رابعہ فاطمہ
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے تواتنی کثیر تعداد امن کی بحالی کے لیے کس حد تک اپنا کردار ادا کرسکتی ہے؟
ماہرین عمرانیات و سماجی علوم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی سماج میں تبدیلی کا بہترین زریعہ وہاں کی نوجوان نسل ہے۔ نواجوان کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ متحرک ایا گروہ کہلاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں اگر کہیں پہ بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو نوجوان اس تبدیلی کے صف اول میں شامل تھے۔ عالمی دنیا نے 2015 میں پہلی مرتبہ اس بات کو تسلیم کرلیا کہ معاشرے میں قیام امن اور تنازعات کے حل میں نوجوانوں کا اہم کردار ہے۔
اس سے قبل 1999 میں پہلی مرتبہ نوجوانوں کا عالمی دن مناکر یہ پیغام دیا گیا کہ بہتر مستقبل کے لئے نوجوانوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ موجودہ وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا نے ہر آنے والے دن کو گزشتہ دن سے بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جہاں ڈیجیٹلائزیشن آسمان سے باتیں کرتی نظر آرہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد جہاں ایک طرف معلومات کا بہاؤ تیز ہوا ہے وہی پر اس قسم کی سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں، جن کا مقصد علاقے کے امن کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر منبر و محراب کے بعد اگر کسی جانب نظریں اٹھتی ہیں تو وہ یہی نوجوان طبقہ ہے جو ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے اور معاشرے کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماضی کے معاملات اور معمولات کے برعکس موجوددہ دور میں نوجوانوں کی اکثریتی تعداد اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ ملک میں امن کس قدر ضروری ہے۔ بدامنی اور پر امن معاشرے میں کیا تمیز ہے۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ نوجوان بدلتے سیاسی معاملات سے باخبر رہیں اور آنے والے مستقبل پر نظر رکھیں۔ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جن کا مقصد افراتفری پھیلانا ہے۔
دوسری طرف ایک اور بات جو نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی کا باعث بن رہی ہے وہ یہ کہ مہنگائی نے جہاں معاشرتی پریشانیوں کو جنم دیا ہے وہیں تعلیمی نظام پر بھی اثر پڑا ہے، پھر رہی سہی کسر پرائیوٹ ڈگری کے خاتمے نے پوری کردی۔ جو شہری ریگولر پڑھائی کے اخراجات کو برداشت نہیں کر پاتا تھا وہ پرائیوٹ پڑھ کر اپنی علمی پیاس کو بجھا لیتا تھا اور ایک اچھی کمپنی میں باآسانی نوکری اختیار کر کے اپنے حالات بدل دیتا تھا۔
جہاں ڈگریاں ہاتھ سے گئیں وہیں اسکلز سیکھانے والوں نے بھی تابڑتوڑ فیسوں کی بوچھاڑ کردی۔ اب ایسے میں نوجوان امن کے راہی بنیں گے یا بدامنی کی راہ کو اپنائیں گے؟ اس کا حل یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے کورسز کا باقاعدہ طور پر کم اخراجات میں ملک کی تمام جامعات میں اہتمام کروایا جائے۔ اس کے نتیجے میں ملک پر امن رہے گا اور معیشت میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
نوجوان نسل امن کے قیام میں اس وقت موثرکردار ادا کرسکتی ہے جب ان کی سمت کا تعیین بھی بہترین ہو ۔ورنہ دیکھا یہ گیا ہے جن نوجوانوں کےراستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں وہ بے ہنگم مشاغل میں پھنس کر خود کو تباہ و برباد کرلیتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جہاں ہر ایک دوسرے سے آگے نکلنےاور خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے اور جن کو وہ سب کچھ نہیں ملتا جس کی وہ تمنا کرتے ہیں تو وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں، جس کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ سر اُٹھاتا ہے۔
یہ مسئلہ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے حل کے لیے حکومتی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں بدامنی پھیلنے کی زیادہ توقع ہے۔ پاکستان کو اس وقت بہت سے سیاسی ، سماجی، لسانی ،مذہبی ماحولیاتی اور فرقہ وارانہ تنازعات کا سامنا ہے،جن سے نمٹنے کے لئے پاکستانی جامعات کو دوسرے متعلقہ اداروں کی شراکت سے ان اہم مسائل کی جانب توجہ دینے کی اشداور فوری ضرورت ہے، کیونکہ امن کے قیام اور تنازعات کے حل سے ہی پائیدار معاشی ترقی اور موثر جمہوریت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔
نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شریک اور شامل کرکے ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی معاشی مثبت طرز عمل کے فروغ سمیت قیام امن اور استحکام امن میں نوجوانوں کا کردار ناقابل تردید ہے ۔وہ اپنی اس اہمیت کو پہچانتے ہوئے اس کے مطابق کردار ادا کریں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہر سال عالمی یوم امن کے سلسلے میں مُلک بھر کی جامعات میں نوجوانوں کو ان کی اہمیت اور ان کے کلیدی کردار کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔
حکومتی سطح پر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے اور روشن مستقبل کی نوید بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ نوجوانوں کو سماجی محرومیوں سے باہر نکال کر یکساں مواقع فراہم کریں۔ حکومتی سطح پر بھی نوجوانوں کے لئے کرنے کے امور باقی ہیں جن پر توجہ دےکر نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں قوم کا سرمایہ بنایا جاسکتا ہے۔