• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: عیدالفطر کی نماز کی دوسری رکعت میں تین تکبیرات کہنے کے بعد چوتھی تکبیر پر رکوع میں جانا ہوتا ہے، امام صاحب کی چوتھی تکبیر کہنے پر اگلی چند صفوں کے علاوہ تمام مقتدی رکوع میں چلے گئے، جب کہ امام صاحب نے تین تکبیریں اور کہہ دیں، اس طرح امام صاحب نے دوسری رکعت میں چھ تکبیرات کہیں، مجمع کے زیادہ ہونے کی وجہ سے پچھلی صفوں کے تمام مقتدی اس عرصے میں سجدے میں جا چکے تھے، امام صاحب ساتویں تکبیر کہنے کے بعد رکوع میں گئے، ان کے ”سمع اللہ“ کہنے پر پچھلی صفوں کو غلطی کا احساس ہوا، اور وہ سجدے سے واپس لوٹے، لیکن اس عرصے میں امام صاحب سجدے میں جاچکے تھے، اور پچھلی صفوں کے تمام لوگ امام صاحب کے ساتھ رکوع نہیں کر سکے۔

نماز ختم ہونے پر لوگوں نے امام صاحب کو غلطی کے متعلق بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ سب سجدے میں جا چکے تھے، جب کہ امام نے سجدۂ سہو بھی ادا نہیں کیا، جواباً امام صاحب نے جوکہ شہر کے بڑے مفتی صاحب ہیں کہا: ”جم ِغفیر کی وجہ سے سجدۂ سہو نہیں ہو سکتا“ جو لوگ سجدے میں جاکر امام صاحب کی اقتداء سے نکل چکے تھے، ان کی نماز فاسد ہوچکی تھی، ان کے متعلق امام صاحب نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ نماز سب کی ہوچکی ہے ،جب کہ واجب کا لوٹانا بھی لازم ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت آیا نماز کا لوٹانا لازم ہے، یا امام صاحب کا فیصلہ درست تھا؟ اگر لوٹانا لازم ہے تو اب کس طرح لوٹائی جائے؟

جواب: اگر امام عید کی نماز میں چھ سے زائد تکبیرات کہہ دے تو نماز ہوجاتی ہے اور مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے سجدۂ سہو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، چنانچہ امام صاحب کا جم غفیر کی وجہ سےسجدۂ سہو نہ کرنا درست تھا۔ 

جو مقتدی غلطی سے امام سے پہلے رکوع اور سجدے میں چلے گئے تھے، اس وجہ سے ان کی نماز فاسد نہیں ہوئی تھی، پھر ان میں سے جن مقتدیو ں نے سجدے سے اٹھ کر اپنا رکوع کرلیا، اور اس کے بعد امام کے ساتھ سجدے میں شریک ہوگئے، ان کی نما ز درست ہوگئی، اگرچہ وہ امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے ہوں۔

جن مقتدیوں نے سجدے سے اٹھنے کے بعد امام کے ساتھ بھی رکوع نہیں کیا اور اس کے بعد خود سے رکوع بھی نہیں کیا، ان کی نماز نہیں ہوئی، انہیں چاہیے تھا کہ کسی دوسری جگہ پر امام کی اقتداء میں عید کی نماز ادا کرلیتے۔ 

تاہم اگر انہوں نے ادا نہیں کی تو اب ان پر اس کی قضا نہیں ہے، کیوں کہ عید کی نماز کی قضا نہیں ہوتی۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار :کتاب الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، ج:1، ص:470، 471، ط:سعید۔البحرالرائق:کتاب الصلاۃ، باب العيدين، وقت صلاۃ العيد، ج:2، ص:175، ط:دار الکتاب الاسلامی)

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk

اقراء سے مزید