اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی پولیس چیف جاوید اختر اوڈھو اسٹریٹ کرمنلز جرائم کے سدِ باب کے لیےنہ صرف متحرک نظر آرہے ہیں، بلکہ انہوں نے پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی ڈنڈا اٹھالیا ہے اور محکمہ پولیس میں جزا وسزا کا عملی کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے شہر میں پولیس کی بھاری نفری کو سینئر افسران کے زیر نگرانی اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام اورعوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے شہر کےمتعدد مقامات پر اسنیپ چیکنگ کے لیے متحرک کر دیا ہے۔ کراچی کے مختلف مقامات پر اسنیپ چیکنگ پوائنٹس کا دورہ کر کے پولیس کی موجودگی اور اسنیپ چیکنگ کے طریقہ کار کو از خود چیک کرتے ہیں۔
کراچی پولیس چیف اسنیپ چیکنگ پر مامور سینئیر افسران سمیت ایس ایچ اوز اور اہل کاروں سے ملاقات کر کے اسنیپ چیکنگ کے طریقہ کار اور معیار کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ تو دوسری جانب عوامی حلقوں کا یہ سوال معنی رکھتا ہے کہ شہر میں جگہ جگہ ناکے اور اسنیپ چیکنگ کے باوجود بے لگام ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز کی سرگرمیاں ماند کیوں نہیں پڑرہی ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے شکایت ملنے پر ایس ایس پی سٹی ریزرو میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل فرید کو شہری کو غیر قانونی طور پر حبس بےجا میں رکھنے اور رقم طلب کرنے پر نوکری سے برخاست کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
برطرف پولیس اہل کار فرید نے اپنے ساتھی کندھ کوٹ پولیس لائن میں تعینات پولیس اہل کار حبیب اللہ کھوسہ کے ساتھ مل کر لین دین کے معاملے پر شہری کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھا اور ادائیگی کی رقم طلب کی بعد ازاں دونوں اہل کاروں نے شہری کو چھوڑ دیا۔ شہری کی جانب سے شاہ راہ فیصل تھانے میں مقدمہ نمبر 919/2022 درج کر لیاگیا۔ اینٹی وائلینٹ کرائم سیل نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں اہل کاروں کو گرفتار کر کے ملزمان سے شہری کا موبائل فون بھی برآمد کر لیا۔ کراچی پولیس میں فرائض سرانجام دینے والے پولیس افسر و اہل کاروں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں پائے جانے پر پولیس افسر و اہل کار کے خلاف بلا تفریق سخت قانونی و محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
کراچی پولیس چیف نے سب ڈویژنل افسر نارتھ ناظم آباد کو مس کنڈکٹ رپورٹ ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹا دیا، سب ڈویژنل افسر نارتھ ناظم آباد اسلم راجپوت کے خلاف رپورٹ موصول ہونے پر انکوائری کا حکم دیا گیا، جس میں ڈی ایس پی پر الزامات ثابت ہونے پر محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی گئی، کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں خود احتسابی کا عمل انتہائی متحرک ہے، کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے ثابت ہونے پر پولیس افسر و اہل کار کےخلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی ،جب کہ نارتھ ناظم آباد میں ضیا الدین اسپتال کو پانی کا غیر قانونی کنکشن دینے کے خلاف علاقہ مکینوں کے احتجا ج کے دوان مظاہرین سے ہتھک آمیز رویہ رکھنے کی شکایات پر ڈی ایس پی کے خلاف تحقیقات کی فوری ہدایت کی، جس کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی۔
جب قانون کے محافظ ہی قانون شکن بن جائیں تو ڈاکوؤں اور لیٹروں کو لگام ڈالنا محال ہوگا۔ آرٹلری میدان تھانے کے مال خانے میں کروڑوں روپے کی چوری کے واقعہ نےپولیس کے کالے کرتوں کا بھانڈا اس وقت پھوڑدیا ،جب2 فروری کو داود پوتہ روڈ پر ڈکیتی کی واردات میں سُنار سے ساڑھے 3 کروڑ روپے چھینے گئے تھے ،بعد ازاں ملزم سے برآمد کیے گئے 2 کروڑ 7 لاکھ 75 ہزار روپے آرٹلری میدان تھانے کے مال خانے میں رکھے گئے تھے، وہ غائب ہوگئے۔
رقم کی چوری کا انکشاف 11 اکتوبر کو ہوا، جس پرڈی آئی جی ساوتھ نے نوٹس لیتے ہوئے، ایس ایس پی ساوتھ کی سربراہی میں3 رکنی تحقیقاتی کیمٹی بنادی۔ کمیٹی میں ایس پی انوسٹیگیشن ساؤتھ اورایس پی صدر شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق واقعہ میں انویسٹی گیشن افسر کی غفلت سامنے آئی ہے۔10 اکتوبر کوجب کیس کی سماعت ہوئی، تو آئی او رقم کے ساتھ پیش نہیں ہوا، بعد ازاں کروڈوں روپے چوری کے واقعہ کا مقدمہ سرکاری مدعیت میں آرٹلری میدان تھانے میں درج کر لیا گیا، مقدمے میں ہیڈ محررعبداللہ تفتیشی افسر گوہر محمود اور ڈیوٹی گارڈ نامزد کو نامزد کیا گیا ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ایس پی انوسٹی گیشن ساوتھ نے معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ، جب کہ متعلقہ تھانے کی ذمے داری ایس پی صدرعلی مردان پر ہوتی ہے، شعبہ انوسٹیگیشن نے کیس کی تفتیش میں غفلت برتی ہے۔ مزید تحقیقات جاری ہے۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں کورنگی بلال کالونی فائر بریگیڈ اسٹیشن میں3 افراد کے قتل میں ملوث ملزم سی ٹی ڈی کا سابق پولیس اہل کارہی نکلا، جسےرینجرز گرفتار کرلیا۔ ملزم قتل کی وارداتوں سمیت دیگر سنگین جرائم میں بھی ملوث ہے، ملزم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ پاکستان رینجرز (سندھ) اورپولیس نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مشترکہ کارروائی کے دوران منظورکالونی سے قتل اور دہشت گردی میں ملوث ملزم سابق پولیس اہل کار شیخ بلال ظفر فاروقی کو گرفتار کر کے اس کے قبضے سے اسلحہ و ایمونیشن بھی برآمد کر لیا۔
ملزم نے یکم اکتوبر 2022کورات کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بلال کا لونی تھانے کی حدود کورنگی میں واقع فائر بریگیڈ اسٹیشن میں گھس کر انددھند فائرنگ کر کے فائر بریگیڈ کے 2 ملازمین محبوب اورعامر کوقتل اور ایک ملازم ارشاد کو زخمی کیا، جو دوران علاج جان کی بازی ہار گیا۔ ایس ایس پی انویسٹگیشن ابریز عباسی کے مطابق گرفتار ملزم شیخ بلال ظفر فاروقی محکمۂ پولیس کا برطرف کانسٹیبل ہے، ملزم ڈپٹی ڈائریکٹر کے ایم سی کے قتل کے الزام میں پہلے بھی گرفتار ہو چکا ہے، ملزم سابق اسٹیشن افسرلیاقت ظفر فاروقی کا بیٹا ہے، جنھیں لیاری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس نےوالد کے قتل کا بدلہ لینے کی نیت سے4 قتل کیے ہیں، پہلے فائرافسر فرید کو سوک سینٹر سے نکلتے وقت قتل کیا تھا،مقتول فرید کو ریکی کرنے کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا،مقتول فرید لانڈھی فائر اسٹیشن کے موجوہ اسٹیشن افسر کا بھائی تھا۔
فائر افسر کے قتل میں ملزم جیل چلا گیا تھا۔ قتل میں ملوث ہونے کی بنا پراسے پولیس کی نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ملزم نے جامعہ کراچی سے 2016ء میں انٹر نیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کیا ہے، ملزم نے والد کے قتل کے شبہے میں قتل کی مذکورہ تمام وارداتیں کیں، ملزم کچھ عرصے قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا، پولیس حکام کے مطابق ملزم کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے، قتل، اقدامِ قتل اور دہشت گردی سمیت کئی سنگین مقدمات درج ہیں، ملزم نے کم سے کم 7 قتل کیے ہیں۔
پولیس افسر کو بھی شہید کیا، ایک اہل کار کو سرکاری ایس ایم جی چھینے کے دوران گولی ماری۔ سوتیلے بھائی کو فائرنگ کرکے زخمی کیا۔ گرفتار ملزم پر غیر قانونی اسلحہ ،قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کے کئی مقدمات درج ہیں۔ ملزم پر 2010میں ہی بہادر آباد تھانے کی حدود میں ڈکیتی کا مقدمہ درج ہے۔ملزم پر 2012 میں بھی لیاقت آباد تھانے میں قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ درج ہے۔
گزشتہ دِنوں ضلع وسطی کے علاقے نارتھ ناظم آباد نجی فوڈ سینٹر کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں فائرنگ کے تبادلے میں راہ گیر ماں کی گود میں موجود 9 ماہ کی پھول جیسی شیر خوار بچی انابیہ دختر راشد جان سے گئی، جب کہ اس کی ماں 24 سالہ حنا راشد خود بھی زخمی ہوگئی۔ اس دِل خراش سانحے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس نے کئی آنکھیں پرنم کردیں، جب کہ متعدد افراد کو مشتعل بھی کردیا۔
ماں باپ اوران کا خاندان اس شیر خوار بچی کی جدائی کاغم تومدتوں نہیں بھول پائے گا۔کوئی اس کا مداوا کر سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق، مسلح ملزمان شہریوں سے لوٹ مار کر رہے تھے کہ اس دوران اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچی، تو ملزمان نے فائرنگ شروع کر دی، پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی۔
تاہم ملزمان کی فائرنگ سے راہ گیرخاتون شدید زخمی ہو گئی ،جب کہ اس کی گود میں موجود اس کی9 ماہ کی بچی جاں بحق ہوگئی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ظلم کی انتہاہے!! کراچی کے ٹیکسوں پرکام کرنے والی سندھ حکومت اور غیر تربیت یافتہ کراچی پولیس اس واقعہ کی براہ راست ذمے دارہے، شہر میں بے لگام ڈاکوؤں کا راج ہے، مبینہ طور پر پولیس نااہل ہے۔ روشنیوں کے شہر کراچی میں 9 ماہ کی پھول جیسی بچی کا فائرنگ سے شہید ہوجانا اور بے قصور ماں کو زخمی حالت میں اسپتال پہنچانا ظلم کی انتہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ڈاکوئوں کی فائرنگ سے 9 ماہ کی بچی کےجاں بحق ہو نے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈاکوئوں کی فوری گرفتاری ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔ یاد رہے کہ رواں ماہ 12روز کے دوران شہر میں جاری بر ق رفتار ڈاکو راج کے دوران نصف درجن سے زائد شہری اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔