محمد اکرام
صحت مند اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں معاشرے کے جن افراد کا خونِ جگر شامل ہوتا ہے، انھیں باشعور، باہنر اور تعلیم یافتہ بنانے میں اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اساتذہ ہی ہیں حروف تہجی (الف تا ے) سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، حاکم و حکمراں وغیرہ بنانے میں اپنی توانائی، محنت اور قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔ یہ صرف بچوں کو تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ بہتر تربیت کے ساتھ ان کے خوابوں کو نئی زمین اور نیا آسمان عطا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں کا بہت ہی خوبصورت خاکہ تیار کرتے ہیں۔
مستقبل کو ایک نئی روشنی اور ایک ایسی راہ دکھاتے ہیں جن سے بچے صرف منزل مقصود تک نہیں پہنچتے بلکہ کامرانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس پر پورا معاشرہ رشک کرتا ہے۔ تعمیرِ انسانیت اور علمی ارتقاء میں اساتذہ کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ نسلوں کی تعمیر وترقی، معاشرے کی فلاح وبہود اور افراد کی تربیت سازی کی وجہ سے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں ایسا مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان اپنے باغ کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔
استاد کی عظمتوں کے بہت سے حوالے ہیں اور اس تعلق سے تاریخ کی کتابوں میں بہت سے واقعات بھی ہیں۔ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ خلیفہ ہارون الرشیدکے دو بیٹے امام نسائی کے پاس زیر تعلیم تھے۔ ایک بار استادکے جانے کا وقت ہوا تو دونوں شاگرد ان کی جوتیاں ٹھیک کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ دونوں بھائیوں میں اس بات کو لے کر تکرار ہوگئی کہ پہلے وہ جوتیاں درست کرےگا۔ استادِ محترم نے راستہ بتایا کہ دونوں ایک ایک جوتا درست کردیں، اس طرح دونوں کو استاد کی خدمت کا موقع مل گیا۔
مشہور مصنف اشفاق احمد نے اپنی کتاب ’زاویہ‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ روم میں قیام کے دوران ایک دن ان کا ٹریفک چالان ہوا۔ مصروفیات کی وجہ سے وہ چالان کی رقم وقت پر جمع نہ کروا سکے، لہٰذا انھیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ سوالوں کے دوران جج نے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ میں یونیورسٹی پرفیسر ہوں۔
یہ سننا تھا کہ جج نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا کہ Teacher in the Court ( عدالت میں استاد ہے)۔ یہ سنتے ہی سب احتراماً اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نقطہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔
استاد کی عزت اور اہمیت کے تعلق سے علما اور دانشوروں کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ سب ہی نے استاد کو اپنی اپنی نظرسے جانچا اور پرکھا ہے۔
مشہور مفکر جون لاک کے نزدیک معلمی کا پیشہ حکمرانی سے بھی زیادہ مشقت آمیز ہے۔
اسی طرح سکندر مقدونی کا کہنا ہے کہ،’’ میں اپنے والد کا احسان مند ہوں کہ وہ اس دنیا میں میری آمد کا ذریعہ بنے اور میں اپنے استاد کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھے شعور کی دنیا میں ایک نئی زندگی دی۔‘‘
سکندر اعظم سے کسی نے اپنے استادکے بے حد احترام کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواباََ کہا کہ،’’ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا ،جب کہ میرے استاد، ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گئے۔ میرا باپ میری ایسی زندگی کا باعث بنا جو فانی ہے، مگر میرے استاذ حیاتِ جاوداں کا سبب ہیں۔ میرا باپ میری پرورش کرتا تھا اور استادو میری روح کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘
اساتذہ صرف بچے کی روح کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ شفقت و محبت کا وہ عنوان ہوتے ہیں کہ ہر موڑ پر ان کی شفقتیں بچوں کی کلفتیں اور اذیتیں ختم کردیتی ہیں۔ پرانے زمانے کے اساتذہ بچوں کی پیشانی پر محبت اور شفقت کی وہ عبارت لکھ دیتے تھے کہ زندگی کی آخری سانس تک یہ عبارتیں ان کے وجود میں روشن رہتی تھیں، مگر آج کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے دور میں اساتذہ کی محبت اور طلبا کی اطاعت میں بھی بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ طالب علموں کا انداز بھی بدل چکا ہے اور اساتذہ کا طرزِ فکر بھی۔
پہلے اساتذہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی بچوں پر صرف کرتے تھے، مگر اب سارا منظر بدل چکا ہے۔ وقت اور توانائی کے مرکز بھی تبدیل ہوچکے ہیں اور طلبا میں اساتذہ کے تئیں وہ عقیدت اور محبت بھی نہیں رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم تو عام ہوگیا ہے، مگر تربیت اور تہذیب میں کمی ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں بچوں اور اساتذہ دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ایسے میں اساتذہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت اور راہنمائی کریں۔ تعلیم کے ساتھ غلط راستے سے بچنے اور صحیح راستے پر چلنے کی تلقین کریں، اساتذہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو بچوں کے لیے مخربِ اخلاق ہوں کیونکہ بچوں کا شعور پختہ اور بالیدہ نہیں ہوتا ہے، انھیں تربیت اور راہنمائی کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔
اسی طرح شاگردوں کی ذمے داری ہے کہ جب وہ استاد سے درس حاصل کررہے ہوں تو ان کے سامنے بہت ادب و احترام سے بیٹھیں، پورا دھیان صرف اُن کی باتوں پر ہو۔ اُن کی ڈانٹ کو اپنے حق میں مثبت انداز میں لیں کیونکہ اساتذہ اپنے شاگرد کے حق میں کبھی برا نہیں سوچتے، اگر پڑھ لکھ کر آپ اعلیٰ منصب پر فائز ہوں گے تو اُن کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائےگا۔