• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹریفک قوانین کی پاس داری اور اس حوالے سے ہماری ذمہ داریاں

مولانا نعمان نعیم

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت سواری ہے۔پہلے انسان سواری کے لئے جانوروں کا استعمال کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں انسان نے دیگر شعبوں میں ترقی کی، وہاں اس نے سفری صعوبتوں کو کم کرنے کے لئے گاڑی ایجاد کی۔اس کے بعد انسان کو ایک ایسے نظام کی ضرورت پیش آئی جو ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد فراہم کرے اور نقصان کی صورت میں ضامن کا تعین کرے ۔چنانچہ انسان نے نظام ٹریفک متعارف کروایا۔

دور حاضر میں نقل و حمل کے لئے گاڑی کا استعمال ناگزیر ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی ، بے اُصولی اور نا مناسب حد تک جلد بازی کی وجہ سے حادثات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔اسلام نے اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کی ہے اور قرآن و حدیث میں ہمیں اس سلسلے میں اُصولی ہدایات ملتی ہیں ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ کچھ چیزیں وہ ہیں ، جن کا شریعت نے حکم دیا ہے ، اور کچھ باتوں سے شریعت نے منع فرمایا ہے، ان باتوں پر بعینہٖ عمل کرنا ضروری ہے ، ان میں کسی کمی یا اضافے کی گنجائش نہیں ، کچھ چیزیں وہ ہیں کہ نہ ان کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ان سے منع کیا گیا ہے ، ان سے ایسی مصلحت متعلق ہے کہ نہ صراحتاً شریعت میں اس کے معتبر ہونے کا ذکر ہے اور نہ نا معتبر ہونے کا ، ان چیزوں کے بارے میں حکومت کو حق ہے کہ عام لوگوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتظامی قانون بنائے اور حسب ِضرورت لوگوں پر کسی پہلو کو لازم قرار دے دے، اسلام کے اُصولِ قانون کی اصطلاح میں انہیں ’’ مصالح مرسلہ‘‘ کہا جاتا ہے ، جیسے : انسان دائیں بھی چل سکتا ہے اور بائیں بھی، شریعت میں کوئی ہدایت نہیں ہے کہ چلنے میں کون سی سمت اختیار کی جائے اور کون سی سمت اختیار نہ کی جائے ؟ 

حکومت حفاظتی نقطۂ نظر سے عوام کوپابند کر سکتی ہے کہ وہ متعینہ سمت سے ہی سفر کرے ، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس لئے ٹریفک کے جو اُصول و قواعد مقرر کئے گئے ہیں ، کہیں تیز چلنے کے اور کہیں آہستہ چلنے کے ، رکنے کے اور نہ رکنے کے، گاڑی کسی مقام پر ٹھہرانے کے اور کسی مقام پر نہ ٹھہرانے کے ، یہ انتظامی نوعیت کے قوانین ہیں ، جن کا مقصد ہماری جان اورہماری سواری کا تحفظ ہے ، جان و مال کی حفاظت ایک شرعی فریضہ ہے اور حکومت کے ایسے قوانین کی اطاعت کا ہم نے عہد کیا ہے جو احکامِ شریعت سے متصادم نہیں ہیں ، اس لئے ان اُصول و ضوابط کی رعایت ہم پر واجب ہے اوران کی رعایت نہ کرنا نہ صرف قانونِ ملکی کی مخالفت ہے ، بلکہ عہد کی خلاف ورزی اور اپنی جان ومال کی حفاظت میں بے احتیاطی کی وجہ سے شرعاً بھی ایک قبیح فعل اور گناہ کا باعث ہے ، اس لئے مذہبی نقطۂ نظر سے بھی ان مفید قوانین کی رعایت کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

قرآن نے انسان کی چال کے بارے میں ہدایت دی ہے کہ اس سے تکبر اوراکڑخوں کا اظہار نہ ہو ، اس حوالے سے فرمایاگیا :زمین میں اکڑ کر نہ چلو کہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو ۔ (سورۃ الاسراء : ۳۷)ایک اور موقع پر نیک بندوں کی چال ڈھال اور گفتار و رفتار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا :رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں ، جو زمین پرعجز وفروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب نادان لوگ ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو سلامتی کی بات کہہ کر نکل جاتے ہیں۔( سورۃالفرقان : ۶۲)زمین پر اکڑ کر چلنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا ایک مطلب تو ظاہر ہے کہ سینے تنے ہوئے ہوں اور گردنیں تکبر سے اکڑی ہوئی ہوں، لیکن اکڑ کر چلنے کی صرف یہی ایک کیفیت نہیں، بلکہ ہر وہ چال جس میں اپنی بڑائی کا اظہار ہو اور دوسروں کی تحقیر محسوس ہو ، اس ہدایت ربانی کی مصداق ہے ، آپ گاڑی پر سوار ہیں اور آپ کو یہ گوارا نہیں کہ کسی کی گاڑی آپ سے آگے رہے ، آپ بلا وجہ اسے پیچھے کرکے خود آگے بڑھنے کے درپئے ہیں ، اس کے لئے نا مناسب طریقے اختیار کرتے ہیں ، ہارن بجابجا کر اسے پریشان کرتے ہیں ، تو یہ بھی اکڑ کر چلنے ہی کے حکم میں ہے ، تواضع کی چال یہ ہے کہ آپ اپنی رفتار معتدل رکھیں ، جو آپ سے آگے چل رہا ہے ، اسے آگے رہنے دیں ، اگر کسی کی سواری آپ سے پیچھے ہے ،لیکن اس کی رفتار بہ مقابلہ آپ کی سواری کے تیز ہے اور راستے میں اس کی گنجائش ہے کہ آپ اسے آگے بڑھنے کا موقع دیدیں ، تو آپ اسے اپنی اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اپنے دوسرے بھائی کو آگے بڑھنے دیں۔

صحابہ ٔ کرامؓ جب رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں ہوتے اور آگے کی سمت سے دشمن کا اندیشہ نہ ہوتا تو اہتمام کرتے کہ اپنی سواری کو حضور اکرم ﷺکی سواری سے پیچھے رکھیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا کہ آپ ﷺکے احترام کو ملحوظ رکھا جائے، ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓکی اونٹنی آگے بڑھ گئی ، یہ اونٹنی بڑی سرکش تھی اور قابو میں نہ آتی تھی ، صحابہؓ کو یہ بات گراں گزری اور حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمرؓکو اس پر ڈانٹ ڈپٹ بھی فرمائی، لیکن آپ ﷺنے اس کا برانہ مانا اور حضرت عمرؓ کو اس سے منع فرمادیا ، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اس پر اصرار نہ کرناچاہئے کہ اسی کی سواری آگے رہے اور دوسرے چلنے والے اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔

قرآن مجید نے اچھے انسان کی صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ اگر ناسمجھ لوگ اس سے اُلجھنے کی کوشش کریں تو وہ سلامتی کی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں، یہ نہایت اہم بات ہے ، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے، راستے میں چلتے ہوئے بار بار اس کی نوبت آتی ہے کہ ٹریفک کے اُصول سے ناواقف، جلد باز اور جاہل و اُجڈ قسم کے لوگ منہ آنے لگتے ہیں ، کوئی اپنی سواری غلط طریقے پر بیچ میں لے آتا ہے ، کوئی اپنی مخالف سمت میں گھس آتا ہے ، کوئی بے موقع ہارن بجاکر دِق کرتا ہے ، کوئی ایسی جگہ گاڑی روک دیتا ہے جہاں گاڑی روکنے کی اجازت نہیں ، اس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، بعض لوگ خود غلطی کرتے ہیں اور اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے الٹے دوسروں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں ، یہ بڑے جذباتی مواقع ہوتے ہیں، اگر دوسرا آدمی بھی یہی طرزِ عمل اختیار کرے تو اس سے ماحول کے اور خراب ہونے ، آویزش بڑھ جانے اور ٹریفک جام ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے ، ان ہی صورتوں میں یہ آیت ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے کہ یہ وقت برداشت ، تحمل اور کلمۂ خیر کہہ کر گزر جانے کا ہے کہ ایک شخص تو کانٹا پھینک ہی رہا ہے ، اگر دوسرے لوگ بھی پھول پھینکنے کے بجائے کانٹے ہی پھینکنے پر اصرار کریں تو کانٹے ہی کانٹے جمع ہو جائیں اور گلہائے محبت کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے ۔رفتار حالات کے اعتبار سے ہونی چاہئے ،جہاں رش زیادہ ہو، وہاں آہستہ چلا جائے ، جہاں رش نہ ہو اور آپ کے آہستہ چلنے کی وجہ سے ان لوگوں کو دشواری ہو جو آپ کے پیچھے ہیں تو وہاں سبک خرامی کے بجائے تیز گامی اختیار کیجئے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ حجۃ الوداع کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی رفتار کی بابت فرماتے ہیں کہ جب کہیں خالی جگہ ہوتی توتیز چلتے ورنہ رفتار اس سے کم رہتی ‘‘۔ (صحیح بخاری : ۲۹۹۹ ، صحیح مسلم ، : ۱۲۸۶) پیدل چلنے میں وقار اور متانت ہو ، نماز ایک عبادت ہے اور نماز کے لئے آنا ایک عبادت کی طرف سبقت ہے ، لیکن آپ ﷺنے فرمایا کہ اس میں بھی وقار کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓسے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ سکون کے ساتھ چلو ، تیز چلنا کچھ نیکی کا کام نہیں۔ ( مسند احمد)

راستے پر بے ضرورت ہارن بجانا بھی پسندیدہ نہیں ، اس سے آگے چلنے والے کو وحشت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ حادثے کا باعث بھی ہو جاتا ہے ، اس لئے بھی کہ ہارن کی آواز سنجیدہ لوگوں کے لئے گراں خاطر ہوتی ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے راستہ چلتے ہوئے گھنٹہ بجانے سے منع فرمایا ، عربوں کا طریقہ تھا کہ اونٹ کی گردنوں میں گھنٹیاں باندھ دیتے ، جب پورا قافلہ چلتا تو راستہ گھنٹیوں کی آواز سے گونج اُٹھتا، آپ ﷺنے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ اس سے بے ضرورت ہارن بجانے کی قباحت پر روشنی پڑتی ہے ، بعض حضرات نت نئی آوازوں کے ہارن گاڑیوں میں لگاتے ہیں، جیسے کتے کی آواز ، چھوٹے بچے کے رونے کی آواز ، یہ نہایت ہی ناشائستہ بات ہے ، اس آواز کے مکروہ ہونے کے علاوہ لوگ اس سے دھوکہ بھی کھاجاتے ہیں اور چونک اُٹھتے ہیں ، جو خطرناک حادثے کا باعث ہو سکتا ہے ، اس لئے ایسی چیزوں سے گریز ضروری ہے۔

ممنوع علاقے میں ہارن نہ بجانا اور اس کا بے جااستعمال نہ کرنا:ممنوعہ علاقے سے مراد ہسپتال یا اسکول وغیرہ ہیں کہ جس میں مریضوں کوہارن بجانے سے تکلیف ہو ،اسی طرح ہارن کا بے جا استعمال ممنوع ہے، کیوں کہ اس میں لوگوں کو انتہائی تکلیف ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جوشخص اپنے غصے اور کینے کا اظہار مسلمانوں کے راستوں میں کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ ،اس کے فرشتے او ر تمام لوگ لعنت بھیجتے ہیں ۔( امام حاکم)لوگوں کوراستوں میں تکلیف دینےکے بارے میں کتنی سخت وعید آئی ہے۔ایمبولنس کو عربی میں ’’سیارۃ الاسعاف‘‘ کہا جاتاہے۔ یہ گاڑی مریضوں کے لیے خاص ہوتی ہے،اس کا راستہ بند کرنا بھی ضرر سے خالی نہیں۔ بلڈنگ کے گیٹ کے سامنے گاڑی کھڑی کرنا دوسروں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔

یہ بات بھی مناسب نہیں کہ جہاں پارکنگ کی جگہ نہ ہو، وہاں گاڑی کو پارک کر دیا جائے، یہ دوسرے راستے چلنے والوں کے لئے تکلیف اورمشقت کا باعث ہے، اس سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے ۔رسول اللہ ﷺنے اسے بھی ایمان کا ایک درجہ قرار دیا ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو کو ہٹا دیا جائے ۔(مسند احمد ، : ۹۷۴۷) اذیٰ میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جو تکلیف دہ ہوں ، خواہ وہ گندگی یا نجاست ہو یا کچھ اور ، اس لئے غیرمناسب جگہ گاڑی کھڑی کرنا بھی اس میں شامل ہے ،کیوں کہ اکثر اوقات اس کی تکلیف راستہ چلنے والوں کے لئے گندگی سے بھی بڑھ جاتی ہے، اسی حکم میں یہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل راہ گیروں کے لئے تکلیف و اذیت کا باعث ہے اور اس سے پھیلنے والی آلودگی عام لوگوں کے لئے بھی مضر اور نقصان دہ ہے ،اس کے بجائے گیس پر گاڑیاں چلائی جائیں۔

ٹریفک کے وہ قوانین جن میں دوسروں کو نقصان کا خدشہ ہو۔دوسروں کو نقصان پہنچانے سےشریعت محمدی ﷺنےہمیں سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے اورکامل مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کا خون اور جان محفوظ ہو۔ (سنن ترمذی)

لہٰذا دوسروں کی جان ومال کی حفاظت ہر مسلمان کےذمہ ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:جو شخص مسلمانوں کو راستوں میں تکلیف دیتا ہے تو اس پر لوگوں کی لعنت واجب اور لازم ہو جاتی ہے۔(طبرانی)

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ

جمال احمد جمال

اک آپؐ کے،آجانے سے سرکارِ دو عالم

طاغوت کے نشّے کا ہر اک جام تھا برہم

ہے نورِ ازل سایۂ رحمت میں درخشاں

اور تابشِ انوار میں ہے دیدۂ پُرنم

اُن کے لیے اللہ کے تحفوں کی ہے کیا شان

ہیں کوثر و تسنیم کے دانائے مجسم

تاریکیٔ بے درد میں انساں تھے پریشان

جب آپؐ کی آمد پہ تھی ہر چشمِ نوا خم

دلداریِ انساں کے،تصور سے تھا دل شاد

رسم و رہِ باہم سے ہوا عشق منظّم

اک جبرِ مسلسل جو ہر اک سمت روا تھا

دشواریِ حالات،تسلسل سے ہوئے کم

بیشک ہیں وہ،محبوبِ خدا ،شافعِ محشر

کیا پیش کروں اُن ؐ کو بجُز دیدۂ پُرنم

ان ؐ کا ہی جمال، آبروئے کون و مکاں ہے

ان ؐ پر ہے یقیناً مرا ایمانِ مصمم