگا رہے ہیں،رانا مشہود کہہ رہے ہیں گیم پلان تیار ہے، پرویز الہی کو گھر بھیج رہے ہیں، اکتوبر میں حمزہ نئے وزیر اعلیٰ ہونگے ،سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو چوہدری پرویز الہیٰ نے گلے لگایا اور شاباشی دی ،سی سی پی اوکی تعیناتی پر پنجاب اور وفاق کی سرد جنگ نے عام شہری کا سکون غارت کر رکھا ہے۔ اکثرلوگ پیسے ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں مگر روٹی کے لئے انہیں آٹا نہیں ملتا،اشیائے ضروریہ کی قیمت میں70 فیصد اضافہ،کئی روز قطاروں میں لگنے کے باوجود خریدار خالی ہاتھ گھر لوٹ رہے ہیں، ماہر معاشیات اشفاق حسن کے مطابق نومبر میں آٹا 200 روپے فی کلو تک پہنچ سکتا ہے، میں اور میرے جیسے اور بہت سے محب وطن دیار غیر میں پریشان ہیں کہ ملک کا کیا ہوگا، عوام بھوک اور تنگدستی سے تنگ آ کر کسی خونی انقلاب کی طرف نہ راغب ہو جائیں۔
یورپ سے سے مزید