تحریر:خواجہ محمد سلیمان۔۔۔ برمنگھم ہر سال 27اکتوبر کو کشمیری ساری دنیا میں یوم سیاہ مناتے ہیں 27اکتوبر 1947کو انڈیا کی افواج مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئیں اور اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ساری دنیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ یہ فوجیں ہم نے ریاست جموں وکشمیر میں امن قائم کرنے کے لئے بھیجی ہیں۔ انہوں نے ایک ٹیلگرام کے ذریعے حکومت پاکستان اور برطانیہ کو یہ بھی کہا کہ کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ اس وقت ہو سکتا ہے جب کشمیر کے عوام استصواب رائے سے یہ فیصلہ کریں، یہ بات انہوں نے انڈیا کی پارلیمنٹ میں بھی کہی لیکن یہ سب جھوٹ تھا اور یہ تاریخ کا بہت بڑا جھوٹ تھا، اس لئے کہ انڈیا نے یہ سب ڈرامہ کشمیر کے بہت بڑے حصہ پر قبضہ کرنے کے لئے کیا، انڈیا کی اس وقت کی لیڈر شپ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی دھوکے میں رکھا، اس لیڈر شپ نے مہاراجہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ریاست کا الحاق انڈیا کے ساتھ کرے لیکن مہاراجہ کی آخر تک کوشش یہ تھی کہ اس کا اقتدار بچا رہے، وہ اس کے لئے حکومت پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا تھا لیکن کشمیری عوام اور ان کے لیڈر یہ ماننے کے لئے بالکل تیارنہیں تھے کیونکہ انہوں سو سال اس متعصب ہندو خاندان کا راج دیکھا تھا، جس میں اقلیتی ہندو کمیونٹی کو نوازا جاتا تھا اور مسلمان جو اکثریت میں تھے ان کے حقوق برائے نام تھے، یہ جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ قبائیلیوں نے آکر لوٹ مار کی ہے یہ جھوٹ پر مبنی ہے، حقیقت یہ ہے کہ بڑی مکاری کے ساتھ سکھوں اور انتہاپسند ہندوؤں کو انڈیا سے لا کر کشمیر میں قتل غارت شروع کیا گیا، ایک اندازے کے مطابق صرف جموں میں دو لاکھ مسلمانوں کو ان ہندوں غنڈوں نے شہید کیا اور جو مسلمان انڈیا سے ہندو غنڈوں سے جان بچا کر پاکستان میں ہجرت کررہے تھے ان کے قافلوں پر بھی حملے کیے گئے، یہ حملے کرنے والے اس گاندھی بہروپیہ کے ماننے والے تھے جو دینا کو امن کا درس دے رہا تھا، ہاتھ میں چھری اور منہ سے رام رام کی اگر کسی نے زندہ مثال دیکھنی ہے تو وہ اس تاریخ کو دیکھے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک انٹر نیشنل کمیشن انکوائری ہوتی اور جن ظالموں نے تاریخ کااتنا بڑاجرم کیا تھا ان کو سزا ملتی لیکن اس دنیا میں انصا ف کہاں ہے۔ سب ظالم آپس میں ملے ہوئے ہیں اور کمزوروں کے ساتھ زیادتیاں کرنا ان کی تاریخ ہے، موجودہ وقت کو دیکھیں کہ کس طرح نریندر مودی نے 2019 میں متنا زعہ ریاست کے ٹکڑے کرکے اس کو انڈین یونین کا جبری حصہ بنایا ہے، یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے لیکن مودی کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایسا کرکے کامیاب ہو جائے گا لیکن یہ اس کی بھول ہے، جب تک ایک بھی کشمیری زندہ ہے وہ اس ظالمانہ اقدام کے خلاف جدوجہد کرتا رہے گا۔ آج مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے مختلف حصوں سے ہندوؤں کو لا کر آباد کیا جارہا ہے، یہ بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر انڈیا کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہندو ریاست کے باشندے ہو سکتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ کروڑوں کشمیر ی ریاست سے ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں، وہ کشمیر میں آکر آباد ہو سکتے ہیں حکومت آزاد کشمیر کو چاہئے کہ وہ پاکستان سے ملکر ان کے کوائف اکھٹے کرے اور ان کو اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں جمع کرائے اور اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں جو نئی آباد کاری ہو رہی ہے اس کے خالاف اقوام متحدہ میں زور شور سے آواز اٹھائے۔ آزاد کشمیر کی حکومت پوری ریاست کی نمائندہ حکومت ہے۔ حکمراں صرف مظفرآباد کی کرسی تک نظر نہ رکھیں بلکہ پورے کشمیر کے بارے میں سوچیں، یہ بات درست ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہمارا وکیل ہے اور وہ اس مسئلہ کا ایک اہم فریق بھی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کی بنیادی ذمہ داری کشمیریوں کی اپنی ہے، یہ بات درست ہے کہ ہمیں پاکستان کی مدد درکار ہے لیکن آزادی کے لئے جو قربانیاں کشمیریوں نے دینی ہیں وہ کسی اور نے نہیں دینی، یہاں برطانیہ میں بھی کشمیری اور پاکستانی مل کر انڈیا کے اس جھوٹے دعوے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کررہے ہیں کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے، 27اکتوبر کو لندن انڈین ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ ہوگا، اسطرح برمنگھم انڈین قونصلیٹ کے باہر بھی احتجاج ہو گا، تحریک کشمیر کے زیر اہتمام مختلف یورپین ممالک میں بھی اس دن احتجاج ہو رہے ہیں، ان کاوشوں کو جاری رکھنا چاہئے، اسی طرح بھارت پر دباؤ بڑھے گا۔ کشمیر کی آزادی کا اصلی محاذ مقبوضہ کشمیراور آزاد کشمیر ہے اور پاکستان کا اس تحریک آزاد ی میں اہم رول ہے، اگر ہر جگہ اخلاص کے ساتھ کام ہوتا رہا تو انشاء اللہ کامیابی یقینی ہے۔