میزبان: محمد اکرم خان - ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
ڈاکٹر مفتاح اسمعیل (سیکرٹری جنرل، عوام پاکستان/سابق وفاقی وزیر خزانہ)
اسامہ قریشی (انرجی ایکسپرٹ)
عمار کاظمی (سیاسی و معاشی تجزیہ کار)
فوری طور پر بجلی کے بل کم کرنے کےلیےحکومت نےجوٹیکس لگائے ہیں اسے ختم کرے،حکومت بل میں ماہانہ18 فیصد سیلز ٹیکس لگاتی ہے، سارے ٹیکس ختم کرنے سے بجلی کے بل بیس سے پچیس فیصد کم ہوسکتے ہیں،حکومت کسی طرح بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائے، جو کارخانے بجلی بنانے کے لیے ایل این جی یا فرنس آئل خریدتے ہیں،حکومت ان پر سے ٹیکس ہٹادے، اس سے بجلی کی لاگت میں کمی آئے گی، لائن لاسز گیارہ فیصد سے کم کرکے آٹھ سے نو فیصد لانا ہوگا، بجلی استعمال کرنے والے جو صارفین بل نہیں دے رہے انہیں فراہمی روک دی جائے۔
اگر سندھ سے زیادہ بجلی لے کر پنجاب بھیج دیں اس سے بھی اوسط قیمت کم ہوتی ہے، آئی پی پیز معاہدوں کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے، آپریشن چارجز اور فیول کی قیمت کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے،حکومت بجلی کے کام میں نہ پڑے، بجلی کے بہت سارے خریدار اور فروخت کرنے والے ہونے چاہیں جس طرح دنیا بھر میں ہے یہ ایک اوپن مارکیٹ ہونی چاہیے،ہم کسی آئی پی پیز کو گارنٹی نہیں دیں گے۔
ڈاکٹرمفتاح اسماعیل
بجلی بحران سے نمٹنے کےلئے یونی فائڈ انرجی منسٹری کا قیام بہت ضروری ہے، بجلی، پٹرول اور گیس سب ایک ہی وزارت کے نیچے ہوں، پاکستان میں سب سے سستی بجلی تھر کے کوئلے سے بن رہی ہے، حکومت کو سب سے پہلے درآمدی کوئلے سے چلنے والے تمام پاور پلانٹ کو تھر کے کوئلے میں منتقل کرنا چاہیے، جس سے ڈالر کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور سستی ترین بجلی بنے گی، دو ہزار بیس میں حکومت نے آئی پی پیز کا دوبارہ جائزہ لیا تھا جس میں ڈالر کی قیمت فکس کی گئی تھی اس کے منفی اثرات سامنے ہیں۔
آج کسٹمربل دینا چاہتا ہے لیکن ٹیرف اتنا زیادہ ہے کہ اسے بھرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا وہ اتنے پیسے کہاں سے لائے، گھر چلائے یا سارے پیسے بجلی کے بل میں ادا کردے، وہ زمانے گزر گئے جب آپ ہرخسارے کو ٹیرف میں بدل دیں، ملازمین کی نااہلی کو بھی بل ٹیرف میں ڈال دیا ہے۔ یہ سب فوری ختم ہونا چاہیے۔ اگرعوام کو فوری ریلیف نہیں ملا اورسرکاری نافرمانی کی فضا بن گئی کہ بل نہیں دینا تو بہت مشکل حالات ہو جائیں گے
اسامہ قریشی
پاکستان میں جتنی نجی پاور کمپنیاں ہیں اور جتنی ان کی کپیسٹی ہے اس کے مطابق بجلی استعمال نہیں ہو رہی۔ جن حکومتوں نےمعاہدے کئے ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے بنا ٹرانسمیشن لائن انفراسٹرکچر یہ معاہدے کیوں سائن کیے؟ بے نظیر بھٹو کے 1994 سے 1996 کے دورمیں واضح پالیسی کے ساتھ غیرملکی کمپنیوں سمیت انیس معاہدے ہوئے تھے لیکن پھر پتانہیں کیا ہوا جتنے بھی معاہدے دوبارہ سائن ہوئے ان میں سے زیادہ تر مشرف، نواز شریف اور کچھ نئے معاہدے عمران، شہباز اور کچھ کا نگراں حکومت میں ہونے کا بتایا جا رہا ہے۔
اب ایسی رپورٹس شائع کرنے کی ضرورت ہے جس میں نام لے کر بتایا جائے کہ کس نے کپیسٹی چارجز والے اور کس نے کم فی یونٹ ریٹ پر معاہدے کئے۔ یہ معاہدے تمام تر تفصیلات کے ساتھ پبلک کیے جائیں تاکہ ملکیت اور اہم شرائط سب کچھ عوام کے سامنے ہو اور پتہ چلے کہ کس نے کن شرائط پر کتنے مہنگے معاہدے سائن کیے. کس نے حقیقت میں عام پاکستانی کو لوٹا اور کس نے بہ امر مجبوری کم ریٹ پر معاہدے سائن کیے
عمار کاظمی
بجلی کے بل سے لوگ بلبلا رہے ہیں ہرجگہ یہ ہی موضوع گفتگو ہے کہ وہ اپنا گھر چلائے یا بجلی کابل دے یا گھر کی چیزیں بیچ کر اپنے بجلی کا کنکشن بحال رکھے۔ یہ بات درست بھی ہے کہ حکومت نے عوام پر بجلی کے بل کی صورت میں بجلی بم گرادیا ہے۔رہائشی صارف تقریبا70روپے فی یونٹ بجلی اداکرنے پر مجبور ہے جو دنیامیں شاید سب سے زیادہ مہنگی ہے۔
انڈسٹری کی صورت حال اس سے بھی بری ہے اور وہ اپنے یونٹس بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں معاملہ اس وقت بھی گرم ہوا جب سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز) کے فارنزک آڈٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کے پلانٹس زیادہ قیمت پر لگائے گئے اور پلانٹس کو بند رکھ کر کیپسٹی پیمنٹس وصول کی گئیں، آئی پی پیز کے دوست 20ارب روپے سے زائد کی کیپسٹی چارجز کے دفاع میں کھل کر سامنے آگئے ہیں اور سرمایہ کاری متاثر ہونے کی دلیل پیش کر رہے ہیں۔
آئی پی پیز کے پلانٹس زیادہ قیمت پر لگائے گئے، اوور انوائسنگ کی گئی، آئی پی پیز میں تیل کی کھپت اور مہنگا فیول استعمال کرنے کے بارے میں غلط بیانی کی گئی جبکہ پلانٹس کو بند رکھ کر کیپسٹی پیمنٹس وصول کیں۔ کسی بھی جگہ سرمایہ کاری کو اسکروٹنی سے استثنیٰ نہیں ہے اور یہ آئی پی پیز کی چالیس خاندانوں کی سرمایہ کاری کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے 24 کروڑ لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، پاور سیکٹر ٹاسک فورس کو آئی پی پیز کی کیپسٹی پیمنٹس کا جائزہ لینے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور فرانزک آڈٹ کے لیے سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی گئی ہے، آئی پی پیز کے فارنزک آڈٹ کیاجائے۔
سپریم کورٹ کا جو بھی نتیجہ آئے ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں سات ماہ کی نگراں حکومت میں وفاقی وزیر تھےتو انہوں نے یہ آواز کیوں بلند نہیں کی اور کوئی فیصلہ کن کردار اداکیوں نہیں کیا۔جنگ فورم نے بجلی سستی کیسے ہوگی کا سوال اپنے ماہرین کے سامنے رکھا اور ان سے اس حوالے سے جواب اور حل پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہا ،جن ماہرین سے گفتگو کی گئی وہ یہ ہیں ڈاکٹر مفتاح اسمعیل(سیکرٹری جنرل، عوام پاکستان/سابق وفاقی وزیر خزانہ)، آصف انعام(چیئرمین، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن)، اسامہ قریشی(انرجی ایکسپرٹ،وائس چیئرمین سنرجی کو پاکستان لمیٹڈ)، اور عمار کاظمی(سیاسی و معاشی تجزیہ کار) ہیں۔جنگ فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر مفتاح اسماعیل(سیکرٹری جنرل، عوام پاکستان/سابق وفاقی وزیر خزانہ)
بجلی کے بل فوری کم کرنے کا آسان ترین طریقہ بل سے ڈائریکٹ ٹیکس کا خاتمہ ہے۔فوری طور پر بجلی کے بل کم کرنے کےلیےحکومت نےجوٹیکس لگائے ہیں اسے ختم کرے۔ حکومت بل میں ماہانہ18 فیصد سیلز ٹیکس لگاتی ہے، بیس ہزار روپے سے زائد کے بل پر ساڑھے سات فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس ان صارفین پرلگاتی ہے جو ایکٹیو پئیر لسٹ میں نہیں ہیں،جس میں پچانوے فیصد پاکستانی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایکسٹرا ٹیکس لگائے گئے ہیں ہے۔اس کےبعد صوبائی حکومت الیکٹرک سٹی لیوی لگاتی ہے۔اگر یہ سارے ٹیکس ختم کردیئے جائیں تو بجلی کے بل بیس سے پچیس فیصد کم ہوسکتے ہیں۔حکومت کو یہ اقدام فوری کرنا چاہیے۔
حکومت نے پچھلے سال اس مد میں تین سو اٹھاسی ارب جمع کئیے تھے، رواں سال شاید ساڑھے چارسوارب روپے جمع ہوجائیں گے۔اگر ساڑھے چارسوارب روپے جمع ہوتے ہیں تواس میں وفاق کے ایک سو پچاسی ارب روپےاور صوبے کے دوسوپینسٹھ ارب روپے کم ہو جائیں گے۔وفاق اپنے ایک سوپچاسی ارب روپے کی کمی پی ایس ڈی پی سے کم کرلے،یعنی ساڑھے گیارہ سو ارب سے کم کرکے نوسو پینسٹھ ارب روپےکرلے۔پچھلے سال حکومت نے ساڑھے سات سو ارب روپے اس مد میں خرچ کرے تھے۔ اس طرح ان کے پاس اب بھی سینتیس فیصد زیادہ پیسے ہیں۔
اس طرح پتا چلتا ہے وفاق کے پاس گنجائش ہے، حکومت اس میں کمی کرسکتی ہے۔بل کم کرنے کا دوسرا شارٹ ٹرم طریقے میں حکومت کسی طرح بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائے، جو کارخانے بجلی بنانے کےلیےایل این جی یا فرنس آئل خریدتے ہیں۔ حکومت ایل این جی اور فرنس آئل سے ٹیکس ہٹادے تواس سے بھی بجلی کی لاگت میں کمی آئے گی۔ بجلی فرنس آئل سے کم ایل این جی سے زیادہ بن رہی ہے۔ اس لیے ایل این جی سے ٹیکس ہٹا دیا جائے بجلی کی قیمت کم ہوجائے گی۔ یہ بجلی کا بل کم کرنے کادوسرا شارٹ ٹرم طریقہ ہے۔
میڈیم ٹرم میں حکومت چار پانچ طریقوں سے بجلی کی قیمت میں کمی لاسکتی ہے۔ لائن لاسز میں سترہ سےاٹھارہ فیصد نقصان ہوتا ہے جسے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسزکہا جاتا ہے،نیپرا گیارہ فیصدلاسز کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو چاہیے لاسز گیارہ فیصد سے کم کرکے آٹھ سے نو فیصد کرے۔ اسلام آباد میں لائن لاسزاس سے بھی کم ہے، لائن لاسز کم کرنے سے بھی فائدہ ہوگا۔ بجلی استعمال کرنے والے صارفین میں جولوگ بل نہیں دے رہے انہیں فراہمی روک دی جائے،کیوں کہ نادہندہ صارفین کی وجہ سے بل باقاعدگی سےبھرنے کرنے والوں کے لیئے بجلی مہنگی ہورہی ہے۔
لہذا بل کلیکشن ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔ نگراں دورمیں بھی اس کے خلاف کارروائی میں 70ارب روپے جمع ہوئے تھے، اسی طرح کی دوبارہ مہم شروع کرکے دو ڈھائی سوارب جمع کیے جائیں، نادہندگان سے پرانی وصولی کی جائے،ان اقدامات سے بھی اوسطاًدوسے ڈھائی روپے فی یونٹ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ تیسرا، ٹی اینڈڈی لاسزکم کرلیں، ٹرانسمیشن بوتن نیکسٹ کا خاتمہ، جیسے سندھ میں جھمپیر میں ونڈ پاور ہے وہاں سے بجلی حکومت کو مکمل صفر پیسوں پر مل رہی ہے، حکومت کیوں کہ کیپسٹی چارجز دے چکی ہے اور فیول چارج کوئی ہے نہیں لیکن حکومت ان سے بجلی نہیں لےپارہی اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنا ٹرانسمیشن سسٹم نہیں ہے، چند مقامات پر چھوٹی چھوٹی ٹرانسمیشن بوتن ہیں، حکومت یہ رکاوٹ بھی فوری طورپردورکرے یہ کام چار سے چھ مہینے میں ہوسکتا ہے، نہ صرف اس سے بجلی سستی ترین یا مفت ملے گی وہ پوری لے سکتے ہیں، پنجاب میں سندھ سے آٹھ نوروپے بجلی مہنگی پڑتی ہے،اگر سندھ سے زیادہ بجلی لے کر پنجاب بھیج دیں اس سے بھی اوسط قیمت کم ہوتی ہے، لیکن ٹرانسمیشن نہیں ہے،یہ بجلی لینے کے قابل نہیں ہیں یہ بھی نقصان ہے۔
چوتھا جو سنگین مسئلہ ہے وہ آئی پی پیزسے معاہدے ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے، اس میں آپریشن چارجز جو شاید زیادہ دے رہے ہیں،فیول کی مد میں استعمال سے زیادہ کے پیسے دیئے جارہے ہیں،فیول کی قیمت زیادہ دے رہے ہیں ان تمام چیزوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے جہاں دوبارہ مذاکرات ہوسکتے ہیں کئے جائیں۔
عمران خان دور میں یہ کوشش ہوچکی ہے، موجودہ حکومت بھی کوشش کرے، ان اقدامات کا فی الفور فائدہ نہیں ہوگا لیکن ایک سال بعد فائدہ نظرآئے گا۔ آخری کوشش میں جو معاہدے چینیوں سے کیے گئے ہیں اس میں یونی لیٹرلی ادائی کم نہیں کرسکتے لیکن ان دوستوں سے یہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ ہم نے اگلے چار سے پانچ سالوں میں جو پیسے دینے ہیں وہ دس سال میں واپس کریں گے اس طرح کچھ سہولت کے ساتھ بمع سود ان کے پیسے واپس ہوجائیں گے اور ہمیں کچھ آسانی ہوجائے گی۔ ایسے اقدامات حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے یہ میڈیم ٹرم کے اقدامات ہیں،جس کے فائدے اگلے سال سے نظرآئیں گے۔
آخری لونگ ٹرم میں میرے خیال میں یہ کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہے، حکومت جب کام کرتی ہے اس کے سیاسی مقاصد علیحدہ ہوتے ہیں اور قومی مفادات الگ ہوتے ہیں۔ پھر آپ امپورٹڈکوئلے کے پلانٹ لگاتے ہیں کیوں کہ وہ جلدی ہوتا ہے جب کہ مقامی کوئلے کی بجلی اگلے الیکشن میں تیار ہوگی۔اس لئے بہتر طریقے یہی ہے کہ حکومت ایسے کام میں نہ پڑے۔ بجلی کے بہت سارے خریدار اور فروخت کرنے والے ہونے چاہیں جس طرح دنیا بھر میں ہے یہ ایک مارکیٹ ہونی چاہیے،ہم کسی آئی پی پیز کو گارنٹی نہیں دیں گے جس نے لگانا ہے لگائے اور وہ جس کو چاہے بیچے،جس نے بجلی خریدنی وہ خریدے۔
ہمیں ڈسٹری بیوشن میں مجبوراً مناپلی کرنی پڑے گی،تمام ڈسکوز کی نجکاری ہونی چاہیے،ڈسٹری بیوشن پرریگولیشن رکھ دیں،ریگولیٹری اتھارٹی بنادیں، ڈسٹری بیوشن کے ذریعےفائنل کنزیومر کی قیمت کیا ہوگی، پھر کنزیومر کے پاس یہ حق ہو وہ جہاں سے چاہے بجلی کی سہولت حاصل کرے۔کراچی سمیت دیگر شہروں میں بجلی کی ترسیلی دو سے تین کمپنیاں ہونی چاہیے۔ پھر ہمیں دنیا کے اصولوں کی طرح بجلی کی پاکستان میں قیمت طے کرنی چاہیے، پاکستان کو اسے پرائیوٹ مارکیٹ پر چھوڑنا ہوگا۔
اسامہ قریشی (انرجی ایکسپرٹ،وائس چیئرمین سنرجی کو پاکستان لمیٹڈ)
پاکستان میں توانائی کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے،یہ مسئلہ کسی جادو کی چھڑی سے حل نہیں ہوگا،اس سے نمٹنے کےلئے یونی فائڈ انرجی منسٹری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یعنی بجلی،پٹرول اور گیس سب ایک ہی وزارت کے نیچے ہوں۔دنیا بھرمیں ایسا ہی ہے پاکستان میں ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے،لیکن کبھی منسٹری پاور علیحدہ تو کبھی منسٹری پٹرولیم،اس میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔اس لیے ایک بااختیار منسٹری آف انرجی کا ہونا بہت ضروری ہے،پھر مکمل ریفارمز کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے لازمی ہے۔
بجلی کی پیداواراورقیمت دونوں کا تعلق گیس کی سپلائی اور پٹرولیم سے ہے ۔اس لئے بااختیار منسٹری آف انرجی کی ضرورت ہے۔ بجلی سستی کیسے ہوگی اس کےلیےہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے بجلی کی قیمت کاتعین کیسے کیا جاتا ہے۔بجلی میں ایک ٹیرف ہوتا ہے جس میں ایک ویری ایبل ہے، پاور پلانٹ میں جو فیول بھی استعمال ہوتا ہے وہ چاہے کوئلہ ہو یا آئل زیادہ تر امپورٹڈ فیول پر تھا۔
اس وقت پاکستان میں سب سے سستی بجلی تھر کے کوئلے سے بن رہی ہے یہ پلانٹ بھی نئے لگے ہیں،حکومت کو سب سے پہلے درآمدی کوئلے سے چلنے والے تمام پاور پلانٹ کو تھر کے کوئلے میں منتقل کرنا چاہیے، تاکہ درآمدی کوئلے سے انحصار ختم ہو اور مقامی کوئلہ استعمال ہو،یہ اقدام جتنا جلد ہو اتنا بہتر ہے۔
کیوں کہ اسے کرنے میں وقت لگے گا،تھر سے ابھی تک اتنا کوئلہ نہیں نکالا جارہاجب ایسا ہوگا تو کوئلے کی قیمت میں مزید کمی آئے گی، زیادہ نکلے گا تو مزید سستا پڑے گا۔ تھر کے کوئلے کے استعمال سے ڈالر کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور سستی ترین بجلی بنے گی۔ آئی پی پیز کا ہرطرف شور مچا ہوا ہے ،آئی پی پیز میں کچھ 90 کی دہائی کچھ دو ہزار کے بعد قائم ہوئے، اور کچھ دو ہزار پندرہ میں۔
دوہزار بیس میں حکومت نے آئی پی پیز سے بات چیت کرکے ان کے ساتھ لانگ ٹرم ایگریمنٹ کئے تھے ان کا دوبارہ جائزہ لیا تھا،جس میں ڈالر کی قیمت فکس کرلی گئی تھی اس سے جو اثرات پڑسکتے تھے وہ ہوگئے،کیپسٹی چارجز کا بہت ذکر ہورہا ہے، اس کی ادائی کرنے کی مجبوری حکومتوں کے ٹیک اور پے کےمعاہدے ہیں، بجلی لیں یانہ لیں کہ چارجز تو دینے ہیں،کیوں کہ پلانٹ لگتے وقت یہ معاہدے اسی طرح ہوئے تھے۔
حکومتی معاہدے کی بنیاد پر آئی پی پیز نے سرمایہ کاری کرتے ہوئے پلانٹ لگائے تھے،وہ حکومت کے ساتھ ساورن معاہدے ہیں۔ جس طرح نوے اور دوہزار کے معاہدوں والے آئی پی پیز سے دوہزار بیس میں مذاکرات ہوئے تھے ،اب دوہزار پندرہ کے بعد جوآئے یا جو آنے والے ہیں جو زیادہ ترچینیوں کے ہیں اسے چینی حکومت کے لیول پر ڈیل کرنا چاہیے ان کے ساتھ کوئی قابل عمل معاہدہ کرنا چاہے۔ کیوں کہ بجلی جس طرح مہنگی ہورہی ہے، پہلے تو الزام لگتا تھا کہ صارف بل دے سکتا ہے لیکن دیتا نہیں ہے، بجلی آج بھی چوری ہورہی ہے۔لیکن آج کسٹمربل دینا چاہتا ہے تو ٹیرف اتنا زیادہ ہے کہ بھرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا وہ اتنے پیسے کہاں سے لائے، وہ گھر چلائے یاسارے پیسے بجلی کے بل میں ادا کردے۔
ٹیرف بڑھنے میں بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنی کی غیر معیاری کارکردگی اورلائن لاسز بھی شامل ہیں،بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا فیصلہ کیاجائے کیو ں کہ بجلی مہنگی ہونے میں یہ بھی شامل ہیں،ان کمپنیوں کی وجہ سے ہی سرکلر ڈیبٹ کا بوجھ عوام پر پڑا ہے،اس سے نمٹنے کےلیے شارٹ ٹرم مڈٹرم اور لانگ ٹرم حکمت عملی کی تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیپسٹی چارجزکا بہت ذکر سن رہے ہیں، کیپسٹی چارجزکےلیے ہم ان پلانٹ پر رورہے ہیں جو کا م کررہی ہیں اورفنکشنل ہیں۔
رواں سال سے دوہزار تیس تک جو مزید بیس ہزار میگاواٹ آنے والے ہیں حکومت کو اس کے متعلق بھی تو کچھ سوچنا ہے۔ہمارے پاس جو بجلی دستیاب ہے وہی قوت خرید سے باہرہوگئی ہے۔جب تک پرانے پلانٹ سے معاملات ٹھیک نہیں ہوجاتے نئے زیرتعمیر پاور پلانٹ کمپنیوں سے بات چیت کرکے ان کی اسٹیج دیکھ کر ان کا کام رکوانے کی ضرورت ہے نئی پاورجنریشن پر پابندی ہونی چاہیے۔ کیوں مسئلہ کیپسٹی کا نہیں قیمتوں کا مسئلہ ہے۔ہمیشہ بجلی کا شارٹ کا سنتے تھےلیکن پچھلے چارپانچ سال سے بتایاجارہے کہ بجلی بے تحاشا ہے لیکن لوڈشیڈنگ پھر بھی ہوتی ہے۔
جن علاقوں میں بجلی چوری زیادہ اور ریکوری نہیں ہے وہاں لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، حکومت نے کیا کبھی یہ ورکنگ کی جس کی شدید ضرورت ہے جو پیسے ہم بند پلانٹ کو دے رہے ہیں وہ پلانٹ چلاکر ٹیرف ڈسکاونٹ کرکے کنزمپشن بڑھانے کی ضرورت ہے، انڈسٹری کی طرف بجلی کی کنزمپشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہائی ٹیرف کرکے کنزمپشن کم کرتے رہیں گے تو اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے، بجلی کا صنعتی اور تجارتی استعمال بڑھنا بہت ضروری ہے، وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹیرف کم ہوگا ۔حکومت کو اس پربھی حکمت عملی بنانا پڑےگی۔
اس کے لیے بیوروکریسی سے مددنہ لی جائے یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے، باقاعدہ انرجی ماہرین کنسلٹنٹ سے مدد لی جائے ۔جو پیسے بند پلانٹ کودیئے جارہے ہیں ان پیسوں سےپلانٹ چلا کرا تنے یا اس کے آدھے حکومت دیتی رہے لیکن اس سے انڈسٹری کو یا عوام کو فائدہ دیاجائے یہ ممکن ہے،مجھے یقین ہے اس سے بھی ٹیرف کم ہوگا، ڈسکوز کے لاسز ٹیرف میں ڈالے جارہے ہیں ان ڈسکوز سے پوچھا جائے کیا انہوں نے اپنے ٹارگٹ حاصل کئے تھے،ان اداروں کےملازمین کو تنخواہیں اور ساری سہولیات مل رہیں ہیں لیکن وہ اپناٹارگٹ مکمل نہیں کرپارہے ان کی ناکامی کوبل میں ٹیرف بڑھا کرڈالا جاتا رہے یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔
جو پاور پلانٹ لگے ہوئے ہیں وہ فرنٹ لوڈدآف ٹیرف پر ہوتے ہیں جس سے مراد جو ڈیبٹ ہوتا ہے وہ پہلے دس سال میں ادا کرنا ہوتا ہے اس پر بھی دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم جو پلانٹ اگلے دس سال میں آنے والے ہیں ان کے متعلق فیصلہ کیا جائے۔ ٹیرف ابھی اتنا زیادہ ہوگیا ہے ان کے بعد کہاں جائے گا۔ بجلی کی کنزمپشن بڑھانے کے لیے انڈسٹری سے مذاکرات کئے جائیں، انہیں ترغیبات آفر کرنی چاہیے انہیں ٹارگٹ دیں، سبسسڈی نہ دیں کنزمپشن بڑھائیں اس کے بڑھنے سے قیمتوں میں کمی آئے گی۔ پورے انرجی سیکٹرمارکیٹ لبرلائزکرنے کی ضرورت ہے حکومت قیمت نہ طے کرے، اسے فری مارکیٹ کردیں، جیسے ایکسچینج ہوتی ہےاسی طرح کمیوڈیٹی ایکسچینج میں چیزیں ٹریڈ ہورہی ہیں۔
نیپرا ایک کام کررہا تھا جتنے بجلی بنانے والے پلانٹ ہیں،ان کی ایکسچینج بنے گی جیسا دنیابھر میں ہوتا ہے جس کی مرضی جہاں سے لے۔جہاں سے سستی مل رہی ہے وہ خریدلے، اس منصوبے کا کیا اسٹیٹس ہے۔ اسی طرح معاہدوں میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ہم نے اہم مذاکرات چینیوں سے کرنے ہیں، وہ ہمارے قابلِ اعتماد بہترین دوست ہیں ان کے ساتھ پراپر ٹرمز آف ریفرنس بناکر بات کرنی چاہیے۔انہیں بتائیں ہم نے پلانٹ لگاتو لیئے ہیں لیکن ابھی اس کے خریدنے کی حیثیت نہیں ہے۔
چینی بھی جانتے ہیں ہم ادھارلے رہے ہیں۔پھران سے بیلنس آف پے منٹ کے لئے لون رول اوور کروارہے ہیں،انہیں ہمارے مالی حالت کااندازہ ہے۔ان کے ساتھ مذاکرات کا جامع طریقہ کار ہونا چاہیے۔ جو بیوروکریٹ کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے اچھے ماہر توانائی مذاکرات کریں وہ حل نکالیں، ورنہ ملک میں ابھی کیپسٹی ٹریپ ہواہے۔ ٹریپ سے مرادجس طرح نئی کیپسیٹی آرہی ہے اسی کے باعث بجلی کا ٹیرف بڑھ رہاہے۔ اسے باسکٹ ریٹ کہتے ہیں، اس میں سے ان ایفشنسی نکالیں، دیکھیں غیر ضروری ٹیکس کیوں لگائے ہیں۔ ڈبل ٹرپل ٹیکس ہورہے ہیں اسے بھی دیکھیں۔
اگر بل کو تفصیل سے دیکھیں تواس میں ٹیکس کی بھرمارنظرآئے گی۔ عوام کو اس نہج پر نہ لے جائیں۔جہاں ایسی فضا بن جائےجو پے منٹ مل رہی ہے وہ ملنا بھی بند ہوجائے۔ اتنا ہی وزن ڈالیں جتنا لوگ برداشت کرلیں۔عوام نے سولر لگانا شروع کیا تو اس کا ٹیرف خراب کردیا۔
لہذا ایک وقت آئے گا لوگ پھٹ پڑیں گے۔اگر عوام نے بل دینا بند کردئیے تو پھر کیا کرلیں گے، لہذا یہ حل نہیں ہے۔ ہر ان ایفشنسی کو ٹیرف میں ڈالنا سب سے بڑی نااہلی ہے۔ ان کی جواب ان وزارتوں میں کام کرنے والے ذمے داروںسے لینا چاہیے۔ یہ دبائو ان پر ہونا چاہیے۔ وہ زمانے گزر گئے ہرخسارے کو ٹیرف میں بدل دیں، ملازمین کی نااہلی بل ٹیرف میں ڈال دیا ہے۔ یہ سب فوری ختم ہوناچاہیے۔ اگر عوام کو فوری ریلیف نہیں ملا اور سرکاری نافرمانی کی فضا بن گئی کہ بل نہیں دینا تو بہت مشکل حالات ہو جائیں گے۔
سید محمد عمار کاظمی (سیاسی و معاشی تجزیہ کار)
آج مہنگی بجلی اور IPPS پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔حکومت،حزب اختلاف عوام کاروباری برادری ہرطرف سے نمٹنے کےمشورے، الزام اور تجاویز دی جاری ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سےکم یونٹ صارفین کے لئے رعائیتی نرخ پر بجلی فراہمی پرزور ہے تین سو سے500 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کو رعایت دینے کا کہا جارہا ہے۔
لیکن کچھ کا کہنا ہے جو اہم بھی ہےآخر یونٹ پرائس فکس کیوں نہ ہو؟ کیا زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے ریاست کو بل نہیں دیتے؟ اور کیا تھوڑے یونٹس استعمال کرنے والوں کی فی یونٹ کی لاگت زیادہ یونٹس والوں سے کم ہوتی ہے؟ جو کمپنیاں بجلی پیدا کر رہی ہیں کیا انھیں بھی اسی حساب سے سے پیسے دیے جاتے ہیں؟ مطلب جس نے زیادہ یونٹ بنائے اس کا یونٹ مہنگا خریدا جائے گا اور جس نے کم بنائے اس کا سستا ہوگا؟۔سب جانتے ہیں یونٹ کی لاگت پانچ سو سے زیادہ ہو یا کم لاگت ایک ہی رہے گی حالانکہ زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے ہی ریاست کو زیادہ ریونیو بھی دیتے ہیں۔
لہٰذا یہ قطعاً بے تکی بات ہے کم یونٹ پر سبسڈی دیں اور زیادہ استعمال پر یونٹ پرائس ملٹی پلائی کرتے چلے جائیں۔ پاکستان میں جتنی نجی پاور کمپنیاں ہیں اور جتنی ان کی کپیسٹی ہے اس کے مطابق بجلی استعمال بھی نہیں ہو رہی۔ جن حکومتوں نےمعاہدے کیئے ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ نے بنا ٹرانسمیشن لائن انفرا سٹرکچر یہ معاہدے کیوں سائن کیے؟ ان غیر منصفانہ معاہدوں پر عمومی اور بیوقوفانہ مطالبہ یہیں تک محدود ہے کہ یہ معاہدے کن لوگوں نے کیے اور مذکورہ نجی پاور کمپنیاں کن لوگوں کی ملکیت ہیں۔
ایک لسٹ پبلک کی گئی ہے اس میں بنا ملکیت اور دیگر اہم تفصیلات ظاہر کیے بغیر صرف معاہدوں کی تاریخ اور میعاد بتائی گئی ہے. حالانکہ مالکان کے نام شرائط اور ریٹ کا شائع کرنا زیادہ اہم ہیں۔ اس لسٹ میں یہ قطعاً بیان نہیں کیا گیا کہ کونسی کمپنی کتنے کا یونٹ کن شرائط پر بیچ رہی ہے؟ آج تک کس نے سب سے زیادہ پیسے وصول کیے؟ کن کمپنیوں کو زیادہ اور کن کو کم پیمنٹس ہوئیں؟ کس نے محض کپیسٹی چارجز وصول کیے؟ اور کس نے بجلی بنا کر پیسے وصول کیے؟ البتہ معاہدوں کی تاریخوں کے پبلک ہونے سے یہ معلوم ہوا کہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے 1994 سے 1996 کےدورمیں واضح پالیسی کے ساتھ غیرملکی کمپنیوں سمیت انیس معاہدے ہوئے تھے۔
جو ان کی حکومت کے ٹوٹتے ہی نئی حکومت نےان معاہدوں پرسوالات کھڑے کردیئے تھے۔ لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوا جتنے بھی معاہدے سائن ہوئے ان میں سے زیادہ تر مشرف حکومت اورنواز شریف دور اور کچھ نئے معاہدے عمران حکومت اور شہباز حکومت اور کچھ کانگراں حکومت میں ہونے کا بتایا جارہا ہے۔ اب ایسی رپورٹس شائع کرنے کی ضرورت ہے جس میں نام لےکر بتایا جائے کس نے کپیسٹی چارجز والے کتنے معاہدے کیے؟ کس نے کم فی یونٹ ریٹ پر معاہدہ کیا۔
بعض خبروں میں ملک کے بڑے کاروباری لوگوں کے نام کا ذکر آتاہے جو ان آئی پی پیز کے مالک ہیں اوران کی کمپنی فی یونٹ 740 روپےمیں بیچ رہی تھی۔اس صورت حال میں ان لوگوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے جو آج بھی نیشنلائزین پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے دعوے کرتے ہیں "اگر بھٹو نیشنلائزیشن نہ کرتے تو یہاں چالیس برلا اور ٹاٹا ہوتے،تویہ ہیں تمھارے چالیس برلا، ٹاٹا. یہ وہی چالیس خاندان ہیں جو آپ کے بقول پاکستان کو لوٹ رہے ہیں، ایسے میں انھیں نیشنلائز کرنا درست ہوگا یا غلط؟
یقیناً انھیں قومیانا درست اقدام ہوگا. آئی پی پیز کمپنیوں کے مالک اس وقت عام آدمی کا استحصال کر رہے تھے.محدود معلومات پبلک کرنے والے کی طرف سے اس سب کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اگر ان معاہدوں یا کمپنیوں کو چھیڑا گیا تو یہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں چلے جائیں گی کیونکہ ان کے پاس انٹرنیشنل گارنٹر ہیں. میں سمجھتا ہوں یہ محض پراپیگنڈا ہے۔عالمی عدالت انصاف کے جج کبھی بھی اتنے اندھے نہیں ہو سکتے کہ جو ان غیر منصفانہ معاہدوں کے ذریعےبحران زدہ معیشت والی کسی ریاست کو نقصان پہنچائیں۔
اگر کل کوئی حکومت ایک لاکھ روپے فی یونٹ کا معاہدہ سائن کر لے یا ریاست ہی کسی کو رہن رکھ کر کک بیکس وصول کر چلتی بنے تو کیا ہوگا؟ پاکستان کیا دنیا کی کمزور ترین ریاست بھی ایسے معاہدے قبول نہیں کرے گی۔اول تو ان ملکوں کی زندہ اسٹیبلشمنٹ یہ معاہدے سائن ہی نہیں ہونے دیں گے اور اگر کسی طرح ایسا ہو بھی گیا تو آنے والی حکومتیں بلا خوف ان معاہدوں کو رد بھی کریں گی اور اگر عالمی عدالت انصاف میں کیس لڑنا پڑے تو وہ بھی لڑیں گی۔
دوسری اہم بات یہ ہے ان کمپنیوں کے سب مالکان اسی ملک کے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ان سرمایہ داروں کو ڈیل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی ایک بھی بین الاقوامی عدالت انصاف میں نہیں جا ئے گا۔ ویسے بھی یہ سب اپنی بنیادی انویسٹمنٹ سے کئی سو گنا زیادہ کما چکے ہیں اگر ان پر پریشر ڈالا جائے تو یہ ضرور مان جائیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ معاہدے تمام تر تفصیلات کے ساتھ پبلک کیے جائیں تاکہ ملکیت سے لیکر دیگر اہم شرائط تک سب کچھ عوام کے سامنے ہو اور پتہ چلے کہ کس نے کن شرائط پر کتنے مہنگے معاہدے سائن کیے. کس نے حقیقت میں عام پاکستانی کو لوٹا اور کس نے بہ امر مجبوری کم ریٹ پرمعاہدے سائن کیے!