• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم 

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی 

شرکاء: ڈاکٹر حفیظ اے پاشا (سابق سربراہ، یو این ڈی پی، ایشیا پیسیفک، سابق وفاقی وزیر خزانہ، سابق چیئرمین، پلاننگ کمیشن، سابق ڈائریکٹر، سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر)

ڈاکٹر ایوب مہر (اکنامسٹ/ ریسرچر، ایشن ڈیولپمنٹ بینک، اقراء یونی ورسٹی)

ڈاکٹر ثمینہ خلیل ( اکنامسٹ/ ریسرچر، سابق ڈائریکٹر، اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر، کراچی یونی ورسٹی)

زرعی شعبے کی بحالی اور خوراک میں خود کفالت کے لئے سبسڈی اور سپورٹ پرائس کا نظام واپس لانا ہو گا، گندم کے کسان کو بیس کھرب کا نقصان ہوا ہے، جس سے خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، زراعت اور بڑی صنعتوں میں منفی نمو نہایت خطرناک صورت حال کو جنم دے رہی ہے، بجٹ میں چھوٹے چھوٹے اقدامات لئے گئے ہیں، اوور رائٹنگ معلوم ہوتی ہے کوئی فلاسفی نہیں کوئی پالیسی نہیں ، زرعی آمدن پر ٹیکس کا فیصلہ واپس نہیں لینا چاہیے تھا۔

پراپرٹی پر بھی ٹیکس چھوٹ درست فیصلہ نہیں، ٹریڈرز سے ٹیکس وصول کرنے میں حکومت ناکام ہے، یہ تینوں سیکٹر مجموعی قومی پیداوار کا نصف سے زائد ہیں اور اگر ان سے ٹیکس وصول نہیں ہوتا تو پھر پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر زیادہ بوجھ پڑے گا، برآمدی سیکٹر بجلی اور گیس کی زیادہ قیمتوں کے سبب مقابلے سے باہر ہوتا جا رہا ہے، بڑی صنعتوں میں منفی گروتھ آئی ہے، سرمایہ کاری زیرو کی سطح پر ہے جو سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کے بدترین برسوں میں شمار ہوگا ٹیکس آمدن کو سالانہ چھ لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ کیا جانا چاہیے۔ 

گذشتہ سات برسوں سے یہ حد چھ لاکھ پر ہے جب کہ ان ہی برسوں میں افراط زر کی شرح بہت بلند رہی ہے، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں زیادہ اضافہ ہونا چاہیے، زمین داروں، دکان داروں اور جائدادوں کے کاروبار سے ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا، کسانوں کو بھارت کی طرز پر کھاد میں سبسڈی فراہم کی جائے۔

ڈاکٹر حفیظ اے پاشا

بجٹ میں کوئی پالیسی نظر نہیں آتی ہدف اور پالیسی صرف آئی ایم ایف کی شرائط، انتظامی اقدامات یا اکاوئنٹنگ تک محدود ہے۔ پاکستان کو سات فیصد جی ڈی پی شرح نمو کی ضرورت ہے جو بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات کے سبب کبھی بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے، آمدنی بڑھانے کے طریقے بدلنا ہوں گے ان ڈائریکٹ کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکسز پرفوکس کریں ،یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر کئی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

ہمارا معاشی استحکام مصنوعی ہے، مہنگائی مصنوعی قابو میں ہے مجبوروں پر مزید ٹیکس حکومت کا سخت فیصلہ نہیں ہے، سخت فیصلوں سے مراد زرعی ریفارمز تھیں سبسڈیز کم کرنے کے بجائے بڑھانا چاہیے، زراعت کو نہ ہونے کے برابر سبسڈیز دی جارہی ہے، اب دنیا بھر میں ترقیاتی کام پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ہورہا ہے۔ 

صوبہ سندھ میں اسپتال، تعلیمی ادارے اور ہائی ویز وغیرہ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ وفاق بڑے انفرااسٹرکچر پر کام کرتا ہے وہاں اب تک ایسا نہیں ہوا۔پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ میں حکومت اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتی لیکن ریکوری اور دیگر ریگولیشن کی نگرانی کررہی ہوتی ہے ،پالیسی میکرز کا کام مسائل بتانا نہیں ان کو حل کرنا ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر

وزارت موسمیاتی تبدیلی کا بجٹ تین اعشاریہ پانچ بلین سے کم کرکے دو اعشاریہ سات کردیا ہے اس سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ریسرچ اور دیگر کوششیں متاثر ہوں گی، انوائرمینٹل پروٹیکشن کا بجٹ بھی کم رکھا ہے اسے سات اعشاریہ دو بلین سے کم کرکے تین اعشاریہ ایک بلین پرلائے ہیں، بڑھتی آلودگی کا تعلق بھی کلائمٹ چینج سے ہے یہ فیصلہ بھی نقصان دہ ہے، بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ20 فیصد بڑھا کر سات اعشاریہ ایک چھ بلین کردیا گیا ہے اس سے قریباً دس ملین گھرانوں کو فائدہ ہوگا یہ ایس ڈی جی کا نمبر ون گول ہے اس سے غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔

آبادی کے ساتھ معیشت نہیں بڑھی تو غربت بڑھے گی جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، روزگار کے نئے مواقع اورغربت میں کمی کے لیے صنعتوں کے قیام کے لیے جارحانہ اقدامات اپنائے جائیں، کم ازکم اجرت میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ غلط ہے، آمدنی بڑھانے کے لیے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں کوئی توازن نہیں ہے، بجٹ میں صنفی لحاظ سے کچھ نظرنہیں آیا ،کام کرنے والی خواتین کی مدد کرنے سے معیشت اور حکومت دونوں کا فائدہ ہوگا

ڈاکٹر ثمینہ خلیل

مالی سال دو ہزار پچیس چھبیس کا نیا وفاقی بجٹ عید قرباں کے فورا بعد پیش کیا جا چکا ہے، ماہرین کے نزدیک خدشہ ہے کہ عوام سے بڑی قربانیاں مانگی جا رہی ہیں، ریلیف اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے، اس پر بھی افراط زر میں اضافہ کی بری خبر شامل ہے، بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں بھی اضافہ بھی کیا گیا ہے، پاکستان کے معاشی اور اقتصادی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، بڑی صنعتوں اور زرعی شعبے میں منفی گروتھ سامنے آئی ہے، ریاست کے اخراجات پورا کرنے کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ 

اصل سوال یہ ہے کہ ٹیکس آمدن کہاں سے کیسے ہو؟ ٹیکس نیٹ میں پھیلاو کے تمام حربے ناکام ہیں یا ہھر عزم ہی کم زور ہے، معیشت کو ڈاکو مینٹیشن بنانے میں بھی ناکامی ہے، جس سے ٹیکس وصول کرنا آسان ہے اسی پر مذید بوجھ ڈالا جاتا ہے، گذشتہ مالی برس میں ٹیکس آمدن کا ہدف تقریبا ایک سو تیس کھرب رکھا گیا، اسی وقت بھی آزاد ماہرین نے کہا گیا کہ یہ بہت زیادہ ہے، حصول ممکن نہ ہو گا۔

سات ماہ بعد جب ہدف سے فاصلہ زیادہ بڑھا تو ممکنہ منی بجٹ کے خدشات کا اظہار کیا، عوام مہنگائی میں پہلے ہی پیسے جا چکے ہیں حکومت کی نئے ٹیکس عائد کرنے کی جرات نہ ہوئی، پھر آئی ایم ایف کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا کہ ٹیکس کا ہدف ہی کم کر دیا جائے، نظر ثانی کر کے ایک سو تیئس کھرب رکھ دیا گیا، اب یہ بھی زیادہ ہی لگ رہا ہے، رواں مالی برس کے گیارہ ماہ گزر چکے ہیں، اور حکومت اپنے ہدف سے کافی دوری پر ہے، جس کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مجموعی خسارہ دس کھرب سے زائد ہوگا۔ 

مرے پر سو درے کے مترادف کہ آئی ایم ایف نے نئے مالی برس کا ہدف ایک سو اکنالیس ارب رکھا ہے، اب تو عوام میں سکت ہی نہیں ہے، قوت خرید صفر ہے، بارہ کھرب کا حالیہ خسارہ اور نیا ایک سو باون کھرب، کر لو جمع مردوں سے؟ اب کس کو ٹیکس کرو گے، تاجروں سے وصولیوں میں ناکام ہیں، ریئل اسٹیٹ سے نصف بھی نہیں جمع ہوا، زراعت سے نکالنے کہ بات کہ تو وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کو راضی کر لیا کہ انہیں ابھی بھی چھوڑ دیں؟ انڈسٹری پر بوجھ مزید بڑھایا جا رہا ہے؟ 

قرضوں کی ادائی اور دفاع میں بھی زیادہ رقم دی جا رہی ہے دیکھئے کیا گزرتی ہے، کیسے گزرتی ہے، یہ جاننے کے لئے’’ بجٹ… بڑے چیلنجز‘‘ کے موضوع پر پاکستان کے نامور پولیٹیکل اکنامسٹ سے آن لائن جنگ فورم میں گفتگو کی گئی۔ سوال سامنے رکھا گیا کہ اگر آپ وزیر خزانہ ہوتے؟ تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

ڈاکٹر حفیظ اے پاشا

میرے نزدیک تو بجٹ نہایت مایوس کن ہے، اہم تشویش ناک مسائل یہ ہیں کہ ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہوں گے، آئی ایم ایف کو سمجھانا ہوگا کہ معاشی بنیاد ہی کم زور یا ختم ہو گئی تو ٹیکس وصولی کہاں سے ہوگی، زرعی شعبے کی بحالی اور خوراک میں خود کفالت کے لئے سبسڈی اور سپورٹ پرائس کا نظام واپس لانا ہو گا، گندم کے کسان کو بیس کھرب کا نقصان ہوا ہے، جس سے خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، زراعت اور بڑی صنعتوں میں منفی نمو نہایت خطرناک صورت حال کو جنم دے رہی ہے۔ 

ڈاکٹر حفیظ اے پاشا
ڈاکٹر حفیظ اے پاشا

 پاکستان کو اس وقت بڑے معاشی مسائل درپیش ہیں جن کا مقابلہ بڑے اور سخت اقدامات اٹھا کر ہی کیا جا سکتا ہے لیکن مایوسی ہوئی کہ بجٹ میں چھوٹے چھوٹے اقدامات لئے گئے ہیں، اوور رائٹنگ معلوم ہوتی ہے کوئی فلاسفی نہیں کوئی پالیسی نہیں، جن سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کی کوششیں دم توڑ گئیں، آئی ایم ایف نے ٹیکس نیٹ کے پھیلاو پر زور دیا ہے۔ 

وہاں بھی ہم آسان شکار پر چھری چلا دیتے ہیں، زراعت پر ٹیکس کا فیصلہ واپس نہیں لینا چاہیے تھا، پراپرٹی پر بھی ٹیکس چھوٹ درست اقدام نہیں، ٹریڈرز سے ٹیکس وصول کرنے میں حکومت ناکام رہی، یہ تینوں سیکٹر مجموعی قومی پیداوار کا نصف سے زائد ہیں اور اگر ان سے ٹیکس وصول نہیں ہوتا تو پھر ٹیکس دینے والوں پر زیادہ بوجھ پڑے گا، ان فیصلوں کا منفی اثر صنعت پر پڑے گا جو پہلے ہی ٹیکس کے بوجھ تلے سسک رہی ہے، خاص کر برآمدی سیکٹر بجلی اور گیس کی زیادہ قیمتوں کے سبب مقابلے سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ 

بڑی صنعتوں میں منفی گروتھ آئی ہے، تمام بڑی صنعتوں میں گراوٹ ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت کی ٹیکس آمدن میں بڑی کمی ہوگی، اور روزگار کے ذرائع بھی کم ہوں گے، بلکہ پہلے سے روزگار افراد بےروزگاری جھیلیں گے، پاکستان کو اس وقت ایکسپورٹ بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، ڈالر کی ضرورت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپے کو مستحکم کرنے کا یہ اہم ذریعہ ہے پیداواری لاگت میں اضافے سے ہم ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں کر پا رہے، برآمدی شعبہ اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ 

حکومت نمایشی اقدامات سے ایکسپورٹ بڑھانے کی بات تو کرتی ہے یعنی نتائج مثبت نہیں آ رہے، موجودہ بجلی گیس کی قیمتوں اور ٹیکس نظام سے برآمدی شعبہ سکڑتا جا رہا ہے، نئی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر ہے بلکہ سرمایہ کاری زیرو کی سطح پر ہے جو سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کے بدترین برسوں میں شمار ہوگا، صنعتوں کے ساتھ زراعت میں بھی تشویش ناک صورت حال ہے، منفی ساڑھے تیرہ فی صد نمو نہایت ہی سنگین ہے، پانچوں بڑی فصلوں میں منفی نمو ہے، جس کا مطلب خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کو امپورٹ سے پورا کیا جائے گا اور پاکستان زرمبادلہ کی قلت کا پہلے ہی شکار ہے جس کے باعث امپورٹ پر پابندیاں ہیں، جو صنعتوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ 

پاکستان گندم اور کپاس جیسی ضروری اشیاء درآمد کرے گا، گندم کی امدادی قیمت کی پالیسی بحال کرنا ہوگی، کسانوں کی لاگت پوری نہیں ہو گی تو وہ پیداوار بھی نہیں کریں گے، گندم کی قیمت دو ہزار فی من کسانوں پر ظلم ہے، کسانوں کو سپورٹ پرائس اور کھاد میں سبسڈی کا نظام واپس لانا ہوگا، بھارت کسانوں کوکھاد میں ساٹھ فی صد سبسڈی دے رہا ہے۔ 

پاکستان بھی چالیس فی صد دیتا رہا ہے، زراعت میں سبسڈی کا خاتمہ مطلب خوراک میں قلت پیدا کرنے کا راستہ اپنایا گیا ہے، بلند مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے، پینتالیس فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں، غربت میں فرق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اور آئندہ بجٹ میں افراط زر میں اضافے کی خبر دی گئی ہے، خواہ داروں پر ٹیکس کی شرح اور سلیب دونوں مناسب نہیں، ٹیکس آمدن کو سالانہ چھ لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ کیا جانا چاہیے، گذشتہ سات برسوں سے یہ حد چھ لاکھ پر ہے جب کہ ان ہی برسوں میں افراط زر کی شرح بہت بلند رہی ہے۔ 

عوام کی حقیقی آمدن بہت کم ہو چکی ہے، مڈل کلاس غربت کی لائن کے نیچے جا رہی ہے، ضروری ہے کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں زیادہ اضافہ ہونا چاہیے، ٹیکس وصولی کا تمام بوجھ بڑی صنعتوں، تنخواہ داروں اور مالیاتی اداروں پر ہے زمین داروں، دکان داروں اور جائداد کے کاروبار سے ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا، حکومت تاجروں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی ہے اور حالیہ بجٹ میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا، تاجروں اور جاگیرداروں کی آمدن کو ٹیکس سے چھوٹ دینا درست نہیں، معیشت کو ڈاکومنٹیشن کی طرف جانا چاہیے اس سے ٹیکس نیٹ بڑھایا جا سکتا ہے۔ 

ٹیکس موجودہ فرسودہ نظام نہیں چل سکتا، بجٹ میں آمدنی کا ہدف حاصل نہیں ہو گا، ملک میں سرمایہ کاری صفر پر آ چکی ہے، روزگار کے مسائل جنم لیں گے، کسانوں کو بھارت کی طرز پر کھاد میں سبسڈی فراہم کی جائے، گندم کی سپورٹ پرائس نہایت ضروری ہے، بڑی فصلوں اور بڑی صنعتوں میں منفی گروتھ تباہی کا راستہ ہے، آئی ایم ایف کو سمجھنا سمجھانا ہوگا کہ جب بنیاد ہی کم زور ہو جائے گی تو ٹیکس کیسے جمع ہو گا۔

ڈاکٹر ایوب مہر

بجٹ سے پہلے ایک مالیاتی پالیسی آتی ہے جس کی بنیاد پر بجٹ بنتا ہے لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں سے محسوس ہورہا ہےکوئی مالیاتی پالیسی یا تو بنتی نہیں ہے یا اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، حکومتوں کو پہلے اس پالیسی پر توجہ دینا چاہیے تھی، بجٹ میں کوئی پالیسی نظر نہیں آتی ہے۔ بجٹ میں ہدف اور پالیسی کی توجہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط، انتظامی اقدامات یا اکاوئنٹنگ تک محدود ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر
ڈاکٹر ایوب مہر

بجٹ کی خاص باتوں میں حکومت کے مقرر مالی ہدف ہیں۔ ،بجٹ سے دو ہفتے پہلے آئی ایم ایف نے جو گیارہ شرائط عائد کیں ہیں ان کا تعلق گورنس اور انتظامی اقدامات سے ہے۔ مثلاً نان فائلر ،انہیں سسٹم میں داخل کرنے کے بجائے باہر کرنے کی بات کی گئی ہے، ڈیبٹ انکم پر25 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا، آن لائن بینکنگ اور آن لائن شاپنگ پر 28 فیصد جی ایس ٹی لگا کر حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ 

18 فیصد گاڑیوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے، 200 کے قریب مصنوعات پر دس سے 15 فیصد تک امپورٹ ڈیوٹیز لگانے کا عندیہ دیا گیا ہے جس میں زیادہ ترغذائی مصنوعات ہیں، کسٹم میں اصلاحات لانے کا کہا گیا ہے، فائلرز کی شناخت کے لیے آئی ٹی کو ذریعہ بنایا جائےگا، صنعتوں کے خام مال پر دس فیصد ڈیوٹی لگانے کا سخت فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان اقدامات کو فسکل نہیں کہا جاسکتا  یہ صرف انتظامی اقدامات ہیں، اس میں پکڑ دھکڑ ہوگی سختیاں بڑھائی جائیں گی اور زیادہ پیسے جمع کرنے کے لیے ڈیوٹیز بڑھائیں جائیں گی۔ لیکن اس طرح کے اقدامات سے معیشت پر کبھی بھی اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ بلکہ معیشت کا سائز کم ہوگا، بجٹ میں معیشت کا سائز بڑھانے والے مالی اور تجارتی اقدامات پر مشتمل پالیسی لانی چاہیے تھی۔

ان اقدامات کے بعد جو خدشات ہیں اس کے متعلق وزیرخزانہ نے خود فرمایا ہے کہ رواں مالی سال افراط زر کم ہوکر چاراعشاریہ چھ فیصد ہوگیا ہے جو ماضی میں 29 فیصد تک چلا گیا تھا، لیکن موجودہ بجٹ میں  ٹیکسوں کے اعلان کے بعد وزیر خزانہ بتارہے ہیں کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر میں اضافہ ہوگا اور وہ بڑھ کر سات اعشاریہ چھ فیصد ہوجائے گی۔

انتظامی اقدامات پر مشتمل بجٹ کے نتائج اسی طرح آتے ہیں۔ پاکستان کو سات فیصد جی ڈی پی شرح نمو کی ضرورت ہے جو بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات کے سبب ہم کبھی بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو  دو اعشاریہ تین سے دو اعشاریہ 5 فیصد تک رہی ہے، اس سال چار اعشاریہ چھ فیصد کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے ۔جس میں کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔

اب سوال یہ ہے بجٹ میں کیا کرنا چاہیے تھا، ہمارے معاشی حالات اور آئی ایم ایف کی شرائط متصادم ہیں۔ جس میں ابھی وقتی وقفہ آیا ہوا ہے۔ بجٹ ہمارے مالی صورت حال کے سبب غیر روائیتی ہوجائے گا، اخراجات میں کمی کے لیے امید تھی کہ تین چیزوں پر کٹوتی کی جائے گی، خسارے سے نمٹنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ 

پہلا آمدنی اضافہ کرنا جس میں ہماری روایت ہے ہمیشہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرکے آمدنی بڑھاتے ہیں یا پھر اخراجات کم کریں، اخراجات کم کرنے کے لیے تین شعبوں پر چھری چلائی جاسکتی ہے، پہلا تنخواہیں ہیں جو کل بجٹ کا چار فیصد ہے اس میں مزید کمی ہوگی، دوسرا ڈویلپمنٹ کا بجٹ یہ بھی کم ہوگا اور تیسرا سبسڈیز مزید کم کی جائیں گی۔

لیکن اگر میں بجٹ بنانے کی پوزیشن پر ہوتا تومیں اس کے بجائے کچھ اور حل ڈھونڈتا اور اس پر فوکس کرتا ۔روایتی انداز میں بجٹ تقریر کے آخر میں بتایا جاتا ہے ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہے اس لیے ٹارگٹ مشکل ہوں گے اور بجٹ سخت ہوگا لیکن جی ایس ٹی بڑھانا مشکل ٹارگٹ نہیں ہے، ن لیگ ،پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ان کے منشور کے مطابق وہ کہتے ہیں ہم ڈائریکٹ ٹیکس پر توجہ رکھیں گے لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ جس کی حکومت آئی اس نے ان ڈائریکٹ ٹیکس پرفوکس کیا جس میں جی ایس ٹی شامل ہے ۔جی ایس ٹی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہماری ٹاسک فورس کو کام کرتے ہوئے یہ منصوبہ بنانا چاہیے کہ وہ آمدنی بڑھانے کے طریقے تبدیل کرے ان ڈائریکٹ کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکس پر فوکس کرے، ان ڈائریکٹ ٹیکس رجعت ٹیکس کہا جاتا ہے یعنی وہ ٹیکس جس کا بوجھ کم آمدنی والے پر زیادہ پڑتا ہے یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے عوام مہنگائی ،بے روزگاری اور دیگر کئی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ 

میکرو اکنامک اور میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کے استحکام کا بتایا گیا ہے یہاں عوام کا سوال ہے کہ  اگر میکرو اکنامک استحکام آیا ہے یا میکرو اکنامک انڈیکیٹرز بہتر ہوئے ہیں تو نظر کیوں نہیں آرہے، یہ اپنی چھت، روزگار، غربت میں کمی عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہونے سے نظر آتے ہیں، لیکن ملک کی اکثریت کو یہ بنیادی سہولت میسر نہیں ہے ،یہ سوشل اکنامک انڈیکٹرز کہلائے جاتے ہیں۔

ہمارا معاشی استحکام مصنوعی ہے، مہنگائی مصنوعی  قابو میں  ہے۔ عوام کی روزمرہ استعمال کی اشیا پر جی ایس ٹی بڑھایا گیا ہے عوام کی اکثریت وہ غریب ہے جو کچھ نہیں کرسکتے۔ مجبوروں پر مزید ٹیکس حکومت کا سخت فیصلہ نہیں ہے ۔سخت فیصلوں سے مراد زرعی ریفارمز تھیں جب بڑے فارمز پر ایک لمٹ لگادی تھی تاکہ فارمز نچلے لیول تک جائے، مشکل فیصلہ نیشنلائزیشن تھا جب حکومت نے سرمایہ داروں سے ٹکرلی تھی ۔ایسے اقدامات سے ہی معیشت کی پوری ساخت تبدیل جاتی ہے۔

اگر میں وزیرخزانہ ہوتا تو سبسڈیز کم کے بجائے بڑھاتا، زراعت کو نہ ہونے کے برابر سبسڈیز دی جارہی ہے، دوسری طرف آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ڈیٹا کے مطابق مغرب کل بجٹ کا ساٹھ فیصد سبسڈیز پر خرچ کرتا ہے، اسپین80 فیصد جاپان اور کینیڈا 70 فیصد، امریکا، کوریا اٹلی 60 فیصد سبسڈیز، برطانیہ، ملائشیا، انڈیا، ترکیہ 45 فیصد سے زائد مڈل انکم ممالک میں 38 فیصد تک سبسڈیز پر خرچ ہورہا ہے، اس کی وجہ سے ان کی معیشت مسابقتی ہے۔

یہ سبسڈیز ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں خرچ ہوتی ہے ،چیزیں ایجاد ہوتی ہیں نئی پراڈکٹ متعارف ہوتی ہے، زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، حکومت زراعت کو سبسڈیز تو نہیں دے رہی لیکن زرعی پیداوار جیسے گندم، کپاس اور گنے کی قیمت طے کرکے قیمتوں کو ریگولیٹ کررہی ہے، مہنگائی قابو کرنے کی یہ مصنوعی کوشش ہے مصنوعی انداز میں مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دنیا  کل بجٹ کا 40 فیصد، مغربی دنیا  60 فیصد اور پاکستان چھ اعشاریہ سات فیصد سبسڈیز دے رہا ہے۔ سبسڈیز صنعتوں کو بھی نہ ہونے کے برابر مل رہی ہے۔ زیادہ سبسڈی انرجی سیکٹر کے پروڈیوسرز کو مل رہی ہے۔ جیسے K الیکٹرک، واپڈا وغیرہ کی طرح کے ادارے شامل ہیں۔ سبسڈیز کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تنخواہوں میں بھی کٹوتی نہیں ہونی چاہیے، برطانیہ  15فیصد دس سے بارہ فیصد انڈیا درمیانی معیشت والے ملک 20 فیصد تنخواہوں میں خرچ کررہے ہیں، پاکستان 4اعشاریہ چار فیصد ملازمین کی تنخواہوں اور اجرت پر خرچ کررہا ہے اور آئی ایم ایف اور دیگر کے احکامات پر مزید کٹوتی ہوگی، دس وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کا بتایا گیا ہے، پنشن بھی نشانہ بنی ہے اب خاندان کو دس سال سے زیادہ کے بعد نہیں ملے گی، تیسرا ترقیاتی اخراجات ہے، اب دنیا بھر میں ترقیاتی کام پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ہورہا ہے، صوبہ سندھ میں اسپتال ،تعلیمی ادارے اور ملیر ہائی وے وغیرہ اس کی اچھی مثال ہیں۔ وفاق بڑے انفرااسٹرکچر پر کام کرتا ہے وہاں اب تک ایسا نہیں ہوا۔

پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ میں حکومت اپنا پیسہ خرچ نہیں کرتی لیکن ریکوری اور دیگر ریگولیشن کی نگرانی کررہی ہوتی ہے تاکہ کسی کا استحصال بھی نہ ہو اور ریکوری ہوجائے۔ لیکن حکومت نے اس بجٹ میں بھی اس کا امپلی مینٹ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے ترقیاتی اخراجات حکومت کے رک جاتے لیکن ترقیاتی کام نہیں رکتا۔

چوتھا ڈومیسٹک کریڈٹ ہے جو پرائیوٹ سیکٹر کوانڈسٹری لائزئیشن کے لیے دیا جاتا ہے، دنیا میں اس کا شرح جی ڈی پی کا 147 فیصد ہے، بڑے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں شرح ریشو اس سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا میں 190، جاپان میں 200 ،انڈیا اور بنگلہ دیش میں چالیس فیصد کےقریب ہے، پاکستان میں 14 فیصد سے بھی کم ہے ،جب پرائیوٹ سیکٹر صنعتوں کے لیے پرائیوٹ بینکوں سے اتنا کم پیسہ ملے گا تو کاروبار میں اضافہ کیسے ہوگا۔

بجٹ میں اس طرح کے اقدامات نہ کرنے کے اچھے نتائج نہیں آرہے ہیں ،45 فیصد سے زیادہ غربت کا شکار ہیں ،شرح نمو دو اعشاریہ پانچ فیصد رہ گیا ہے، بےروزگاری بڑھ گئی ہے۔ یہاں وزارت خزانہ ہی سب کچھ ہے، فسکل پالیسی بنانا پلاننگ کمیشن کا کام ہے، پلاننگ کمیشن میں تمام وزارتوں کے سربراہ اور سیکریٹریز صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور عوامی نمائندے شامل ہوتے ہیں، یہ سب بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں تو فسکل پالیسی بنتی ہے۔لیکن پاکستان میں  پلاننگ کمیشن کا پانچ سالہ منصوبہ صرف لائبریری میں رکھنے ہے۔

حکومت کو چاہیے وہ فوری طور پر ایک ٹاسک فورس بنائے جوخامیوں کی نشاندہی کرے اور پلاننگ اور فسکل پالیسی پر زور دے کر اسے بجٹ کا حصہ بنائے۔ ٹاسک فورس حکومت کو بتائے کہ وہ کس طرح اپنے اخراجات کا پیٹرن تبدیل کرے ،40فیصد ڈیبٹ سروسز پر خرچ ہونے والے اخراجات سبسڈیز کے لیے دیئے جائیں تاکہ ہم دنیا سے مقابلہ کرسکیں روزگار کے لیے مزید خرچ کرنا چاہیے ، ترقیاتی اخراجات کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ شروع کریں۔پالیسی میکرز کا کام مسائل بتانا نہیں ان کا حل بتانا ہے۔

ڈاکٹر ثمینہ خلیل

بجٹ میں کئی باتیں اچھی ہیں اور کئی سیکٹرز کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ بجٹ کی خاص بات کلائمٹ چینج پر حکومتی توجہ ہونا ہے، کلائمٹ چینج کے مضراثرات کی وجہ سے معیشت کو400 بلین روپے نقصان کا سامنا ہے، ویسے تو موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کا مسئلہ ہےلیکن پاکستان بہت زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ حکومت نے بجٹ میں 85 اعشاریہ 43بلین اڈپٹیشن چھ سو تین بلین روپے میٹی گیشن اور 28 اعشاریہ تین بلین روپے اس سے جڑے دیگر ایریاز مثلاً کیپسٹی بلڈنگ انسٹی ٹیوشن ڈیولپمنٹ اور ریسرچ کے لیے رکھے ہیں۔

ڈاکٹر ثمینہ خلیل
ڈاکٹر ثمینہ خلیل

تینوں کا تعلق کلائمٹ چینج سے ہے لیکن ان کے فنڈ میں توازن نہیں ہے یہ نہ سمجھ میں آنے والا تضاد ہے۔ جیسے وزارت موسمیاتی تبدیلی کا بجٹ تین اعشاریہ پانچ بلین سے کم کرکے دو اعشاریہ سات کردیا ہے۔ اب اگر ایک طرف موسمیاتی تبدیلی ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے لیکن بجٹ کم ہونے سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ریسرچ اور دیگر کوششیں متاثر ہوں گی، اس لیے وزارت کا بجٹ کم کرنا مناسب فیصلہ نہیں ہے۔

سرسبز پاکستان منصوبے کا تعلق زراعت سے ہے، ہمارا زراعت کا انفرااسٹرکچر کا فی پرانا ہے، ایسی فصلیں کاشت ہونی چاہیے جوموسم کی شدت برداشت کرسکے، پانی کی کمی کے مسائل کا تعلق بھی کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہے ہمیں اس سے نمٹنے کے پانی کے چھوٹے ذخائر کی ضرورت ہے جنہیں سولر پاور ٹیوب ویل کہا جاتا ہے اسے اپنانے کی ضروت تھی یہ ہماری زراعت کےلیے سیف گارڈ ہوتے۔ لیکن کلائمٹ چینج منسٹری کے بجٹ میں کٹوتی سے اس طرح کے اقدامات نہیں ہوسکیں گے۔ 

فوسل فیولز انڈسٹریز جو کاربن امیشن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس پر دواعشاریہ پانچ فیصد کاربن لیوی نافذ کرنے کا فیصلہ ٹھیک ہے اس سے موسمیاتی تبدیلی میں برے اثرات ختم کرنے میں فائدہ ہوگا لیکن دوسری طرف سولر پینل کی امپورٹ پرڈیوٹی نافذ کردی گئی ہے، ہائبرڈ وہیکل جو موسم دوست ہیں اس پر ٹیکس لگانا یا بڑھانا آٹھ سے اٹھارہ فیصد یہ بھی ٹھیک اقدام نہیں ہے۔ انوائرمینٹل پروٹیکشن کا بجٹ بھی کم کیا گیا ہے اسے سات اعشاریہ دو بلین سے کم کرکے تین اعشاریہ ایک بلین پر لائے ہیں، بڑھتی آلودگی کا تعلق بھی کلائمٹ چینج سے ہے یہ فیصلہ بھی نقصان دہ ہے۔

واٹر ویسٹ کا بجٹ کچھ بڑھا کرایک بلین کردیا گیا ہے، ایس ڈی جی جس پر دستخط کرنے کے بعد سے پاکستان حصہ ہے، دوہزار تیس تک اس کے 17 ٹارگٹ حاصل کرنے ہیں، اسے ہماری فسکل پالیسی سے منسلک کردیا گیا ہے یہ اچھا اقدام ہے، ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 44 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں جو کافی بڑا فیگر ہے، اس مرتبہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 20 فیصد بڑھا کر سات اعشاریہ ایک چھ بلین کردیا گیا ہے اس سے قریباً دس ملین گھرانوں کو فائدہ ہوگا یہ ایس ڈی جی کا نمبر ون گول ہے اس سے غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔

فسکل مینجمنٹ سے فسکل اسپیس پیدا ہوگی بجٹ میں کرنٹ اخراجات کو کم کیا گیا ہے، ڈیبٹ سروسز کا بوجھ بھی کم ہوکر47 فیصد پر آگیا ہے، پالیسی ریٹ بائیس سے کم ہوکر گیارہ فیصد ہوگیا ہے اس کا فائدہ ہوگا۔ فسکل اسپیس پیدا ہونے سے ایس ڈی جی کے گول جو ڈیولپمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، صنفی بنیاد خواتین اور محروم طبقے پر زیادہ خرچ کیا جائے تو زیادہ سود مند ہوگا۔

بجٹ کوعوامی مفاد میں اور شرح نمو میں اضافے والا کہا جارہا ہے ۔تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس پانچ فیصد سے کم کرکے دو اعشاریہ پانچ فیصد پر لایا گیا ہے، ان اقدامات سے ایس ڈی جی کا 2030 تک ٹارگٹ حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ ایک اور اہم فیصلہ ٹیکس فائلنگ سسٹم کا ہے اسے مزید سہل بنایا گیا ہے اس کا فائدہ عام لوگوں کو ہوگا اور ٹیکس نیٹ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ تیزی سے بڑھتی آبادی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے دوفیصد کا سالانہ اضافہ پریشانی بڑھانے کا باعث بنے گا۔

اگر آبادی کے ساتھ معیشت نہیں بڑھی تو غربت بڑھے گی، جس کے مجموعی طور سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، روزگار کے نئے مواقع اور غربت میں کمی کے لیے بجٹ میں حکومت کو صنعتوں کے قیام کے لیے جارحانہ اقدامات لینے چاہیے، خاص طور پر خواتین کے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے اس سے خود بخود آبادی اورغربت میں کمی آئے گی۔

ایک کمزور فیصلہ کم ازکم اجرت میں اضافہ نہ کرنے کا بھی ہے، حکومتی یہ موقف کہ یہ فیصلہ پرائیوٹ سیکٹر کو منظور نہیں ہے کوئی مناسب جواب نہیں ہے، پرائیوٹ سیکٹر نے تو پچھلے سال کے اعلان پر بھی آج تک عمل نہیں کیا ہے ،قانون بنا کر عمل درآمد کرانا حکومت کا کام ہے حکومت کو پرائیوٹ سیکٹر سے کہنا چاہیے تھا کہ اتنی مہنگائی میں کم از کم اجرت بڑھانا ضروری ہے۔ ورنہ سوشل عدم مساوات میں اضافہ ہوگا اگر یہ بڑھا تو سوسائٹی کا بڑا مسئلہ بن جائے گا ،کم از کم اجرت والوں کی تعداد زیادہ ہے حکومت کم از کم اجرت میں اضافے کا اعلان کرے۔ 

ٹیرف میں ریشنلائیزیشن اچھا قدم ہے یہ معیشت کے پھیلاو جدت اور نمو میں بہتری کا اچھا طریقہ ہے ،کسٹم ڈیوٹیز سمیت دیگر ڈیوٹیز کو اگلے چار سالوں میں بتدریج زیرو تک لانے کا کہا گیا ہے یہ اچھی پالیسی ہے لیکن دوسری طرف بڑی آمدنی حاصل کرنے کے دیگر ذرائع جس میں ہول سیلر، ریٹیل، زراعت وغیرہ شامل ہے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے، اتنے بڑے بڑے ذرائع آمدنی پر کچھ بھی نہیں کہا گیا جو نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے، جب کہ حکومت جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی کی شرح بڑھانا چاہتی ہے۔

آمدنی بڑھانے کے لیے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس میں کوئی توازن نہیں ہے یہ بھی ٹھیک قدم نہیں ہے۔ اگر بجٹ میں انڈسٹریز کے لیے شرح سود معقول رکھی جاتی تو اچھا تھا، لوگ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مثبت اقدامات کی توقع کررہے تھے۔ امپورٹ کے متبادل کے لیے انڈسٹریز کے لیے سبسڈیزکا بھی فیصلہ کرنا چاہیے تھا اس سے معیشت لونگ ٹرم استحکام کے طرف جاسکتی تھی۔

ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ہمارا انحصار ٹیکسٹائل اور فوڈآئٹم پرہے لیکن ہمارے پاس دوسرے سیکٹر بھی ہیں جیسے ادویات ،کھیلوں کا سامان، آئی ٹی، آٹوپارٹس وغیرہ ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے کے لیئے متبادل پر بھی زور دینا چاہیے تھا، اگر ہمیں ایکسپورٹ اورینٹڈ معیشت کی ضرورت ہے تو مختلف صنعتوں کو حکومت کی طرف سے مراعات اور پروموشن ملنی چاہیے، اس کے لیے اسپیشل اکنامی زون اہمیت کے حامل ہیں جس کے لیے بجٹ میں سرکاری طور پر لاجسٹک سپورٹ ملنی چاہیے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بہت عرصے سے فنکشنل نہیں ہے جس کی وجہ مہنگائی ہےاگر انڈسٹریل سبسڈیز بجلی توانائی اور ٹیکس بیس ہوں ایکسپورٹ میں ریبیٹ دیے جائیں  جو سارہ انڈسٹری کو ملے اس سے انڈسٹری کی گروتھ پر اچھا اثر پڑے گا۔

یہ مراعات پرفارمنس اور نتائج پر دینا چاہیے ورنہ بے کار ہے ۔بجٹ میں ایک اور سیکٹر سیاحت نظر انداز ہوا ہے اگر بجٹ میں اس کےلیے کوئی پالیسی دی جاتی تو ہمیں ایک اور ذریعہ آمدنی مل جاتا دنیا کی توجہ کے لیے ہمارے پاس شمالی علاقہ جات اور کوسٹل بلوچستان کے کئی قابل دید مقامات ہیں۔

بجٹ میں صنفی لحاظ سے کچھ نظرنہیں آیا، ہماری دیہی آبادی میں کام کرنے والی اکثر خواتین جو زراعت سے منسلک ان کے لیے کوئی مراعات نہیں انہیں مسائل کا سامنا رہتا ہے، شہروں میں بھی خواتین مشکلات کا شکار ہیں، کام کرنے والی خواتین کی مدد کرنے سے معیشت اور حکومت دونوں کا فائدہ ہوگا۔

بجٹ میں جتنی بھی پالیسیوں کا اعلان ہوا ہے اس پر تیزی سے عمل درآمد بہت ضروری ہے اگر عمل درآمد میں سستی برتی جائے گی تواگلے سال تھوڑے سے فرق کے ساتھ معیشت اسی مقام پرکھڑی ہوگی۔ اس لیے حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مانیٹرنگ اور ایوی لیشن کا مستقل بنیاد پرہونا بہت ضروری ہے۔