 
                
                 
 
ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری
گزشتہ چند دہائیوں میں ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی ترقی کی ہے، اخبار و رسائل سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا دور آیا، پھر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے سے ذرائع ابلاغ اس قدر تیز ہوگیا ہے کہ چند دہائیاں قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ذرائع ابلاغ کی اس تیزرفتاری سے یقیناً بہت سارے فائدے بھی ہوئے ہیں کہ پہلے جن معلومات کے حصول اور ترسیل میں دنوں، ہفتوں، مہینوں، بلکہ سالوں گزر جاتے تھے، ان کا حصول اور ان کی ترسیل چند گھنٹوں، چند منٹوں، بلکہ چندپلوں میں ممکن ہو گئی ہے۔
یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی، اس سے دینی، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجے کا ہے کہ اسے نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے، اس لئے اگرچہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبے کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا، اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصان دہ پہلوؤں کا تجزیہ کرنا چاہئے ۔ سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصان دہ پہلو ہیں، وہ یہ ہیں:
(1) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں، کیوںکہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارے کی گرفت نہیں ہے، جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ، ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔ (سورۂ حجرات : ۶)
(2) عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں، جس کی کھلی مثال رسول اللہ ﷺکے زمانے میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے۔
(3) عصر حاضر میں اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں، لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ (4) اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو ’ فحشاء ‘ کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے ، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدہ میں گوارا نہیں ہوسکتی، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے ، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔
موجودہ تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے، کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں، اور اس ذریعے کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اسے مفید طریقے پر استعمال کیا جائے اور نقصان دہ پہلوؤں سے بچا جائے۔
(۱) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو، اس سے دُور رکھا جائے، تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردے، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو۔ (۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے۔ (۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے، وہ ان ذرائع کے ذریعے بھی جائز نہیں ہے، جیسے: جھوٹ، بہتان تراشی، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا، مذاق اُڑانا، سب و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے۔
نوجوانوں کو ایسی سائٹس سے دُور رہنا چاہئے، جن کا تعلق دہشت گرد تنظیموں وغیرہ سے ہو، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے، کیوںکہ یہ چیز غلط راستے پر لے جاتی ہے، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے، اس لئے نوجوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دُور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے، جو انہیں غلط راستہ پر ڈال دے، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا، کیوںکہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہوجاتی ہے ، اسلام تو امن و انسانیت، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے، نہ کہ نفرت اور ظلم کا۔
لہٰذا ذرائع ابلاغ کے استعمال خواہ اس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکڑانک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال میں اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت، اسوۂ رسولﷺ، سیرت طیبہ اور تعلیماتِ نبوی ؐسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
اسلامی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام مؤثر ذرائع کو دین مبین کی دعوت و تبلیغ، اسلام، پیغمبر اسلامﷺ ، اسلامی شعائر اور اسلامی افکار و نظریات کے دفاع کے لیے استعمال کیا جائے۔
ایک ایسے وقت جب دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے اور ذرائع ابلاغ کے مؤثر ذرائع دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لیے عام ہوچکے ہیں، ان کے مثبت استعمال کے ذریعے دنیا بھر میں اور اقوام عالم میں اسلام کے بارے میں بے بنیاد شکوک و شبہات، مغربی دنیا اور غیر مسلم حلقوں کے اٹھائے گئے بے بنیاد اعتراضات و شبہات کے مثبت اور مدلل انداز میں جوابات دیے جائیں اوردنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام دین برحق، دین انسانیت اور فطرت کے عین مطابق مذہب ہے۔
یہ امن و سلامتی کا داعی اور رواداری کا علم بردار ہے، جس کا دہشت گردی، انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں، اس طرح اسلامو فوبیا اور مغرب کی طرف سے اٹھائے گئے بے بنیاد پروپیگنڈے کا ازالہ بھی کیا جاسکتا ہے اور ابلاغ کے ان ذرائع کو اسلام کی عالم گیر ترویج و اشاعت کا ایک بھرپور اور مؤثر ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جس کی عصرحاضر اور موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔