• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کیا بیوی کے علاج معالجے کا خرچ نفقے کا حصہ نہیں ہے ، شریعت ِ مُطہرہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ؟ (مولانا عبداللہ ، کراچی)

جواب: واضح رہے کہ چاروں فقہی مکاتبِ فکر میں بیوی کے علاج معالجے کو اس کے نفقے کا حصہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اگر بیوی بیمار ہوجاتی ہے اور اُسے علاج کی ضرورت پڑتی ہے، تو فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق علاج معالجے پر آنے والے اخراجات بیوی خود برداشت کرے گی ،شوہر کے ذمے بیوی کا علاج کرانا لازم نہیں ہے، لیکن یہ حکم اُن کے اپنے عرف اور زمانے کے اعتبار سے تھا، ہمارے زمانے کی طرح نہ تو اس زمانے میں بیماریوں کی اتنی بہتات اور کثرت تھی اور نہ آج کی طرح علاج معالجے پر اتنے زیادہ اخراجات آتے تھے۔ 

گزشتہ زمانوں میں علاج کے لیے سادہ طریقے اختیار کیے جاتے تھے اور گھریلوٹو ٹکوں یا جڑی بوٹیوں سے علاج ہوجایا کرتا تھا، سو فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کا اعتبار کرتے ہوئے بیوی کے علاج کے اخراجات کو شوہر کے ذمے لازم قرار نہیں دیا، لیکن اب عرف یکسر تبدیل ہوچکا ہے اور بیوی کے علاج کو شوہر کی ذمے داری سمجھا جاتا ہے اور عموماً شوہر ہی اپنی بیوی کے علاج کے اخراجات کو برداشت کرتا ہے، پس اب ہمارے زمانے کے عرف میں بیوی کا علاج بھی اس کے نفقہ کا حصہ ہے، لہٰذا اُس کے علاج معالجے پر آنے والے اخراجات شوہر کے ذمے لازم ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(۱)ترجمہ:’’اور ان عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق برتاؤ کرو، (سورۃ النساء: 19)‘‘۔

(۲) ترجمہ:’’ اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی (مردوں پر) ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے اُن پر (مردوں کے) ہیں، (سورۃ البقرہ:228)‘‘۔

(۳) ترجمہ:’’وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، عنقریب تنگی کے بعد اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمادے گا، (سورۃ الطلاق:7)‘‘۔

مذکورہ بالا آیات میں نفقہ کے ساتھ ’’بالمعروف‘‘کی قیدلگائی گئی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفقہ کاتعین عرف اور دستور پرمبنی ہے ،گزشتہ ادوار میں چونکہ علاج کاخرچہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے عرف یہ تھاکہ وہ نفقہ میں شامل نہیں، لیکن اب ہمارے زمانے میں یہ بھی نفقہ کا حصہ ہے۔

اس کی نظیر یہ ہے: فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے مضارب مضاربت کے مال سے اخراجات وصول کرسکتاہے اوران اخراجات میں عام طور پردوا وحجامہ کے اخراجات شامل نہیں ہوتے، لیکن اگرکہیں اس کاعرف ہوجائے تو پھر مضاربت میں سے دوا وعلاج کاخرچہ بھی لے سکتا ہے۔ علامہ شلبی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اَتقانی نے کہا: دوا اورحجامہ وغیرہ شوہر کے ذمے نہیں ہے ،کیونکہ نفقہ طعام اور لباس کے لیے ہوتا ہے، کیا تو نہیں دیکھتا کہ قاضی بیوی کے لیے طعام اور لباس کے بارے میں نفقہ کا فیصلہ کرتا ہے اور دوا اور حجامہ کے مصارف اداکرنے کا فیصلہ نہیں دیتا، اسی طرح یہاں بھی ہے، سوائے اس کے کہ کسی مقام پر اس کا عُرف وعادت ہو،(حاشیۃ الشلبی علٰی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج:5، ص:71) ‘‘۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ قدیم فقہاء کے زمانے میں عرفا ًحجامہ ودوا نفقہ میں شامل نہیں تھے ،اس لیے اُ س دور میں شوہر پر بیوی کا علاج لازم نہیں تھا، لیکن علامہ شلبی نے کہا ہے:جہاں شوہر پر بیوی کے علاج کا عرف جاری ہوتو وہاں اُسے قائم رکھا جائے گا۔

معروف محقق وفقیہ علامہ وہبہ زحیلی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ ماضی میں علاج بنیادی ضرورت نہیں تھا، اکثر صورتوں میں لوگوں کو علاج کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیونکہ صحت اور پرہیز کے بارے میں لوگ ویسے ہی احتیاط برتتے تھے ، پس فقہاء کا اجتہاد اُس دور کے عرف پر قائم تھا، لیکن اب علاج خوراک کی طرح(بنیادی) ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی اہم ہے، کیونکہ مریض (تکلیف کے عالم میں) ہر چیز پر علاج کو ترجیح دیتا ہے اور ایسے درد کی وجہ سے جو اُسے بے حال کردے اور موت کا خوف لاحق ہو، اگر اُسے خوراک دستیاب بھی ہو تو بھی وہ شکایت کرتا ہے۔اس سبب سے میں شوہر پر دیگر ضروری نفقات کی طرح علاج کا خرچ اٹھانے کے بھی وجوب کا قائل ہوں، جیساکہ اس پر اجماع ہے کہ والد پر اولاد کی دوا کا نفقہ لازم ہے اور (کیا یہ بات قرینِ انصاف ہے )کہ صحت کی حالت میں شوہر بیوی سے نفع اٹھائے اور جب وہ بیمار ہو تو اُسے اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دے، (الفقہ الاسلامی وادلتہٗ،جلد:10،ص:7381)‘‘۔

شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے جہاں بیوی کے علاج معالجہ کا خرچ شوہر پر لازم نہیں کیا ،وہیں بیوی کے ذمہ بھی شوہر کے والدین کی خدمت، اُن کے کپڑے وغیرہ دھونے اور ان کے لیے کھانا پکانے کو بھی ازروئے شرع لاز م اور واجب نہیں کیا، لیکن دونوں کو حسنِ معاشرت کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ خوش گوار زندگی گزارنی ہوتو اس کے لیے زندگی کے نشیب وفرازاور دکھ سکھ میں بھی ایثار اور تبرّع سے کام لینا ہوگا جو کہ شریعت میں عین مطلوب ہے۔ (جاری ہے)