میزبان: محمد اکرم خان, ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
مہمان مقرر: ڈاکٹر مفتاح اسماعیل، سابق وفاقی وزیرخزانہ
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
مجموعی طور پر ہمارے87 فیصد پانچ سالہ بچوں کو جو غذا چاہیے اور جس نشوونما کی ضرورت ہے وہ انہیں نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ان کی ذہنی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، اس کم زوری کے ساتھ یہ بچے دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ہماری آئندہ نسل کے لیے سائنس داں ،ریاضی دان، ماہر معاشیات، اقتصادیات، ادیب یا فن کار نہیں بن سکتے کیوں کہ ان کی وہ سمجھ ہی نہیں ہوگی جس کی وجہ ان کی مناسب گروتھ کا نہ ہونا ہے۔ یہ پاکستان کے 87فیصد بچوں کی صورت حال ہے۔ہماری معیشت دنیا میں بہت پیچھے ہے ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہ میں بڑی رکاوٹ ہمارا طبقہ اشرافیہ ہے۔
اسے اسلامی جمہوریہ نہیں ایک فیصدی جمہوریہ کہنا چاہیےکیوں کہ ریاست صرف ایک فیصد طبقے کے لیے کام کررہی ہے، وہ ٹاپ پر بیٹھی ایک فی صدی ایلیٹ کلاس ہی کو پال رہی ہے ان کے لئے ہی پالیسیاں ترتیب دے رہی ہے ہم ان ہی 22ہزار پانچ سو بچوں کو آگے بڑھا رہے ہیں جو اے یا او لیول کرتے ہیں اور روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔وہ ہی آگے بڑھ رہے ہیں باقی نہیں بڑھ رہے،اگر یہ سسٹم بائی ڈیزائن نہیں ہے تو اسے تبدیل ہونا چاہیے۔ جب آپ طے کرکے مخصوص پانچ چھ تعلیمی اداروں کے چند ہزار سے ملک چلائیں گے تو کیسے آگے بڑھیں گے یہ ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان کی غربت کی بڑی وجہ یہ ہی منصوبہ بندی اور رویہ ہے،جب آپ ملک کی اکثریتی آبادی کے ٹیلنٹ کو نظرانداز کریں اور ان کے لیے رکاوٹیں پیدا اورکھڑی رکھیں گے انہیں ان کے حق سے محروم رکھیں گےاور پورا پاکستان صرف ایک فیصد کے لیے مختص کردیں گے تو پھر جو نتیجہ سامنے ہے وہ ہی نتیجہ ہمیشہ نکلے گا دنیا میں اگر پٹرولیم اور ایل این جی مہنگی ہوگئی تو ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے، یا تو ہم سستے وقت میں خرید لیتے لیکن آپ نے قانون ایسے بنائے ہیں کہ جس نے خریدی اسے جیل میں ڈال دیا۔ پاکستان درآمدی ملک ہے جب ہم اسے برآمدی ملک بنائیں گے تو تب خوش حال ہوں گے، ہم جب تک آئی ایم ایف کےپاس جاتے رہیں گے کبھی بھی امیر نہیں ہوں گے، 1990 میں پاکستان کی برآمدات 12بلین ڈالر تھی تو اس وقت ویت نام کی برآمدات ڈھائی بلین ڈالر تھی۔
آج ویت نام کی برآمدات 170بلین ڈالر ہے اور ہم 30بلین پر کھڑے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری کرنسی کی قدر کتنی ہے ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم ملک کو کس طرف لے کر جارہے ہیں۔جب ہم درآمدات سستی کرتے ہیں تو گاڑیاں امپورٹ ہوجاتی ہیں۔ہزار ہزار مرسڈیز آجاتی ہیں۔ اتنے غریب ملک میں ایسی گاڑیاں نہیں ہونی چاہئیں ۔ غریب آدمی کچھ خوش حال ہوتا ہے تو وہ ملکی انڈسٹری میں حصہ ڈالتا ہے،کسی کروڑ پتی کو فائدہ ہو گا تو وہ پہلے غیرملکی گاڑی لے گا اورغیرملکی گھڑی کپڑے ہر چیز غیرملکی ہوتی ہے لیکن آپ کہتے ہیں ڈالر سستا کردیں، اس کا فائدہ صرف امیر کو ہوتا ہے۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے، سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرمفتاح اسماعیل پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے، ملکی معیشت جب ان کے حوالے ہوئی تو اقتصادی اعداد وشمار کا تھوڑا بھی علم رکھنے والا بھی سنگین معاشی صورت حال سے بخوبی آگاہ تھا۔ ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ ہم عملی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اگر وہ سرخ لائن عبور نہیں ہوئی تو پھر اس بحران سے نکالنے کا سہرا ڈاکٹر مفتاح اسماعیل ہی کو جاتا ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے انہوں نےجو سخت فیصلے کیے اس پر انہیں اپنی جماعت کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ہم سب کو اس بات کا ادراک ہوناچاہیے کہ جن مشکلات کا خاص کر آج مہنگائی کی جس شکل سامنا ہے ،اگر بطور وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل وہ سخت اقدامات نہ کرتے تو پوری قوم اس سے کئی گنا زیادہ خراب اور بدترین صورت حال کا شکار نظر آتی۔
جنگ فورم نے "ایوان خاص" کے نام سے سنگل اسپیکر کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس کے پہلے مہمان مقرر سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہیں ان سے " پاکستانی معیشت، آج اور کل" کے موضوع پر گفتگو ہوئی، خصوصا پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر فوکس کیا گیاایوان خاص کی تفصیلی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔
مفتاح اسماعیل:میں جنگ فورم کا شکرگزار ہوں ان کی وجہ سے میں یونیورسٹی کے نوجوانوں سے گفتگو کررہا ہوں۔ مجھے طالب علموں نوجوانوں سے گفتگو کرنا اچھا لگتاہے۔ اسی لیے میں اسے بڑا نادر موقع سمجھ رہا ہوں۔میری آج بتانے والی باتیں سب سے زیادہ آپ کے کام کی ہے ۔کیوں کہ آپ ہی ہمارا مستقبل ہیں، ہم نے تواپنی زندگی کے زیادہ دن گزار دیے ہیں اب اگلے پچاس ساٹھ سال آپ ہی نے ان شااللہ پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے۔ میں آپ سے معیشت کے علاوہ دیگر پربھی کہنا چاہوں گا۔
آپ کے سامنے میں چند اعدادوشمار رکھتا ہوں۔دوہزار اکیس کی UNICEFکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پانچ سال سے چھوٹےچالیس اعشاریہ دو فیصدبچے اسٹنٹٹ ہیں،غالبا یہ وہ بچے ہیں جن کا وزن اپنی عمرکے برخلاف بہت کم ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی گروتھ رک جاتی ہے۔سترہ اعشاریہ سات فیصد بچے ویسٹڈ ہیں، ان کا تعلق بھی ذہنی گروتھ میں اضانہ نہ ہونے سے ہے۔ اس طرح کے کمزور بچے کل 58فیصد بچے ہوگئے ہیں، 29فیصدبچے میل نیوریسٹ ہیں، یہ بھی اپنی عمر کے مقابلے میں کم وزن ہیں لیکن،ان کا اسٹنٹٹ بچوں سے وزن بہتر ہوتا ہے۔
اس طرح مجموعی طور پرہمارے 87فیصد پانچ سالہ بچوں کو جو غذا چاہیے جس نشوونما کی ضرورت ہے وہ انہیں نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ان کی ذہنی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے،تواس کمزوری کے ساتھ یہ بچے دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ہماری آئندہ نسل کے لیے سائنسدان ،ریاضی دان،ماہر معاشیات، اقتصادیات،ادیب یافنکار نہیں بن سکتے کیوں کہ ان کی وہ سمجھ ہی نہیں ہوگی جس کی وجہ ان کی مناسب گروتھ کا نا ہونا ہے۔ یہ پاکستان کے 87فیصد بچوں کی صورت حال ہے۔
پاکستان میں آج کل سالانہ 55لاکھ لوگوں تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سال کم از کم چالیس لاکھ بچے 18سال کے ہوں گے،اب یا وہ کالج جائیں گے یا وہ مزدوری کا آغاز کریں گے۔ان چالیس لاکھ بچوں میں صرف ساڑھے آٹھ لاکھ نے میٹرک یا انٹر پاس کیا ہوگا اور ان میں سے بھی صرف ،22ہزار پانچ سو بچوں نے او لیول اور اے لیول کی اسٹریم پاس کی ہوگی۔ باقی کے31 لاکھ بائیس ہزار بچوں نےکوئی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ آٹھ لاکھ بچوں نے میٹرک یا انٹر کیا اور ساڑھے بائیس ہزار بچوں جن کے والدین امیر یاخوش حال تھےانہوں نے اے اور او لیول کیا اور باہر سے تعلیم حاصل کی ،چالیس لاکھ بچوں میں سے ایسے بچے صرف ساڑھے بائیس ہزار ہیں،یہ تعداد اعشاریہ دو فیصد بنتی ہے۔
انگریزوں کے دور سے قائم ایچی سن لاہور کا بڑا معروف اسکول ہے ۔متعدد حکومتوں میں ایسا ہوا ہےجب پاکستان کی آدھی کابینہ اسی اسکول سے پڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے آخری دنوں کی کابینہ کے 60فیصد کا تعلق ایچی سن لاہور سے ہی تھا۔ یہاں میرا مقصد عمران خان حکومت کوکسی الزام کے تحت زیربحث لانا نہیں ہے، یہ ہماری پاکستان کی تاریخ ہے کوئی بھی وزیراعظم ہو ان کی کابینہ کے پچاس فیصد وزرا ایچی سن کے فارغ التحصیل رہے۔ آدھے یعنی پچاس فیصد سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا تعلق ایچی سن سے ہوتا ہے۔
گوکہ ہونا تو یہ چاہیے ملک میں اگر تین لاکھ اسکول ہیں تو دس ہزار اسکول میں سےکسی ایک کا طالب علم کابینہ میں آئےاور بیس ہزار اسکول میں کسی ایک کا پڑھا ہوا سپریم کورٹ کا جج بننا چاہیے۔ جب کہ ہمارا صرف ایک اسکول سپریم کورٹ کے آدھے جج صاحبان اور وفاقی کابینہ کو آدھےوزرا دے رہا ہے۔توآپ اندازہ لگائیں کہ لاہور کے صرف اس ایک اسکول میں جانے یا نہ جانے سے کتنا بڑا فرق پڑتا ہے۔ ایک اسکول کراچی میں قائم ہے کراچی گرامر اسکول، پاکستان کے آدھے سے زیادہ امیرترین، کاروباری اس اسکول کے فارغ التحصیل ہیں، پاکستان کے چوٹی کے بڑے مالیاتی ادارے ،ملٹی نیشنل کمپنیاں ،بینک وغیر ہ ان کے سربراہ صرف اسی ایک اسکول کے پڑھے ہوئے ہیں۔
اب اگر ایچی سن ،کراچی گرامر اسکول، دو یا تین امریکن اسکول، کیڈٹ کالج حسن ابدال، تین چار اور مہنگے اسکول جس میں روٹس یا بیکن ہاوس کے کچھ کیمپس وغیرہ ان سے نکالیں تو کوئی آٹھ نو ہزار بچےاس سال ان اداروں سے گریجویٹ کریں گے تو پاکستان اگر اسی طرح چلتا رہا تو اگلے تیس سال میں بعدصرف یہ ہی آٹھ ہزار بچے پاکستان بھر میں Dominate کریں گے، صرف یہ ہی لوگ اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں پر فائز ہوں گے۔باقی دیگر لوگوں کو بڑی پوزیشن نہیں ملیں گی۔
اعلیٰ عہدے مرتبے صرف ان آٹھ ہزار بچوں کے لیے ہے۔ میں آپ کو اس کی وجہ بھی بتاتا ہوں ، جو لوگ آج پاکستان میںDominate کررہے ہیں،اعلیٰ یا بااختیار عہدوں میں موجود ہیں وہ ان آٹھ ہزاربچوں کے والدین ہیں یہ خودبھی ان اسکولوں سے پڑھ کر نکلے ہیں۔ یہ لوگ کراچی میں سندھ کلب، لاہور میں پنجاب کلب،اسلام آباد کلب یا آرمی کے گالف کلب کےممبران بھی ہوں گے۔تو پاکستان میں ہم نے اپنے آبادی کے صرف ایک فیصدی کو برہمن بنایا ہوا ،ایک ایلیٹ کلاس طبقہ اشرافیہ بنارکھی ہے، پاکستان ان ایک فیصد لوگوں کے لیے زبردست ملک ہے،یہ بھی سچ ہے کہ میں ان ایک فیصدی کا حصہ ہوں۔ ایلیٹ کلاس کلب میں سیاسی ا یلیٹ ،کارپوریٹ ا یلیٹ ،ملٹری ا یلیٹ، بیورو کریٹ ا یلیٹ اور پروفیشنل ا یلیٹ شامل ہیں۔
پاکستان میں مہیا شعبوں کے اعلیٰ ترین مقام پر ہمارے ان پانچ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اٹھ ہزار بچے ہی آگے آئیں گے۔ پاکستان صرف ان آٹھ ہزار بچوں کے لیے چل رہا ہے،باقی چالیس لاکھ 92ہزار بچوں کے لیے پاکستان نہیں چل رہا۔ طبقہ اشرافیہ کے دو شعبوں فوجی اور بیوروکریٹ میں غریب کے بچے بھی آجاتے ہیں، لیکن جب وہ اعلیٰ عہدے پر پہنچتے ہیں تو وہ بھی ایلیٹ کی مستقل کٹیگری میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمارے یہاں انگریز حکمرانی کررہے تھے، باقی ہم سب رعایا تھے، اس زمانے میں کمشنر ڈپٹی کلکٹر یا کلکٹرفوج کے اعلیٰ افسران ،جج صاحبان بڑے کاروباری اداروں کے سربراہ سب انگریز تھے۔ کوئی 1800 کے قریب انگریز پورے ہندوستان کا نظام حکومت چلارہے تھے۔ باقی سب رعایا تھی یاسائل تھی۔تو اسی طرح آٹھ ہزار یا بائیس ہزار کے لیے پاکستان چل رہا ہے باقی سب رعایا ہیں۔
انہیں ہم شہر ی بھی نہیں کہیں گے یہ صرف سائل ہیں۔بعض اوقات ایک دو ترقی کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں لیکن ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابرہیں انہیں بہت زیادہ محنت کرکے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہماری معیشت دنیا میں بہت پیچھے ہے ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہات میں سے سب سے بڑی رکاوٹ ہمارایہ طبقہ اشرافیہ ہے۔میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر ہم 14اگست 1947 کو یہ فیصلہ کرتے پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی جن کی تاریخ پیدائش دونومبر سے چار نومبر تک ہو۔یہ صرف تین دن بنتے ہیں ،جو سال کا صرف ایک فیصد بنتا ہے تو یہ وہی ایک فیصد ہے ۔۔تواب اگر مخصوص تاریخ پیدائش کے لوگوں کی پابندی ہوتی تو ہمارے کرکٹ تاریخ کے کئی نامور جیسے حنیف محمد، ظہیر عباس ،جاوید میاں داد،آصف اقبال،وسیم اکرم ،وقار یونس، یونس خان، شعیب اختر، سرفراز احمد ،انضمام الحق ،محمد یوسف وغیرہ ان میں سے کوئی بھی کرکٹ میں نہ ہوتا لہذا کوئی جانتا بھی نہیں۔ کیوں کہ ہم تو مخصوص تاریخ پیدائش کے کھلاڑی اپنی کرکٹ ٹیم میں رکھتے،پاکستان کے باقی تمام بچوں کو نظر انداز کردیا ان کی تاریخ پیدائش مختلف تھی ہم نے باقی تاریخ پیدا ہونے والے دیگر تمام بچوں کو نظر انداز کردیا ہے۔اور پاکستان میں یہ ہی ہورہا ہے ہم یہ ہی کررہے ہیں۔ میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیںایک فیصدی جمہوریہ کہتا ہوں، اسے اسلامی جمہوریہ نہیں ایک فیصدی جمہوریہ ہی کہناچاہیے۔کیونکہ ریاست صرف ایک فیصد طبقے کے لیے کام کررہی ہے،وہ ٹاپ پر بیٹھی ایک فیصدی ایلیٹ کلاس ہی کو پال رہی ہےکیونکہ ہم ان ہی 22ہزار پانچ سو بچوں کو آگے بڑھا رہے ہیں جو اے یا او لیول کرے ہوئے ہیں اور روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔
وہ ہی آگے بڑھ رہے ہیں باقی نہیں بڑھ رہے،اگر یہ سسٹم بائی ڈیزائن نہیں ہے تو اسے تبدیل ہونا چاہیے۔ پاکستانی کیوں نوبل انعام نہیں جیت رہے، ہم ابھی اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں کہ جن چند نے نوبل انعام جیتا انہیں ہم بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ آخر کیوں ہم نوبل انعام نہیں جیتے پاتے ہمارے سائنس دان،ریاضی دان کیوں کوئی میڈل نہیں جیتتے ۔کیوں کہ جس ذہین ترین خاتون نے بائیولوجی کا نوبل پرائز جیتنےمیں کامیاب ہونا تھا وہ کسی گھر میں ماسی ہے،آپ نے اسے کوئی تعلیم ہی نہیں دی، وہ پیدا راجن پور میں ہوئی اب کراچی کے کسی گھر میں جھاڑو لگارہی ہے۔
ہمارا جو ذہین ترین نوجوان ریاضی میں انعام حاصل کرتا شاید وہ جیل میں بند ہے کیوں کہ وہ وانا میں پیدا ہوا تھا، پڑھ لکھائی کی نہیں لہذا ذریعہ معاش بھی کوئی نہیں تو خرچے پورے کرنے کے لیے چرس بیچ رہا تھا، تو پھر یہ ہی ہوگا۔ ہمارے18 برس کے چالیس لاکھ بچوں میں ترقی کے بہترین مواقع صرف ان آٹھ ہزاربچوں کے لیے اور پھر اس کے بعد بہتر ترقی کے مواقع بائیس ہزار بچوں کے لیےہوں گی۔
توجب ترقی کے مواقع محدود کردیئے جائیں تو ہم کیا خاک آگے بڑھیں گے۔ہم نے چالیس لاکھ میں سے صرف بائیس ہزار کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع رکھیں ہیں ۔آج پاکستان کے 50فیصد بچے جنہیں اسکول جانا چاہیے وہ اسکول سے باہر ہیں۔ ہر دسواں جاہل بچہ جو پرھا لکھا نہیں وہ پاکستانی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی آبادی والا ملک پاکستان ہے۔ پاکستان ان پڑھ آبادی میں تیزی سے آگے بڑھنے والا ملک ہے، ہمارے87فیصد بچے اسٹنٹٹ، ویسٹڈ اور میل نیوریسٹ ہیں جو زندگی بھر آرام کے لیے چارپائی اور خوراک کے لیے روٹی کی تلاش میں رہیں گے، وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔تو آپ سب یہ یاد رکھو اس ملک میں کوئی نہ کوئی ایسی عورت ہے جو بائیولوجی کا نوبل انعام جیت سکتی تھی لیکن پڑھائی نہ ہونے کی وجہ سے کسی گھر میں جھاڑو لگارہی ہے۔
کوئی مرد تھا جو ریاضی میں پاکستان کا نام پیداکرسکتاتھا لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے جیل میں ہے۔ مشکل حالات میں محنت کرنے والے لوگ ہی بڑے کام کرتے ہیں ،اس پر کئی کتابیں موجود ہیں کہ سیٹھوں کےبچے کیوں کہ آسان زندگی گزارتے ہیں اس لیے ان کا آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔آپ نوبل پرائز جیتنے والے لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں وہ ایسے ہی نیچے سے آئے ہیں۔ہم آج سے 50سال پہلے بھی جن امیرلوگوں کا نام سنتے تھے ان میں حبیب ،دائود،سہگل وغیرہ ہوتے تھے یہ ہی نام ہم آج بھی سنتے ہیں۔
دنیا بھر میں امیر لوگ ہیں اچھی بات ہے۔لیکن امریکا میں جولوگ امیر تھے ڈوپان،کارنیگیز اور راکو فیلر وْغیرہ،انہوں نے زیادہ ٹیکس کی وجہ سے اپنی جائیدادیں دے دیں،کیوں کہ مرنے کے بعد جائیداداپنے بچوں کو دینے پر ٹیکس بہت ہوتا ہے۔ میں نے اپنے وزیراعظم سے کہا تھا کہ یہ ٹیکس لگادیں کہ میں جب مروں توسارے پیسے میرے بچے کے پاس نہیں جانے چاہیے، کم از کم آدھے پیسے اس ملک کے بچوں کو بھی دوں،ورنہ یہ فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ساڑھے اکتیس لاکھ جن بچوں کو آپ نے میٹر ک بھی نہیں کرایا وہی بچے ہمارے لیے سائنس اور دیگر جدید علوم میں نوبل پرائز جیت سکتے ہیں۔
جب آپ طے کرکے مخصوص پانچ چھ تعلیمی اداروں کے چند ہزار سے ملک چلائیں گے تو کیسے آگے بڑھیں گے یہ ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔پاکستان کی غربت کی بڑی وجہ یہ ہی منصوبہ بندی اور رویہ ہے۔جب آپ ملک کی اکثریتی آبادی کے ٹیلنٹ کو نظرانداز کریںان کے لیے رکاوٹیں پیداکھڑی رکھیں گے ان کے حق سے محروم رکھیں گےاور پورا پاکستان صرف ایک فیصد کے لیے مختص کردیں گے تو پھر جو ہورہا ہے ہمیشہ یہ ہی نتیجہ نکلے گا۔
جنگ: کہا جارہا ہے پاکستان ڈیفالٹ سے نکل گیا ہے،لیکن بعض ماہرین اس پر متفق نہیں،جس کی وجہ کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل سی ہےبرآمدات بڑھ نہیں رہیں، قرضے ری شیڈول نہیں ہورہے30بلین آپ نے ادا کرنے ہیں،درآمدات کم ہورہی ہے،ملکی حالات اور جو پالیسیاں ہیں اس صورت حال میں نئی سرمایہ کاری کے امکانات بھی نہیں ہیں۔تو کیسے ہم ڈیفالٹ سے نکل گئے ہیں۔
مفتاح اسماعیل: جب ہماری حکومت آئی تو ہمارے پاس صرف ساڑھے دس بلین ڈالر تھے اور 24بلین ڈالر اگلے پندرہ مہینے میں لوگوں کے واپس کرنا تھے۔توہمارے پاس انہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔اس کے علاوہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ جو تجارتی خسارے سے منسلک ہوتا ہے، اس کے لیے ہمیں قریباً ہرماہ ایک بلین ڈالر چاہیے ہوتے تھے۔ اس میں ہماری بیرون ملک کی آمدنی تھی ،ہماری درآمدات کی آمدنی ہوتی ہے ریمی ٹینس ہوتے ہیں۔ ہمارے فارن کرنسی کے اخراجات تھے جس میں درآمدی خرچ سب سے زیادہ ہوتا ہے اس مد میں ماہانہ ایک ارب ڈالر کی ضرورت تھی۔میں یہ اپریل 2022 کی بات کررہا ہوں، اب ہم پندرہ مہینے کے یہ لگالیں تو اس طرح 35 سے چالیس ارب ڈالر دینے کےلیے چاہیےتھے۔
یعنی مجھے اپریل دوہزار 22 سے جون دوہزار 23 تک 35 سے 40ارب ڈالر دینے تھے۔ہماری پاس صرف دس ارب ڈالر تھے۔ ہمیں پھر مجبوری میں آئی ایم ایف جانا پڑا، جب آپ مالی طورپر خستہ حال ہوں تو کوئی دوسرا ملک یا ادارہ آپ کو قرض دینے کا خطرہ مول نہیں لیتا ۔ جب آپ دیوالیہ کے دہانےپر کھڑے ہوں تو ایسے حالات میں کوئی بھی آپ کی مدد نہیں کرتا سوائے آئی ایم ایف کے، وہاں سے قرض لینے کا صاف مطلب بھی یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی دوسرا قرض نہیں دے رہا۔تو ہم گئے ،آئی ایم ایف سے مدد لیں یا نہ لیں اس پر دورائے تھی ،ایک کا خیال تھا ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں کیوں کہ وہ پٹرول مہنگا نہیں کرنا چارہے تھے۔ اور آئی ایم ایف کہہ رہا تھا کہ آپ جتنا پٹرول پر نقصان کررہے ہیں تو جب تک آپ اس کی قیمت ٹھیک نہیں کریں گے ہم آپ کو پیسے نہیں دیں گے۔پاکستان ماہانہ 120ارب روپے پٹرولیم مصنوعات کی سبسڈی پر خرچ کررہا تھا۔
پوری وفاقی سویلین حکومت کا خرچہ 40ارب روپے کا ہے تو ان پیسوں کا ملا کر تین مزید حکومت کے اخراجات بن رہے تھے،پاکستان نے کبھی پٹرول نقصان میں نہیں فروخت کیا ۔لیکن مجھ سے کہا جارہا تھا کہ نقصان میں فروخت کریں،کیوں کہ عمران خان یہ کا م کرگئے تھے۔ ہم جب سعودی عرب گئے تو وہاں کے وزیر نے کہا کہ جس قیمت پر پاکستان میں ڈیزل فروخت کیا جارہا ہے وہ تو سعودی عرب سے بھی سستا ہے۔
ہم اس وقت متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں پٹرول اور ڈیزل سستا بیچ رہے تھےاور پھر ان ممالک سے قرض مانگ رہے تھے تو انہوں نے قرض نہیں دیا۔ تو ہمیں ڈیفالٹ صاف نظر آرہا تھا تو پھرہم نے کئی مشکل فیصلے کیے ،بجلی مہنگی کی، پٹرولیم مصنوعات مہنگی کی ،میں نے کہا تھا سیاست کا نقصان ہوتا ہے تو ہولیکن جب تک میں اس عہدے پر ہوں اپنے ملک کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی وجہ سے ہمیں عزت ملتی ہے اگر پاکستان نہیں ہم کیا ہیں۔ مشکل کام ہم کرچکے ہیں اللہ کی مہربانی سے پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہم غلط بات،غلط پالیسی یا غلط اقدامات کرتے ہیں تو پھر خدشات رہیں گے،اگر ہم غلطی نہ کریں تو ہم ڈیفالٹ سے بچا لیں گے۔
جنگ :وفاقی وزیراسحاق ڈار کے مطابق ڈالرکی 190 سے 200 روپےکے درمیان کی قیمت ہےڈالر کی شرح نیچے جائے گی یاایسے ہی رہے گی۔
مفتاح اسماعیل: میں نے دومرتبہ ڈالر کا کنٹرول کھودیا تھا ایک 17جولائی کو جب ہم الیکشن ہارے تو ڈالر کی قدر بڑھی،دوسرا جب مریم نواز صاحبہ نے یہ کہا کہ میاں نوازشریف میٹنگ سے اٹھ کرچلے گئے ہیں۔ اس وقت ڈالر 240کے قریب تھا لیکن وہ دھیرے دھیرے خود 213 پر نیچے آیا تھا۔ میرا اس میں کوئی کردار نہیں تھا،لیکن اس بیان سے یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ حکومت کی آپس میں ہی لڑائی ہے تو صورتحال بدل گئی اور ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔پچھلے سال 80بلین ڈالر کا پاکستانیوں نے امپورٹ کیا۔اور جواب میں 23کروڑ کے پاکستان سے ایکسپورٹ صرف 30بلین ڈالر کی ہوئی۔ تو اس طرح تجارتی خسارہ آپ 50بلین ڈالر کا ہوا۔ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں میں سے پچاس لاکھ نے 30بلین بھیجا، آپ کے پاس اس طرح60 بلین ڈالر کے کل وسائل ہوگئے۔
آپ کے وسائل 60بلین اور اخراجات 80بلین ڈالر کے،آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں توجلد یا بدیر دیوالیہ ہوجائیں گے، اور دنیا آپ کو قرض بھی نہیں دے رہی۔ تو بحثیت وزیرخزانہ مجھے کیا کرنا چاہیے کیا مجھے امپورٹ سستا کرنا چاہیے،ڈالر سستا ہونے سےامپورٹ سستا ہوجاتا ہے۔ڈالر سستا ہونے سے ایکسپورٹ کی ترغیبات کم ہوتی ہیں۔ تو کیا ہمیں یہ کرنا چاہیے۔ہماری کیاpriority ہونی چاہیے ڈالر سستا کرکے امپورٹ بڑھائیں یا اسے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایکسپورٹ بڑھانی چاہیے۔
چین پر دنیا امریکا اور مغربی ممالک کا سب سے بڑا جو کیس تھا وہ یہ تھا کہ وہ الزام لگاتے تھے کہ چین مصنوعی طور پراپنی کرنسی کو کم کرتا ہے۔چین جاپان اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے یہ کرتے تھے۔آپ نے اپنی کرنسی کی قدر بھی بڑھانی ہے اور ایکسپورٹ بھی بڑھانے کی خواہش ہے تو یہ دونوں چیزیں نہیں ہوسکتیں۔
ہم نے کچھ امپورٹ مصنوعی روکا ہوا تھا لوگ ایل سیزکھولنے کی درخواست کرتے تھے اور ہم نہیں کررہے تھے۔وہ کمپنیاں جومال پاکستان میں بنا کر پاکستان میں ہی فروخت کرتی ہیں جس میں میری اپنی کمپنی بھی شامل ہے ان کی ایل سیز روکی ہوئیں تھیں۔کیوں کہ ہم فوری ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکتے تھے اسی لیے یہ اقدام کیا۔ڈالر کی ایک اوپن مارکیٹ ہے اور دوسری انٹربینک مارکیٹ ہے، ان کے درمیان روپے کافرق ہوتا ہے۔ لیکن آج ان میں 30روپے کا فرق ہے،میری وزارت کے دنوں میں دس بارہ روپے کا فرق ہوگا۔جب اوپن مارکیٹ میں ڈالر بارہ روپے مہنگا تھا۔
اس وقت مجھے اندازہ تھا یہ ٹیکنیکل ہے ڈالر نارمل آجائے گا،لیکن مارکیٹ میں فرق حقیقی آنا چاہیے۔ ابھی اگر ایکسپورٹ کرتے ہیں تو بینک سے آپ کو 222روپے ملتے ہیں اور اگر اوپن مارکیٹ میں جائو تک ڈالر 245 میں بھی نہیں مل رہا،تو آپ امپورٹ کرنے پر incentive دے رہے اور ایکسپورٹ کرنے پر deincentive دے رہے ہیں۔ جب کہ ڈالر کی حقیقی قدر تو 240 ہی ہے۔آپ کو کون سا پاکستان پسند ہوگا مجھے تو 40بلین ڈالر ایکسپورٹ کرنے والا پاکستان پسند ہوگا۔
جنگ:ہم درآمدی ملک ہیں، پٹرولیم مصنوعات یا ایل این جی سب درآمد کرتے ہیں تو ڈالرمہنگا ہونے سے مہنگائی کا دباو عوام اور ہماری صنعت دونوں پر پڑتا ہے ہماری صنعت کیسے مقابلہ کرے گی۔
مفتاح اسماعیل ـ: دنیا میں اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں، میں کوئلے کے پیسے نہیں دیتا تھا میں کہتا تھا ہم غریب ملک ہیں اسپاٹ پر ایل این جی نہ خریدو تھوڑی لوڈ شیڈنگ بڑھا دو کیوں کہ اتنے مہنگے ایندھن کا خرچ ہم برداشت نہیں کرسکتے ۔اب اگر مہنگی بجلی بناکر آگے دیں گے تو وہ مہنگا پڑے گا دنیا میں اگر پٹرولیم اور ایل این جی مہنگی ہوگئی تو ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ یا تو ہم سستے وقت میں خرید لیتے لیکن آپ نے قانون ایسے بنائے ہیں کہ جس نے خریدی اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
اب اگر پاکستان درآمد ی ملک ہے تو جب ہم اسے برآمدی ملک بنائیں گے تو ہی خوش حال ہوں گے،ہم جب تک آئی ایم ایف کےپاس جاتے رہیں گے کبھی بھی امیرنہیں ہوں گے،جب 1990 میں پاکستان کی برآمدات 12بلین ڈالر تھی تو اس وقت ویت نام کی برآمدات ڈھائی بلین ڈالر تھی۔آج ویت نام کی برآمدات 170بلین ڈالر ہے اور ہم 30بلین پر کھڑے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری کرنسی کی قدر کتنی ہے ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم ملک کو کس طرف لے کر جارہے ہیں۔جب ہم درآمدات سستی کرتے ہیں تو گاڑیاں امپورٹ ہوجاتی ہیں۔ ہزار ہزار مرسڈیز آجاتی ہیں۔اتنے غریب ملک میں ایسی گاڑیاں نہیں ہونی چاہیے۔
کہاجاتا ہے الیکٹرک کار گاڑیاں آنی چاہیے ملک کافائد ہ ہوگا الیکٹرک گاڑی کے چکر میں آپ ملک کے تین لاکھ ڈالر لگارہے ہیں یہاں کہاں سے ملک کا فائدہ ہوا۔تو رئیس پاکستانیوں کے لیے یہ ملک چلتا ہے۔ میرا تعلق اسی طبقے سے ہے لیکن میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ جب تک آپ اسے تبدیل نہیں کروگے آگےنہیں بڑھو گے۔غریب آدمی کچھ خوش حال ہوتا ہے تو وہ ملکی انڈسٹری میں حصہ ڈالتا ہے،کسی کروڑ پتی کو فائدہ وگا تو وہ پہلے غیرملکی گاڑی لے گا غیرملکی گھڑی کپڑے ہرشے غیرملکی ہوتی ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں ڈالر سستا کردیںاس کا فائدہ صرف امیر کو ہوتا ہے۔
جنگ :لگژری مصنوعات پر پابندی لگادینی چاہیے ہم ایسا کیوں نہیں کررہے؟
مفتاح اسماعیل:میں نےدرآمدی اشیاپر پابندی لگائی تو کراچی چیمبر میں کہا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا یہ تو کاروباری اصولوں کے خلاف ہے، تو میں نے اس پر کہا تھا کہ اپنی چادر دیکھ کر پیر پھیلاو،پاکستان کا ہر سیاستدان اور جماعت ریفارمز کرنا چاہتے ہیں ،لیکن ہمیشہ اگلے سال سے اور یہ اگلا سال کبھی بھی نہیں آتا، اگر آپ نے ریفارمز کرنے ہیں تو وہ آج کرنے ہیں۔
جنگ:مہنگائی گزشتہ دو حکومتوں میں بھی بڑھی لیکن موجودہ گرانی تو بنیادی اشیا خوردونوش پر ہوگئی ہے تیل گھی آٹا چینی سبزی عام آدمی اس میں پس کررہ گیا ہے اس کا تدارک کیسے ہوگا۔
مفتاح اسماعیل:سہولت ضرور دیں لیکن ٹارگٹڈدیں،جب سندھ ،جنوبی پنجاب ،بلوچستان اور کے پی کے میں سیلاب آیا،وزیراعظم شہباز شریف کاغریبوں کے لیے دل بہت بڑا ہے انہوں نے کہا ہرمتاثرہ خاندان کو 50ہزار فی کس دیں گے، اس وقت سیلاب متاثرہ آبادی کم تھی لیکن پھر وہ بہت سے بڑھ ہوگئی، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے، میں نے ان سے 25ہزارروپے دینےکو کہا وزریراعظم اعلان سے قبل مجھ سے کہنے لگے میں اعلان 30ہزار روپے کا کردوں میں نے کہا سریہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔
ہم نے بڑی رقم اس سبسڈی کی مد میں دی ،اس معاملے پر آئی ایم ایف سے پوچھا بھی نہیں ،مجھے معلوم تھا اسے کوئی نہیں روکےگا،ضرورت مند لوگوں کی مدد سے کوئی منع نہیں کرتا۔ لیکن بلاتخصیص سبسڈیز دینے کو منع کرتے ہیں۔چالیس فیصد درمیانی امیر پاکستانی90فیصد پٹرول استعمال کرتے ہیں اب انہیں سبسڈی کیوں دیں، سوئی گیس 31فیصد پاکستانیوں کو ملتی ہے 70 فیصد پاکستانی سوئی گیس کی سہولت سے آج بھی محروم ہیں، اگر آپ حساب کتاب کریں تو معلوم چلے گا پاکستان میں سب سے مہنگا ایندھن لکڑی جلانا ہے، دوسری مہنگا ایندھن ایل پی جی ہے جسے پہاڑ پر رہنے والا کندھے پر ڈال کر استعمال کررہاہے وہ یہ مہنگا ایندھن خریدنے پر مجبور ہے،جب کہ ڈیفنس کراچی میں ماڈل ٹاون لاہور اور اسلام کے ایف سکس سیکٹر میں دوسوروپے کی گیس دے رہے ہیں جب کہ 900روپے کی آپ کو گھر میں پڑرہی ہے، تو آپ سنجیدگی سے سوچیں یہ کس طرح کی سبسڈی ہے۔
جنگ:پاکستان کو اس وقت کون سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟
مفتاح اسماعیل:اس وقت سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے، اور اگر ہم پٹری پر رہیں تو ان شااللہ ایساہی ہوگا، دوسرے نمبر پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم پاکستان میں سیاست کیوں کرتے ہیں۔
جنگ :سیلاب سے33.3ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں،جس سے پاکستان کی معیشت بھی مزید سست ہوجائےگی، دنیا سے بھی کوئی خاص امداد نہیں ملی،تو کیا ہمیں اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنی بجٹ ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔
مفتاح اسماعیل:جی بالکل کرنا چاہیے ،وزیراعظم شہبازشریف نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پلیٹ فارم سے فی خاندان 25ہزار روپے جو مجموعی طور پر 70ارب روپے ہیں ان میں تقسیم کردیے ہیں، حالانکہ ہمارے ان سیلاب متاثرہ غریب خاندان کو مجموعی طور پر 700ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بہت زیادہ کپاس چاول اور گنے میں نقصان ہوا ہے۔ اگر وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت سیلاب متاثرہ علاقوں سے پانی نکال دیتے ہیں گندم کی بیج بوائی ہوجائے گی اور گند م بہتر ہوجائے گی۔ہم نے پی ایس ڈی پی کی رقم سیلاب متاثرہ علاقوں کے لیے مختص کرنے کی بات کی تھی۔جس سے وہاں کے تباہ ہوئے انفرااسٹرکچر پر کام ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر ظفرناصر: ہم پاکستان کےمسائل جانتے ہیں اس کے حل سے بھی واقف ہیں، تو پھر تدارک کیسے ہوگا؟
مفتاح اسماعیل:ہم سب مسائل جانتے ہیں لیکن صرف کچھ کو اس کا حل معلوم ہے، سیاست میں سرگرم زیادہ تر لوگ لاعلم ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ہماری بیوروکریسی کی قابلیت بھی اب کم ہوگئی ہے، جو بیوروکریسی پاکستان بننے کے بعد یا70کی دہائی میں تھی اس طرح کے لوگ اب نہیں ہیں، نہ ان کی ہم نے صلاحیت بڑھائی اور نہ ان پر کوئی دبائو رکھا کہ اگر تم قابلیت ثابت نہ کرسکے تو تمہیں نوکری سے فارغ کردیں گے۔ آرمی میں تو ہوتا ہے میجر سے کرنل میں اور کرنل سےآگے وہ نکالتے ہیں۔
سید علی رضا شاہ: آپ لوگوں نے میرے جیسے طالب علم نوجوانوں کے لیے کیا کیا میں آج یہاں پڑھ رہا ہوں لیکن مجھے اپناکوئی مستقبل نظر نہیں آرہا تو میرے پاس بیرون ملک تعلیم اور وہاں منتقل ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔
مفتاح اسماعیل: اپنے اچھے مستقبل کے لیےہمارے ملک کا 40فیصد نوجوان موقع ملنے پر بیرون ملک جانا چاہتا ہے،قابل بچےیہ خواہش زیادہ رکھتے ہیں۔ہمارے یہاں آئی ٹی کی ایکسپورٹ ہے لیکن اس کے لیے ٹھیک طریقے سے تعلیم دینے ہوگی چار مہینے کے ڈپلومے سے ہمارے بچے انڈیا کے بچوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
الم نشرح: مہنگائی تو مسلسل بڑھ رہی ہے اورغریب کے پاس کچھ نہیں تو وہ کیا کرے۔
مفتاح اسماعیل: مصنوعی طریقے سے مہنگائی ختم کرنا پائیدار نہیں ہمیں اپنے ملک کو امیر کرنا پڑے گا،ریاست کا اولین فرض ہے کہ وہ ہر بچے کو تعلیم دے اور معیاری تعلیم دے،لیکن ا افسوسناک بات ہے کہ ہمارے سرکاری اسکولوں سے فارغ میڑک پاس بچے پرسنٹیج نہیں نکال سکتی،انگریزی ضروری نہیں ،چینیوں نے بھی علم اپنی زبان میں حاصل کیا۔
عباد شیخ: آپ کی حکومت نے پنجاب میں مہنگے منصوبے بنائے میٹرو بنائی، اورنج لائن بنائی جب کہ آپ دوسری طرف کہتے ہیں کہ ہم غریب ملک ہیں تو پھر ایسا کیوں کیا؟
مفتاح اسماعیل: انفرا اسٹرکچر منصوبے دنیا میں ہرجگہ ہوتے ہیں،اور میں سمجھتا ہوں کہ اور ایسے منصوبے ہونے چاہیے،اور پبلک ٹرانسپورٹ میں تو بہت زیادہ کام ہونا چاہیے۔ عام آدمی کی سہولت کے لیے منصوبے ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ پشاور میں پاکستان کامہنگاترین بی آرٹی منصوبہ ہے جوایک سو ارب روپے میں بنا ہےجب کہ اتنی لمبائی کی 29کلومیٹرلمبی لاہور میں29ارب روپے کی شہبازشریف نے بنائی تھی۔امیرکو دی ہوئی سبسڈی پر کوئی نہیں کہتا سرکاری خرچ پر غریب کو ملنے والی سبسڈی پر سب کو اعتراض ہوجاتا ہے۔
مصطفیٰ: روپے کی گرتی قدر سے کیاہمارے حالات سری لنکا جیسے ہونے جارہے ہیں
صائمہ پرویز: ہماری یہاں تعلیم دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہے،ملک کے بہتر مستقبل کےلیے نوجوان کیسے پڑھ سکتے ہیں۔
مفتاح اسماعیل:حکومتوں کو انٹر تک فی خاندان دو بچوں کے تعلیمی اخراجات دینے چاہیے۔ لیکن گریجویشن یا ماسٹر تک تعلیم کی فیس حکومت یا ادارے وصول کرے۔بھلے سے وہ رقم ادھار ہو،کیوں کہ ایک میٹرک پاس جب کہیں کمائے گا تو اس کی آمدنی کسی ڈاکٹر یا انجینئر کے مقابلے بہت کم ہوگی۔ امیر لوگوں کوچاہیے وہ تعلیمی اداروں میں پیسےعطیات کریں جس کے لیے حکومت کو انہیں ٹیکس مراعات دے۔ لوگ تعلیمی اداروں کی مدد کریں گے۔
محمد اسحق:اقتصادی اور معاشی طورپر آپ پاکستان کو اگلے پندرہ برسوں میں کس مقام پر دیکھتے ہیں؟
مفتاح اسماعیل: اگر ہماری منصوبہ بندی اور حالات ایسے ہی رہے توصور ت حال خراب ہی رہے گی ۔تو بنگلہ دیش جب بنا تھا تو اس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔سولہ اور 14 کا ریشو تھا۔آج ان کی آبادی پندرہ کروڑ اور ہماری 23کروڑ ،ہمارے یہاں سالانہ 55لاکھ افراد بڑھ رہے ہیں، کیا ہم نے آج تک آبادی کی منصوبہ بندی یا لوگوں کےو سائل میں اضافے کی بات کی ہے۔
یہاں آبادی کے کنٹرول کی بات کرو تو مذہبی مسئلہ بن جاتا ہے بنگلہ دیش اچھا مسلمان ملک ہے انہوں نے آبادی کنٹرول کی،خواتین کو تعلیم دی،ان خواتین ہنرمندوں ہی کی وجہ سے بنگلہ دیش ایکسپورٹ میں آگے ہے۔ایک ماہر تعلیم بتارہے تھے کہ صرف ہم آبادی کو کنٹرول کرلیں تو پھر بنگلہ دیش ہم سے آگے نہیں ہیں۔ یہاں کبھی صدارتی ،کبھی مارشل لا کی بات کی جارہی ہے تو جب مارشل لا لگا تو پاکستان ٹوٹ گیا،صدارتی نظام سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔تو جب تک ہم بہتر اقدامات نہیں کریں گے ہم پریشان ہی رہیں گے۔
جنگ: اگر آپ کے پاس نہ زمینیں ہوں نہ کوئی کاروبارہوں نہ بڑے طبقے سے تعلق ہے تو تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جوآپ کو آگے لے کر جائے گالہذا اپنی کارکردگی اور صلاحیت بڑھائیں اور خوب محنت کریں۔ او ر جو ڈگری ملے گی وہ آپ کی ترقی کا راستہ ہے۔