• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم 

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: جنید احمد

شرکاء: عارف حبیب (چیئرمین، عارف حبیب گروپ )

عبدالقادر میمن (چیئرمین، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن اکیڈمی آف ٹیکسیشن)

انور کاشف ممتاز (صدر، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن)

علی اے رحیم ( صدر ،کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن)

 اس سال گروتھ زیادہ ہے جس پر حکومت کی تعریف کرنی چاہیے ،آئی ایم ایف پروگرام میں معیشت ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، ہمارا بنیادی مسئلہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کا نہ ہونا ہے، گروتھ میں اضافہ نہ ہونے کے تین بڑے مسائل ہیں ایک بلند شرح سود تھا جواب 22 فیصد سے گرکر گیارہ فیصد پر آگیا ہے دوسرا مہنگی انرجی اسے کم کرنے کی ضرورت ہے، تیسراخطے میں ہماری ٹیکس کی شرح کا سب سے زیادہ ہونا ہے۔ 

انٹرنیشنل سرمایہ کار کے لیے کاروباری مقام صرف پاکستان نہیں ، سستا اور پرامن محفوظ خطہ سرمایہ کاری کے فائدے کی جگہ ہے۔ جب ایسا ہوگا تو لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کھلیں گے، حکومت بجٹ میں مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے پرکشش پیکج دے، اگلے بجٹ میں ٹیکس کی شرح کم کریں، سپر ٹیکس کا دو سال کے لیے کہا گیا تھا اسے فوری طور پر ختم کردیں ورنہ بتدریج کم کرنا چاہیے، حکومت اپنے اخراجات کم کرے، این ایف سی ایوارڈ غیر منصفانہ ہے، ترقیاتی اخراجات کرپشن کا گڑھ ہے، اس میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کو شامل کرنا چاہیے، حکومت جلد سے جلد اداروں کی نج کاری کرکے جان چھڑائے

عارف حبیب

ترقی یافتہ ممالک میں ہر شخص ٹیکس دیتا ہے، یہ سب کچھ قانون کی وجہ سے ہورہا ہے وہاں اگر کسی کی آمدنی قابل ٹیکس ہے اور اس نے ٹیکس نہیں دیا تو اسے حیثیت یا مرتبے کا لحاظ کئے بغیر سزا ملتی ہے، ہمیں شارٹ ٹرم پالیسی سے پرہیز کرنا چاہیے، حقائق کو سامنے رکھ کر ٹیکس شرح اور پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، سپرٹیکس کا معاملہ چند دن میں حل ہوناچاہیے تھا لیکن دس سال سے سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے۔ 

کیپیٹل ویلیو ٹیکس لگانے کا فیصلہ خسارے کا رہا، ایک تویہ متنازعہ ہوا اور ریونیو بھی نہیں آیا، معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن بہت عرصے پہلے شروع کردینا چاہیے تھی، ایف بی آر سے چور کے بجائے قانون پسند خوف زدہ ہوتا ہے فائدہ تب ہوگا جب چور ایف بی آر سے ڈرے گا، گلے تین سال تک سیلز ٹیکس کوبتدریج پندرہ فیصد تک لے جائیں

عبدالقادر میمن

ہر طرح کی آمدنی پر ٹیکس ہونا چاہیے، آنے والے ایف بی آر کے جس قانون کی بات ہورہی ہے وہ ہمارے پالیسی میکر نہیں عالمی ادارہ آئی ایم ایف لے کر آیا ہے، یہ کسی بھی ملک کی بڑی بدقسمتی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسی بھی نہیں بناسکتا، ہمارے بجٹ کا بڑا خرچہ پنشن بھی ہے اس پر بھی ٹیکس ہونا چاہیے۔

ٹیکس کی شرح کم کرنا چاہیے ،18 فیصد سیلز ٹیکس لیا جارہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ ہر آمدنی میں ٹیکس لگائیں لیکن شرح ٹیکس کم کریں تاکہ لوگ بخوشی ٹیکس نیٹ میں آئیں اور ایف بی آر کا کردارکم ہونا چاہیے۔

ترقی یافتہ ممالک کے عوام بخوشی دیتے ہیں، کیوں کہ انہیں اس کی وجہ سے تعلیم، صحت، سفری سہولت ان کے بچوں کی دیکھ بھال میسر ہوتی ہے، ٹیکس نظام سائیکل ہے جو لیا جاتا ہے، واپس دینے کے لیے، ہمارے اخراجات بہت زیادہ ہیں اشرافیہ کے رہن سہن سے لگتا ہی نہیں کہ ہم غریب ملک ہیں

انور کاشف ممتاز

ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ21 فیصد بنتا ہے جب کہ ٹیکس میں صرف ایک سے سوا فیصد حصہ ہے، انڈسٹریز کا کنٹری بیوشن 18 فیصد کے قریب ہے لیکن ان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ 60 فیصد لیا جارہا ہے، اسے ٹیکس کے بے تحاشا بوجھ سے مارا جارہا ہے۔ 

ایف بی آر نئی ترمیم سے کے ساتھ ایک اور بوجھ لارہا ہے جس سے 60 سے 62 فیصد ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ جب کہ معیشت دستاویزی بنانے پر کوئی کام نہیں ہوا ہے، تن خواہ دار طبقے پر ٹیکس حد چھ سے بڑھا کر12 لاکھ کرنے کی سفارش کی ہے، 60 لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس پیئر ہیں جس میں چالیس لاکھ ریٹرن داخل کررہے ہیں، حکومت ٹیکس نیٹ میں شامل اور نہ دینے والے میں فرق پیدا کرنے کے لیے ٹیکس پیئر کو عزت دے۔

علی اے رحیم

حکومت معیشت میں اڑان کے دعوے کررہی ہے لیکن اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو دعویٰ سمجھ نہیں آتا ،ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو قریباً دس فیصد ہے، متوقع بجٹ خسارہ چھ فیصد ہوگا، ٹیکس وصولی کے ہدف میں خدشہ ہے 1200 ارب روپے کا شارٹ فال ہوگا، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے نئے اقدامات کی کوششیں سوائے تن خواہ دار سے زیادہ وصولی کے ہر جگہ ناکام رہی، ٹریڈرز ،رئیل اسٹیٹ اور زراعت سے مطلوبہ ٹیکس نہیں لے سکے۔

حکومت آمدنی بڑھانے اورریونیو ٹارگٹ مکمل کرنے کےلیے بجٹ میں کیا کرے، دیرینہ چیلنجز کے ساتھ اس مرتبہ سامنے دو نئے چیلنج مزید ہیں، سب سے بڑا پاک بھارت کشیدگی جس کا اثر یقینی طور پر بجٹ پرآئے گا، دوسرا نئی امریکی حکومت ٹرمپ کا ٹیرف وار ہے اس کا کیا اثر آئے گا۔ بجٹ سے معیشت بہتر ہوگی یا مشکلات کا سفر جاری رہے گا، ایسے تمام سوالوں کے جواب کے لیے پری بجٹ جنگ فورم ’’ معیشت کی بحالی کیسے ؟ کے موضوع پر ہے " گفتگو کے لیے ہمارے ساتھ عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن اکیڈمی آف ٹیکسیشن کے چیئرمین عبدالقادر میمن، صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن انور کاشف ممتاز اور صدرکراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن علی اے رحیم موجود ہیں ،گفتگو کا آغاز علی اے رحیم سے کرتے ہیں۔

جنگ: ہم حالت جنگ میں ہیں اس کا اثر بجٹ اور معیشت پر کیا پڑے گا ؟

علی اے رحیم : جنگ سے معیشت پر برا اثر پڑے گا ۔ہمارا اصل ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نواعشاریہ پانچ کے قریب ہے ، اگرموازنہ کیا جائے تو ٹیکس میں جن کو جتنا حصہ ڈالنا چاہیے وہ پورا نہیں ڈال رہے ہیں مثلاً ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ21 فیصد بنتا ہے جب کہ ٹیکس میں صرف ایک سے سوا فیصد حصہ ہے، ان کا کنٹری بیوشن ٹھیک نہیں ہے ۔حکومت ہدف پورا کرنے کےلیے دیگر سیکٹرز پر بوجھ بڑھادیتی ہے، ریٹیلرز کا حصہ چھ فیصد بنتا ہے لیکن وہ بھی ہنگامے کے بعد مشکل سے تین فیصد بھررہے ہیں۔

ایسے میں حکومت کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں یا ان ڈائریکٹ ٹیکس ڈالیں یا انڈسٹریز پر ٹیکس کا بوجھ ڈالیں، انڈسٹریز کا کنٹری بیوشن 18 فیصد کے قریب ہے لیکن ان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ 60 فیصد لیا جارہا ہے ہماری انڈسٹریز پر بے تحاشا ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا گیا ہےاسے ٹیکس کے بے تحاشا بوجھ سےمارا جارہا ہے۔ 

ایف بی آر نئی ترمیم سے کے ساتھ ایک اور بوجھ لارہا ہے جس سے 60 سے 62 فیصد ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ بڑھے گا ۔جب کہ معیشت دستاویزی بنانے پر کوئی کام نہیں ہوا ہے قریباً60 لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس پیئر ہیں جس میں چالیس لاکھ ریٹرن داخل کررہے ہیں باقی 20 لاکھ ریٹرن جمع کرانے سے جان چھڑاتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل اور نہ دینے والے میں فرق پیدا کرنے کے لیے ٹیکس پیئر کو عزت دیں ،قانون میں فائلر اور نان فائلر ابھی تک موجود ہے۔

جنگ : کیا بار نے حکومت کو بجٹ میں ٹیکس پروپوزل دئے ہیں ؟

علی اے رحیم : ہم نے چالیس سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی پروپوزل دیا ہے ،جس میں انہیں ریلیف دینے کی سفارش کی ہے جن پربوجھ زیادہ ہے مثلا تنخواہ دار طبقہ جس پر ٹیکس کا ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ بہت بوجھ ہے، ان کی ٹیکس حد چھ سے بڑھاکر12 لاکھ کرنے کی سفارش کی ہے، سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ کیا تھا لیکن بعد میں یہ سہولت ختم کردی گئی۔

جنگ: آنے والے بجٹ سے کیا توقعات ہیں ، پاک بھارت کشیدگی سے معیشت پر کیا اثر پڑسکتا ہے ؟

انور کاشف ممتاز : جنگ جہاں بھی ہوتی ہے اس کا اثروہاں کی معیشت پر پڑتا ہے، پاکستان چھوٹاملک ہے اس کے دوبڑے معاشی اخراجات ہیں ایک ڈیبٹ دوسرا دفاعی اخراجات ،اگر جنگ میں شدت آئی تو بجٹ پر اس کا اثرآئے گا۔جنگی اخراجات پورا کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل کتنے ہیں اور وہ کہاں سے آئیں گے یہ سوالیہ نشان ہے۔ ہم تو اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

وسائل میں اضافے کے لیے پہلے کسی طرح بھی اپنی معیشت کو دستاویزی کرنا پڑے گا، یہ حکومت کی تو کوتاہی ہے لیکن جب کبھی یہ نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں وہ بھی معاشی ریکارڈ دستاویزی نہیں کرنا چاہتے۔ 

ہر طرح کی آمدنی پر ٹیکس ہونا چاہیے، آنے والے ایف بی آر کے جس قانون کی بات ہورہی ہے وہ ہمارے پالیسی میکر نہیں عالمی ادارہ آئی ایم ایف لے کر آیا ہے، یہ کسی بھی ملک کی بڑی بدقسمتی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسی بھی نہیں بناسکتا۔ آئی ایم ایف نے قانون بنادیا ہے لیکن اس کے عمل درآمد میں وقت لگے گا۔

ہمارے بجٹ کا بڑا خرچہ پنشن بھی ہے اس پر بھی ٹیکس ہونا چاہیے۔ ٹیکس کی شرح کم کرنا چاہیے ،18 فیصد سیلز ٹیکس لیا جارہا ہے جوبہت زیادہ ہے۔جو کسی بھی بزنس کا پرافٹ مارجن نہیں ہوتا، گوکہ سیلز ٹیکس صارف ادا کرتا ہے، لیکن اس کی ادائی کوئی نہ کوئ شہری تو کررہا ہے۔ ٹیکس کی زیادتی لوگوں کو آمدنی چھپانے کی طرف لے جاتی ہے، ہر آمدنی میں ٹیکس لگائیں لیکن شرح ٹیکس کم کریں تاکہ لوگ بخوشی ٹیکس نیٹ میں آئیں اور ایف بی آر کا کردار کم کرنا چاہیے۔

جنگ:  آرڈرنینس کے ذریعے تو ایف بی آر کا کردار بڑھایا گیا ہے ؟

انور کاشف ممتاز: ایف بی آر آرڈرنینس کے مقاصد کچھ اور ہیں ، ایف بی آر نگرانی کئے بغیر چھاپے مارتا ہے پھر اس پر بڑا کلیم ڈالتے ہیں اور آخر میں یہ پوری پریکٹس صفر پر بند ہوجاتی ہے۔ ایف بی آر کو تو صرف سامنے کھڑا کیا ہوا ہے سب سے زیادہ نقصان بدقسمتی سے ہمارے پالیسی میکرز نے پہنچایا ہے وہ ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنا نہیں چاہتے۔ ایف بی آر میں بدعنوانیاں ہوں گی لیکن یہ خرابی تو ہرادارے میں ہے، اصل میں پالیسی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: آئی ایم ایف کی مداخلت بڑھ رہی ہے پہلے وہ وفاق تک تھا اب صوبوں سے بھی معاہدے کررہے ہیں ،کیا یہ ٹھیک ہورہا ہے ؟

انور کاشف ممتاز: پاکستان سے اگر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے کردار کو ختم کردیں تو ہمارا خود سے یہ سوال ہے کہ پچھلے 75 سال میں ہم نے ازخود کچھ کیا ۔ ہم نے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی معیشت کی ڈاکومینٹیشن نہیں کی ہے ، خود کوئی نظام نہیں بنایا ہے۔ زرعی ٹیکس ہو یامعیشت کی ڈاکومینٹیشن یہ ساری پیش رفت ان عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں ہی ہورہی ہے، اس حوالے سے یہ ادارے ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہے۔

لیکن اس کے ساتھ پاکستان کو آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں نہیں جانا چاہیے پاکستان اپنے موجودہ وسائل کی مدد سے ہی مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ ہمارا بڑا گیپ کاروباری سرگرمیوں کا ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکومینٹیشن نہیں کی جاتی۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی سیاسی مجبوری بہانہ بن جاتی ہے اور ہم کمپرومائز کرلیتے ہیں۔ 

ترقی یافتہ ممالک کے ٹیکس کے نظام کو چیک کریں وہاں عوام 60 فیصد تک ٹیکس بخوشی دیتے ہیں، کیوں کہ انہیں اس کی وجہ سے تعلیم، صحت، سفری سہولت ان کے بچوں کی دیکھ بھال میسر ہوتی ہے، ٹیکس نظام سائیکل ہے جو لیا جاتا ہے اسے واپس دینے کےلیے لیکن ہمارے اخراجات بہت زیادہ ہیں اشرافیہ کے رہن سہن سے لگتا ہی نہیں کہ ہم غریب ملک ہیں۔

جنگ: پاکستان کی معیشت کی عمارت کیسےتعمیر ہو گی ؟

عبدالقادر میمن: ہم چھوٹا ملک ہیں اگر جنگ ہوئی تو بجٹ بنانا مشکل ہوجائے گا۔ دنیا گلوبل ویلیج بن گی ہے ہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ،ترقی یافتہ ممالک میں ہرشخص ٹیکس دیتا ہے، یہ سب قانون کی وجہ سے ہورہا ہے، وہاں اگر کسی کی آمدنی قابل ٹیکس ہے اور اس نے ٹیکس نہیں دیا تو اسے حیثیت یا مرتبے کا لحاظ کئے بغیر سزاملتی ہے۔ 

ہمیں شارٹ ٹرم پالیسی سے پرہیز کرنا چاہیے اپنا ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے آرڈرنینس کے ذریعے دو ماہ کے لیے کوئی پالیسی نافذ کردیں، وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں ٹیکس دینے کی شرح اچھی ہے ہمیں ان کو دیکھ کر سیکھنا چاہیے۔

ہمارے جیسی معیشت کے دنیا میں کئی ممالک ہیں جیسے میکسیکو، مصر، ترکی اورملائشیا وغیرہ یہ ہمارے لیے اچھی مثالیں ہیں۔ ایک وقت تھا جب ملائیشیا کے علاوہ جنوبی ایشیا کے زیادہ تر ممالک مالی بحران کا شکار ہوگئے تھے، ان دنوں مہاتیر محمد سربراہ تھے تو ان سے بحران سے بچنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ہرکاروبار میں حکومت کو 35 فیصد کا حصہ دار سمجھتے ہیں، جب کوئی کمپنی منافع کماتی ہے وہ ہمیں 35 فیصد شیئر دیتی ہے اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار مزید بڑھے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا ہوا ہے کہ اگرکسی نے زیادہ پیسے کمائے تو اس پر سپر ٹیکس لگا دیاگیا ، کسی نے کمایا تو اس پر سرچارج لگادیا گیا۔ 

ابھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر 45 فیصد ٹیکس لگایا ہے اتنا ٹیکس وصول کرنا ناممکن ہے۔ ہمارے دو گھنٹے کی فلائیٹ پراگر کوئی ملک انڈسٹری لگانے کےلیے دعوت دیتا ہے جس کے لیے وہ تمام سہولیات فراہم کررہا ہے اور نو فیصد ٹیکس لے رہا ہے تو سرمایہ کار یہاں کے بجائے وہاں جانا پسند کرے گا ہم گلوبل ورلڈ میں رہتے ہیں۔ 

یہاں کسی کمپنی کو دیکھیں تو اس پر کل ملا کر71 فیصد ٹیکس آجاتا ہے، جب کہ انفرادی طور پر 49.5 فیصد ٹیکس کردیاگیا ہے ۔ہمیں حقائق کو سامنے رکھ کر ٹیکس ریشو اور پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ دنیا بھرکوئی بھی نئی پالیسی نافذ کرنے کا ایک طریقہ ہے ایسی پالیسی جس سے زیادہ لوگ متاثر ہورہے ہیں اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے پہلے گفتگو ہوتی ہے بحث کے بعد کسی ایک نتیجے پر پہنچا جاتا ہے، اس مشاورت کا فائدہ یہ ہوتا ہے اس بحث میں شریک لوگ پالیسی کی اونر شپ لیتے ہیں جس کے نتائج اچھے ملتے ہیں۔

ہمارے یہاں کمرشل اور ٹیکس تنازعوں کے فیصلوں پرکئی دہائیاں گزرجاتی ہیں ،سپرٹیکس کا معاملہ جو چند دن میں حل ہوناچاہیے تھا دس سال سے سپریم کورٹ میں زیرالتواہے۔ کیپیٹل ویلیو ٹیکس لگانے فیصلہ خسارے میں رہا، ایک تویہ متنازعہ ہوا اور ریونیو بھی نہیں آیا ، لیکن اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوا جو کاروباری حضرات پاکستان میں بیٹھ کر کام کررہے تھے انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ سرینڈر کردئے۔

اس لیے ضروری ہے کوئی قانون نافذ کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جائے، جس ٹیکس نظام کے خلاف ہرپلیٹ فارم سے گفتگو ہورہی ہے اور اسے واپس لینے کا کہا جارہا ہے، کیا اس پر کسی نے پاکستان میں ڈیبیٹ کی نہیں کی۔

معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن بہت عرصے پہلے شروع کردینا چاہیے تھی، حکومت یہ کام کسی ایک سیکٹر سے شروع کرے وہاں سے فارغ ہوکر وہاں کی خامیاں اور کمزوریوں کو چیک کرکے اسے ٹھیک کریں۔ پھر کسی دوسرے سیکٹرکی تیار کریں اس طرح کی چیزیں جب پلاننگ کے ساتھ کریں گے تو ہی بہتری آئے گی۔ 

یہاں لوگوں کے بلینزروپوں کے ریفنڈ زیرالتوا پڑے ہیں واپس نہیں مل رہے جو نا انصافی ہے، جن کمپنیوں کے ریفنڈ ہیں وہ بینکوں سے پیسے لے کر بھر رہی ہیں لیکن حکومت ان کے پیسے واپس نہیں کررہی دوسری طرف انہیں اسی کمپنی کا ایک روپیہ بھی مشکوک لگے تو بغیر اجازت اس کمپنی کے بینک اکاوئنٹ کو چیک کرلیا جاتا ہے، جہاں ٹیکس لینا حکومت کا حق ہے وہیں ٹیکس ریفنڈ بھی ان کی ذمہ داری ہے جو حکومت کو پوری کرنی چاہیے اس معاملے پر پاکستان میں ٹیکس کے پریکٹیشنرز اور قانون دان ہروقت مدد کےلیے تیار رہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ سب مل کرکوشش کریں گے تو یہ ملک بہت زبردست ہے۔

جنگ: ایف بی آر خوف کی علامت ہے آخر ایسا کیوں ہے؟

عبدالقادر میمن: ایف بی آر سے چور کے بجائے قانون پسند خوف زدہ ہوتا ہے فائدہ تب ہوگا جب چور ایف بی آر سے ڈرے گا اور ، چور تب خوف زدہ ہوگا جب اسے یقین ہوگا کہ اگر میں پکڑا گیا تو میں کسی بھی حیثیت کا ہوں مجھے سزا ملے گی۔ ہمارا مشورہ ہے جو فائلر نہیں ہے اس انڈسٹری کی بجلی کا میٹر کاٹ دیں، اس سے کہیں کہ وہ پہلے ٹیکس نیٹ میں آئے پھر ساری سہولت استعمال کرے۔

ہماری آج کی معاشی صورتحال پچھلے ڈیڑھ دو سال سے بہت بہتر ہے، حکومت بجٹ میں اعلان کرے کہ ہم اگلے تین سال تک سیلز ٹیکس کو بتدریج پندرہ فیصد تک لے جائیں گے، جو ملک کی معاشی بہتر ی کےلیے کرنا چاہتا ہے ایسے گروتھ والے سرمایہ کاروں کو انسینٹی وائز کریں یعنی اگر اس مرتبہ کسی نے پچھلے سال سے سے زیادہ ایکسپورٹ کی ہے تو حکومت اسے ٹیکس میں ایک فیصد کا کریڈٹ دے۔

جنگ: حکومت بجٹ اچھا کیسے بناسکتی ہے جس سے ملک کو آگے بڑھنے کی راہ ملے ؟

عارف حبیب: ٹیکس کوئی بھی خوشی سے نہیں دیتا لیکن ٹیکس سے ہی سارا نظام چلتا ہے اس لیے یہ بہت ضروری ہے ۔ ہماری معیشت کے دوحصے ہیں ، ابھی افراط زر کم ہوا اور ریونیو بڑھا ہے، اس سال ٹیکس ریونیو تین ٹریلین روپے بڑھا ہے، اس سال پچھلے کے مقابلے میں گروتھ بھی زیادہ ہے جس پر حکومت کی تعریف کرنی چاہیے۔ 

آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستانی معیشت کی کارکردگی ہمیشہ اچھی دکھاتی ہے ،اچھا کارکردگی سے مراد حکومت کے پاس زیادہ فنانس ہونا ہے، حکومت کے سامنے بہت ساری مجبوریاں ہوتی ہیں لہذا وہ کئی اہم اقدامات نہیں کرپاتی تو آئی ایم ایف سختی کے ساتھ میرٹ پر وہ کام کرواتا ہے، اس کی وجہ سے حکومت کی آمدنی زیادہ ہوجاتی ہے، آئی ایم ایف سبسڈیز کو ختم کرتا ہے، مالی خسارہ کم کرنے کے اقدامات کرواتا ہے، پچھلے بجٹ کا مالی خسارہ سات فیصد سے زیادہ تھا اس مرتبہ ٹارگٹ چھ فیصد رکھا تھا لیکن ابھی پانچ اعشاریہ دو فیصد چل رہا ہے، دو فیصد کی کمی بہت بڑی رقم ہے جب بجٹ میں اخراجات بڑھتے ہیں تو حکومت قرض لیتی ہے یعنی ریاست اپنے پر مزید قرض بڑھاتی ہے، یہ قرض بمعہ سود ہماری اگلی نسل کو بھرنا پڑے گاجو اچھی بات نہیں ہے۔ 

 معیشت کے دوسرے حصے کا تعلق عوام کے مسائل سے ہے یہ حصہ بہت خراب ہے۔ پچھلی حکومت میں بڑھنے والی مہنگائی کی وجہ سے ہے ۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے طریقے میں ایک یہ ہے کہ پرانی قیمتیں واپس آئیں تو ایسا بہت کم ہوتا ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو جو سرمایہ کاری میں اضافے اور کاروبار بڑھنے سے ہوگا۔

جب نئے بزنس آئیں گے تو ہیومن ریسورسس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ریٹ بڑھتے ہیں آمدنی ہوتی ہے تو لوگ خرچ کرتے ہیں جس سے چھوٹے بڑے دکانداروں کے بھی کاروبار بڑھتے ہیں۔ 

ہمارا بنیادی مسئلہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے مایوسی بڑھی ہوئی ہے۔  کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہات کا ذکر ہوچکا ہے، گروتھ میں اضافہ نہ ہونے کے تین بڑے مسائل ہیں ایک بلند شرح سود تھا جواب 22 فیصد سے گرکر گیارہ فیصد پر آگیا ہے۔ دوسرا مہنگی انرجی تھی جو ابھی بھی مہنگی ہے اسے کم کرنے کی ضرورت ہے، تیسراخطے میں ہماری ٹیکس کی شرح کا سب سے زیادہ ہونا ہے۔ 

انٹرنیشنل سرمایہ کار کےلیے کاروباری مقام صرف پاکستان نہیں ہے اس کے لیے آئیڈیل مقام سستا اور پرامن فائدہ محفوظ سرمایہ کاری کی جگہ ہے۔ جب ایسا ہوگا تو لوگوں کےلیے روزگار کے مواقع کھلیں گے۔ پچھلے دنوں پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا اگر وہ ہوجاتا تو بڑی تباہی تھی۔ 

لوگ کہتے تھے پاکستان ختم ہوگیا لیکن ایسا نہیں ہوا لیکن پھر ہم آئی ایم ایف گئے، اس زمانے میں اسٹاک مارکیٹ چالیس ہزار پر تھی آج ایک لاکھ بیس ہزار پر ہے، آج بہت ساری چیزیں اچھی ہوگئیں ہیں ۔ 2024 فنانشل حوالے سےمیرے کیئریر کا بہترین سال ہے، اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ رئیل اسٹیٹ میں اضافہ یہ سب ہوا۔ اگر حالات اچھے ہوں تو سرمایہ کار ی کی خواہش ہوتی ہے۔ 

حکومت بجٹ میں مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کےلیے پرکشش پیکج دے،تاکہ کاروباری سرگرمیاں بڑھے جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے تاکہ جو لوگ پاکستان سے جانا چاہ رہے ہیں میں رک جائیں اور جو لوگ چلے گئے ہیں وہ واپس آئیں، الیکٹریسی ریٹ کم کئے جائیں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ کیسپٹی کا زیادہ اور ڈیمانڈ کا کم ہونا ہے۔ 

دوہزار سولہ سترہ میں معیشت تیزی سےبڑھ رہی تھی ،ہمارے سیاستدانوں نے بہت زیادہ کیسپٹییز پلانٹ کرلی لیکن پھر پاکستان کے حالات خراب ہوگئے، اندازہ ہے ابھی 13 ہزار میگاواٹ بجلی کی طلب ہے جب کہ 21ہزار کی کیپسٹی میں ہیں اگر ہم 13 ہزار پر آجائیں تو بجلی کی ریٹ میں 20روپے کمی ہوسکتی ہے۔

اگلے بجٹ میں ٹیکس کی شرح کم کریں، سپر ٹیکس کا دو سال کےلیے کہا گیا تھا اسے فوری طور پر ختم کردیں ورنہ بتدریج کم کرنا چاہیے اس کا بجٹ میں اعلان کردینا چاہیے، حکومت اپنے اخراجات کم کرے ،این ایف سی ایوارڈ غیر منصفانہ ہے اسے دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے اس میں 58فیصد ریونیو صوبوں کوچلا جاتا ہے۔ 

ترقیاتی اخراجات کرپشن کا گڑھ ہے یہ پارلیمنٹرین کو پیسے بانٹنے کا طریقہ ہے، اس میں مجھے کوئی ایسا پراجیکٹ نظر نہیں آتا جس کی ری سیل ویلیو ہو، اس میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کو شامل کرنا چاہیے۔ اس طرح بجٹ سے بوجھ ختم ہوگا، تیسرا پبلک سیکٹر ہے، وزارت خزانہ کے مطابق ان کے پاس 19 ٹریلین روپوں کے اثاثے ہیں جس سے حکومت کو سالانہ صرف ایک فیصد آمدنی آتی ہے ۔ پھر سالانہ نقصان کا بھی تخمینہ آرہا ہوتا ہے ۔حکومت جلد سے جلد اداروں کی نج کاری کرکے جان چھڑائے۔ 

یہ بوجھ جب کم ہوں گے تو ٹیکس میں ریلیف دینا آسان ہوگا۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی لیکج روکنے کی ضرورت ہے، ہمارا لارج اسکیل مینوفیکچرنگ نہیں بڑھ رہا کیوں کہ لوگوں کے پاس قوت خرید نہیں ہے۔ کسنٹرکشن انڈسٹری کو پیکج دینے کی بات ہورہی تھی اس سے چالیس انڈسٹری جڑی ہوئی ہیں۔ایکسپورٹ نہ بڑھنے کی وجہ کوسٹ آف پروڈکشن کا زیادہ ہونا ہےاس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت آگہی پیدا کرے قوم کو مقامی تیار شدہ چیزیں استعمال کی عادت دلوائیں۔ مائننگ میں بہت پوٹینشل ہے۔ جو باتیں پاکستان کو بدنام کررہی ہیں اس سے دور رہنا چاہیے میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے کہتا ہوں وہ نریندر مودی کو فون کریں جو بھی غلط فہمی ہے اسے بات چیت سے حل کرتے ہیں۔ جنگ کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اپنے وسائل جنگ میں جھونکنے کے بجائے عوام پر خرچ کئے جائیں۔

حاضرین کے سوالات

فائق رضا: بینک کا بڑا لون حکومت لے جاتی ہے جب پرائیوٹ سیکٹر کو لون ہی نہیں ملے گا تو بزنس کیسے بڑھاسکیں گے۔

عارف حبیب: حکومت بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر کے لیے تمام بینکوں کے پاس بہت ایکویٹی ہے۔ لون دینے کا مسئلہ نہیں ہے اگر بینک کم لون دیں گے تو حکومت نے ایڈیشنل اے ڈی ٹیکس لگایا ہے اس سے بچنے کے لیے بینک لون کی آفر کررہے ہوتے ہیں ،اس وقت ٹیکر کا مسئلہ ہے لینڈر کا مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان میں زراعت پر ٹیکس لگانے کا سوچ نہیں سکتے تھے، زراعت کے ٹیکس کے لیے قانون سازی ہونا جس میں پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوں کا اتفاق کرنا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

سید ناصر شاد: کنسلٹنٹ اور ٹیکس پیئر کے لیے ٹیکس قوانین کو آسان کیوں نہیں کیا جاتا ؟

انور کاشف: ٹیکس قوانین ٹیکس پئیر کےلیے زیادہ سے آسان کرنا چاہیے۔ لوگوں کے لیے فائلر بننا بہت آسان ہے وزیر خزانہ کے مطابق اب سیلری کے آٹومیٹک فائل ہوں گے۔ بار کی ہمیشہ کوشش رہی ہے ٹیکس قوانین آسان ہوں۔

ارشد سراج: ایک لمٹ کے بعد ساری ٹرانزیکشن بینک کے ذریعے ہونی چاہیے۔

عبدالقادر میمن: حکومت کو زیادہ سے گروتھ پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے جب گروتھ ہوگی تو آٹومیٹک زیادہ ٹیکس بھی آئے گا۔

جنگ: پلاٹ کی خریدو فروخت میں سرکاری ریٹ کم ہیں لیکن مارکیٹ میں قیمت زیادہ ہے تو آدمی بلیک منی تو خود بخود کرنے پر مجبور ہے۔

عبدالقادر میمن: کچھ جگہ پر الٹا بھی ہے۔

نجیب: حکومت نے ایکسپورٹر کو بھی نارمل ٹیکس دہندگان میں شامل کردیا ہے کیا یہ مناسب ہے۔

عارف حبیب: ایکسپورٹ بہت اہم شعبہ ہے بہتر یہ تھا ان سے مشاورت کے ساتھ بتدریج بڑھاتے انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

عبدالقادرمیمن: دنیا بھر میں انکم کو ٹیکس کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔

فیصل رضا: کمشنر کی اجازت سے کسی بھی فیکٹری پر کوئی بھی آفسیر تعینات کیا جاسکتا ہے ، کام کو بند کیا جاسکتا ہے، ایف بی آر بغیر اجازت اکاوئنٹ سے پیسہ نکال سکتا ہے اس سے مقامی کاروباری خوف زدہ ہوگیا ہے.

انور کاشف: ڈیٹرنس تو ہونا چاہیے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی قانون ہیں۔ اگر کوئی کمشنر کی اجازت سے آیا ہے اور آپ کا ریکارڈ ٹھیک ہے تو پھر ریلیف بھی مل جاتا ہے۔

سیف الدین: ٹیکس ٹوٹل ویلیو پر نہیں ویلیو آف گڈز پر ہونا چاہیے، سیکشن 154 کی لینگویج درست کرنے کی ضرورت ہے۔

عبدالقادر میمن : 1979 کے قانون کے مطابق ایف او بی ویلیو لی جاتی تھی آپ کی بات سے اتفاق ہے۔یہ اچھا پروپوزل ہے اس پر ورکنگ کرکے بارکو دیں جو حکومت کو پیش کرے۔

فیضان: نیوزی لینڈ اور ملائیشیا میں فارنرز کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان سے تین سال تک صفر اعشاریہ صفر فائیو گراس پرافٹ پر ٹیکس لیا جائے گا، کیا یہ پاکستان میں نہیں کیا جاسکتا۔

عبدالقادر میمن: ہمارے یہاں اور جی 20 نے مل کرپچھلے تین چار سال دوہزار اٹھارہ سے ایک قانون آگیا ہے اب آئیسولیٹ ہوکر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ ہمیں سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کار دوست ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔

جنگ: ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھی ہے، ہماری فی کس آمدنی تین اعشاریہ تین ہے اس کا مطلب جو ماہانہ 30 ہزار کمارہا ہے وہ غربت کی شرح کے نیچے آگیا ہے جو بہت تشویشناک ہے، فورم سے اچھی تجاویز گئی ہیں سب کی خواہش ہے غربت میں کمی آئے یہ ہی اصل ترقی ہوگی۔