صدیقہ خان
ایک بار فاتحِ عالم، سکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بھپرا ہوا تھا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان تکرار شروع ہوگئی کہ پہلے نالہ پار کون کرے گا؟
سکندر بضد تھے کہ نالے کےدوسری طرف پہلے وہ جائیں گے۔ بالآخر ارسطو نے ہار مان لی اور سکندر نے پہلےنالہ پار کیا، جب عالم اور طالب نے نالہ پار کرلیا تو ارسطو قدرے سخت لہجے میں سکندر سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ، "کیا تم نے مجھ سے پہلے راستہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟"
سکندر نے انتہائی ادب سے قدرے خم ہو کر جواب دیا، "ہرگز نہیں استادِ محترم، دراصل نالہ بپھرا ہوا تھا اور میں یہ اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم پیدا ہوں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا۔"
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل رہی، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفہ ہوں یا ولی اللہ، سب ہی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوّنی بصد احترام پیش کی۔
وقت کا دھارا بہتا گیا، اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسے الجھے کہ ملا جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ لگ بھگ دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گئےکہ وہ اب علاقے کے متمول زمیندار ہیں۔ استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے کہا، "بادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک چوّنی کی بدولت ممکن ہوئی۔"
یہ سن کر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ، "استادِ محترم آپ جانتے ہیں، میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔"
وقت گزرا، زمانے نے چال بدلی اور نئے روایتوں نے جنم لیا، حکایتیں بدلیں، یہاں تک کہ استاد اور شاگرد کا انوکھا اور خوبصورت رشتہ بھی بدل گیا۔ استاد کا احترام ،شاگرد کی بے پناہ اور بے لوث محبت سب دب گئی۔
استاد و شاگرد کے درمیان خلوص و محبت، جذبۂ ایثار اور انتہائی ادب و احترام صرف مشرقی یا اسلامی معاشرے کا خاصہ نہیں رہا بلکہ تاریخ میں کئی ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں مغرب کے اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے میں بھی استاد نے والدین سے بڑھ کر قربانیاں دے کر شاگرد کی زندگی سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اِنہی میں اسے ایک لا زوال داستان "ہیلن کیلر" اور اُن کی جذبۂ ایثار سے سرشار استانی "مس این سلیوان" کی بھی ہے۔ یہ ٹیلی فون کے مؤجد الیگزینڈر گراہم بیل تھے جنہوں نے اُن کی ملاقات ہیلن نامی اِس انوکھی بچی سے کروائی جو شدید دباؤ کا شکار تھی ،جو دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حسوں سے نا بلد تھی۔این سلیوان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہیلن کو پڑھانے کی ٹھانی۔
وہ اُس کے ہاتھ پر پانی گرا کر بتاتی کہ پانی کیسا ہوتا ہے، اُس کے احساسات جگاتی، یوں بتدریج کھٹن مراحل کے بعد ہیلن اپنے ارد گرد کی دنیا سے آشنا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک نامور مصنفہ بنی، جس کا تمام تر سہرا این سلیوان کے سر ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں جب این سلیوان ہسپتال میں تھیں تو کامیابیوں کے عروج پر چڑھتی ہیلن ہر روز اُن سے ملنے آتیں مگر وہ کسی بھی طرح اُن قربانیوں کا خراج ادا کرنے سے قاصر تھیں جو اُس عظیم استانی نے اُن کی زندگی سنوارنے کے لیے دی تھیں۔
اب موجودہ دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اب نہ وہ پہلے جیسی محبتیں باقی ر ہیں اور نہ ہی رشتوں میں وہ خلوص جو انسانی معاشرتی زندگی کا اصل اساس تھا۔وقت کے دھارے کے ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم جیسا مقدس پیشہ بھی اخلاقی پستی کا شکار ہوگیا ہے، معلم اور متعلم دونوں ہی کے لیے اب صرف اپنی ذات ہی سب سے زیادہ عزیز ہے، استاد اور شاگرد کے درمیان صدیوں پرانی جو بے لوث اور پُرخلوص رشتہ دیکھنے کو ملتا تھا، اب وہ کافی حد تک ماند پڑچکا ہے۔ شاید اِسی لیے نہ اب ارسطو جیسے اساتذہ تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اور نہ ہی کوئی سکندرِ اعظم ۔