پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلام کا طریقہ و راستہ روشن اور واضح ہے ، جب بھی اس روشن اور واضح جاوۂ حق سے انسانوں نے انحراف کیا تو رسوائی انسانیت کا مقدر ہوئی، اس انحراف کے نتائجِ بد کو مٹانے کے لئے اللہ نے اولوالعزم انسانوں کو نبی یارسول بنا کر انسانیت کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ ہر نبی نے اسلام ہی کی دعوت دی، سب نے اسی دین کی تعلیمات کا احیاء کیا۔ آخر میں امام الانبیاء، سید المرسلین ،خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو دنیا میں بھیج کر انسانیت کو کامل خوشخبری سنا دی گئی۔
آفاقی ہدایت عطا کر دی گئی، دین کی تکمیل ہو گئی۔ اب قیامت تک ہدایت کے لئے قرآن کریم او ر رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ ہاں ! جب بھی دینِ حق کے چہرے کو غبار آلود کرنے کی کوشش ہو گی تو نائبین مصطفیٰ ﷺ امت کے علماء ، صلحاء اور صوفیاء اسی ضابطۂ حیات کی تعلیم دیں گے جو قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں امت کا سرمایہ حیات اور رشد وہدایت کا سرچشمہ ہیں۔
صحابہ کرامؓ، تابعین ؒاور تبع تابعین ؒ کے بعد علماء و اولیائے امت نے ہمیشہ ’’شر‘‘ کے مقابلے ’’خیر‘‘ کی تعلیم دی۔ اسلام کے اشاعتی گلستان میں انہی کے اخلاق و کردار کی خوشبو رچی بسی ہے۔ پورا براعظم افریقہ ، ایشاء اور اماکن یورپ صوفیاء و اولیاء کے اشاعتی کارواں کی سعی پیہم سے اسلام کے دامانِ رحمت میں آئے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی اسلام کی آمدو اشاعت اور ترویج و تبلیغ کی تاریخ مشائخ چشت کی خدمات دین ، اشاعت اسلام کے کارہائے نمایاں اور زرّیں خدمات سے تابناک ہے۔ ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا آفتاب ولایت طلوع ہوا اور اس کی کرنوں سے شرک کے اندھیرے چھٹنے لگے۔ دلوں کی کدورتیں صاف ہوئیں اور اُن کی پاکیزہ سیرت اور حسین تعلیمات کے زیر اثر تھوڑے ہی عرصے میں اسلام ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گیا اور اس کا اعتراف مشہور غیر مسلم مصنف سر تھامس آرنلڈ نے بھی اپنی کتاب The Preaching of Islamمیں کیا ہے کہ’’ برصغیر میں اسلام کی اشاعت سیاسی اقتدار رکھنے والوں سے نہیں ،بلکہ خواجہ معین الدین چشتی ؒجیسے اولیائے کرام ؒکے ذریعے ہوئی ہے۔‘‘
جب اس خطے میں مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں مکاری و عیاری کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کی چال چل رہی تھی۔ مسلمان مذہبی، سیاسی ، معاشی، معاشرتی، اخلاقی ہر اعتبار سے تباہ حال تھے۔ اسی ناگفتہ بہ دور میں ایک مردِ کہستانی اور بندۂ صحرائی مقاصد فطرتِ کی نگہبانی و تکمیل میں مصروف ِ’جہاد بالنفس ‘‘ تھا۔ یہ مجاہدہ نفس کا فریضہ انجام دینے والی شخصیت خواجگانِ چشت کے باغِ بہشت کا ’’رضواں‘‘ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان چشتی تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی تھی۔ جنہوں نے تونسہ شریف کی سنگلاخ زمین پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ، تزکیہ نفس ، تربیت افراد معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اس علاقے میں مرکز شریعت اور گہوارۂ طریقت قائم کیا، جہاں سے لاتعداد بندگانِ خدا شریعت و طریقت کا حسین امتزاج بن کر تزکیہ نفس اور علم دین کے حامل بنے۔
حضرت شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کی ولادت 1183ھ مطابق 1770ء میں ہوئی۔ والد کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا، والدہ محترمہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ،سب سے پہلے قرآن کریم پڑھنے کے لئے ملا یوسف جعفر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ،پھر میاں حسن علی سے قرآن کریم کی مزید تعلیم اور ابتدائی دینی کتابوں کی تعلیم حاصل کی، ان کے علاوہ وقت کے جیّد علماء سے تکمیل تعلیم کی۔ نو عمری ہی میں وقت کے عظیم صوفی حضرت خواجہ نور محمد مہاروی چشتی سے سلسلۂ چشتیہ میں شرف بیعت حاصل کیا اور پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر سلوک و احسان کی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا اور اس کام میں اپنے تمام برادران طریقت پر سبقت لے گئے۔
حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کے حکم پر اپنے دادا پیر حضرت خواجہ مولانا فخر الدین چشتی دہلویؒ سے شرفِ نیاز اور اکتسابِ فیض کے لئے دہلی کا سفر کیا، لیکن آپ کے دہلی پہنچنے سے پہلے ہی حضرت مولانا فخرالدین چشتی دہلویؒ وصال فرماگئے۔ واپسی پر حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کی خدمت میں رہ کر تکمیل علوم سلوک و احسان کی ۔طریقت کے اسرار ورموز سے آگاہی حاصل ہونے کے بعد حضرت خواجہ نور محمد مہاروی نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز کیا اور خواجہ نور محمد مہارویؒ کے حکم سے اشاعتِ اسلام کے لئے تونسہ شریف کا رخ کیا اور وہیں قیام فرمایا۔
یہاں قیام کے بعد آپ نے اس علاقے میں دین کی عملداری اور نفاد کے لئے قرآن و سنت کی تعلیم کا آغاز کیا اور اس مقصد کے لئے تونسہ میں آستانۂ عالیہ سلیمانیہ قائم کیا، یہ ایک ایسا مرکز شریعت و طریقت تھا جس نے ملت کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی۔ آپ کے اس اقدام سے تونسہ شریف ایک دارلعلوم کی شکل اختیار کرگیا۔ خانقاہِ سلیمانیہ کے ساتھ آپ نے تونسہ شریف میں احکاماتِ دین اور تعلیم قرآن و سنت کو عام کرنے کے لئے کئی مدرسے قائم کئے، جہاں جیّد علماء و صلحاء تعلیم شریعت و طریقت میں مصروف رہتے ۔ آپ کے اس درس و تدریس کے شوق اور اقدام نے تونسہ شریف کو علم دین کا مرکز اور گہوارہ بنادیا۔
جہاں پر دور دور سے طالبانِ علمِ دین اور راہروانِ سلوک و احسان تعلیم و تربیت ِ نفس اور تزکیہ روح کے لئے آتے۔ حضرت سلیمان تونسویؒ کو درس و تدریس کا بہت شوق تھا، لہٰذا آپ دارالعلوم کے خاص طلبہ و مریدین کو سلوک و احسان کی کتابوں کا درس خود دیتے ۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن و حدیث ، فقہ و اصول ، فقہ ، فلسفہ و منطق ، علم الکلام پر زبردست عبور حاصل تھا۔تصوف کی تمام کتابوں کا مطالعہ بھی کافی تھا۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برصغیر کے معاشرے میں خانقاہی نظام کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ دور جدید میں زیادہ تر خانقاہیں اورآستانے اور ان کے سجادگان اپنی ان دینی اور شرعی ذمہ داریوں ہی سے نہیں، طریقت و سلوک کی پابندیوں سے بھی آزاد اور غافل نظر آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں تونسہ شریف کی خانقاہ اس مرد خدا آگاہ و خود آگاہ کی سر زمین جسے شاہ سلیمان تونسویؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہاں آپ کے روحانی تصرف او تربیتی فیض کا ایک جہاں آباد ہے۔
حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی ؒ نے تصوف اور صوفیاء کی اصلاح کا اہم فریضہ انجام دیا اور طریقت و تصوف اور سلوک و احسان کے نظریاتِ بدعت اور عقائد شرکیہ کا ابطال فرمایا۔ آپ صوفیاو سالکین کو دنیاداری سے دین داری کی طرف بلاتے اورکہتےکہ کل تم کیا تھے اور آج کیا ہو گئے ہو، تمہارے مجاہدے اور عبادتوں کے مرکز کیوں تبدیل ہو گئے ، تم نے دین کے بجائے دنیا سے کیوں دل لگا لیا۔ تم نے اپنے اعتقادات میں کیوں فساد پیدا کر لیا ، اے صوفیاء و سالکین! اپنے اندر صحیح دینی جذبہ پیدا کرو، قرآن و سنت کی اتباع و پیروی کرو، اپنے آپ کو عشق رسالت سے سرشار کرو، تاکہ تم عشق الہٰی کی منزل کو پاکر فنا فی اللہ کے مرتبے پر فائز ہو سکو کہ یہی طریقہ دین دنیا اور آخرت کی سعادت ، کامیابی اور فائز المرامی کا باعث ہے۔
شاہ سلیمان تونسوی ؒشریعت کے معاملے میں نہایت سخت گیر اورمتشدّد تھے۔ فرماتے تھے کہ ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ اپنے ظاہر و باطن اور خلوت و جلوت میں شریعت کی سختی سے اتباع اور پیروی کرے‘‘۔ آپ کے نزدیک کمالِ انسانیت کا حصول شریعت کی متابعت کے بغیر نا ممکن ود شوار ہے ۔آپ فرماتے تھے کہ ’’ایک غیر شرعی فعل بندے کو مرتبہ ولایت سے نیچے پھینک دیتا ہے ‘‘ ۔ آپ تصوف و سلوک کی مستند کتابوں کے حوالوں سے یہ ثابت فرماتے کہ ’’صراط مستقیم سے مراد راہِ شریعت اور قرآن و سنت کا اتباع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پنچاب میں چشتیہ نظامیہ سلسلہ حضرت شاہ نور محمد مہاروی کے ذریعے آیا، لیکن اس سلسلے کی تکمیل حضرت شاہ سلیمان تونسوی چشتی نظامی المعروف پیر پٹھانؒ کے ذریعے ہوئی۔ آپ اس خطے میں سلسلہ نظامیہ کے آخری عظیم بزرگ ہیں۔ آپ کا وصال 7؍صفر 1267ھ کو ہوا۔ آپ کی خانقاہ اور درگاہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔