تحریر: فرزانہ افضل۔۔۔۔۔مانچسٹر رشی سوناک کے وزیراعظم بنتے ہی برطانیہ بھر کی ایشیائی کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، آپس میں سوشل میڈیا پر بھی مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے،خصوصاً برٹش انڈین تو خاص طور پر جشن منا رہے ہیں ، کیونکہ ان کے ہم وطن رشی سوناک نے پہلے ہندوستان نژاد برطانوی وزیراعظم منتخب ہو کر ان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے اور اس سال ان کی دیوالی کی خوشیاں بھی دوبالا ہو گئی ہیں۔ برٹش مسلم کمیونٹی کے افراد بھی اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور فخر محسوس کر رہے ہیں کہ رشی سوناک کے دادا کا تعلق پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تھا۔ اس تمام جوش اور خوشی میں تمام اقلیتوں کو اور باقی عوام کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ رشی سوناک کس طرح سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں 650ممبران ہیں جن میں سے کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی کی تعداد 357ہے اور ان میں سے 202 پارلیمانی ممبران نے رشی سوناک کو ووٹ دیا ہے جو کہ پوری کابینہ کے 31فیصد ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ رشی سوناک کے پاس پارلیمنٹ چھوڑ کر ان کی اپنی پارٹی کی بھی پوری سپورٹ یا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابھی چند ہفتہ قبل وہ اسی طرح کے ٹوری لیڈرشپ کے الیکشن میں سابقہ پرائم منسٹر لز ٹرس سے ہار چکے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کر کے جنرل الیکشن کے ذریعے باقاعدہ الیکشن لڑ کر پرائم منسٹر نہیں بنے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک کمزور ترین طریقے سے بنے ہوئے وزیراعظم ہیں، کنزرویٹو پارٹی کی حکومت گزشتہ12سال سے برطانیہ میں قائم ہے اور ایک جمود کا شکار ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے یکے بعد دیگرے غلط اقدامات کیے ہیں اور ملک کے لئے نقصان دہ پالیسیاں اپنائی ہے۔ تھریسا مےآئیں تو انہوں نے بریگزٹ متعارف کرا دیا۔ پھر ان کو بریگزٹ ڈیل صحیح طریقے سے نہ کرنے پر وقت سے پہلے جانا پڑا اور 2019میں بورس جانسن پارٹی لیڈر شپ کا الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن گئے۔ مگر کوویڈ کے دوران لاک ڈاؤن کے قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے پارٹی گیٹ سکینڈل بنا جس کی ان پر تفتیش اور کاروائی ابھی بھی جاری ہے ان پر بھی پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کیا گیا اس کے نتیجے میں انہیں بھی استعفٰی دینا پڑا اور ایک بار پھر ٹوری پارٹی کے لیڈر شپ الیکشن ہوئے اور لز ٹرس رشی سوناک کے مقابلے میں جیت کر وزیر اعظم بن گئیں جو کہ برطانیہ کی تاریخ میں قلیل ترین مدت کی وزیراعظم ثابت ہوئیں۔ یعنی یہ سارا کھیل ٹوری پارٹی کا آپس میں ہی چل رہا ہے۔ جنرل الیکشن بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا گو کہ ان کی مدت پوری نہیں ہوئی مگر اس سال میں یہ تیسری مرتبہ وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے۔ ان حالات میں جبکہ ملک مہنگائی کے بحران افراط زر اور گیس اور بجلی کے بحران اور یوکرین روس جنگ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے اور یہ سارا بگاڑ ٹوری پارٹی کی غلط پالیسیوں اور احمقانہ فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے رشی سوناک اور ان کی بیگم جو برطانیہ کے امیر ترین افراد میں 222ویں نمبر پر آتے ہیں ،کُل اثاثے اور 730 ملین پاؤنڈ کی دولت کے مالک ہیں۔ وہ غریب عوام اور ورکنگ کلاس کے مسائل کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں پوری ٹوری پارٹی امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال حکومت میں رہتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کی تکالیف کو سمجھیں ان کے مسائل کو حل کریں۔ نیشنل ہیلتھ سروس بری طرح سے بحران کا شکار ہے ، بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سڑکوں پر رہنے والے اور سونے والے افراد کو دیکھ کر باقاعدہ تکلیف ہوتی ہے، ہوم لیس شیلٹر بھی بھرے ہوئے ہیں جب کہ کنزرویٹو پارٹی کے دلوں میں ان لوگوں کیلئے قطعی رحم نہیں۔ رشی کے وزیر اعظم بننے سے کونسی ایسی بڑی تبدیلی آجائے گی یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر پارٹی کا اپنا منشور ہوتا ہے اس پر وہ عمل کرتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں لہٰذا رشی سوناک بھی اپنے دوسرے ساتھیوں سے کچھ زیادہ مختلف پالیسیاں نہیں بنائیں گے ہر چند کہ وہ بہت سے وعدے کر رہے ہیں اور عوام کا اعتماد جیتنے کی بات بھی کر رہے ہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ عوام کیلئے کوئی چمتکار کرنے والے نہیں ہیں، ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ ان کی وزارت عظمٰی کسی چمتکار کا نتیجہ ضرور ہو سکتی ہے۔ ملک کو تمام پیش کردہ بحران سے نکلنے کیلئے فوری جنرل الیکشن کی ضرورت ہے تاکہ نئ قیادت آئے اور اس بار لیبر پارٹی کو حکومت میں آنے کا موقع ملنا چاہئے کیونکہ لیبر پارٹی عوام کی پارٹی ہے اور انہی کا منشور ملک کو تمام مسائل سے نمرد آزما کر کے بحران سے نکالنے کی طاقت رکھتا ہے۔