حافظ بلال بشیر
آج کل جس تیزی سے لوٹ مار کی وارداتیں ہورہی ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور ان سب میں نوجوان شامل ہیں، جنہوں نے ہر ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر یہ سب نو جوان کیوں کر رہے ہیں۔ لوٹنے والے بھی نوجوان ، لٹنے والے بھی نوجوان، مارنے والے بھی نوجوان اور قتل ہونے والے بھی نوجوان سوال یہ ہے کہ نوجوان ہی کیوں یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ وہ کس سمت میں جارہے ہیں۔
جس معاشرے میں ظالم طاقت ور کمزور پر حاوی ہو، ہر جگہ جھوٹ اور بے ایمانی کا راج ہو، دھوکا دھی کا بازار گرم ہو اور انصاف ناپید ہو تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں کی نسل نو صحیح راہ پر گامزن، وہ ہوگی، کیسے مثبت راہ پر چلتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرے گی ؟ بہ ظاہر بنیادی وجہ بے روزگاری اور آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں نظر آتی ہیں۔ اسی صورتحال کے باعث پڑھے لکھے نوجوان جنہیں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہئے، وہ چوری ڈاکہ، اسمگلنگ، منشیات اور دہشتگردی جیسے خطرناک جرائم میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔
وہ اپنے خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے جرائم کے راستے پر چل نکلے ہیں، بہ ظاہر تو یہ نوجوان مجرم نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم ہماراطبقاتی معاشرہ ہے، جو ایک جانب صاحب حیثیت افراد کو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سارے مواقعے فراہم کرتا ہے، دوسری جانب غریب طبقات کو غربت کی تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق نسلِ نو عام طور سے منفیت کا جلدی اثر لیتی ہے۔ وہ جو کچھ پڑھتے ، دیکھتے یا سنتے ہیں، و ہ ان کے دل و دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے ۔ کچے ذہن کے کم پڑھے لکھے نوجوان گلیمر اور چمکتی دنیا دیکھ کر یک لخت اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی بڑے جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جرائم پہلے نہیں ہوتے تھے لیکن گزشتہ چند سالوں میں ان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مسلسل بڑھتا جارہا ہے ۔ دولت اور طاقت کی غیرمساوی تقسیم اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی بھی جرائم میں اضافے کا سبب بنی ہے۔
جس طرح ملک کے معاشی و سیاسی مسائل اہم ہے ، وہیں اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا بھی اہم ہے۔ پوری دنیا میں نوجوانوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے واضح پالیسیاں ہوتی ہیں، انھیں مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رکھنا ، اور خوشحال سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ، لہذا ہمارےاحباب و اختیار کو بھی نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ اس مسئلے کو کبھی حل نہیں کر پائیں گےاور جرائم کبھی ختم نہ ہو سکیں گے۔