شہر میں جنگل کے قانون کی مثال اس وقت صادق آئی جب ڈاکس تھانے کی حدود جنگل سائیڈ مچھر کالونی اقصیٰ مسجد کے قریب بلاتصدیق ہجوم نےبچوں کےاغوا کی جھوٹی افواہ پر بے گناہ نجی ٹیلی کام کمپنی کے 2نوجوان ملازمین انجنئیرایمن جاوید اور ڈرائیور اسحاق کو تشدد کرکے افواہ کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ ظلم و بر بیت کے دِل خراش واقعہ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔اس افسوس ناک سانحہ پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نےنوٹس لے کرآئی جی سندھ، ڈی آئی جی ساؤتھ اور ایس پی انویسٹی گیشن کو رپورٹ کے ساتھ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حُکم دیا ہے،جس کی تعمیل کرتے ہوئے آئی جی سندھ سمیت دیگر افسران نے عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی۔
دوسری جانب تشدد اور قتل میں ملوث ملزمان کی جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں 2گواہوں نے گرفتار4 ملزمان فاروق،ربیع السلام ، فیصل اورعبدالغفور کو شناخت بھی کر لیا ہے ۔ واقعات کے مطابق قتل کیے جانے والے دونوں نوجوان مذکورہ علاقےمیں موبائل ٹاورکے سگنلزچیک کرنےآئے تھے۔ مشتعل افراد نےانھیں اغوا کار قراردے کربد ترین تشدد اورسرپروزنی پتھروں کی بارش کر کے دونوں کی جان لے لی، جب کہ ان کی گاڑی کو بھی آگ لگادی۔
اطلاع ملنے پر جب پولیس پہنچی، تو مشتعل افراد نے پولیس اہل کاروں کوبھی تشدد کا نشانہ بنایا۔علاقہ مکینوں نے الزام عائد کیا کہ دونوں افراد گاڑی میں بچےکو غوا کر نے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ حقیقت میں وہ ایک بچے سے علاقے سےباہر جانے کا راستہ معلوم کر رہے تھے کہ ایک شخص نے افواہ پھیلادی کہ سفید گاڑی میں 2 افراد بچے کو اغوا کر نے کوشش کررہے ہیں۔ ڈی آئی جی ساوتھ نے اس المناک واقعےکا فوری نوٹس لیا،پولیس نے 2افراد کو موقع سے گرفتارکر لیا۔
ایس ایس پی کیماڑی کا کہنا ہے کہ مقتول ملزمان نہیں، بلکہ سولر کمپنی کے ملازم اوراپنی گاڑی میں لیپ ٹاپ اور دیگرایکوپمنٹ کےذریعے علاقے میں نصب ٹاور کے سگنلزکی چیکنگ کررہے تھے کہ اسی دوران افواہ کے پھیلتے ہی یکدم ہجوم جمع ہوگیا اور مشتعل ہجوم نے 2بےگناہ ملازمین پربہیما نہ تشدد، پتھرا و ،لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کر کے انھیں ابدی نیند سُلادیا۔
جُھوٹ کو سچ میں بدل کر2گھروں کے چراغ گُل کردیے، کوئی اس کا مداوا کر سگے گا، کیا زندہ اور بےگناہ انسانوں کو اس طرح سرِعام بر بریت کا مظاہرہ کرکے بےقصور انسانوں کوقتل کرنے کی کوئی قانون اجازت دیتا ہے۔ ایس ایس پی کیماڑی کے مطابق پولیس نے واقعے کی سی سی فوٹیج کی مدد سےشناخت کر کے تشدد کے واقعے کے مرتکب اور مرکزی ملزم محمد حسین عرف شرارتی بابا کوگرفتار کر لیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم محمد حسین عرف شرارتی بابا ہی نے جھوٹی افواہ کو پھیلائی تھی، ملزم کومختلف و ڈیوز میں بھی واضح دیکھا گیا ہے۔ اب تک گرفتار مرکزی ملزمان کی تعداد 15ہوگئی ہے، جب کہ سرچ آپریشن کے دوران 40 مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
دریں اثنا مچھر کالونی جنگل سائیڈ کے علاقے میں پولیس کی جانب سے ملزمان کی تلاش اور گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کے دوران مسلح ملزمان نے پو لیس پر فائرنگ کردی، فائرنگ کے تبادلے میں پو لیس نے ایک مسلح ملزم محمد شریف عرف شرفو ولد محمد حسین کو زخمی حالت میں گرفتار کر کےسول اسپتال منتقل کر دیا، پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار زخمی ملزم کو سی سی ٹی فوٹیج میں نجی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ملازمین پر تشدد کرتے ہوئے واضح دیکھا جاسکتا ہے، پولیس کے مطابق علاقے کو کارڈن آف کرکے مچھر کالونی اور اطراف میں آپریشن بدستور جاری ہے، جب کہ آپریشن کے دوران پولیس پر حملہ کرنے والے دیگر مسلح ملزمان کی تلاش بھی جارہی ہے۔ بہیما نہ تشدد اور قتل کے واقعہ کے خلاف مختلف قوم پرست جماعتوں کی جانب سے ماڑی پور روڈپر احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔
دوسری جانب اس حوالے سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ مچھر کالونی میں دِل دہلا دینے والا ظلم و بریت کاجو بازار گرم کیا گیا،اس کی وائرل ہو نے والی ویڈیو بد نما داغ اورپولیس کی نااہلی بین ثبوت ہے،جس کا شاید ہی کوئی جواب دے سکے۔ ظلم کے اس بڑے واقعے کےبعد بھی ایس ایچ او ڈاکس کاابھی تک اپنی سیٹ پر برا جمان رہنا بھی سوالیہ نشان ہے؟۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز سولنگی کوہر بار ڈاکس تھانے میں ہی کیوں تعینات کیا جاتا ہے کیا، انصاف کا تقاضا یہی ہے اعلیٰ پولیس افسران تمام ترحقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس المناک واقعہ کےذمے داروں کو قانون کے کٹھرے میں لا کر عبرت کا نشان بنادیں، تاکہ آئندہ کوئی انسانی جان افواہ کی بھینٹ نہ چڑھ سکے، جب کہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی سے بھی پوچھ گچھ کی جائے کہ اس افسوس ناک واقعےکے رونما ہونے پرعلاقہ گشت پر مامور پولیس موبائل وقت کیوں پہنچی، ایس ایچ او اس وقت کہاں تھے!! ایس ایچ او ڈاکس کا واقعہ رونما ہونے کے کتنی تاخیر سے پہنچے اور پولیس کی مزید نفری فوری کیوں نہیں بلائی گئی
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کے اطراف منشیات کے اڈے آباد ہیں، اس لیے پولیس وہاں گشت ہی نہیں کرتی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کُھلی دہشت گردی ہے۔ مچھر کالونی میں رونما ہونے والےاس درد ناک سانحہ پر ہر انسان یہ کہنے پرمجبور ہو گیا کہ پاکستانیوں کو بغیر کسی جُرم اور بغیر تحقیق بےدردی سے جان سے مار دیناظلم کی انتہاہے ۔ لوگ آخر کیوں اپنی عدالتیں لگاتے ہیں۔
حساس اور منشیات کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے مچھر کالونی میں اگر پولیس کا معمول کاگشت ہوتا یا پولیس موبائل بر وقت جائے وقوعہ پر پہنچ کر ان بےگناہ لوگوں کی جان بچا سکتی تھی، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا ، بچوں کے اغوا کا جھوٹا الزام لگا کر انہیں دردناک اذیتیں دے کر نہ صرف موت کی نیند سلا دیا، بلکہ ریاستی قانون کی دھجیاں بھی اڑادیں۔ قانون بعد میں حرکت میں آیا، اگر اب بھی ایسے دِل سوز واقعہ میں ملوث ملزمان کو کڑی سزا نہیں دلوائی گئی، تو تشدد کی اس نئی لہر کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔
معاشرے میں معصو م اور معذوربچیوں سے جنسی زیادتی کےبڑھتے ہوئے رجحان نے خوف کی لہر پیدا کردی ہے، اس گھناونے فعل کے مرتکب ملزمان معاشرے کا ناسور ہیں، جن کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ شہرکے مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات لمحہ فکریہ ہیں ۔گزشتہ دنوں کراچی کے پوش علاقے کلفٹن سے درندہ صفت ملزمان نےسیلاب کے باعث شکار پور سے کلفٹن میں مقیم خاندان کی معصوم 9 سالہ بچی کو امداد کے بہانے کارمیں اغوا کر کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی، بعدازاں انویسٹی گیشن پولیس ساوتھ نے اغوا اور اجتماعی زیادتی میں ملوث2 ملزمان کو گرفتار کر کے گاڑی بھی تحویل میں لے لی ۔ پولیس کے مطابق ایک ملزم غلام شبیرکو ڈیفنس سے، جب کہ ملز م خالد کو ٹنڈوالہ یار پولیس نے گرفتار کر لیا، ایک ملزم آن لا ئن ٹیکسی ڈرائیور اور دوسرا اس کا دوست ہے،ایس ایس پی انویسٹیگیشن زاہدہ پروین کے مطابق ملزمان کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے گا۔ مرکزی ملزم غلام شبیر اور اس کے دوست نے مل کر بچی سے زیادتی کی۔ملزمان متاثرہ لڑکی کو کار میں بیٹھا کر پارکنگ میں لے کر گئے اور اس کے ساتھ زیادتی کی۔
ابھی سیلاب سے متاثرہ معصوم بچی سے اجتماعی زیادتی کے واقعے کوچند روز ہی گزرے تھے کہ درندگی کا ایک اور واقعہ رونما ہوگیا۔درندہ صفت نوجوان نے محمودآباد تھانے کی حدود کشمیر کالونی کے گھرمیں گھس کر ملزم محمد حسن نے 18سالہ ذہنی معذور لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کی۔ پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے ملزم محمد حسن کو گرفتارکر لیا، اس حوالے سے ایس ایس پی ایسٹ کا کہنا ہے کہ ملزم نے ذہنی معذور لڑکی کو گھر میں ہی مبینہ طور پرزیادتی کا نشانہ بنایا، لڑکی کو طبی معائنے کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا، لڑکی گھر میں اکیلی تھی ، لڑکی کے کپڑے سیل کر دیے ہیں، ابتدائی طور پر زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ذہنی معذور لڑکی کی والدہ مسعوداں بی بی انتہائی غریب ہیں ،جوڈیفنس کے بنگلوں میں کام کر کے گذربسر کرتی ہیں، مسعوداں بی بی حسب معمول کام پر گئی تھیں، تو پینٹ شرٹ میں ملبوس نے ایک نوجوان نے گھر میں گھس کر معذور لڑکی سے زیادتی کی اور فرار ہو گیا، علاقہ مکینوں کے مطابق ملزم محمد حسن اس سے قبل بھی ان کے گھر کے باہر چکر لگاتا ہوا دیکھا گیا تھا، متاثرہ لڑکی کی والدہ مسعوداں بی بی کا کہنا ہے کہ جب میں کام سے فارغ ہو کر گھر واپس آ ئی تو پتہ چلا کہ بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، جس کی اطلاع پولیس کو دی ،پولیس نے کارروائی کر کے میری بیٹی کا جناح اسپتال سے میڈیکل ٹیسٹ کرایا اور مقدمہ درج کر ملزم کوگرفتار کر لیا۔
شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود میں ایک اور پھول جیسی معصوم بچی کو مبینہ طور پر اس کےسگے ماموں نے اپنی 7 سالہ بھانجی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا ۔بچی کی والدہ کےمطابق آئس کے نشے کے عادی میرےبھائی ملزم سلمان لاشاری اور اس کے دوست نے میری معصوم بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد بچی کی انگلیاں کاٹ دیں جب کہ معصوم بچی کے گلے، اور جسم پر چھری سے کٹ بھی لگادیئے۔ پولیس نے ملزم سلمان لاشاری کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا۔
بچی کے ماموں ملزم سلمان نے پولیس کو بیان دیا ہےکہ بچی ہمارے پاس تھی، اس کی ماں نے خود بچی کو ہمیں دیا ہوا تھا، بچی پر جنات کا اثر تھا، بچی نے اپنی انگلیاں خود کھائیں اور ہاتھ جلایا، میں نے بچی پر تشدد نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب خاتون ایم ایل او کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور شدید جسمانی اور جنسی طور پر تشدکیا گیا ہے، جب کہ متاثرہ بچی نفسیاتی صدمے سے دوچار ہے، واقعےکے بعد سے بچی بے پناہ نفسیاتی ٹراما سے گزر رہی ہے، ایم ایل او نے ڈی این اے سمیت لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے نمونےحاصل کر لیے ہیں۔