• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی 

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

تصاویر : جنید احمد

سید شبر زیدی، سابق چیئرمین، فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR)

زبیر طفیل, سابق صدر،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(FPCCI)

سردار محمد اشرف خان، اکنامسٹ، بزنس مین، سابق صدر،آزاد جموں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(AJKCCI)

زبیر طفیل
زبیر طفیل

 ہمارے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے، یہ ہی حال امپورٹ ایکسپورٹ کے بیلنس میں ہے، ایسی صورت حال میں ہم خود عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرتے ہیں جو ہمیں معالجوں والا مشورہ دیتے ہیں، اخراجات میں کمی کاکہا جاتا ہے جو ممکن نہیں ہوتا تو آمدنی بڑھانےکےلیے بجلی، گیس مزید مہنگی کرنے کی ہدایت ملتی ہے ان تمام چیزوں کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔

ملک میں مافیاز بن گئے ہیں،مثلا چھوٹے اور درمیانے درجے کے دکان دار کسی صورت ٹیکس دینےکو تیار نہیں۔ کاروباری افراد کی اکثریت ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ توقع ہے کہ حکومت ٹیکس میں اضافہ نہیں بلکہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کرے گی جو باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے

زبیر طفیل

آئی ایم ایف کا کام کسی ملک کی معیشت ٹھیک کرنا نہیں، ان سے رجوع کرنے کی بڑی مجبوری ڈالر کی قلت ہے۔ 

سید شبر زیدی
سید شبر زیدی

آئی ایم ایف کسی ملک کی گروتھ کو بڑھاتا نہیں بلکہ کم کرتا ہے، اس کا مقصد کسی طرح حکومتی آمدنی میں اضافہ کرناہوتا ہے تاکہ قرض بروقت ادا کرسکے۔ 

اس کے لیے آئی ایم ایف ٹیکس تجاویز دیتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے کسی بنیادی اور بڑی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہے، پاکستان دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہتا ہے ایک طرف چین سے بہترین تعلقات کا خواہش مند اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے بھی دوستی، اس طرح دو کشتیوں میں سواری ممکن نہیں

سید شبر زیدی

اسمگلنگ سوفیصد بغیر ٹیکس کے، امپورٹ ستر فیصد بغیر ٹیکس کے اور تھوڑا بہت مینوفیکچر سیکٹر وہ بھی ساٹھ اور سترفیصد غیر دستاویزی اور بغیر ٹیکس کے ہے۔ 

سردار اشرف خان
سردار اشرف خان

جب ٹریڈرز پر ٹیکس لگانے کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کے پاس مال کہاں سےآیا، ٹیکس وصولی کانظام مکمل کرپٹ ہے۔

ایسی ناکام صورت حال کے بعد ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہماری ان فارمل اکانومی فارمل سے دس گنا زیادہ ہے، بنیادی طور پر ہم پاکستان کو جگاڑ پر چلارہے ہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اسمگلنگ کا بڑا ذریعہ ہے وہ افغانی نہیں ہمارا اپنا کررہا ہے۔

سردار اشرف خان 

پاکستان کو اپنی معاشی مشکلات کے سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کا سامنا ہے، یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لئے 24واں پروگرام ہو گا، خبریں اور حالات بتا رہے ہیں کہ پاکستان کو اس بار ایک سخت شرائط کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے گا، جس سے عوام کی مشکلات میں مذید اضافہ ہو گا، آئی ایم ایف پاکستان سے کہنا ہے کہ اپنی ٹیکس آمدن میں اضافہ کریں، جو جی ڈی پی کے نو فی صد سے بھی کم پر ہے، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کی جائے، بجٹ خسارہ کم کیا جائے جو آٹھ فی صد کے ریکارڈ سطح پر ہے، اب یہ کام کیسے ہو؟ 

مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہے، بجٹ میں اقدامات کا انتظار ہے جس کے بعد ہی قرض کی بیل سر منڈھے گی، حکومت سر جوڑ کر بیٹھی ہے، جہاں ہاتھ ڈالتی ہے ایک مافیا سامنے سے نکل آتا ہے، خود کی بھی ممنوعہ حدود ہیں وہاں بھی نہیں جا سکتے، ریٹیلرز ہول سیلرز کی رجسٹریشن کی کوشش میں اب تک تو ناکامی ملی ہے، زمین اور جائیداد رکھنے والوں سے بھی خاطر خواہ ٹیکس نہیں ملتا، بڑے اکاؤنٹ ہولڈر بھی فائلرز نہیں، بڑے کلبوں کے اراکین بھی ٹیکس چور ہیں، جہازوں میں سفر کرنے والے بھی گرفت میں نہیں آتے، کروڑوں کی آمدن رکھنے والے پروفیشنلز بھی نیٹ میں نہیں، بڑے زرعی زمین داروں کا حصہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، بیوٹی پارلر بڑا کاروبار ہے، آمدن نہیں دیتا، بڑی بڑی کاروں میں گھومیں کوئی پوچھنے والا نہیں، ٹرانس پورٹر بھی بھاگ لیتا ہے، فیکٹری میں ڈبل کھاتوں کا نظام پکڑائی نہیں دیتا۔ 

دوسری طرف چھ لاکھ سے اوپر سالانہ کمانے والا تن خواہ دار ٹیکس نیٹ میں ہے، آسان شکار ہے اسی کو کچلتے رہو، بینکوں اور دوسری بچتوں کے منافع پر پہلے ہی ٹیکس عائد ہے، چھوٹے کھاتے داروں کو بھی چھوٹ نہیں، اب ایک اور ایزی ٹارگٹ پنشنرز پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، شنید ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ماہانہ پنشنرز سے ٹیکس کٹوتی ہو گی۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں آمدن وہاں ٹیکس کا اصول سب پر لاگو کرنا چاہیے، جس شعبے میں بھی ماہانہ پچاس ہزار یا سالانہ چھ لاکھ آمدن ہے اسے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، جو سیکٹرز ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، دیکھئے کیا ظہور میں آتا ہے، آئی ایم ایف پاکستان کے لئے نجات دہندہ بنتا ہے یا شکنجہ؟ یہ جاننے کے لئے نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس میں "آئی ایم ایف کا نسخہ معیشت ۔۔۔۔ کیا رنگ لائے گا؟" کے موضوع پر پری بجٹ جنگ فورم کا،انعقاد کیا گیا جس میں سید شبر زیدی (سابق چیئرمین، ایف بی آر)زبیر طفیل (سابق صدر ایف پی سی سی آئی) اور سردارمحمداشرف خان،اکنامسٹ، بزنس مین،سابق صدر آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) شریک گفتگو تھے، فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

جنگ: معیشت کی وہ کون سی مجبوری ہے جو آئی ایم ایف ناگزیر ہوگیا ہے۔

زبیرطفیل: جب ہماری آمدنی کم اور اخراجات زیادہ رہیں۔ توازن کی اسی خرابی کے باعث ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھنس جاتے ہیں تو وہاں کے علاوہ کوئی دوسری امید نظر نہیں آتی،آئی ایم ایف ایک ڈاکٹر ہے وہ ہمیں آمدنی کے مطابق اخراجات کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ 

ہمارامسئلہ یہ ہی ہے کہ ہمارے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے۔ یہ ہی صورت حال امپورٹ ایکسپورٹ کے بیلنس میں ہے، آج کے دور میں ہماری امپورٹ 55ارب ڈالر اور ایکسپورٹ30ارب ڈالر ہے ہمیں25ارب ڈالر کاخسارہ ہے، ایسی صورت حال میں ہم خود عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرتے ہیں جس میں سرفہرست آئی ایم ایف ہے پھر ورلڈبینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، یہ ہمیں معالجوں والا مشورہ دیتے ہیں،جس میں سب سے پہلے اخراجات میں کمی کاکہا جاتا ہے، وہ ممکن نہیں ہوتا تو آمدنی بڑھانے کےلیے بجلی،گیس مزید مہنگی کرنے کی ہدایت ملتی ہے۔ 

ان تمام چیزوں کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔ آج بجلی 60روپےفی یونٹ پر ہے جو تین سے چارسال پہلے تک 25سے تیس روپے فی یونٹ میسر تھی۔ اس قیمت نے پاکستان عوام کوبری طرح متاثر کیا ہے۔ابھی آئی ایم ایف کے پروگرام سےنکلے ہیں لیکن پاکستان نے مزید آٹھ ارب ڈالر کےلیے دوبارہ درخواست دے دی ہے۔ اب اس پر گفتگو ہورہی ہے دیکھیں کیا نتیجہ سامنے آتاہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف بجلی گیس مزید مہنگا کرنے کی ہدایت کررہا ہے۔ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے،کاروباری افراد کی اکثریت ایمان داری سے ٹیکس نہیں دیتی یا کم دیتی ہے یاچوری کرتے ہیں۔

پاکستان کے متعددعلاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہے،کنڈا لگایا جاتا ہے۔بجلی کے بہت سارے کنکشن ناجائز ہیں،جس کی وجہ سے پیسے پورے نہیں ملتے اور یہ تمام مسائل اسی طرح چلتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں کاروباری برادری کےلیے بہت ضروری ہے وہ ایمان داری سے ٹیکس دے ۔ملک میں مافیاز بن گئے ہیں، مثلا چھوٹے اور درمیانے درجے کے دکان دار وہ کسی صورت ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں،حکومتوں نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن دکان دار بالکل تیار نہیں ہیں۔ میں پچھلے پندرہ سال سے ایف بی آر کی چھوٹ دکان داروں کو ٹیکس نیٹ لانے کی کوششوں میں شامل رہا ہوں۔ 

چھوٹے دکان داروں سے کہا جاتا ہے آپ صرف ایک فیصد ٹیکس دیں لیکن وہ کردیتے ہیں۔پھر انہیں ٹرن اوور کے آدھے فیصد ٹیکس دینے کی پیش کش کی گئی انہوں نے اس سے بھی انکار کیا۔یہ لوگ بہت طاقت ور ہیں اپنی بات منوانے کےلیے کاروبار بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں لہذا حکومت مجبور ہوکر خاموش ہوجاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے نئی کوششوں کے طور پر تاجر دوست کے نام سے ایک نئی ایپ نکالی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس میں رجٹریشن کرائیں اس کے بعد بہت معمولی سے ٹیکس لیا جائے گا۔

دیکھتے ہیں کہ حکومت کے تاجر دوست پروگرام کو کامیابی ملتی ہے یا یہ بھی ماضی کی طرح ناکام ہوتی ہے۔ہم بعض خرابیوں کے خود ذمے دار ہیں۔کاروباری افراد کی اکثریت ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔99اعشاریہ 99 فیصد دکان دار ٹیکس دینے سے مکمل انکار کرتے ہیں۔ ان حالات میں صورت حال کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت کا کام انفرااسٹرکچرفراہم کرنا ہے،اس نے عوام کےلیے اسپتال بنانا چلانا ہیں،تعلیمی ادارے سڑکیں اورمملکت اور عوام کےلیے کئی منصوبے چلانے ہیں لیکن جب ٹیکس ہی نہیں ملے گا تو ان سب کےلیے حکومت پیسے کہاں سے لائے گی۔

ایک بڑا مسئلہ اسمگلنگ ہے،ہمارے بارڈرایران اور افغانستان سے ملے ہیں وہاں سے ہرطرح کاسامان بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس کے ہماری مارکیٹ میں اتا ہے، وہاں موجود لوگ پیسے لے دے کر سامان بغیر ڈیوٹی اورٹیکس کے نکال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ملکی تیار اشیا کو مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے، کیوں کہ ملکی اشیا اسی فیصد سیلز ٹیکس دیتی ہیں اوراسمگل شدہ سامان بغیر ٹیکس کے آتا ہے۔ ایسے بہت سے معاملات ہماری پریشانی کا باعث ہیں۔ اگلا مہینہ نئے بجٹ کا ہے ہم توقع کرتے ہیں حکومت ٹیکس میں اضافہ نہیں کرے گی بلکہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کرے جو باہرہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے۔

جنگ: آپ کے نزدیک ہماری معیشت میں کیا خرابیاں ہیں اور اسے کیسے دور کیا جائے؟

سردار اشرف: میرتقی میر کاشعر ہے

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

ہم نے اپنے ملک کو درست بنیاد پر کھڑا ہی نہیں کیا۔ ہمارے پاس شاذو نادر کوئی اچھی مثال ہے۔ میرا ماضی میں انڈیا جانے کااتفاق ہوا،اس زمانے میں ان کا نظام تعلیم سب سے زبردست تھا جونجی اور سرکاری دونوں سطح پر یکساں تھا۔ ہم ایک دعوت پر گئے تو وہاں ڈھائی سو کے قریب نہرو یونی ورسٹی کے اسکالر تھےجو پاکستان کے معیشت اور سوشل سسٹم کے متعلق گفتگو کررہے تھے۔

میں بہت متاثر ہوا، پاکستان واپس آکراپنی فیڈریشن سے کہا ہمیں بھی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے، اس زمانے کےہمارے فیڈریشن کے صدر نے ایک شخص سے ملاقات کروائی اور کہا کہ یہ ہمارا اکنامی مشیر ہے، جب ان سےتعارف ہوا تو معلوم چلا وہ بی اے پاس تھے انہوں اکنامکس بی اے میں پڑھی تھی۔

ہمارا ملک ایسے ہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہے۔ہمارا پورا نظام دو چیزوں پر قائم ہے،پہلا کچھ کرنا نہیں ہے اور دوسراجوکرنا ہے وہ دوسرے کریں گے۔دوسروں سےقرضہ لینا ہے اپنی صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں کرنا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی مجبوری یہ ہے کہ ہم نے اپنی معیشت مارگیج کررکھی ہے۔ہمارااصل مسئلہ آئی ایم ایف نہیں ہے اس کے پاس تومشکل کے حل کے لیے جاتے ہیں۔ ہم انہیں بتاتے ہیں ہمارے پاس ابھی یہ بچا ہوا ہے ہم اس پر اتنا ٹیکس لگاکر فنڈ اکھٹا کرکے دیں گے۔

ہم ایسا ملک ہیں جس کی پرائیوٹ سیکٹر کی 70فیصد امپورٹ انڈر انوائس ہوتی ہےاوریہ کرنے کی وجہ ہمارے زیادہ تر امپورٹ پرٹیکس ان ڈائریکٹ ہیں۔55 بلین ڈالر کی ہماری امپورٹ انڈر انوائس ہے اس کا بھی ٹیکس پورا نہیں ملتا ۔مینوفیکچرنگ سیکٹر سے جو ٹیکس وصول ہورہا ہے وہ صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے مل رہا ہے کیوں کہ وہ بھی ایگریمنٹ کے تحت آتے ہیں۔ ہمارا اپنا مینوفیکچر سیکٹر کا 50سے60فیصد حصہ ظاہر ہی نہیں ہے۔اسمگلنگ کسی ایک راستہ سے نہیں ہورہی، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اسمگلنگ کا بہت بڑا ذریعہ ہےاوروہ افغانی نہیں  ہمارا اپنا ٹریڈر کررہا ہے۔

اس نے ایل سیز کھول رکھی ہیں ۔جتنا بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے ہمارا پاکستان ٹریڈراس کا بڑا شراکت دار ہے۔ہماری سی بی آر پارٹنر ہے۔ اس طرح کی کئی طریقوں سے ٹیکس وصولی کے ذرائع کو پہلے ہی بند کردیا گیا ہے، تیسرا اہم نکتہ ہماری امپورٹ کی سیل ہے وہ بھی ایڈوانس ٹیکس پر ہورہی ہے، جب امپورٹ ہوتی ہے ٹیکس اسی وقت لے لیتے ہیں۔ 55 بلین ڈالر تو ریکارڈ پر ہے۔ لیکن اسمگل اکانومی کا درست سائز کسی کو بھی نہیں معلوم ہے۔ میرے خیال میں اس کاسائز شاید سو سےدو سو بلین ڈالر ہوسکتا ہے۔

اس طرح کا ہرکام سرکاری اداروں کی ناک کے نیچے ہورہا ہے،ہماری 90فیصد اکانومی ان فارمل ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیں سرکاری سطح پرامپورٹ پرکی پابندیاں لگیں لیکن مارکیٹ میں کسی آئیٹم کی کمی نظرنہیں آئی ہے۔ ہم انڈیا کو دشمن سمجھتے ہیں لیکن وہاں سے ٹائر بذریعہ دبئی اسمگل ہوکر آتے ہیں۔اسمگلنگ سوفیصد بغیر ٹیکس کے، امپورٹ 70فیصد بغیر ٹیکس کے۔ اورتھوڑا بہت مینوفیکچر سیکٹر وہ بھی 60سے 70فیصد غیردستاویزی اور بغیر ٹیکس کے ہے۔ تو جب ٹریڈرز پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کےپاس مال کہاں سےآیا۔ مینوفیکچرز کا مفاد یہ ہے کہ وہ ٹریڈرز کو بغیر رسید مال دے دوسراٹیکس ریٹ بہت زیادہ ہے۔

ہماراچھوٹا سا ملک چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے اس لیئےدفاع بہت ضروری ہے جب کہ ہمارا دفاعی بجٹ کوئی اتنا بڑا خرچ بھی نہیں ہے۔ ہماری فوج دنیا میں سب سے سستی ہے، مثلا امریکی فوج بہت کم تعداد میں افغانستان میں موجود تھی ان کابھی کم ازکم تین ٹریلین ڈالر خرچ ہورہا تھا، امریکیوں نے اپنی فوج پر اتنابڑا خرچ کیا تھا۔ ہمیں دفاعی بجٹ بڑا لگنے کی وجہ ہمارے انتہائی محدود ذرائع آمدنی ہیں، مینوفیکچرنگ سیکٹر انتہائی کم اور ٹریڈرزشامل نہیں ہے۔ہمارے پڑوس انڈیا میں جھاڑو سےلے کر ٹھیلے والا پر بھی ٹیکس ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے سب سیلزٹیکس دیتے تھے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہم میں سے کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔ دوسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہماری سرکاری مشینری بھی اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہے۔ہمارا ٹیکس وصولی کانظام مکمل کرپٹ ہے۔

ایسی ناکام صورت حال کے بعد ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں ہے۔ آج سے دس سے بارہ سال پہلے ہمارے بجلی کا گردشی قرض چار سو پچاس ملین تھا جو آج تین ٹریلین روپے پر پہنچ گیا ہے۔ بجلی استعمال کرنے والا ایمان داری سے بل نہیں ادا کرتا۔ ہماری نوے فیصد اکانومی ان فارمل ہے۔ چوری ،نااہلی ،بدعنوانی یہ ہماری معیشت کے بنیادی مسائل ہیں۔

جنگ: ہماری فارمل اور ان فارمل اکانومی کیا مساوی ہے ؟

سردار اشرف: میرے خیال میں ہماری ان فارمل اکانومی فارمل سے دس گنا زیادہ کی ہے۔ بنیادی طور پر ہم پاکستان کو جگاڑ پر چلارہے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیں نسخے بتاتی ہے کہ بجلی کی پیسے بڑھاو، حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں آدھے سے زیادہ تو سرکار پیسے وصول ہی نہیں کرپارہی۔ پچاس فیصد لوگ استعمال شدہ بجلی کےپیسے دیتے ہی نہیں ہیں۔

جنگ: آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام ہماری معیشت اور عوام پر کیا اثر ڈالے گی، غربت مہنگائی سے پسی عوام اس سے کیسے بچ سکتی ہے؟

شبرزیدی: آئی ایم ایف کا کام کسی ملک کی معیشت ٹھیک کرنا نہیں ہے۔ہمارا ان سے رجوع کرنے کی بڑی مجبوری ڈالر کی قلت ہے،ہمارے پاس ڈالرکم آرہا ہوتاہے اورخرچ زیادہ ہورہا ہے۔ ڈالر کی کمی دورکرنے کےلیے ہمیں کسی گارنٹر کی ضرورت پڑتی ہے،آئی ایم ایف تھوڑے سے پیسے دیتا ہے اور باقی دنیا کو بھی پیسے دینے کا پیغام دیتا ہے۔ وہ اس طرح دیگرقرض دینے والوں کو اپنی گارنٹی دے رہا ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف جب کسی ملک جاتا ہے اس ملک کی گروتھ کو بڑھاتا نہیں بلکہ کم کرتا ہے، اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کسی طرح حکومتی آمدنی میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ حکومت قرض بروقت ادا کرسکے۔ اس کے لیے آئی ایم ایف تجاویز دیتا ہےجو ٹیکس پرمبنی ہوتی ہیں۔ان کے نزدیک پاکستان ایک کاروبار ہے اور وہ کسی طرح بھی ٹھیک طرح سے چلے۔ کوئی بھی بیرونی سرمایہ کارہو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آمدنی بڑھے اور اخراجات کم سے کم ہوں اور یہ آئی ایم ایف کے بنیادی اصول ہیں۔

پاکستان پر یہ ہی اصول لاگو کرتے ہیں، وہ بجلی کی سبسڈی میں کمی اور ٹیکس اضافے کا کہتے ہیں، شرح سود میں اضافے کی تاکیدکرتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات ہی کی وجہ سے آئی ایم ایف کی پالیسی گروتھ کےخلاف نظرہوتی ہیں۔ پاکستان مجبور ہے اس لئے اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ یہ سراسرجھوٹ کہا جاتا ہے اس طرح پاکستان کی ترقی کی کوشش کررہے ہیں۔

آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے کسی بنیادی اور بڑی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہے۔ پاکستان کے پچھلے تمام پروگرام کے موقع پر یہ ہی صورت حال رہی ہے۔ بدقسمتی سے نہ ہم نے پہلے کچھ سیکھا نہ آج کوئی امید نظر آرہی ہے۔پاکستان دنیا میں آئی ایم ایف کا دوسرا بڑا قرض دار ہے۔ جب تک پاکستان اس پروگرام میں ہے مشکلات رہیں گی۔ ٹیکنیکلی طورپر ہمارے گھر کا انتظام کسی دوسرے کے حوالے ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسی وہی ہوتی ہے جو امریکا اور مغربی ممالک کی ہوتی ہیں۔

پاکستان دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہتا ہے ایک طرف وہ چین سے بہترین تعلقات قائم رکھنے کا خواہش مند ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے بھی دوستی رہے، اس طرح دو کشتیوں میں سواری ممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف جب آتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے چین سے ضرور تعلق رکھیں مگر سب کو برابری کی بنیادپر رکھیں۔ میں سمجھتا ہوں جوصورت حال ہے اس طرح اگلے دس سال تک پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے پر مجبور رہےگا۔

جس کی بنیادی وجہ میں ایک مثال کے ذریعے بتاتا ہوں ،1995 میں ہماری ایکسپورٹ 14 سے 15بلین روپے تھی اور ویت نام کی اٹھارہ سے بیس بلین روپے کے قریب تھا۔ آج 29سال بعد ہماری ایکسپورٹ 20بلین روپے اور ویت نام کی چھ سوبلین روپے کی ہے۔ مقصد یہ ہے کیسے ممکن ہے ہم پہلے کوتاہی سےوقت ضائع کریں اور یہ امید بھی کریں کہ ہم ٹھیک چلتے رہیں گے۔ان وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف پروگرام پاکستان آئے گا اور ہماری گروتھ کم ہوگی جس سے روزگارمیں کمی بجلی اور گیس سمیت ضروریات زندگی مزید مہنگی ہوگی۔

جنگ: سرکاری مشینری کی تمام ناکامیوں کابوجھ آخر میں عوام پر ہی پڑرہا ہے؟۔آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق جو شخص 30ہزار ماہانہ کمارہا ہے وہ غربت کی شرح سے نیچے ہے چار پانچ سال پہلے یہ شرح دس ہزار ماہانہ پر تھی۔اس آمدنی پر وہ صرف دو وقت کھاناکھا سکتا ہے لیکن نہ اپنے بچوں کو تعلیم صحت یاکوئی اور سہولت دینے سے قاصر ہے۔

اس طرح گزشتہ دوسال میں پاکستان کے ایک کروڑ لوگ غربت کی شرح سے نیچے گئے ہیں،نئے بجٹ میں جن تازہ شرائط کا سن رہے ہیں اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو مزید ایک کروڑافراد غربت کی شرح سے نیچے جائیں گے۔ہماری سرکاری طور پر کم ازکم اجرت 32 ہزار روپے ہے۔ ان حالات سے عوام کیسے نمٹیں گے۔

زبیرطفیل: ہمیں آج بھی دنیا کی مہنگی ترین بجلی فراہم کی جارہی ہے،بجلی گیس اگر مزید مہنگی ہوئی تو مینوفیکچرنگ اخراجات بڑھ جائیں گے،مہنگی بجلی کی وجہ سےآج ہمارے مینوفیکچرنگ کارخانے تیس سے چالیس فیصد بند ہیں،ایکسپورٹ انڈسٹری بند ہورہی ہے۔ انڈسٹریز کےلیے میرا مشورہ ہے وہ توانائی کے متبادل ذرائع اختیارکریں،اس میں آسان طریقہ سولر توانائی ہےآج کل اس میں تیس فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ میرا گھریلو اور کمرشل صارفین کو بھی یہ ہی مشورہ ہے کہ وہ کوشش کرتے ہوئے سولر سسٹم میں منتقل ہوجائیں۔

مہنگی بجلی کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز(انڈی پینڈینٹ پاورپلانٹ) ہیں، ان کمپنیوں کی تعداد101 ہے۔ان سے1992 سے2006 تک کی حکومتوں نے معاہدے کئے، معاہدے کی بنیاد نکات میں تھا کہ وہ جتنی بھی بجلی تیارکریں گے حکومت لے گی اگر حکومت نہیں لے گی تب بھی اسے پیسے ادا کرنے ہیں۔ ہمارے 60روپے فی یونٹ پر21 روپے تک کیپسٹی چارجز ہیں۔میری حکومت سے گزارش ہے آئی پی پیز سے معاہدے پر دوبارہ بات چیت کریں اس کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں بتایاجاتا ہے کمپنیاں بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

آئی پی پیز نے اپنے سسٹم کی لاگت تین سال میں وصول کرلی تھیں اور ابھی معاہدے کے مزید چھ سات سال باقی ہیں، معاہدے کے مطابق پیسے ڈالر میں دینا طے کیاگیاتھا اس پر حکومت نے گفتگو کرتےہوئے اب پاکستانی روپوں میں دینا شروع کیا ہے۔ آئی پی پیز کے 95فیصد مالکان پاکستانی ہیں جس میں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے دبئی اور لندن جاکر کمپنی بنائی اوراس طرح غیرملکی سرمایہ کار ظاہر کیا ہے غیرملکی سرمایہ کار کو کیوں کہ زیادہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

حکومت نے کچھ کو پکڑا پھر ان سے بات چیت ہوئی کہ ادائی ڈالر میں نہیں روپوں میں دیں گے لیکن اس کے باوجود اس کو دینا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہے اور پچیس کروڑ عوام مہنگی بجلی کو بھگت رہے ہیں۔ حکومت کو ہر صورت آئی پی پیز سے بات کرنی پڑے گی، آئی پی پیز کے پاکستانی مالکان کا نام ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے تاکہ وہ بیرون ملک نہ نکل سکیں، پھر ان سے بات چیت کی جائے اور جب وہ مناسب معاہدے پر آجائیں تو انہیں جانے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔

جنگ: مہنگائی کے اشاریے کم بتائے گئے ہیں لیکن شرح سود جو زیادہ ہے برقرار رکھی گئی ہے۔ اس کا معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

زبیرطفیل: ہمارے کاروبار اور انڈسٹری کو نقصان پہنچانے میں بڑا کردار زیادہ شرح سود کا ہے، کوئی بزنس مین بینک لون لینے جاتا ہے تو اسے 24 سے 25 فیصد سالانہ شرح سود ادا کرنا پڑتا ہے، اتنی بلند شرح سود پر کوئی کاروبار نہیں چل سکتا، ہم نے کئی فورمز پر حکومت سے شرح سود کم کرنے کی درخواست کی ہے، مہنگائی کم ہوئی ہے تو شرح سود بھی کم کرنا چاہیے۔

کیوں کہ اس کی وجہ سے صنعتیں بند اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ہماری ان فارمل اکانومی فارمل اکانومی سے زیادہ ہے۔ان فارمل اکانومی والے ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جب وسائل نہیں ہوں گے تو حکومت بھی عوام پر خرچ کرنے کے قابل نہیں ہوگی، ہمارا تعلیمی بجٹ دوفیصد ہے جب کہ چین کا پانچ فیصد لہذا ٹیکس دینا بہت ضروری ہے۔

سردار اشرف: اگر کوئی یہ بتائے کہ پاکستان کی اشرافیہ کے1500بلین ڈالر سوئس اکاوئنٹ میں جمع ہیں، دبئی لیکس کے مطابق دبئی میں گیارہ بلین ڈالر ہیں جوایک فیصد سے آدھے فیصد شرح سود منافع پر باہر رکھے ہوئے ہیں۔دوسری طرف حکومت پاکستان دو دو بلین ڈالر کےلیےدوسروں کےپاس مدد مانگنے جاتی ہے اور آفر دیتی ہے کہ دس سے گیارہ فیصد شرح سود لے کر کچھ پیسے ہمارے اکاوئنٹ میں جمع کردو۔

یہ نارملی حیرانی کی بات ہے۔اصل میں بیرون ملک محفوظ دوہزار بلین ڈالر سے زائد کا پاکستانیوں کا یہ پیسہ ٹیکس چوری، رشوت، بڑےسرکاری پراجیکٹ اورسودوں کے کمیشن کا پیسہ ہے،جو بنیادی طور پر پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہےجوباہر چلاگیا ہے۔ ہمارا یہ پیسہ ڈنڈے کے زور پر نہیں صرف حکمت سے واپس آسکتا ہے۔ چین ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا ملک ہے لیکن وہاں ایک بھی آدمی ان پڑھ نہیں ہے۔چین نے کسی مدد کے بغیر سارے کام کئے یہ ہم بھی کرسکتے ہیں۔

حاضرین کے سوالات

ہما بخاری: جنگ فورم کے زیراہتمام ماہرین جب بجٹ جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں  تو ضروری ہے کہ ان کی جانب سے یہاں سے حکومت کےلیے مثبت تجاویز کے ساتھ سفارشات پرمبنی قرارداد جانی چاہیے۔مسائل تو بہت ہیں لیکن ہمیں اپنے نوجوانوں کے حکومتی پالیسی کے ساتھ انگیج کرناچاہیے۔

ہما بخاری، نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹآف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس کی چیئرپرسن
ہما بخاری، نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ
آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس کی چیئرپرسن 

جنید رحمن: میں پچھلے دوسال سے ملازمت کررہا ہوں اس دوران چارلاکھ ٹیکس دے چکا ہوں،امپورٹرتو ایڈوانس ٹیکس دیتے ہیں۔ تویہ کیسے جاتا ہے کہ ہم کیسے ٹیکس چوری کررہے ہیں۔

سردار اشرف: امپورٹ کے دوران تین قسم کےٹیکس لئے جاتے ہیں،سیلزٹیکس،انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی۔ کسٹم ڈیوٹی کا تو سمجھ آتا ہے لیکن بغیر مال بیچے سیلز اور انکم ٹیکس لینا عجیب و غریب ہے۔ہمارے یہاں اسی سے پچاسی فیصد ٹیکس ایڈوانس لئے جاتے ہیں۔جس کا مال ہے وہ ان تمام اخراجات کو ملاکر مال آگے فروخت کردیتا ہے۔امپورٹر اپنے اخراجات میں تینوں کو ملاکر بتاتاہے لیکن جو اس نے اس کوفروخت کرکے جومنافع کمایا وہ اسے ظاہر نہیں کرتا ہے۔

حاشر: ماری مالی حالت تو بہت خراب ہے ہم ایسے کیا اقدامات کریں جس سے کرپشن فری بچت ہو۔

سردار اشرف: سب سے اہم بات معیشت کادستاویزی ہونا بنیادی ضرورت ہے،یعنی ملک کے ہرطرح کے کاروبار کو رجسٹر کیا جائے، شفافیت اس کے بعد ضروری ہے۔حکومتی پالیسی صاف اور واضح ہوں۔

ہاشم: ہمیں قرض لینے کےلیے آئی ایم ایف کے پاس باربار کیوں جاناپڑرہا ہے؟

زبیر طفیل: کیوں کہ حکومت ٹیکس یا کسی اور ذرائع سے پیسے نہیں کما پارہی لہذا پرانے کو ادا کرنے کےلیے ہم نئے لون لے رہے ہیں۔

عبدالباسط: بلندشرح سود پر آئی ایم ایف سے قرض لینے کی مجبوری کیسے ختم کی جائےَ

زبیرطفیل: جب تک ہم اپنی ٹیکس میں آمدنی میں اضافہ نہیں کریں اور لوگ ایمان داری سے ٹیکس نہیں دیں گے،معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے،آج جب ہم کسی انٹرنیشنل مالیاتی ادارے سے قرض لیتے ہیں تو اسی فیصد سے زائد ان کے پاس فوری واپس چلاجاتا ہے،جو پرانے قرض کی کوئی قسط ہوتی ہے اورپھر اس کا سود ادا کرتے ہیں یہ ہماری مجبوری ہے۔ہماری بیورو کریسی کے پاس لامحدود اختیارات ہیں وہ اس کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔

فرحان: تنخواہ دارکا ٹیکس کٹ جاتا ہے لیکن اسے جواب میں کیا مل رہا ہے جسے دیکھ کر ریٹیلرٹیکس دینے کو تیار ہو۔

زبیر طفیل: سیلری سلیب ٹیکس دینے والے کی سہولت کےلیے بنائے گئے ہیں۔سیلری پرسن تو ٹیکس دینے پر مجبور ہے، دکان داروں کاتو ٹیکس دینے کا دل ہی نہیں ہے۔

حفاظ الدین: ہمیں ایسے کون سے معاشی اقدامات کی ضرورت ہے جس سے گروتھ میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہو۔

شبر زیدی: حکومت سچائی سےعوام کو ملک کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کرے کہ موجودہ صورت حال خراب ہے ہم نے اسے ٹھیک کرنا ہے۔ملک سے برین ڈرین ہورہا ہے ریاست کو کامیابی سے چلانے کے لیے اچھے نوجوانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

وسیم: آمدنی روزبہ روز کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے عام آدمی ایسے حالات میں کیسے گزارا کرے۔

شبر زیدی: میں نے پہلی مرتبہ مہنگائی کے خلاف اتنا شدیداحتجاج دیکھا ہے، آج کے دور میں پچاس سے ساٹھ ہزار ماہانہ کمانے والا ہی زندہ  رہ سکتا ہے۔ حکومتی مقرر کردہ کم ازکم 32ہزار روپے میں گزارا کرنا ناممکن ہے۔