عالمی دنیا میں پاکستان اور اس کی فٹ بال کی پہچان کرانے والےایور گرین اسٹارعلی نواز بلوچ 78 برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کے انتقال سے پاکستانی فٹ بال کی فضاسوگوار ہوگئی۔ وہ کسی بھی گرائونڈ یا اسٹیڈیم میں موجود ہوتے تھےتو اپنے میڈیا کے دوستوں کو دیکھ کھڑے ہوکر ان کا نام لیکر استقبال کرتے تھے۔
لیاری یا اس کے گرد نواح میں کوئی بھی فٹ بال کا ایونٹ ہوتا تو وہ اپنے سارے کام چھوڑ کر اس میں اپنا کردار ادا کرتے تھے اگر کسی ایونٹ میں بحثیت آرگنائزر شامل نہ ہوتے تو پھر بھی اس ایونٹ میں نظر ضرور آتے تھے۔ فٹ بال ہی ان کی زندگی اور اوڑھنا بچھونا تھا۔ پاکستانی فٹ بال کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو بلاشبہ علی نواز کا نام ٹاپ فٹ بالرز میں شامل ہوگا۔ علی نواز اپنےدور کا وہ ہیرا تھا جس کو غیرملکی اپنی ٹیم کی جانب سے کھلانے کیلئے آتے تھے۔
یو اے ای فٹ بال کلب کے چیئرمین خصوصی طیارہ میں انہیں پاکستان سے کھلانے کیلئے لیکر گئے۔ ان کا کھیل دیکھنے والے آج بھی ان تیزی اور پھرتی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ۔ پاکستانی فٹ بال کی تاریخ کا متحرک ترین فٹ بالربیماری سے قبل تک کھیل کی ترقی کیلئے سرگرداں رہا، صدارتی ایوارڈ یافتہ سابق کپتان انٹرنیشنل فٹبالر علی نواز بلوچ طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ مرحوم کی نماز جنازہ کے ایم سی فٹ بال اسٹیڈیم میں ادا کی گئی اورسینکڑوں سوگواروں کے موجودگی میں میراں پیر قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا، مرحوم نے بیوہ، دو بیٹے اور وو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ پاکستان فٹبال کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرنے والے علی نواز بلوچ نے آر سی ڈی فٹبال کپ میں 1974 سے 1980 تک پاکستان کی قیادت کی۔
انہیں 1960 میں برصغیر کے مشہور فٹبال کلب کلکتہ محمڈن کی نمائندگی کا بھی اعزاز حاصل رہا۔علی نواز نے متحدہ عرب امارات میں امارات کلب کی جانب سے پروفیشنل فٹبال کھیلی اور کوچنگ کی، سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلنے والے علی نواز بلوچ نے مختلف میچز میں ہیٹ ٹرک بھی کیں جبکہ کلکتہ محمڈن کی جانب سے امارتی ٹیم کے خلاف ان کی ٹرپل ہیٹ ٹرک یادگار رہی۔
علی نواز بلوچ کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے شہریت کی پیشکش کی گئی لیکن وہ پاکستان آ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا ملک پاکستان ہے میں اس کیلئے کھیلتے میں فخر محسوس کروں گا۔ علی نواز بلوچ اپنے دور میں گول اسکورر مشین کے نام سے مشہور تھے، وہ دبئی کلب سے بھی فٹبال کھیل چکے تھے جب کہ انگلینڈ سے کوالیفائیڈ کوچنگ بھی حاصل کی ۔ پی آئی اے سے منسلک رہنے والے علی نواز پاکستان فٹبال فیڈریشن کے 16برس تک نائب صدر رہے ۔حکومت پاکستان نے فٹبال کے کھیل میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں 1996 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا ت۔
لیاری سے تعلق رکھنے والے علی نواز بلوچ کے جائے پیدائش کے علاقہ کی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ میڈیا کے ساتھیوں کا بہت خیال کرتے تھے اور انہیں عزت سے اپنے پاس بیٹھا کر ماضی کی فٹ بال کے قصے شیئر کیا کرتے تھے، ایک بار انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا واقعہ بتاتے ہوئےبتایا کہ 1975 کی بات ہے جب یو اے ای کے کلب کا چیئرمین شیخ خلیفہ الاویسی ان کے کھیل سے بہت متاثر ہوا اور اپنے خصوصی طیارے میں انہیں اپنے کلب کی جانب سے کھلانے کیلئے لیجانے آیا۔ علی نواز بتاتے تھے کہ تمام معاملات طے کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو ان کے بیٹے جاوید نواز مچل گئے اور رو رو کر برا حال کردیا کہ میں بھی پپا کے ساتھ جائوں گا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے شیخ خلیفہ نے علی نواز سے کہا کہ اسے بھی ساتھ لے چلو ۔
علی نواز بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے جاوید کو بھی اپنے ساتھ یو اے ای لے گئے۔ بلاشبہ یہ پاکستانی فٹ بال کی تاریخ کا ایک انہونہ واقعہ ہے جب فٹ بالر کے ساتھ اس کا بیٹا بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے یو اے ای روانہ ہوا۔ فیفا کے صدر جوزف ایس بلیٹر اور اے ایف سی کے صدر شیخ سلمان بن ابراہیم الخلیفہ نے پاکستان فٹ بال آفیشل کی حیثیت سے فٹ بال میں خدمات پر علی نواز کو اے ایف سی ڈسٹنگوئشڈ سروس ایوارڈ 2013 دیا۔ پاکستانی فٹ بال کے حلقوں نے ان کے اعزاز کو پی ایف ایف اور پاکستان کی فٹ بال فیملی کے لیے بڑا اعزازقراردیا۔
علی نواز کے انتقال پر پاکستان فٹ بال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی کے رکن شاہد کھوکھر نےاسےپاکستان فٹ بال کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرا فٹ بال کے حوالے سےعلی نواز سے ذاتی تعلق تھا۔جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی تو وہ فٹ بال پر ہی بات کرتے تھے ۔ وہ پاکستانی فٹ بال کے لیجنڈ تھے۔ انہوں نے ہر دور میں فٹ بال کو نئی جہت دینے کی کوشش کی وہ پاکستانی فٹ بال کیلئے مثال ہے۔ علی نواز گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی فٹ بال کی بربادی پر بھی نوحہ کناں رہتے تھے۔
عہدیداروں کی باہمی جنگ اور فیفا فٹ بال ہاوئس پر قبصے سے وہ بہت پریشان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیفا اور اے ایف سی کے تعاون کے بغیر کھیل کی ترقی ممکن نہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ فٹبال کھیلنے والے نوجوانوں کا بھی مستقبل تاریک ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے فٹ بال ہائوس پر سے قبضہ خالی کرانے کیلئےبھی بھرپور کوششیں کیں۔ علی نواز کےجنازے میں احمد جان، شہزاد بھائی ،حسن بلوچ، لالا عاشق، غلام سرور، نوشاد، ناصر اسماعیل،واحد بلوچ، واحد ابو، ماما ظفر،استاد حیدر، طارق لطفی، شمیم احمد،جی آر گلاب، رحیم بلوچ، غلام شبیر،حبیب حسن، عبیداللہ، اجمل خٹک، فتح محمد بلوچ،ناصر کریم، دانش بلوچ، جمیل ہوت ،لالا اشرف، جاوید ناگوری، عابد بروہی، غلام محمد سموں،غلام حسین حاجی سر نے شرکت کی جبکہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سابق صدر فیصل صالح حیات، اشفاق حسین، احمد یار لودھی، کرنل (ر) فراست علی، پرویز سعید میر، نوید حیدر، شرافت بخاری، روبینہ عرفان، خادم علی شاہ، اعظم خان، نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک، نیشنل بینک شعبہ اسپورٹس کے سربراہ کامران خالد، افشاں شکیل،محمدجاوید، عظمت اللہ خان ناصرعلی، عمران بلوچ، قمرعلی، اصغربلوچ، عباس بلوچ، زاہد تاج،محمدصادق، غلام محمدخان، گلفراز احمد خان، زاہد شہاب، محمدقاسم، سلیم پٹنی، ضمیرالسلام، سابق ٹیسٹ کپتان معین خان سرفراز احمد، سابق عالمی اسکواش چیمپیئن جہانگیر خان اور دیگر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اظہار تعزیت کیا ہے۔