• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیوپورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس میں جنگ فورم کے تحت ایوان خاص میں عوام پاکستان پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور سابق وفاقی وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سے گفتگو
نیوپورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس میں جنگ فورم کے تحت ایوان خاص میں عوام پاکستان پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور سابق وفاقی وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سے گفتگو 

میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم 

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: جنید احمد

 اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو پیسے اور اختیار بہت زیادہ ملے ہیں، صوبوں کو فنڈ مقامی سطح تک فراہم کرنا چاہیے ، پاکستان کو ڈویژنل سطح پر بااختیار کیا جائے ، اسکول اور صحت کا شعبہ ضلع کے حوالے کردیا جائے، پولیس ، پانی اور سڑکیں ڈویژن کے حوالے ہوں۔ 

 ترقی کے لیے لوکل حکومتوں کو بااختیار کرنا ضروری ہے ، سی پیک سے جو فائدہ اٹھانا تھا وہ نہیں اٹھایا جاسکا لیکن ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے چین سے مزید سرمایہ کاری کرانی چاہیے جو برآمدات میں اضافہ کے لیے ہو قرضوں کے بوجھ بڑھانے والے نہ ہوں۔ 

انٹرنیٹ سلو کرنا پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے ، ہماری عدلیہ نے بہت سے فیصلے غلط بھی کئے ہیں اور پارلیمان کو دبایا ہے اس کا حل یہ ہے کہ قابل اور ایمان دار جج لگائے جائیں، نوے فیصد غریب کسی گنتی میں نہیں، پاکستان کا نظام اتنا برا ہے کہ جس میں قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی، غربت ختم ہوسکتی ہے نہ مڈل کلاس ترقی کرسکتا ہے امیر بھی مزید آگے نہیں بڑھ سکتے، غریب ترین لوگوں کو اوپر لانا چاہیے صلاحیتیں دکھانے کا سب کو برابر موقع دینا ہوگا ، ہر چیز میں شفافیت ہونی چاہیے، جمہوریت میں جمہوریت پر یقین رکھنا چاہیے۔

ووٹ کو عزت دینی چاہیے مجھے کوئی نہ پسند ہو لیکن اگر عوام نے منتخب کیا ہے تو حکمرانی کا حق اسی کا ہے ، پاکستان میں اچھی تعلیم صرف امیر لوگوں تک محدود ہے ،اسی طرح اچھی نوکری بھی امیر لوگوں تک ہی محدود ہے کوٹا سسٹم اور دیگر چیزیں اس کو یقینی بناتی ہیں جب کہ دنیا میں کوٹا سسٹم محروم طبقے کے لیے نافذ کیا گیا ہے، ہمارے حکم رانوں جس میں سول اور ملٹری دونوں شامل ہیں انہیں اس کا بالکل ادراک نہیں ہے کہ ملک کتنی مشکل میں ہے۔ 

مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ افراط زر میں کمی آئی ہے یعنی جس رفتار سے مہنگائی بڑھ رہی تھی اس میں کمی آئی ہے ، اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو ہمارا مزید برا حال ہوجاتا اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے جو اچھی بات ہے لیکن اس معیشت میں روزگار میں اضافہ نہیں ہورہا۔ 

ورلڈ بینک کے مطابق چالیس فیصد پاکستانی خط غربت کے نیچے ہیں یعنی دس کروڑ پچاس لاکھ پاکستانی یعنی سات کروڑ بچے خط غربت کے نیچے ہیں اور ان میں لاکھوں بچے بھوکے سوتے ہیں ، معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا نظام ہے ، اس کی وجہ سے نہ برآمدات میں اضافہ ہوگا نہ کاروبار ترقی کرے گا اور نہ ہی پاکستان دنیا سے مقابلہ کرسکے گا۔ 

ہمیں بجلی اور گیس کی قیمت کم کرنے کی ضرورت ہے ، پہلے گیارہ سال میں سات وزیراعظم تبدیل ہوئے آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ہے ، حکومت برائے حکومت ہے ایک پیسے کا کام نہیں کررہی، کوئی ریفارمز نہیں کیا ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا نہ ہی حکومتی اخراجات کم کئے بلکہ مزید بڑھائے ہیں۔

جنگ فورم میں آج  ہمارے مہمان ڈاکٹر مفتاح اسماعیل ہیں جو ماہر معیشت ، سیاستدان سابق وزیرخزانہ اور رواں برس وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت عوام پاکستان پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ہم ان سے ملکی سیاست معیشت اور پاکستان کے مستقبل پر گفتگو کریں گے ، ان سے پوچھیں گے پرانی سیاسی جماعت سے علیحدہ کیوں ہوئے اور نئ جماعت کے قیام کے مقاصد ، منشور اوراہداف کیا ہیں۔ 

ماہرمعاشی امور بھی ہیں لہٰذا سیاست کے ساتھ معیشت پر گفتگو کریں گے، نوجوان نسل پاکستان کے سیاسی اور معاشی مستقبل پر جو سوچتی ہے ان سے متعلق جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔ اپنی گفتگو کا آغاز نیوپورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس کی چیئرپرسن ڈاکٹر ہما بخاری سے کریں گےجو اس فورم کی میزبان بھی ہیں۔

ڈاکٹر ہما بخاری: ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ماہر معیشت، بزنس مین وفاقی وزیر اور سیاست میں سرگرم رہنما ہیں پاکستان کے سابق وزیرخزانہ رہ چکے ہیں پاکستان کی معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں آج جب کہ پاکستان شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے اس حوالے سے ان کی رائے اور تجاویز سے طلبا بہت سیکھ اور جان سکیں گے اور اپنی سیاسی پارٹی کے سرکردہ رہنما ہیں پاکستان ان دنوں سیاسی عدم استحکام کا شکار بھی ہے سیاسی افراتفری کا ذور ہے اس حوالے سے بھی ان کی گفتگو طلبا کےلیے بہت مفید ثابت ہوگی۔

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ملک میں سیاست کے لیے معیشت کی بہت اہمیت ہے۔ آج کے نوجوانوں کو جو پاکستان سے ملا ہے وہ ہمارے زمانے سے بہت خراب صورت حال کا شکار ہے۔ مطمئن کرنے والے حالات میسر نہیں ہیں ، جو مواقع ہمیں حاصل تھے آج کا نوجوان اس سے محروم ہے ۔60کی دہائی میں پاکستان دنیا کی رفتارکے مطابق ترقی کررہا تھا وقت گزرنے کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے80 کی دہائی میں کافی سست ہوا اور آج ترقی کی دوڑ میں دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ 

ہمارا نوجوان کتنا اچھا ہو لیکن ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہو تو اسے آگے بڑھنے کےلیے دوسروں سے زیادہ محنت کرنی پڑے گی، نارمل تقسیم ایک مضمون ہے، جس میں بتایا گیا ہے جو چیز تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اس کی تقسیم بھی نارمل ہوتی ہے۔ اس کی مثال قد سے لیتے ہیں۔ 

یہ مشاہدہ ہے دو سے تین فیصد لوگ بہت لمبے ہوتے ہیں اور دو سےتین فیصد کے قد بہت چھوٹے ہوتے ہیں ، باقی کے پچانوے فیصد درمیانے قد کے ہوتے ہیں، اگر پاکستان میں لوگوں کا اوسطاً قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے تو ان میں کچھ آٹھ فٹ نو انچ اور کچھ آٹھ فٹ دس انچ کچھ آٹھ فٹ سات انچ وغیرہ تک ہیں، چند ساڑھے چھ فٹ کے بھی ہوتے ہیں، ٹیلنٹ کی مثال بھی اسی طرح ہے، قابلیت اور خداداد صلاحیت کی بھی تقسیم نارمل ہوتی ہے چند بہت ہوشیار ہیں تو کچھ کمزور ہوتے ہیں لیکن زیادہ تعداد درمیانے درجے صلاحیت کے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک کونے پر بہت ہوشیار دوسرے پر بہت کمزور اور بیچ میں درمیانی صلاحیت کے حامل بچے ہوتے ہیں۔ 

پیسوں کی تقسیم بھی اسی طرح ہے کچھ لوگ بہت امیر اور کچھ بہت غریب ہیں اور اکثریت درمیانی حیثیت کی حامل ہے ۔ لیکن یہ ضروری نہیں امیر ترین بہت ہوشیار بھی ہوں ۔ پاکستان میں اچھی تعلیم صرف امیر ترین بچوں کوملتی ہے ، چند پاکستانی بیرون ملک اچھی یونی ورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں جیسا کہ ایک ماہر معیشت عاطف میاں ایک عاصم خواجہ یہ بھی ماہر معیشت ہیں ہارورڈ یونی ورسٹی میں پڑھارہے ہیں ، یہ مالدار گھرانے سے اور ذہین بھی تھے اس لیے اچھی تعلیم مل گئی اور نام بھی کمالیا ۔ لیکن ہر پاکستان ہوشیار نوجوان کو اچھی تعلیم نہیں مل رہی۔

چند دن پہلے 26ویں آئینی ترمیم ہوئی ہے جس میں تین سینئر ترین جج سامنے آئے وہ تینوں سینئر لاہور کے ایک ہی کالج ایچی سن کے فارغ التحصیل تھے ، لاہور کے ہرامیر گھرانے کی اولاد اسی کالج میں پڑھنے جاتی ہے ، یہ اسکول ہے جسے ایچی سن کالج کہا جاتا ہے۔ اس میں داخلے کے لیے اعلیٰ سطح کی سفارشیں کی جاتی ہیں ، جس میں جھگڑے ہوتے ہیں تنازعات جنم لیتے ہیں ، ابھی اس کا بورڈ بن رہا تھا تو اس میں صدر پاکستان ، گورنرپنجاب ، کورکمانڈرز ، ہر شعبے کے لوگ شامل تھے۔

اب دوسری طرف پاکستان بھر میں قریباً پانچ لاکھ اسکول ہیں ۔ اگر ان پانچ لاکھ اسکولوں سے سترہ ججز اعلیٰ ترین عدالت جاتے تو اوسطاً ہر بیس ہزار اسکول سے ایک جج جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ملک کے صرف ایک اسکول سے آدھے جج سپریم کورٹ آرہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ آپس کے تعلقات ہیں۔

جب کوئی اسکول میں پڑھتا ہے تو وہاں دوست بنتے ہیں ان میں سے کوئی جج بن جاتا ہے پھر دوسرا بن جاتا ہے پھر وہ ایک دوسرے دوست کی مدد کرتے ہیں اس طرح اثرانداز ہونے کا نیٹ ورک قائم ہوگیا ہے۔ ان کے باپ دادا بااثر بڑے لوگ تھے، بڑے عہدے دار ذمے دار، قانون دان یا سرکاری افسر تھے یہ فوائد سہولت اور مراعات آپس کے تعلقات کی کی وجہ سے ہے ، لیکن تعلقات نبھانے کے طریقے سے ٹیلنٹ ختم ہوجاتا ہے۔ 

ملک کے بہت سے بچے زیادہ قابل ہیں لیکن انہیں تعلیم ہی نہیں مل رہی ، وہ بچے کہیں نہ کہیں مزدوری کررہے ہیں۔ وہ بچہ تعلیم حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ اس طرح کی کئی زیادتیاں ہورہی ہیں۔ ایک اسکول کراچی گرامر ہے ، آدھے سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیڈز کا تعلق اس اسکول سے ہوتا ہے ،اس کی بھی وجہ تعلقات ہے یہ بھی بڑا فائدہ ہے۔ 

پاکستان میں اس طرح کے آٹھ سے دس اسکول ہیں جس میں کیڈٹ کالج حسن ابدال ،پٹارو کالج اس کے علاوہ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے تین امریکن اسکول اور دو چار اور مہنگے اسکول ہیں ۔ جن سے چالیس ہزار بچے اے لیول پاس کرتے ہیں، ملک کے لاکھوں میں سے صرف چالیس ہزار بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے، جب کہ ان چالیس ہزار میں سے صرف دو فیصد بچے بہت قابل ہوں گے ، لیکن ہم نے جو پچیس لاکھ دیگر بچے نظراندازکر دیئے ان میں شامل قابل ترین ڈھائی فیصد بچے تو ضائع ہوگئے۔ ہمارے امیر اس لیے امیر ہیں کیوں کہ ان کے باپ دادا نانا بھی امیر تھے یہ دولت ان کی نسل سے منتقل ہوتی ہوئی آرہی ہے۔ 

امریکا کی مثال لیں وہاں کے امیر ترین نئے لوگ ہیں جیسے بل گیٹس ، اسٹیو جوبز اور مارک زکربرگ یہ زیادہ تر عام لوگ تھے ان میں کسی نے مائیکرو سافٹ بنائی کسی نے ایپل تو کسی نے سوشل میڈیا میں بڑا کام کیا ہے اپنی صلاحیتوں کے بل پر کھڑے ہوئے اور امیر ترین بنے ۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں کے کامیاب وہی کام کرتے ہیں جو ان کے بزرگ کررہے تھے۔ 

ہماری فیکٹری دادا نے 1952 میں قائم کی تھی ۔ میں امیر گھرانے سے ہوں مجھے کوئی مالی پریشانی نہیں رہی ، میں نے جہاں پڑھنا چاہا جوکرنا چاہا وہ میں نے کیا۔ میرا بیٹا بلال پڑھے لکھے اور خوش حال والدین کی اولاد ہے اسے ہر سہولت حاصل رہی اسے کراچی گرامر اسکول میں داخلہ ملا، میری بیٹی امریکن اسکول میں پڑھتی تھی میں جب اس اسکول کا صدر بنا تومیں نے بیٹے کو بھی امریکن اسکول میں داخل کرادیا۔ 

بیٹے کو پڑھائی میں کوئی مشکل پیش آئی تو مدد کے لیے پڑھے لکھے والدین اور بہترین ٹیوشن کا بندوبست رہا، یہاں سے فارغ ہوا تو اعلیٰ تعلیم کےلیے امریکاچلا گیا وہاں سے ماسٹر کیا۔ اس میں جوبھی ٹیلنٹ تھا اسے ہرطرح کی سہولت کے ساتھ بہترین تعلیم مل گئی۔ 

اب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اسےعملی زندگی میں کامیاب اور ترقی ہی کرنی ہے ۔ دوسری طرف میرے بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد میرے ڈرائیور کے یہاں بیٹا پیدا ہوا اس کا نام بھی بلال ہے۔ 

وہ بچہ زندگی بھر ہزارہ کے سرکاری تعلیمی اداروں سے بغیر ٹیوشن لیے اپنے طور پر تعلیم حاصل کرتا رہا ، کیوں کہ اس کے باپ کے پاس ہمارے جیسے وسائل نہیں تھے ۔ تعلیم کے اتنے بڑے فرق کے ساتھ عملی زندگی میں یہ بلال میرے بیٹے کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے ۔ پاکستان کے اکثر بچوں کے والدین غریب ہیں اس لئے ان بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم بھی میسر نہیں ہے ان بچوں کا بیرون ملک تعلیم یافتہ سے مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔

پاکستان میں تین گروہ ہیں پہلا ایلیٹ کلاس ہے جنہوں نے پاکستان کی منصوبہ بندی کو جکڑ رکھا ہے جس میں بیورو کریسی، ملٹری ، سیاستدان، جوڈیشری کاروباری اور صنعت کار شامل ہیں اس کے بعد نو سے دس فیصد مڈل کلاس ہیں ، یہ پڑھے لکھے اور اچھی انگریزی لکھ بول لیتے ہیں ان کے بچے بھی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں یہ محنتی بھی ہیں ان میں آگے بڑھنے کا بہت چانس ہوتا ہے، پاکستان میں زیادہ تر ٹیکس یہی لوگ دے رہے ہیں ، یہی لوگ پاکستان کو چلا بھی رہے ہیں یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

تیسرا گروپ باقی کےنوے فیصد غریب لوگ ہیں جنہیں کسی گنتی میں نہیں لایا جارہا ۔پاکستان کا نظام اتنا برا ہے جس میں قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی ، نہ غربت ختم ہوسکتی ہے نہ مڈل کلاس ترقی کرسکتا ہےاورنہ امیر مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔ 

ہمارے امیر ترین لوگ بھی دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل نہیں ہیں اور ہمارے غریب دنیا کے غریبوں سے زیادہ غریب ہیں، مڈل کلاس بھی آگےنہیں بڑھ سکتے لہذا جو بیرون ملک منتقل ہوسکتے ہیں وہ مایوس مڈل کلاس بیرون ملک جارہے ہیں ۔ مڈل کلاس ہی کسی بھی ریاست کو آگے بڑھاتے ہیں اگر یہ سب چلے گئے تو پیچھے کون رہ جائے گا یہ بڑا المیہ ہے۔ امریکا جیسے ملک کو ترقی یافتہ بنانے والا یہ ہی مڈل کلاس تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔

جاوید میاں داد اور ظہیر عباس دونوں کا شمار پاکستان کرکٹ کے بہترین بیٹرز میں ہوتا ہے اسی طرح عمران خان ،وسیم اکرم اور وقار یونس تینوں بہترین بالر رہے ہیں اگر کبھی یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ ٹیم میں ان نامور کھلاڑیوں کے بچوں کو ان کی پوزیشن پر شامل کردیا جائے تو کیا ٹیم جیتے گی یہ ناممکن ہے۔ 

پاکستان کو بھی ایسے ہی چلایاجارہا ہے سندھ کی مثال لیں ایک عرصے سے بھٹو خاندان حکومت کررہا ہے ان کی قابلیت مقبولیت کے باوجود چھ کروڑ کے صوبے میں کیا صرف یہی قابل لوگ ہیں ، پنجاب میں صرف شریف خاندان ہی حکومت کرے گا ، کے پی کے میں صرف عمران خان ہی حکومت چلائیں گے۔

پاکستانی سیاست میں خان عبدالولی خان تھے ان کے والد خان عبدالغفار خان تھے جبار خان ان کے بڑے بھائی تھے وہ برطانوی دور حکومت میں این ڈبلیو ایف پی کے گورنر رہے۔ ان کے بھائی خان عبدالغفار خان نے سیاسی پارٹی بنائی پھر ان کے بعد ان کے بیٹے عبدالولی خان نے یہ ذمہ داری لی پھر ان کے بیٹے اسفندیار ولی خان نے قیادت سنبھالی اب ان کی چوتھی نسل ان کے بیٹے ایمل ولی خان قیادت پارٹی کی قیادت کررہے ہیں۔ 

 اے این پی کے کارکنوں کی بڑی قربانیاں ہیں لیکن پارٹی کی قیادت کا خاندان سے باہر کسی دوسرے کو کبھی موقع نہیں ملا ہے۔ جے یوآئی کی مولانا فضل الرحمن قیادت کررہے ہیں، مستقبل میں ان کے صاحبزادے اسعد محمود پارٹی سنبھالیں گے۔ ان سے پہلے ان کے والد مفتی محمود صاحب پارٹی لیڈر تھے۔

پاکستان میں اگر کوئی پیرصاحب ہیں تو ان کے بعد بیٹا جس کا مذہبی رحجان نہ بھی ہوں اس مسند پربیٹھ کر پیر ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹرسابق صدر پاکستان عارف علوی ڈینٹسٹ تھے ان کا بیٹا بھی ڈینٹسٹ ہوگیا ۔ ہمارے عالم دین کے بیٹے بھی عالم دین ہوجاتے ہیں، ہر شعبے میں یہ صورت حال ہے۔ پاکستان میں اچھی تعلیم اور اچھی نوکری امیر تک محدود کردی گئی ہے کوٹہ سسٹم اور دیگر چیزیں نافذ کرکے۔ 

دنیا میں کوٹا سسٹم محروم طبقے کےلیے نافذ کیا جاتا ہے یہاں مخصوص جگہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے ۔ ہمارے حکمران جس میں سول اور ملٹری دونوں شامل ہیں انہیں ملک کی مشکلات کا ادراک ہی نہیں ہے۔ 

پاکستان میں اصلاحات کی بہت ضرورت ہے ، ہمارا نظام شوگر مرض کی طرح بے قابو ہوگیا ہے ، جب گینگرین ہوجائے تو جان بچانے کےلیے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا جاتا ہے ۔لہٰذا جب تک اس نظام کو اکھاڑ کر نہیں پھینکیں گے اوراپنے مقاصد طے نہیں کریں گے ٹھیک اور دوسرا نظام نہیں لائیں گے بہتری نہیں ہوسکتی اور انفیکشن مزید پھیل جائے گا۔

ہمارا نئی سیاسی جماعت بنانے کا مقصد یہ ہے ہمارے کنوینر شاہد خاقان عباسی اور مجھے اندازہ ہوا پاکستان کو جس سیاست کی ضرورت ہے ن لیگ کا طرز سیاست مختلف ہے ن لیگ کی سیاست پاکستان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہمیں یہ سیاست پسند نہیں آئی ہے۔ 

ہمیں عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن اگر وہ الیکشن جیتے تھے تو حکومت سازی ان کا حق تھا پاکستانی عوام نے جسے مینڈیٹ دیا حکومت بھی اسی کا حق تھا ،اگر چہ انہوں نے بھی اقتدار ایسے ہی حاصل کیا تھا ۔ عوام جس کسی کو ووٹ دیں حکومت کرنے کا حق بھی اسی کا ہونا چاہیے جو یہ بات تسلیم نہیں کرتا تو وہ جمہوریت کو نہیں مانتا لہذا ہم نے مسلم لیگ کو چھوڑ دیا ہے۔

ہم نے اپنی نئی جماعت عوام پاکستان پارٹی میں چند بنیادی اصول رکھے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کنوینر اور میں جنرل سیکریٹری ہوں ہم ایک پوزیشن پر چھ سال تک رہ سکتے ہیں اس کے بعد یہ پوزیشن چھوڑنی پڑے گی اور کوئی دوسرا یہ ذمہ داری سنبھالے گا۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان میں بہت سارے قابل لوگ ہیں جو آسانی سے ہماری جگہ سنبھال سکتے ہیں ۔ چھ سال بعد شاہد عباسی کے گھر سے کوئی دوسرا اس پوزیشن پر نہیں آئے گا نیا آئے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں یہ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے ہیں جو بہت ضروری تھے لیکن دنیا آج بھی چل رہی ہے۔

ہم نے پارٹی کو چلانے کےلیے چھ سات نکات رکھے ہیں جوہمارے بنیادی اصول بھی ہیں۔

حکومتی سائز چھوٹا ہونا چاہیے ، غریب ترین لوگوں کو اوپر لانا چاہیے تاکہ صلاحتیں دکھانے کا سب کو برابر موقع ملے ، ہر چیز میں شفافیت ہونی چاہیے، جمہوریت میں جمہوریت پر یقین رکھنا چاہیے ، ووٹ کو عزت دینی چاہیے مجھے کوئی نہ پسند ہو لیکن اگر عوام نے پسند کیا اس نے منتخب کیا ہے تو حکمرانی کا حق اسی کا ہے۔

جنگ : حکومت کے مطابق معیشت بہتر ہورہی ہے افراط زر رک گیا ہے ، شرح سود بھی کم ہوا ہے ،ڈالر بھی مستحکم ہے قرضوں کا بندوبست بھی ہوگیا ہے کیا آپ کے خیال میں بھی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : مہنگائی کا کم ہونا صرف دعویٰ ہیں حقیقت میں ایسا نہیں ہے مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ افراط زر میں کمی آئی ہے یعنی جس رفتار سے مہنگائی بڑھ رہی تھی اس میں کمی آئی ہے پچھلے سال 25 فیصد کے حساب سے مہنگائی بڑھ رہی تھی یعنی جو چیز سال کے شروع میں 100 روپے میں تھی وہ سال کے آخر تک اس کی قیمت 125 روپے تھی ، اس سال افراط زر کی شرح دس فیصد ہوگئی ہے اب 125 روپے والی چیز137 روپے کی ہوگئی ہے۔ 

مہنگائی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن رفتار میں کمی آئی ہے ۔ مہنگائی کو آئسولیشن میں نہیں دیکھا جاتا اس میں دیکھنا پڑتا ہے کیا لوگوں کی آمدنی مہنگائی کی رفتار کے مطابق بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان میں دس فیصد بھی آمدنی نہیں بڑھی ہے ۔ بلکہ پاکستانی بیس سے 25فیصد مزید غریب ہورہا تھا ،اس سال اوسطاً 12فیصد مہنگائی ہوگی تو یہ سمجھ لیں لوگوں کی پانچ فیصد سے زیادہ آمدن نہیں بڑھے گی اور لوگ پانچ فیصد مزید غریب ہوجائیں گے۔

اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو ہمارا مزید برا حال ہوجا تا اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے جو اچھی بات ہے۔ لیکن اس معیشت میں روزگار میں اضافہ نہیں ہورہا ، ورلڈ بینک کے مطابق چالیس فیصد پاکستانی خط غربت کے نیچے ہیں۔ 

یعنی دس کروڑ پچاس لاکھ پاکستانی یعنی سات کروڑ بچے خط غربت کے نیچے ہیں اوران میں لاکھوں بچے بھوکے سوتے ہیں ان حالات کے بعد خود فیصلہ کرلیں معیشت کتنی اچھی ہوگئی ہے۔

جنگ : آج کل لوگوں کا بیرون ملک جانے کا بہت رحجان ہے اوورسیز پاکستانیوں سے ملنی والی آمدنی ریمی ٹینس ایکسپورٹ سے زیادہ بڑی آمدنی ہے پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ رحجان مثبت ہے یا منفی ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ہرچیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں ۔ جہاں تک ریمی ٹینس سے آمدنی بڑھنے کا تعلق ہے اس طرح ملک میں فارن کرنسی آتی ہے جو ہمارے لیے بہت اچھا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑے گا پاکستان سے کون جارہا ہے اگر پڑھے لکھے نوجوان جیسے ڈاکٹر ، انجینئر کمیونیکشن اسپیشلسٹ اکاوئنٹنٹ جارہے ہیں تو ان کی تو پاکستان کو بھی ضرورت ہے ان کے جانے سے اتنا فائدہ نہیں ہے ، لیکن کوئی غیرتعلیم یافتہ مڈل ایسٹ یا بیرون ملک جاکر ٹیکسی چلاتا ہے پلمبری کرتا ہے اس کا پاکستان کو فائدہ ہے۔

جنگ : معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : معیشت کا سب سےبڑا مسئلہ بجلی کا نظام ہے ، بجلی کے بل نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ دی ہے ۔ اس سے نہ برآمدات میں اضافہ ہوگا نہ کاروبار ترقی کرے گا اور نہ ہی پاکستان دنیا سے مقابلہ کرسکے گا، بجلی اور گیس کی قیمت کم کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ : ڈالر کی قیمت مستحکم ہونے کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ڈالر شاید ان ڈائریکٹ مینج کیا جارہا ہے ، ایک شرح سود کے ذریعے دوسرا کچھ حد تک امپورٹ بھی کم کی جارہی ہے ہم زیادہ درآمدات نہیں کررہے اس لیے ڈالر ریٹ مستحکم ہے۔ لیکن اس سے معیشت بہت سست ہوگئی ہے لوگوں کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔

جنگ : خدشہ ہے ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے کے سبب منی بجٹ آسکتا ہے آپ کا کیا خیال ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : بجٹ میں حکومت نے قلم ، دودھ تک پر ٹیکس لگادیا تھا ، ہرشے پر ٹیکس لگا ہے ، منی بجٹ پر مزید ٹیکس کس پر لگائیں گے، ملازمت پیشہ پر 38اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس ہے، اکاوئنٹنٹ ، وکیل ،  ڈاکٹر جیسے شعبے پر 49اعشاریہ پانچ فیصد اور کمپنی پر 39فیصد کمپنی اپنے مالکان کو جو ڈیویڈنڈ دیتا ہے اس پر15فیصد ٹیکس ہے مجموعی طور پر کمپنی پر54فیصد ٹیکس ہے۔

پاکستان میں ٹیکس لینے کا طریقہ توفلاحی ریاست فن لینڈ اور ناروے کی طرح ہے جہاں کی حکومت پالنے سے لے کر قبر تک خدمات فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں عوام کو کوئی سروس نہیں جاتی، یہاں شدید گرمی میں بجلی چلی جاتی اور سخت سردی میں گیس نہیں ہوتی۔ دنیا انٹرنیٹ آسان کررہی ہمارے ملک میں یہ سروس کی رفتار بھی مشکل ترین ہورہی ہے۔

جنگ : حکومت کے مطابق آئی ایم ایف سے یہ ہمارا آخری پروگرام ہے آپ کا کیا خیال ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : یہ ناکارہ حکومت ہے اس سے کچھ نہیں ہوگا سوائے حکومت سنبھالنے کے ایک پیسے کا کام نہیں کررہی ، کوئی ریفارمز نہیں، ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا نہ کوئی حکومتی اخراجات کم کئے بلکہ مزید بڑھائے ہیں ہم آئی ایم ایف کے محتاج رہیں گے۔

جنگ : ملکی سیاست کس صورت حال کا شکار ہے کیا حکومت مدت پوری کرے گی؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ہندوستان نے اپنے قیام کے پہلے دس سال میں پانچ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کردیئے تھے وہاں کے فارغ التحصیل آج دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، پاکستان میں پہلے گیارہ سال میں سات وزیراعظم تبدیل ہوئے آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وزیراعظم بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں گے۔

جنگ : آپ کی جماعت کس حد تک اقتدار میں آنے کےلیے تیار ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ہم جب بھی اقتدار میں آئیں گے ہم کسی کی مدد نہیں لیں گے صرف عوام، نوجوانوں کے ووٹ اور مدد سے آئیں گے ، ہماری خواہش ہے آئندہ بیس سال بعد نوجوانوں میں سے کوئی ہماری پارٹی سے صدر ہو وزیراعظم ہو وہ پارٹی اور ملک سنبھالے۔

جنگ : آپ کی جماعت کی تنظیم سازی کہاں تک ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ہم نے سوچ لیا ہے کہ ہم اپنی جماعت میں پرانے سیاست دان نہیں لائیں گے پڑھے لکھے اور نوجوانوں کو آگے لے کر آئیں گے، سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری ،سابق وفاقی وزیرڈاکٹر ظفر مرزا اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کراچی کی ڈاکٹر عائشہ خان ،ایمبسڈر سیما بلوچ، ڈاکٹر زینب سبزواری، ڈاکٹر عائشہ ملک، ڈاکٹر طارق سلیمان اس طرح کے پڑھے لکھے اچھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں ہمارا منشور پڑھیں ہم دعوی سے کہتے ہیں اس طرح کا کوئی دوسرا منشور نہیں ہوگا۔ ہم 300یونٹ فری بجلی دینے کے جھوٹے وعدے نہیں  کرتے جو ممکن ہے وہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔

حاضرین کے سوالات

حمزہ : دو ہزار انیس کے کوویڈ وبا کی طرح خداںخواستہ مستقبل میں پاکستان کو ایسی ایمرجنسی صورت حال کا دوبارہ سامنا کرناپڑا تو کیا ہماری معیشت یہ بوجھ اٹھا سکے گی۔

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل: ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سو ڈیڑھ سو ارب روپے رکھے ہوتے ہیں ،کوویڈ جیسی وبا صدی میں ایک دو مرتبہ ہی آتی ہے، اس موقع پر آئی ایم ایف نے ساری شرائط ختم کردی تھیں اور اس کے علاوہ ڈیڑھ ارب ڈالر مزید دئے تھے ورنہ پاکستان کمزور معیشت کا ملک ہے وہ بڑا جھٹکا برداشت نہیں کرسکتا۔

محمد حسنین : کراچی سے بہت زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود شہر کو بہت مسائل کا سامنا ہے، سندھ حکومت وفاق پرفنڈ نہ دینے کا الزام عائد کرتی ہے کے ایم سی صوبائی حکومت پرانگلی اٹھاتی ہے اصل حقیقت کیا ہے ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل: اس میں کچھ سچ اور کچھ جھوٹ ہے ،سندھ حکومت کو وفاق سے گارنٹی میکنیزیزم کے تحت پیسے ملتے ہیں،وفاق جوبھی ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا60 فیصد صوبوں کو دیتا ہے،جس میں25 فیصد سندھ کو ملتے ہیں۔ 

سندھ حکومت کا اس سال کا بجٹ 3500ارب روپے سے زائد کا ہے لہذا وفاق پیسے نہیں دے رہا سندھ حکومت کی یہ بات درست نہیں ہے ۔ سندھ حکومت کراچی کو پیسے نہیں دیتی اس کی تصدیق شہر کی سڑکیں کرتی ہیں، شہر میں جتنی سڑکیں نہیں اس سے زیادہ گڑھے ہیں پانی نہ ملنے کی شکایت عام ہے۔ 

پیپلز پارٹی کی کارکردگی کراچی سمیت پورے سندھ میں خراب ہے تعلیمی لحاظ سے سندھ بلوچستان سے بھی پیچھے ہے ،کسی بھی صوبے کے چار کام ہوتے ہیں صحت ،تعلیم ، امن و امان اور سڑکیں ان چاروں میں سندھ حکومت ناکام ہے لیکن اس کے ساتھ پاکستان کے دیگر صوبے بھی ناکام ہیں۔ پہلے وفاق زیادہ با اختیار تھا 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو پیسے اور اختیار بہت زیادہ ملتے ہیں۔ 

صوبوں کو فنڈ مقامی سطح تک فراہم کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اب فنڈ پر صوبوں نے اجارہ داری بنالی ہے صوبے فنڈ مقامی سطح تک فراہم کرے۔ سڑکوں میں پنجاب کا انفرااسٹرکچر دیگرصوبوں سے بہتر ہے لیکن پنجاب میں وفاق نے بھی بہت پیسے لگائے ہیں اس طرح پنجاب کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ پیسے ملے ہیں۔ 

ہماری پارٹی سمجھتی ہے پاکستان کو ڈویژنل سطح پر بااختیار کیا جائے۔ اسکول اور صحت کا شعبہ ضلع کے حوالے کردیا جائے پولیس پانی اور سڑکیں ڈویژن کے حوالے ہوں۔ 

جب سارے پاورز نیچے تک منتقل ہوں گے، وفاق سے انہیں براہ راست پیسے ملیں گے تو اس سے جمہوریت بھی پنپنے شروع ہوجائے گی اور پاکستان بھی ترقی کرے گا۔ ترقی کے لیے لوکل حکومتوں کو بااختیارکرنا ضروری ہے۔

جنگ : پاکستان میں نئے صوبے بننے کی ضرورت ہے ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : اس حوالے سے سندھ ،پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان یہ خواہش بھی موجود ہے لیکن اس پر جھگڑا بھی ہے۔ اس سے بہتر ہے اختیارات کو مقامی سطح تک دیئے جائیں یہ جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔

ارم منور :کیا سی پیک منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : دوہزار تیرہ میں ن لیگ نے حکومت سنبھالی تو ہرگھنٹے لوڈشیڈنگ تھی مغربی یورپ اور امریکا نے کوئی قرض نہیں دینا تھا لہذا نیا پراجیکٹ نہیں لگ سکتا تھا، چین نے آفر دی ہماری کمپنیاں پیسے دیں گی جولگانا ہے وہ لگاؤ حکومت نے چیزیں لگالی اب پاکستان میں بجلی کی پیداوار ڈبل تو ہوگئی لیکن حکومت نے صعنتی پیداوار ڈبل نہیں کی ، ن لیگ حکومت نے پاکستان کے اوپر سڑکیں بنادیں لیکن کراچی سے حیدرآباد اور سکھر سے آگے سڑک نہیں بنائی۔ 

کراچی سے حیدرآباد سپرہائی وے سڑک تھی اس میں ایک لین بڑھا کر موٹروے کا نام دے دیا ، پنجاب میں موٹر وے بنائیں لیکن کراچی جہاں سے سارے مال بردار ٹرک نکلتے ہیں یہاں نہیں بنایا ۔ یہ ترجیحات تھیں جب حکومت کے پاس پیسے ہوتے ہیں تو وہ لاہور سے اسلام آباد، فیصل آباد سے لاہور اور ملتان تک موٹر وے بنا دیتی ہے لیکن باقی صوبوں کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ ختم ہوجاتے ہیں۔ 

پاور پلانٹ زیادہ تر کراچی میں لگے ہیں لیکن اس کی بجلی نہیں فروخت کرسکتے کیوں کہ صنعتی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا اسی وجہ سے ہم اب چین کو پیسے بھی نہیں دے پارہے اب حکومت کوبھی چاہیے کے وہ چین سے مزید پیسے نہ لیں لیکن وہ پھر گئے اور کہا ہمیں ٹرین لائن لگادو لیکن چین نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی سی پیک سے جو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا وہ نہیں اٹھایاجاسکا ہے ، لیکن ہمیں سی پیک سے فائدہ اٹھانا چاہیے چین سے مزید سرمایہ کاری کروانی چاہیے لیکن وہ سرمایہ کاری برآمدات میں اضافہ کے لیے ہو قرضوں کے بوجھ بڑھانے والے نہ ہوں۔

حیبہ : ہماری معیشت کا دوچیزوں پر انحصار ہے ایکسپورٹ اور امپورٹ ، لیکن ہماری معیشت زیادہ ترامپورٹ پر انحصار کرتی ہے ایسی کیا اقدامات کئے جائیں جس امپورٹ کے بجائے ایکسپورٹ بڑھے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ہمیں امپورٹ کو غیر ضروری طور پر کم نہیں کرنا چاہیے لیکن ایکسپورٹ کو بڑھانا چاہیے ، ہمیں باہر سے جن چیزوں کی ضرورت ہے اسے خریدنا چاہیے۔

ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بڑے ملک ہیں اور 25 کروڑ انسان رہتے ہیں اور صرف 30 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جو ناکافی ہے ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے اگر ایکسپورٹ ساٹھ ستر بلین ڈالر ہوجائے گا تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور جب ایکسپورٹ بڑھے گی تو امپورٹ بھی بڑھے گا۔

سعد : آپ نے اپنے دور میں سرکاری تعلیم بہتر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : میں صرف پانچ مہینے وفاقی وزیرخزانہ رہا ہوں اور تعلیم صوبوں کی ذمہ داری ہے ہم صوبوں کو صرف پیسے دے سکتے ہیں۔

علی اصغر : پاکستان میں آج تک کسی حکومت نے سنجیدگی سے عام پاکستان کےمسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

ہنیش : پاکستانی معیشت کے زوال کی کیا وجہ ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : جس ملک کا 2کروڑ 65 لاکھ لاکھ بچہ اسکول سے باہر ہو اس ملک میں ترقی نہیں آسکتی بغیر تعلیم کے کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔

سیال : پچھلے تین مہینے میں نیٹ نہ چلنے کی وجہ سے بہت سے فری لانسر اور سینکڑوں افراد سوفٹ وئیر ہاوس سے فارغ کئے گئے ہیں اس کا کیا حل ہے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل: انٹرنیٹ سلو کرنا پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے۔

نعمان احمد: ن لیگ حکومت نے لاہور میں آئی سی ٹی کا اعلان کیا لیکن دوسری طرف انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم کردی گئی ہے ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : بغیر انٹرنیٹ کے آئی سی ٹی بھی نہیں چلتا۔

ارم : ہم ہر مرتبہ آئی ایم ایف سے لون لیتے ہیں یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : جس دن ہم نے واقعی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا اس وقت ہم لون لینا بھی بند کردیں گے۔

ہانیہ: لوگ ووٹ دیتے کسی کو ہیں لیکن کامیاب کوئی اور ہوجاتا ہے یہ سلسلہ کب بند ہوگا ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : جب تک الیکشن چوری ہوتے رہیں گے ملک کا نظام بھی ٹھیک نہیں ہوگا اگر ملک میں دو سے تین مرتبہ ایمان داری سے الیکشن کروادئے جائیں خود بہ خود اچھے لوگ آنا شروع ہوجائیں گے۔

زوار : 26ویں ترمیم سے کیا عدلیہ مزید طاقت ور ہوجائے گی ؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : ججز کے سلیکشن میں صرف ججوں کا ہونا زیادتی تھی یہ کام افتخار چوہدری کرگئے تھے ہماری عدلیہ نے بہت سے فیصلے غلط بھی کئے ہیں اور پارلیمان کو دبایا ہے اس کا حل یہ ہے کہ ایمان دار جج لگائے جائیں۔

جنگ : اسٹاک مارکیٹ کو معیشت کا انڈی کیٹر کہہ سکتے ہیں آپ کن شرائط پر حکومت سنبھالیں گے؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل : کہہ سکتے ہیں اگر آج اسٹاک مارکیٹ اوپرجارہی ہے تو آئندہ معیشت بھی اوپر جانی چاہیے۔ 

ہم چاہتے تو اس حکومت میں وزیر ہوتے لیکن ہم سب چھوڑ کرآئے ہیں ہمارے کنوینر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں فوج ایک حقیقت ہے اور ہم اس کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں لیکن ہم اس کی نوکری نہیں کریں گے۔

ہماری پارٹی حکومت میں ووٹ لے آئے گی ورنہ نہیں آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ملک ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا اس ملک کے نوجوانوں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہورہا اورجب تک ہم اسے ٹھیک نہیں کریں گے کوشش جاری رکھیں گے۔

یاسر : ہم نے سنا ہے باہر جانے کے لئے ٹیکس دینا پڑے گا تو کیا اب اس طرح ٹیکس نیٹ بڑھے گا؟

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل: ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے ہر سوشل میڈیا کی خبر پر یقین نہ کریں۔ اس معاملے میں ایک مخصوص پارٹی سب سے آگے ہے۔

جنگ : یہ فیک نیوز کا دور ہے، آسانی سے گمراہ ہونے کی بڑی وجہ مطالعے سے دوری ہے ہم کتاب اور اخبار نہیں پڑھتے اس لئے حالات سے بھی بے خبر ہوتے ہیں اصل حالات سے لاعلمی کی وجہ سے غلط خبر کے دھوکے میں آجاتے ہیں اس سے نمٹنے کے لئے نصاب کے ساتھ غیر نصابی چیزوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔