زر، زن اور زمین ہمیشہ سے انسان کے لیے لازم و ملزوم رہی ہے، لیکن یہی تینوں چیزیں اسی انسان ذات کے لیے فساد کا سبب بھی بنتی ہیں، اسی لیے اس کا غلط استعمال معاشرے میں فساد کا سبب اور اس کا لازمی نتیجہ قتل وغارتگری ہوتا ہے۔ ایک ایسی ہی واردات سکرنڈ سے کراچی ، منگوپیر کے علاقے میں منتقل ہونے والی چوہان برادری کے ساتھ ہونے والی ایک واردات جس میں زن اور زر کا معاملہ تھا، کا سراغ نواب شاہ پولیس نے لگالیا ، جہاں ملزم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کرنے کے بعد جرم چھپانے کے لیے مقتولین کی لاشیں چُھپا دی تھیں جو کراچی پولیس کے لیے بارہ سال سے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔
اس واردات کی گتھی سلجھانے والے ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد کیپٹن ریٹائرڈ امیر سعودمگسی نے بتایا کہ اس واردات کی ابتدا یُوں ہوئی کہ مقتول محمد صدیق چوہان نے اپنی پھوپھی مسمات حنیفان چوہان کے اغوا کی ایف آئی آر نمبر 427/2010 کو زیر دفعہ 365B, 34 PPC کے تحت کراچی کے تھانہ منگوپیر پر ملزمان ولی خان ، گاھی خان چوہان اور محلے دارشھزاد عرف شادو بلوچ کے خلاف شبہ کے طور پر درج کروائی تھی۔
محمد صدیق چوہان نے سال 2011 میں مسمات نوران چوہان سے شادی کی تھی، جس کے بعد سال 2013 میں محمد صدیق چوہان بھی گم ہو گیا تھا، اسی دوران تھانہ شاہ لطیف ٹائون کراچی کی حدود میں پولیس کو ایک نامعلوم شخص کی لاش ملی تھی، جس کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 456/2013 زیر دفعہ 302, 201, 34 PPC کے تحت نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا تھا،جس کے بعد محمد صدیق چوہان کے ناملنے پر اس کی بیوی مسمان نوران نے روشن چوہان نامی شخص سےنکاح کر لیا تھا۔
بہت عرصے گزرنے کے بعد محمد صدیق چوہان کے بھائی محمد حسن چوہان جو کہ پہلے سعودی عرب میں رہائش پزیر تھے، پاکستان واپس آنے کے بعد ہائی کورٹ سرکٹ بئنچ حیدرآباد میں CP نمبر No-D1758/2021 فائل کی، جس میں اپنی پھوپھی مسمات حنیفان چوہان، بھائی محمد صدیق چوہان اور بھابھی مسمات نوران چوہان کو گمشدہ دکھایا گیا تھا، جس میں ملزمان خان چوہان اور دیگر کو دکھایا گیا تھا، جو تمام پٹیشنر محمد حسن کے رشتے دارہیں، جس کے بعد ہائی کورٹ حیدرآباد نے ایس ایس پی شھید بینظیر آباد کو مزکورہ گمشدہ افراد کو بازیاب کروا کر عدالت عالیہ میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، جب کہ عدالت نے یہ حُکم دیا تھا کہ اگر گم شدہ افراد کو بازیاب نہیں کرایا گیا، تو آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن ذاتی طور پر عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔
ایس ایس پی شھید بینظیر آباد امیر سعود مگسی نے بتایا کہ گم شدگان کی بازیابی کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس میں ڈی ایس پی اظہر حسین سموں ، ایس ڈی پی او سکرنڈ ، انسپکٹر سیف اللہ بگھیو، ایس ایچ او تھانہ سکرنڈ، انسپیکٹر مقصود احمد چنا، ایس ایچ او تھانہ اے سیکشن، انچارج سی آئی اے مبین احمد پرھیار اور انچارج آئی ٹی بشیر احمد ڈاہری شامل تھے۔
ٹیم ممبران نے اپنے تمام وسائل بروئےکار لاتے ہوئے پٹیشن میں دکھائی گئی گمشدہ مسمات نوران چوہان اورملزمان انب خان چوہان کو کراچی کے ڈیفنس کے علاقے سے حراست میں لے کر تفتیش شروع کی، تو ملزم انب خان چوہان نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور بتایا کہ میں نے محمد صدیق چوہان سے مل کر مسمات حنیفان چوہان کی جائداد ہتھیانے کے لیے اسے قتل کرنے کے بعد لاش کو اس کے مکان میں دفن کر دیا تھا، جس کے بعد محمدصدیق چوہان نے منصوبہ بندی کے تحت منگھوپیر تھانے پر اپنی پھوپھی حنیفان بی بی کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
ریکارڈ کی چھان بین کرنے سے معلوم ہوا کہ اس وقوعہ سے پہلے مسمات حنیفان بی بی نے سال 2010 میں ایس ایچ او منگھوپیر کراچی کو انب خان ، امجد علی اور علی اکبر چوہان کے خلاف درخواست دی تھی، جس کے بعد انب خان چوہان اور مسمات نوران نے منصوبہ بندی کے تحت اپنے دیگر ساتھی ملزماں کے ساتھ مل کر محمد صدیق چوہان کو قتل کر کے جرم کو چھپانے کی خاطر مقتول کی لاش لاوارث کرکے جھاڑیوں میں پھینک دی تھی، جس کا اقراردونوں ملزمان نے تفتیش کے دوران کیا ہے۔ سال 2013 میں تھانہ شاہ لطیف ٹائون، کراچی کی حدود میں سے ملنے والی نامعلوم لاش کے فوٹو گرافس کے ذریعے دونوں ملزمان نے محمد صدیق چوہان کی لاش کی شناخت کی ہے۔
اصل حقائق معلوم ہونے کی بعد دونوں ملزمان کو مزکورہ بالا مقدمات میں مزید قانونی کارروائی کے لیے کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا ہے، کراچی پولیس کی طرف سے مزید تفتیش جاری ہے۔اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی الجھی گچھی تھی، جس کا سرا تلاش کرنے کے لیے انہیں رات دن محنت کرنا پڑی، لیکن انہیں فخر ہے کہ پولیس افسران پر جنہوں نے تجربے کی روشنی میں جُرم کہانی تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور مضبوط کیس بنانے کے بعد اب امید ہے کہ ملزمان سزا سے نہیں بچ سکیں گے اور دوسروں کے بھی نشان عبرت بنیں گے۔