میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: جنید احمد
شریک گفتگو: ڈاکٹر قیصر بنگالی (سابق اکنامک ایڈوائزر حکومت سندھ/بلوچستان) محمد صابر (پرنسپل اکنامسٹ، سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر)
سندھ نےاین ایف سی ایوارڈ میں سوفیصد کامیابی حاصل کی تھی۔اس این ایف سی کی بڑی نمایاں بات کہ یہ متفقہ دستاویز ہے، ایسے ملک میں جہاں کئی اختلافات مختلف طرح کی کشیدگی اور تقسیم ہے اس میں کسی چیزپر متفقہ ہونا منفرد واقعہ ہے، پہلے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر تھی جس سے صرف صوبہ پنجاب کو فائدہ ہوتا تھا،وفاق سے 47 آئیٹم کی ذمہ داریاں صوبوں میں منتقل ہوگئیں، ہم سمجھتے تھے کہ ان آئٹم کو صوبوں کو منتقل ہونے سے وفاق کی بہت سی وزارتیں ختم ہوجائیں گی اور اس طرح وفاق کے اخراجات کم ہوجائیں گے لیکن دوہزار دس میں این ایف سی آنےکے بعد بھی وفاقی حکومت نے کوئی بھی وزارت بند نہیں کی بس نام بدل دیئے،آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے، آئی ایم ایف کا مسئلہ صوبائی خسارے سے نہیں ہے ان کا وفاق سے تعلق ہے۔
آئی ایم ایف کہتا ہے خسارہ کم کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ پیسے صوبوں سےلے لو،ہمارا موقف ہے وفاق نے وہ وزارتیں کیوں ختم نہیں کیں جو اس نے کرنی تھی۔ جو فنکشن صوبوں کو چلے گئے وہ ادارے آج بھی وفاق میں کیوں موجود ہیں،یہ بحران وفاق نے پیدا کیا ہے۔ اس کےنہ صوبے ذمے داراور نہ این ایف سی وجہ ہے، ایوارڈ سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ این ایف سی ختم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم یااین ایف سی کے خلاف کارروائی فیڈریشن کو نقصان پہنچائے گی، سندھ بھرمیں سڑکیں بہت اچھی ہوگئیں ہیں، این ایف سی کے بعد صوبوں نے بہت کچھ کیا ہے
ڈاکٹر قیصر بنگالی
ساتویں کے بعد سے نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں ہوا ہے ہر پانچ سال کے بعد یہ ہوتا ہے بغیر کسی میٹنگ یاایک دو میٹنگ اور کوئی پریزینٹیشن دکھانےکے بعدایک صدارتی آرڈر جاری کردیا جاتا ہے۔ اب ہم دسویں این ایف سی میں ہیں لیکن اس پر بھی اب تک کوئی جامع گفتگو نہیں ہوئی ہے۔
اٹھارویں ترمیم میں یہ ہوا تھا کہ ورٹیکل شیئر یعنی وفاق سے جو شیئر صوبوں کو دیئے جاتے ہیں اس میں کوئی کمی نہیں کی جاسکتی، وفاق اپنے مسائل کے حل کے لیے انتہائی فیصلہ کرتے ہوئےصوبوں کا شیئر زیرو بھی کردے اور صوبوں کوایک پیسہ بھی نہ دے تو بھی اس کا خسارہ جی ڈی پی کا دو فیصد ہوگا، دو فیصد کا مطلب دو ٹریلین روپے یعنی 20کھرب روپے، مسئلہ این ایف سی ایوارڈ نہیں بلکہ سود کی ادائی ہے اور اس کی وجہ کبھی جو انٹرسٹ ریٹ چھ اور سات ہوتا تھا وہ آج 22فیصد ہے اور وفاق بینکوں سے 23فیصد انٹرسٹ پر پیسے لے رہا ہے۔ این ایف سی میں تبدیلی کا ایک ہی طریقہ ہےجب تک اس سسٹم میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز متفق نہیں ہوں گے کسی دستاویز پر دستخط نہیں کریں گے اس میں تبدیلی ناممکن ہے، پچھلے دو مرتبہ صدارتی حکم نامہ آیا لیکن اس سے بھی کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوئی ہے۔
محمد صابر
ہمارا آج کا موضوع گفتگو این ایف سی ایوارڈ ہے ہم جنگ فورم میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ متفقہ این ایف سی ایوارڈ متنازعہ کیوں بن رہا ہے۔اس ایوارڈ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہےاین ایف سی ایوارڈ2009 میں تیار ہوا اور 2010 میں متفقہ پاس ہوا،ایوارڈ پر اس وقت کی پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والی تمام جماعتیں اس پر متفق تھیں اور سب نے اس پر دستخط کئے تھے لیکن اب اسے متنازعہ شکل بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کہا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے وفاق کی مالی صورت حال کم زور ہورہی ہے اور وہ مالی بحران کا شکار ہورہا ہے کیوں کہ پیسےصوبوں کو دینے کے بعد ان کے پاس کچھ نہیں بچتا۔
آج کے فورم میں ہم جائزہ لیں گے کہ این ایف سی ایوارڈ کیا ہے، اس کا مقصد کیا تھا، یہ پہلے کیا تھا دوہزارنو کے بعد کون سی تبدیلیوں کے ساتھ نافذ ہواہے۔ صوبے اور وفاق پرمجموعی طور پر مثبت اور منفی اس کےکیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کی آواز کیوں اٹھ رہی ہے۔آئی ایم ایف نے بھی تبدیلی کرنے کا کہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ ن لیگ جس کےاس ایوارڈ میں دستخط ہیں وہاں سے بھی اسی طرح کی آوازیں آرہی ہیں،ن لیگ کے سابق رہنما خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اور تحریک انصاف بھی این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی بات کررہی ہے۔
ان تمام باتوں کا جائزہ لینے کے لیے ہمارے ساتھ آج دو نامور ماہر معیشت شریک گفتگو ہیں، ڈاکٹر قیصر بنگالی این ایف سی ایوارڈ میں سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرچکے ہیں اور دوسرےمحمد صابر ہیں یہ بھی سندھ سے این ایف سی میں نمائندگی کرچکے ہیں دونوں شخصیات کا این ایف سی ایوارڈ سے براہ راست تعلق رہا ہے۔ گفتگو کا آغاز محمد صابر سے کرتے ہیں۔
جنگ: این ایف سی ایوارڈ سے کیا مراد ہے،یہ پہلے کیا تھا اب کیا ہے؟
محمد صابر: میں جنگ فورم کا شکرگزار ہوں،سب سے پہلے ہمیں فسکل فیڈرلزم کو لازمی سمجھنا پڑے گا۔ اس کی بڑی اہمیت ہے،اس میں ہوتا یوں ہے کہ کوئی علاقہ زیادہ ٹیکس وصول کررہا ہوتا ہے اور کوئی کم ،اگر کسی کے پاس آئینی طور پر ہی کم ٹیکس جمع ہوتے ہیں لیکن اخراجات اس سے زیادہ ہیں تو وہ اخراجات کے لیے کہاں سے پیسے لائے گا، تو اس کے لیے ایک میکنیزم ہیں،پاکستان میں بھی یہ میکنیزم ابتدا سے ہے، ابتدا میں گڈزسروسز پر سیلز ٹیکس صوبائی اور انکم ٹیکس وفاقی معاملہ تھا۔ لیکن وفاق نے کچھ مجبوری کے سبب سیلز ٹیکس بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
اب ٹیکس آمدنی کا بڑا حصہ وفاق کے پاس جاتا ہے،اس کے بعد سے این ایف سی صوبوں کےلیے لائف لائن ہے اگر وہاں سے فنڈنہ آئے تو صوبے کچھ نہیں کرسکتے۔1974 سے اب تک کئی بار این ایف سی ہوئے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایوارڈ ایک مرتبہ بننے کے بعد وہی چلتا رہے گا۔ آئینی طور پراین ایف سی کا ہر پانچ سال بعد جائزہ لینا چاہیے اور اس پر تجزیے رائے تجاویزآتی رہنی چاہیے۔چاہے اسے حکومت پرانے ریشو پر ہی جاری رکھے یا نہ کرے لیکن اس پر غور ہوتے رہنا چاہیے۔ میں پچھلے 25سال سےاس پر کام کررہا ہوں، مجھے دوہزار سات سے نو تک این ایف سی میں سندھ کی نمائندگی کا بھی موقع ملا ہے۔
میرے نزدیک سب سے بہترین ایوارڈ2007 کا کہلانا چاہیے۔ 1974 کا پہلا ایوارڈ ایک معیار پر ہوگیا تھا اس دور کی اپنی ضرورت تھی۔ اس کے بعد جو ہوئےوہ اتنے جامع نہ تھے اور زیادہ تر نگراں دور حکومت میں بھی ہوئے ۔دوہزار سات والے این ایف سی ایوارڈ کےلیے عوام کی نمائندہ حکومت تھی جس میں سب کی دلچسپی تھی۔ہم ایوارڈ میں دو چیزوں کا جائزہ لے کر گفتگو کرتے ہیں، پہلی ہوریزینٹل تقسیم اور دوسری ورٹیکل تقسیم کہلاتی ہے۔
اگر ہم مثال کے طور پر وفاقی حکومت کو ایک شاخ اور صوبوں کو دوسری سمجھ لیں تو وفاقی حکومت سے صوبائی حکومت کو کتنا حصہ ملنا چاہیے یہ ورٹیکل ڈسٹری بیوشن ہےاور صوبوں کو کتنا حصہ ملنا چاہیے یہ ہوری زینٹل ڈسٹری بیوشن ہے۔ 1974 سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ تک یہ تقسیم بنیادی طور آبادی کی بنیاد پر ہی تھی ساتواں این ایف سی ایوارڈپہلاایوارڈ ہے جس میں چاروں صوبوں کی ڈیمانڈ کو تسلیم کیا گیا، سندھ کا مضبوط موقف ٹیکس پرتھا، بلوچستان پسماندگی اور آبادی دونوں پر، پنجاب ہمیشہ سے آبادی کی بنیاد پراین ایف سی پسند کرتا رہا ہے اور اس کا زیادہ زور اسی پرہوتا ہے، خیبرپختون خوا کےلیے بڑی مشکل سے وار اینڈ ٹیرر کی بنیاد پر کچھ گرانٹ کی بات کی گئی تھی۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے صوبوں کے بہت سارے مسائل حل کیے تھے۔
اگر ہم پانچویں این ایف سی ایوارڈ کا جائزہ لیں تو جب صوبوں کا حصہ 37 اعشاریہ پانچ فیصد اور وفاق کا 62اعشاریہ پانچ فیصد ہوتا تھا۔ساتویں میں پہلے سال 56اعشاریہ پانچ فیصد اور دوسرےسال57اعشاریہ پانچ فیصد صوبائی اورباقی حصہ وفاق کا تھا، اس ایوارڈ میں بھی آبادی کی بنیاد پر سب سے زیادہ 85فیصد حصہ رکھاگیا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ اگر وفاق صوبوں کو سو روپیہ دیتی ہے تو 51روپے کے قریب پنجاب کو جاتے ہیں چوبیس اعشاریہ پانچ سندھ ، نو اعشاریہ زیرونو بلوچستان اور باقی خیبرپختون خوا کو جاتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈجب بھی ہوتا ہے تو اس موقع پر پانچ سال کےلیےکچھ پروجیکشن کئےجاتے ہیں، جس کےلیے وفاق نے این ایف سی سیکریٹریٹ بنایا ہوا ہے وہ مختلف اداروں سے مدد لیتے ہیں ادارے مختلف انڈی کیٹرز کی مدد سے پروجیکشن کرتے ہیں۔
این ایف سی سیکریٹریٹ کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ہرچھ ماہ بعد یہ رپورٹ لکھے کہ کیا ہورہا ہے کیا ہونا چاہیے لیکن اگر ابھی ان کی ویب سائیٹ کو چیک کریں تو معلوم ہوگا کہ دوہزار اکیس سے کوئی رپورٹ نہیں ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب صورت حال یہ ہےکہ ساتویں کے بعد سے نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں ہوا ہے ہر پانچ سال کے بعد یہ ہوتا ہے بغیر کسی میٹنگ یا ایک دو میٹنگ اور کوئی پریزینٹیشن دکھانے کے بعد ایک صدارتی آرڈر جاری کردیا جاتا ہے۔ اب ہم دسویں این ایف سی میں ہیں لیکن اس پر بھی اب تک کوئی جامع گفتگو نہیں ہوئی ہے۔
جنگ: کیا این ایف سی ایوارڈ میں کسی کمی بیشی کی گنجائش ہے؟
محمد صابر: اٹھارویں ترمیم میں یہ ہوا تھا کہ ورٹیکل شیئر یعنی وفاق سے جو شیئر صوبوں کو دیئے جاتے ہیں اس میں کوئی کمی نہیں کی جاسکتی، نویں این ایف سی کے موقع پر وفاق نے کچھ تجاویز دی تھیں کیوں کہ آئینی طور پر صوبے کے شیئر کو کم نہیں کرسکتے تو وفاق نے اپنے چند اخراجات صوبوں میں منتقل کرنے کا کہا تھا۔ ان اخراجات میں ڈیبٹ سروسنگ، گرانٹ، سبسڈیز اور انکم سپورٹ پروگرام میں شیئرنگ وغیرہ شامل تھی۔ ایسے چند نکات پر گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔
جنگ: متفقہ این ایف سی ایوارڈ کو اب آخر کیوں متنازعہ بنایا جارہا ہے؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی: این ایف سی آئینی باڈی ہے جس کا ذکر آئین میں موجود ہے،یہ نورکنی باڈی ہےجس میں وفاقی اور صوبائی پانچ وزیرخزانہ اور ہرصوبے سے ٹیکنیکل رکن ہوتا ہے اس طرح یہ نوممبر بنتے ہیں، ساتویں این ایف سی کے موقع پر میں سندھ سےٹیکنیکل ممبر تھا صابر لیڈکنسلٹنٹ تھے،جب آپ کسی بھی معاملے کے حل کے لیے بات چیت میں جاتے ہیں تو سو فیصد نتائج کبھی نہیں ملتےآپ کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرکےہی اٹھتے ہیں۔لیکن این ایف سی ایوارڈ میں سندھ نے سوفیصد کامیابی حاصل کی تھی۔
اس این ایف سی کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ متفقہ دستاویز ہے جس میں سب خوش اور مطمئین تھے۔ ایسے ملک میں جہاں کئی اختلافات مختلف طرح کی کشیدگی اور تقسیم ہے، اس میں کوئی چیز متفقہ ہونا منفرد واقعہ ہے۔این ایف سی کے پانچ مہینے میں سولہ مرتبہ میٹنگ ہوئی اور کسی ایک میں بھی بدمزگی کا ایک واقعہ نہیں ہوا تھا۔ ساتویں این ایف سی میں ایوارڈ کی تقسیم آبادی، ٹیکس اور پسماندگی کی بنیاد پر کی گئی جس سے وسائل کی تقسیم میں دوسروں کو بھی حصہ بڑھا تھا۔
پہلے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر تھی جس سے صرف صوبہ پنجاب کو فائدہ ہوتا تھا۔لیکن پنجاب نے بھی اتفاق کیا تھا جس کی وجہ وفاق کا اس ایوارڈ پر اتفاق کرنا تھا۔ ہم ایک نکات سے چارنکات پر گئے تھے تو جولوگ سمجھتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا جب چیزیں تقسیم ہوتی ہیں تو حصے میں فرق بھی پڑے گا۔آبادی کا کرائی ٹیریا گراکر 82 فیصد ہوگیا، اس تبدیلی سے صرف پنجاب کو خسارہ ہورہاتھا اور وہ اپنا حصہ کم کرنے میں تیار نہیں تھا کوئی بھی اپنا نقصان برداشت نہیں کرتا پھر معاملے کو سلجھانے کے لیے وفاق نے اپنا شیئرکم کرکے پنجاب کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
وفاق نے اپناحصہ کم کرکے صوبے کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔معاملے کو نمٹانے کےلیے وفاق نے مثبت کردار ادا کیا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ تنازع کیوں پیدا ہورہا ہے،جب این ایف سی پر میٹنگ ہورہی تھی ان ہی دنوں اٹھارویں ترمیم پربھی کام جاری تھا،آئینی میٹنگ میں جو ہورہاتھا ہمیں اس سے آگاہ کیا جاتا تھا، این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کمیٹی مل کر کام کررہے تھے۔
ہمیں بتایا گیا کنکرنٹ لسٹ ختم ہورہا ہے73 کے اوریجنل آئین میں دولسٹیں تھیں،ایک فیڈرل لسٹ اور دوسری کنکرنٹ لسٹ، فیڈرل لسٹ سے مراد پارلیمنٹ صرف قانون سازی کرے گی، کنکرنٹ لسٹ وہ ہے جس میں صوبے اور فیڈریشن دونوں قانون سازی کرسکتے ہیں لیکن جہاں اختلاف ہوگا وہاں صوبائی نہیں وفاقی قانون پر عمل درآمد ہوگا۔
کنکرنٹ لسٹ کے47آئیٹم تھے۔چھوٹے صوبوں کامطالبہ تھاکہ اتنا بڑا کنکرنٹ لسٹ ہے ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں،صوبوں کے پاس کوئی اختیارنہیں ہے ان کے مطالبے پرکنکرنٹ لسٹ کو ختم کردیا گیا اور وفاق نے 47آئٹم صوبوں کے حوالے کردیا، اس سے وفاق کی ذمے داری میں کمی اور صوبے کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوگیا، اسی وجہ سے وفاق کا شیئر کم ہونا جسٹیفائی ہوا تھا یعنی وفاق سے 47آئیٹم کی ذمہ داریاں صوبوں میں منتقل ہوگئیں۔
ہم سمجھتے تھے کہ ان آئٹم کو صوبوں کو منتقل ہونے سے وفاق کی بہت سی وزارتیں ختم ہوجائیں گی اوراس طرح وفاق کے اخراجات کم ہوجائیں گے۔ لیکن دوہزار دس میں این ایف سی آنےکے بعد بھی وفاقی حکومت نے کوئی بھی وزارت بند نہیں کی بس نام بدل دیئے مثلا ایگریکلچرل منسٹری کو فوڈسیکورٹی اورایجوکیشن منسٹری کو پروفیشنل ٹریننگ منسٹری کا نام دے دیا اسی طرح اور دیگرڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بھی یہ ہی کیا۔
وفاق اب یہ کہتا ہے کیوں کہ ہم نے صوبوں کو57 فیصدحصہ دے دیا اس لیے ہمیں مالی بحران کا سامنا ہےاور وہ صوبوں سے پیسے لینا چاہتے ہیں۔اسلام آبادمیں بیٹھے لوگ جس میں کراچی میں بھی چند موجود ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ بات وہاں سے ہی کہی جارہی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ ٹھیک نہیں ہے۔
آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔آئی ایم ایف کا مسئلہ صوبائی خسارے سے نہیں ہے ان کا وفاق سے تعلق ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں خسارے کم کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ صوبوں سےلے لو۔لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ وفاق نے وہ وزارتیں ختم نہیں کیں جو اس نے کرنی تھی۔ جو فنکشن صوبوں کو چلے گئے وہ ادارے آج بھی وفاق میں کیوں موجود ہیں، یہ بحران وفاق نے خودپیدا کیا ہے، نہ صوبے ذمے دارہیں اور نہ این ایف سی کی وجہ سے ہے۔ یہ ساری خرابی وفاق کی وجہ سے ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کے دفاع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ 30دسمبر2009 کو این ایف سی ایوارڈ پر گوادر میں دستخط ہوئے اور مارچ2010 کو وہ قانون بن کر نافذ ہوگیا۔ اس موقع پر چاروں صوبوں کےوزرا علیٰ اور وزیرخزانہ موجود تھے، سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو اس وقت وزیرخزانہ بھی تھے ان کے دستخط ہوئے اور میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔ معاہدہ ہوتے ہی سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے شور مچا دیا کہ وزیراعلیٰ سندھ اور قیصر بنگالی نے سندھ کو بیچ دیا ہے،جتنا حق تھا وہ نہیں لیا، تو وزیراعلیٰ سندھ نے مجھے بلایا اور کہاجاؤ ملاقات کرو اور انہیں سمجھاو۔
اس زمانے میں شازیہ مری وزیراطلاعات تھیں انہوں نے دو پریس کانفرنس کی تین سندھ کے مختلف مقامات پر لوگوں کو بتانے کےلیے جلسے کئے اور وہاں ہم نے این ایف سی کےمتعلق آگاہ کیا، پھر سندھ اسمبلی میں بھی اس کے متعلق بتایا، اسمبلی کے رولز کے مطابق کوئی غیررکن اسمبلی ہال میں نہیں جاسکتا اور بات نہیں کرسکتا تو اسپیکر نے قانون کے ذریعے تمام اسمبلی کوایک اس موقع پر کمیٹی ڈیکلیر کردیا اور وہاں موجود وزیٹرز گیلری میں سارا سیٹ اپ لگایا گیا اور انہیں بتایا کہ ہم نے اس میں کیا کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ سارے ارکان خوش اور مطمئین ہوگئے تھے۔ لیکن اس ایوارڈ کا سب سے مثبت پہلو جوسامنے آیا،سندھ کی تمام قوم پرست جماعتیں پنجاب مخالف تھیں۔
دو ہزار دس میں اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ہونے کے بعد دوہزار تیرہ میں ملک میں عام انتخابات ہوئے،اس میں دلچسپ بات جو ہوئی کہ سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے مسلم لیگ ن سے اتحاد کیا تھاجو پنجاب کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی بدولت پنجاب مخالف سوچ کا خاتمہ ہوا۔قوم پرست جماعتوں کے اس اتحاد سے قومی یکجہتی نظر آئی، ایوارڈ سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔ تو جو لوگ این ایف سی ختم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ اس ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں اس سے صرف پیسے ایک اکاوئنٹ سے دوسرے اکاوئنٹ منتقل ہوں گے وہ دراصل اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سندھ میں پنجاب مخالف سیاست ختم ہوئی اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں آج بھی اس ہی کی اتحادی ہیں،سندھ کو حزب اختلاف کو آج بھی ن لیگ چلارہی ہے، پی ٹی آئی سمیت ساری قوم پرست جماعتیں ان کے ساتھ ہیں، اٹھارویں ترمیم یااین ایف سی کے خلاف کوئی بھی کارروائی فیڈریشن کو نقصان پہنچائے گی اب اسلام آباد میں بیٹھے اکاوئنٹنٹ یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ فیڈریشن کی سلامتی چاہتے ہیں یا پیسوں کی ہوس میں ناپسندیدہ فیصلے کریں گے۔
جنگ: این ایف سی ایوارڈ میں اگر تبدیلی کی گئی تو اس کے کیااثرات ہوسکتے ہیں؟
قیصر بنگالی: صوبوں 57اعشاریہ پانچ فیصد حصہ ہے،اگر صرف ایک فیصد صوبوں کا حصہ کم کردیں اس طرح صوبوں کا پیسہ کم ہوگا،پنجاب کا این ایف سی میں 52 فیصد حصہ ہے اس طرح پنجاب کے ہر سو روپے سے 52روپے کم ہوں گے،سندھ کا حصہ 24فیصد ہےاس طرح اس کے سو میں24 روپے کم ہوں گے، اسی طرح بلوچستان کے نوروپے کم ہوں گے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو ہوگا، لہذا پنجاب کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ این ایف سی کےخلاف مہم پر زیادہ مزاحمت کرے۔
محمد صابر: وفاق اپنے مسائل کے حل کےلیے انتہائی فیصلہ کرتے ہوئےصوبوں کا شیئر زیرو بھی کردے اور ایک پیسہ بھی صوبوں کو نہ دے توبھی اس کا خسارہ جی ڈی پی کا دو فیصد ہوگا دو فیصد کا مطلب دو ٹریلین روپے یعنی 20 کھرب روپے خسارے کا وفاق کو سامنا ہوگا،این ایف سی کے بعد بھی وفاق اپنا خسارہ ختم نہیں کرسکتا، لیکن اگرسود کی مد میں دی جانے والی ادائی کو زیرو کردیں تو وفاق کا بجٹ خسارہ ختم ہوجاتا ہے، میں سمجھتا ہوں مسئلہ این ایف سی ایوارڈ نہیں بلکہ سود کی ادائی ہے۔اور اس کی وجہ جو انٹرسٹ ریٹ چھ اور سات ہوتا تھا وہ آج 22فیصد ہے اور وفاق بینکوں سے 23فیصد انٹرسٹ پر پیسے لے رہا ہے۔
ایک رائے یہ بھی دی جاتی ہے قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے انٹرسٹ ریٹ بڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ مثلا آج اگر حکومت پاکستان یہ اعلان کرے کہ ہم ہرپاکستانی کو پچاس ہزار روپے ٹرانسفر کررہے ہیں تو بتائیں پھر کون کام کرے گا،سب کو گھر بیٹھے پیسے مل رہے ہیں، جب لوگ کام کرنا چھوڑ دیں گے تو کیا ملک میں کسی بھی چیز کی پیداوار ہوگی، اور جب پیداوار نہیں ہوگی تو مہنگائی کم ہوگی یا بڑھے گی۔
جب آپ سات ٹریلین روپے ایسے ہی دے رہے ہیں اور یہ پیسے کسی غریب ضرورت مند پاکستانی کو نہیں دے رہے یہ آپ مال دار بینکرز خوش حال لوگوں کو دے رہے ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ملک ایسا ہے جو پریشان ہے کہ وہاں ہرماہ قیمتیں کم ہورہی ہیں، وہ ملک ہے چین، دنیا کے ساتھ چین خود بھی پریشان ہے کیوں کہ سپلائی بہت زیادہ ہے تو قیمتیں کم ہورہی ہیں۔
جنگ: دو ہزار دس میں این ایف سی ایوارڈ نافذ ہونے کے بعد صوبوں کے ہیلتھ، تعلیم اور سماجی صورت حال پر کیا اثرات پڑے؟
محمد صابر: اس کے بعد سے بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں،میرا تعلق کراچی سے ہے مجھے سب سے زیادہ تبدیلی صحت کے شعبے میں نظرآئی،اس شعبے میں بہت سی خدمات بہتر ہوئیں ہیں، شکایت تو رہے گی، آج لوگ نجی کے بجائے سرکاری اداروں میں پڑھانے کو زیادہ فوقت دیتے ہیں کیوں کہ وہاں فوائد زیادہ ہیں، لیکن پڑھنے کے لیے نجی اداروں کو فوقت دیتے ہیں، تعلیم میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے انفرااسٹرکچر میں مزید بہتری کی ضرورت ہے جو پیسے خرچ ہورہے ہیں اس کے فوائد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔لیکن اس کا یہ بھی حل نہیں ہے پیسے اور اختیار صوبوں سے واپس لے کر وفاق کے حوالے کردیا جائے۔
جنگ:صوبے اپنے وسائل بڑھانے کے بجائے وفاق سے ہی کیوں مانگتے رہتے ہیں؟
قیصر بنگالی: اٹھارویں ترمیم کو ہوئے صرف بارہ سال ہوئے ہیں قوموں کی زندگی میں یہ زیادہ وقت نہیں ہے، سسٹم تبدیل کرنےمیں وقت لگتا ہے۔ابھی بہت سے شعبوں جیسے ایجوکیشن کی بات ہوئی اسے بہتر کرنےکی ضرورت ہے یہ مسئلہ پیسوں کا نہیں سسٹم کا ہے۔ یہ بھی درست بات ہے کہ بہت سی چیزیں پرانے طریقے سے ہی چل رہی ہیں اور اس کی وجوہات میں بیرونی دلچسپی بھی ہے۔ گھوسٹ اسکول آج بھی موجود ہیں۔ لیکن ہیلتھ میں بہت کام ہوا ہے،دیہی سندھ ڈسپنسریوں کی سہولت کےحوالے سے بہت اچھا ہے وہاں ڈاکٹر دوائی اور مریض سب موجود ہیں۔
علاج مل رہا ہے تو جب ہی تو مریض وہاں آتے ہیں۔این آئی سی وی ڈی کے اسپتال اور ان کے ایمرجنسی کنٹینر آپ کو کئی مقام پر نظرآتے ہیں، صرف کراچی میں بائیس مقامات پر یہ سہولت موجود ہے۔ سندھ بھرمیں سڑکیں بہت اچھی ہوگئیں ہیں، حیدرآباد میرپورخاص کی ہائی وے سکھر سے آگے جانے والی موٹر وے سےزیادہ اچھی ہے، لہذا یہ کہنا غلط ہے صوبوں نے کچھ نہیں کیا، این ایف سی کے بعد صوبوں نے بہت کچھ کیا ہے۔
جی ایس ٹی سروسز پہلے وفاق کے پاس تھا اور وہ صوبوں کو حصہ دیتے تھے دوہزار دس جس سال این ایف سی ایوارڈ ہوا اس مد میں وفاق سے سندھ کو پندرہ ارب روپے ملے، اس کے ایک سال کے بعد سندھ نے 25بلین روپے جمع کئے تھے۔ بلوچستان کو وفاق سے700ملین روپے ملتے تھے این ایف سی کے بعداب ان کی وصولی ڈھائی کھرب روپے ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں صوبوں کی کارکردگی کیا ہے اور ایف بی آر کیا کرتارہا ہے۔
حاضرین کے سوالات
آصف علی: گوادر پورٹ،معدنی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ صوبہ بلوچستان کو این ایف سی میں شیئرصرف نوفیصد ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
قیصر بنگالی: این ایف سی پہلے بلوچستان کا حصہ پانچ فیصد تھا اس کو بڑھانے کے بعد یہ نوفیصد ہوا ہے۔ بڑھانے کی وجہ بھی یہ ہی ہے جس کاذکر آپ کررہے ہیں، این ایف سی میں حصے کےلیے آبادی ایک معیار ہے،بلوچستان کی آبادی صرف چھ فیصد ہے اسے فائدہ پہنچانے کےلیے ہم نے رقبے کو بھی اس میں شامل کیا جو 44 فیصد ہے، ہم نے اس میں غربت کو بھی شامل کیا،وہ سب کرنے کے بعد بھی اس کا حصہ نو فیصد بنتا ہے،پچھلے 75سال سے بلوچستان کا خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر سوفیصد بھی این ایف سی کا حصہ دے دیں تو وہ پورا نہیں ہوگا۔این ایف سی بلوچستان کے مسائل کی جڑ نہیں ہے، بلوچستان کے حصہ کم ہونے کی وجہ ریونیوکا نہ ہونا ہے۔
زمار جوکھیو: اگر نیاصوبہ وجود میں آتا ہے تو این ایف سی میں اسے کیسے شامل کیاجائے گا کیوں کہ آئینی طور پر تو کسی صوبے کو شیئر توکم نہیں کرسکتے۔
قیصر بنگالی: یہ مسئلہ نہیں ہے اگر چار کی جگہ پانچ صوبے ہوتے ہیں تو اسی فارمولے کے مطابق وہ تقسیم ہوجائے گی۔
جنگ: آئین کے تحت صوبوں کو اپنے وسائل پر اختیار ہے تواب تک اس قانون پر بھی کیوں عمل درآمد نہیں ہوا ۔
قیصر بنگالی: اختیار تو ہے، آئین کے تحت تیل اور گیس وفاق اور صوبوں کا مشترکہ اثاثہ ہے، اس پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہوا وفاق ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔ یہ معاملہ بھی متنازع ہے۔
جنگ: آئی ایم ایف این ایف سی کی کیوں مخالفت کررہاہے؟
محمد صابر: آئی ایم ایف کی توجہ دو چیزوں پر ہے، ایک ٹیکس بڑھایا جائے اور دوسرا خسارہ کم کیاجائے، اس میں نہ گروتھ اور نہ ہی سرمایہ کاری کی بات ہورہی ہے توجس ملک کی پیداوار زیرو ہو وہاں ٹیکس کیسے بڑھایا جاسکتا ہے۔ہمیں اپنے نظام کی کمزوریاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگ: اگر ہم ٹیکس نیٹ نہیں بڑھائیں گے تو اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
محمد صابر: ہم آدھے سے زیادہ اپنے وسائل ڈیبٹ سروسنگ کے نام پر خرچ کررہے ہیں۔
قیصر بنگالی: زرعی ٹیکس وفاق کو دینے کےلیے آئین میں تبدیلی ضروری ہے،ٹیکس اتنا ہی جمع ہوسکتا ہے جتنی بڑی بیس ہو،ٹیکس دینے کے لیے شرح رکھی جاتی ہے ہمارے اسی فیصد کسان چھوٹے ہیں وہ ویسے ہی انکم ٹیکس سے نکل جائیں گے، میرے خیال میں ملک میں بڑے کسانوں کی تعداد سوسے کم ہوگی۔
جنگ: کیا این ایف سی میں سیکورٹی کے معاملات بھی شامل کرنے کی بات کی جارہی ہے؟
قیصر بنگالی: انفارمل تجویز ہے جو ابھی این ایف سی کے ایجنڈے پر نہیں آیاہے،دوہزار آٹھ اور نو ساتویں ایوارڈ کے موقع پر خیبرپختون خوامیں دہشت گردی بہت تھی تو ہم نے اس موقع پر یہ طے کیا تھا کہ ایک فیصد پہلے ہم کے پی کے کو دیں گے اور اس کے بعد باقی 99فیصد کو فیڈریشن اور صوبوں میں تقسیم ہوگی۔ اسی مثال کو بنا کر اب یہ کہاجارہا ہےکہ کیوں کہ ایک فیصد آپ خیبرپختون خوا کو دے رہے ہیں لہذا سات فیصد وفاق کوبھی دیں جس میں تین فیصد سیکورٹی فورسز کے لیئے اور چارفیصد فاٹا اور گلگت بلتستان کےلیے ہو۔
زمار جوکھیو: اگر نیاصوبہ وجود میں آتا ہے تو این ایف سی میں اسے کیسے شامل کیاجائے گا کیوں کہ آئینی طور پر تو کسی صوبے کو شیئر توکم نہیں کرسکتے۔
قیصر بنگالی: یہ مسئلہ نہیں ہے اگر چار کی جگہ پانچ صوبے ہوتے ہیں تو اسی فارمولے کے مطابق وہ تقسیم ہوجائے گی۔
جنگ: این ایف سی پر جو تنازعہ کھڑا کیاجارہا ہے یہ مہم کتنی طاقتورہے۔
محمد صابر: آوازیں کتنی بھی طاقت ور ہوں این ایف سی میں تبدیلی کا ایک ہی طریقہ ہےجب تک اس سسٹم میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز متفق نہیں ہوں گے کسی دستاویز پر دستخط نہیں کریں گے اس میں تبدیلی ناممکن ہے،پچھلے دو مرتبہ صدارتی حکم نامے آیا لیکن اس سے بھی کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوئی ہے۔
جنگ: این ایف سی کو متنازع کرنے کی کچھ جگہ پر گفتگو ہورہی ہے،صوبے جو اس کے اسٹیک ہولڈرہیں ان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہے۔
قیصر بنگالی: جب کوئی ایسی چیزآتی ہےہم اخبار اور چینل پراس کا جواب دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ این ایف سی سیکریٹریٹ کو خط لکھتے ہیں جس میں وہ این ایف سی کی حمایت میں سندھ کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے اس کاجواب دے کر ریکارڈ پرلاتے ہیں۔
دوسروں صوبوں کے حوالے سے میں یہ کہوں گا،خیبرپختون خوا اور پنجاب میں ان ہی کی حکومت ہے جو وفاق میں ہیں اور بلوچستان کا معاملہ بہت مختلف ہے صرف سندھ کی حکومت ہی این ایف سی کے حق میں موقف دیتی ہے۔
جنگ: انڈیا امریکا اور دوسرے ممالک میں صوبوں کو مالی خودمختاری حاصل ہے وہ آمدنی بڑھانے کے ٹیکس لگاسکتے ہیں ۔کیا مستقبل میں پاکستان میں یہ ممکن ہے۔
قیصر بنگالی: اس میں اسڑکچرل مسائل ہیں ہماری انڈسٹری چند شہروں تک ہے،اگر یہ حق صوبوں کو مل گیا تو پنجاب اور سندھ تو مالامال ہوجائیں گے،لیکن خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے،مشترکہ وصولی سے ہی ان دوصوبوں کو پیسے ملتے ہیں،این ایف سی ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ کیوں کہ پاکستان میں برابری سےڈویلمپنٹ نہیں ہوئی ہے۔جب تک پسماندہ علاقے اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے اس کی ضرورت رہے گی۔
جنگ: این ایف سی ایوارڈ میں اضافے کے امکانات ہیں؟
قیصر بنگالی: کوئی امکان نہیں ہے۔
جنگ: یہ کہاجاتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ صوبوں تک تو آیا لیکن نچلی سطح تک نہیں گیااس پر کیا کہیں گے؟
محمد صابر: پہلے آکٹرائے ضلع ٹیکس ملاکرتا تھاہر لوکل گورنمنٹ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی وہ پہلے وفاق کے پاس تھا اب صوبوں کے پاس ہے،ابھی پی ایف سی اور اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے۔
قیصر بنگالی: اس میں کوئی شک نہیں لوکل گورنمنٹ کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوکل گورنمنٹ کیوں نہیں ہے یہ کسی بھی صوبے میں نہیں ہے،لوکل گورنمنٹ کے سارے اختیار صوبوں کے پاس ہیں، پاکستان میں لوکل گورنمنٹ مارشل لا دور مضبوط ہوتی ہے کیوں کہ اس وقت کمزور سیاسی جماعت اور کمزور صوبوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی لیے مقامی حکومتوں کو مضبوط کیاجاتا ہے۔
اسی وجہ سے سیاسی حلقوں میں لوکل گورنمنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ اسے آمرانہ طاقتوں کو انسٹرومنٹ سمجھتے ہیں۔ہمیں این ایف سی اور پی ایف سی پر ایک ساتھ گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ این ایف سی صوبوں کا حق ہے اورصوبائی خودمختاری کی ضرورت ہے۔