میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
شرکاء: ڈاکٹر عدیل ملک (ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونی ورسٹی آف آکسفورڈ، لندن)
مزمل اسلم (مشیر خزانہ، وزیر اعلیٰ، خیبر پختون خواہ)
زبیر طفیل (سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
جاوید بلوانی (صدر، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
پچھلے20 برسوں سے میں نے ایک بجٹ بھی ایسا نہیں جسے عوام دوست کہا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی بجٹ نے بھی اہمیت اختیار کرلی ہے، آئی ایم ایف کی بجٹ شرائط بہت سخت ہیں، اس کی پہنچ صوبوں تک چلی گئی ہے اب وہ وفاق کے ذریعے صوبوں کو بھی پابند کررہے ہیں، صوبائی ترسیلات، محصولات، اخراجات یا ٹیکس سب چیک ہورہا ہے، زراعت پر ٹیکس لگادیا پراپرٹی ٹیکس اور نان ٹیکس اخراجات کی بات ہورہی ہے۔
آئی ایم ایف پوچھ رہا ہے کس صوبے نے تعلیم اور صحت پرکس شکل میں اخراجات کئے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام صوبوں کے حوالے کرنے کا کہا جارہا ہے، وفاق نے آج تک18 ویں ترمیم پراس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا، سندھ اور بلوچستان وہ صوبے ہیں جہاں وفاق نے کوئی موٹروے نہیں بنایا، پٹرول کو بھی اوپن کردیں، وفاق اپنا ٹیکس مختص کرکے کمپنیوں پر چھوڑ دے، آنے والا بجٹ کسی طور بھی عوام دوست نہیں ہوگا۔
مزمل اسلم
پچھلے تین دہائیوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معاشی نمو غیر مستحکم رہی اور سرمایہ کاری اور برآمدات قابلِ ذکر نہیں رہیں۔بینکنگ، سروسز اور رئیل اسٹیٹ ترقی کے بڑے انجن رہے۔ موجودہ معاشی نظام عدم استحکام کا شکار ہے جو جاری رہا تو اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تشدد کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، پائیدار ترقی کے لیے گورننس کے موجودہ ماڈل کا ازسرنو جائزہ بہت ضروری ہے، وزارتِ خزانہ منتخب سیاست دانوں کے پاس ہونا چاہئے ایسی نئی صنعتی پالیسی بنانی ہوگی جو خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا بھی ایک حصہ ہو۔
ڈاکٹر عدیل ملک
پورے ریجن کی سب سے مہنگی بجلی پاکستان میں استعمال ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے ہم ٹھیک طرح سے ایکسپورٹ نہیں کر پارہے، حکومت غیرضروری اخراجات کم کرے، نقصان میں چلنے والے اسٹیٹ انٹرپرائزز کی جلد نج کاری کرکے قومی خزانے سے اس کا بوجھ کم کرے، زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا اچھا اقدام ہے۔
ایک لاکھ ماہانہ آمدنی پر ٹیکس چھوٹ ہوناچاہیے، کم از کم 37 ہزار ماہانہ اجرت بہت کم ہے اسے بڑھا کر50 ہزار روپے کیا جائے، ٹریڈرز ایک فیصد بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں، یہ حکومت کو کچھ نہیں دینا چاہتے شٹر بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
زبیرطفیل
پاکستان میں انڈسٹری گروتھ منفی ہے ،جس کی وجہ یوٹیلٹی کی قیمت زیادہ ہونا ہے، کم از کم اجرت پہلے کم تھی اب زیادہ ہے پھر انکم ٹیکس کا اضافہ بھی مسئلہ ہے اتنا زیادہ ٹیکس ہمارے مسابقتی کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے، ایک زمانے میں کپاس کی14 ملین بیلز ہوتی تھیں آج ساڑھے پانچ ملین بھی نہیں ہیں، ایف بی آر کا بجٹ بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے یہ وزارت خزانہ اور کامرس کا کام ہے۔
بینکوں سے90 فیصد قرض حکومت پاکستان لے رہی ہے انڈسٹری کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اس ملک کو بینک اور آئی پی پیز کھا گئے ہیں، انرجی سستی ہوگی تو انڈسٹری لگے گی حکومت انرجی ریٹ علاقائی ملکوں کے برابر کرے ورنہ ایکسپورٹر کے لیے توکرہی دے تاکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو جو ایکسپورٹ بڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کا صرف چار سے چھ فیصد کارگو ریلوے کے ذریعے جاتا ہے بلین ڈالروں کا ہمارا فیول ٹرالروں میں خرچ ہورہا ہے۔
جاوید بلوانی
نیا بجٹ عید قرباں کے فورا بعد ہے، اور خدشہ ہے کہ عوام سے بڑی قربانیاں مانگے گا، پاکستان کے معاشی اور اقتصادی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، اب ریاست کے اخراجات پورا کرنے کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ ٹیکس آمدن کہاں سے کیسے ہو؟ اب تو عوام میں سکت ہی نہیں ہے، قوت خرید صفر ہے۔
اب کس کو ٹیکس کرو گے، تاجروں سے وصولیوں میں ناکام ہیں، ریئل اسٹیٹ سے نصف بھی نہیں جمع ہوا، زراعت سے نکالو گے؟ سیلز ٹیکس میں اضافہ کرو گے؟ انڈسٹری پو بوجھ مزید بڑھاو گے؟ دفاع میں بھی زیادہ رقم دینی ہو گی، دیکھئے کیا گزرتی ہے، کیسے گزرتی ہے، یہ جاننے کے لئے " بجٹ ۔۔۔ بڑے چیلنجز" کے موضوع پر آن لائن جنگ فورم میں ماہرین سے بات کی گئی۔
تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے
ڈاکٹر عدیل ملک
پاکستان کی معیشت کے تقریبا ہر شعبے پر اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔ یہی اشرافیہ سیاست میں موجود ہے اور معاشی پالیسیوں پر بھی انہی کا کنٹرول ہے ۔یہ موجودہ معاشی گورننس ماڈل ایک غیر پائیدار نظام بن گیا ہے جو معاشرے کے چند افراد کے مفاد کو پورا کرتا ہے۔
لہذا اشرافیہ، سول سوسائٹی ،سیاسی جماعتوں، تعلیمی اداروں اور ریاستی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین جامع مکالمے کے ذریعے پائیدار معاشی نمو کے لئے گورننس ماڈل کا ازسرِ نو جا ئزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں معیشت سے متعلق بحث میں پولیٹکل اکانومی پر بالکل بات نہیں ہوتی جو بنیادی طور پر اس ملک کی سیاست اور جیو پولیٹکس سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو فسکل پونزی اسکیم چیلنج کا سامنا ہے جس سے غریب آدمی، آئندہ آنے والی نسل اور معیشت کے پیداواری شعبے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پچھلے تین دہائیوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معاشی نمو غیر مستحکم رہی اور سرمایہ کاری اور برآمدات قابلِ ذکر نہیں رہیں۔
اس کے علاوہ بینکنگ ، سروسزاور رئیل اسٹیٹ ترقی کے بڑے انجن رہے ۔موجودہ معاشی نظام عدم استحکام کا شکار ہے جو اگر جاری رہا تو اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تشدد کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، پائیدار ترقی کے لیے گورننس کے موجودہ ماڈل کا ازسرنو جائزہ بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
معیشت اور سیاست پر اشرافیہ کا کنٹرول ہے، معیشت کی اصلاح کے لئے ممکنہ راستہ تمام فریقین کے مابین زیادہ سے زیادہ بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے، جہاں اشرافیہ کو اُن معاشی شعبوں کی طرف توجہ دلوانے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ افراد کو فائدہ پہنچائے، اعتماد کی فضا کو بحال رکھنے کے لیے وزارتِ خزانہ منتخب سیاستدانوں کے پاس ہونا چاہئے اور ایسی نئی صنعتی پالیسی بنانی ہو گی جو خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا بھی ایک حصہ ہو ایک وسیع البنیاد مباحثے کی ضرورت ہے کہ کیسے پاکستان میں مختلف اشرافیہ معاشی نمو کے لئے مشترکہ لائحہ عمل پر مل کر کام کر سکتے ہیں۔
مقامی حکومتوں کو حقیقی معنوں میں انتظامی اور مالی اختیارات دینا ہوگا، پاکستان کو پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لئے یہ سب اہم ہے، مینجمنٹ بہتر کرنے سے حکومت اورآئی ایم ایف کی ڈیل دوسری مرتبہ ہوئی ہے اور کرنسی کا استحکام ملا ہے اور ٹیکس نیٹ کا دائرہ کچھ وسیع کیا گیا ہے یہ اچھے اقدامات ہے اسے جاری رہنے کی ضرورت ہے۔
مزمل اسلم
اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی بجٹ نے بھی اہمیت اختیار کرلی ہے ،صوبوں میں بھی وفاق جیسا سلسلہ ہوتا ہے ،وفاقی بجٹ سے پہلے لابنگ ہوتی تھی جس میں کسی کو فائدہ ہوتا تھا اور کسی کو نقصان ،کسی کے لیے زیادہ فنڈ مختص رکھے جاتے تھے اب یہی کلچر صوبائی بجٹ میں بھی ہے، جیسے جیسے وفاقی حکومت کا وقت گزر رہا ہے آئی ایم ایف بھی وقت کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو سمجھتی جارہی ہے، حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے چیزیں چھپانے کی گنجائش کم سے کم ہورہی ہے اور ایسا لگتا ہے آئی ایم ایف ہماری جڑوں میں پہنچ گئی ہے، اسے ہمارے پورے حکومتی مالیات نظام کا لین دین سمجھ آگیا ہے، اسی وجہ سے آئی ایم ایف کی بجٹ شرائط بہت سخت ہیں اوراس کی پہنچ صوبوں تک چلی گئی ہے اب وہ وفاق کے ذریعے صوبوں کو بھی پابند کررہے ہیں۔
اس پروگرام سے پہلے تک ہر گفتگو آئی ایم ایف اور وفاق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس طرح جو کام وفاق خود نہیں کرسکتا تھا وہ صوبوں کےذریعے کرلیتا تھا آئی ایم ایف نے اب صوبوں پر بھی کڑی نظر رکھی ہے، صوبائی ترسیلات، محصولات، اخراجات یا ٹیکس سب کو چیک کررہا ہے، زراعت پر ٹیکس لگادیا پراپرٹی ٹیکس کی بات ہورہی ہے، نان ٹیکس اخراجات کی بات ہورہی ہے ، آئی ایم ایف پوچھ رہا ہے کس صوبے نے تعلیم اور صحت پرکس شکل میں اخراجات کئے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وفاق چلارہا ہے آئی ایم ایف اسے صوبوں کے حوالے کرنے کا کہہ رہا ہے، کیوں کہ جب پیسہ صوبوں کے پاس آرہا ہے تو وفاق پر یہ بوجھ کیوں اخراجات بھی صوبے کریں، ہائیر ایجوکیشن وفاق کے پاس ہے یہ بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے صوبے اپنی یونیورسٹیوں کا بوجھ خود اٹھائیں۔
پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ فنڈ پر آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وفاق صوبوں سے تعلق رکھنے والے تمام منصوبے مستقبل میں بھی نہ دے، صوبے اپنی اسکیمیں خود کریں اور جو منصوبے جاری ہیں وہ بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے لیکن صوبوں کے لیے اتنا سب کچھ ایک دم لینا ممکن نہیں ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد ابتدا میں صوبوں کی بڑی آمدنی تھی لیکن صوبوں نے اس آمدنی کا حساب کتاب بنالیا ہے ملازمتیں دے کر اداروں کو وسعت دے کراور کئی طرح کے کام کرکے لہذا میں سمجھتا ہوں ابھی صوبے اتنا بڑا خرچہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے لیے کہا جاتا تھا کہ وفاق کے 42اعشاریہ پانچ فیصد حصہ اور صوبوں کے پاس ساڑھے 57 فیصد ہے ،وہ وفاق کا خسارہ اور قرض بڑھا رہا ہے کیوں کہ سارے قرض اور سود کی ادائی، دفاع اخراجات، ملک میں کوئی ایمرجنسی آجائے تووہ خرچ کرتا ہے وہ تمام صوبوں کے بل پر قرض لیتا ہے اور صوبے ابھی قرض سے پاک ہیں، ان کے بجٹ کے حساب سے صوبوں پر قرض نہیں ہے۔
جب میں صوبوں میں گیا لیکن جانے سے پہلے میں یہ ہی بات کرتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے جو آئی ایم ایف کے پچھلے پروگرام میں ہوا ہے۔ صوبے کو کہا گیا وہ سرپلس دیں اور اپنے سرپلس سے آہستہ آہستہ وہ سرپلس بن جائیں تو جن بڑے اخراجات کا ذکر کیا گیا جیسے پبلک سیکٹر فنڈ ،بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام اور ہائیر ایجوکیشن پھر اسے بتدریج صوبوں میں منتقل کیا جائے، یہ کوشش ہورہی ہے۔ اس بجٹ میں صوبوں کے حوالے سے سرپلس ٹارگٹ دیئے جائیں گے۔
جو بجٹ ختم ہونے جارہا ہے۔ اس میں چار صوبوں کو 1200 ارب کا سرپلس دینے کی بات ہورہی ہے 9 مہینوں میں سندھ بلوچستان خیبرپختون خوا اور پنجاب چاروں صوبوں نے اپنا ہدف پورا کرکے وفاق کی لاج رکھی ہے ۔وفاق آئی ایم ایف کے سامنے کسی شرمندگی کے بغیر بات کررہا ہے۔
وفاق نے آج تک 18 ویں ترمیم پراس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا ہے ،وہ آج بھی ساری طاقت اپنے پاس رکھے ہوئے ہے، صوبوں میں اپنے ملازم بھیجتا ہے آئی جی ہو یا چیف سیکریٹری وفاق لگاتا ہے، سیلزسروسسز ٹیکس بہت معمولی ہوتا ہے اس کے سوا وفاق نے تمام ٹیکس اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں، کسی صوبے کو آزادی سے اپنی ٹیکس نظام بنانے کا اختیار نہیں ہے ،پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ فنڈ کے بڑے میگا پراجیکٹ وفاق نے اپنے پاس رکھے ہیں۔
وفاق پر جس صوبے کا اختیار زیادہ ہوتا ہے فائدہ بھی اسی کو ہوتا ہے۔ میں ایکنک کا ممبر ہوں سندھ نے اس میٹنگ میں باقاعدہ کہا کہ سندھ اور بلوچستان وہ صوبے ہیں جہاں وفاق نے کوئی موٹروے نہیں بنایا ،پنجاب میں کئی ہیں خیبرپختون خوا میں دو ہیں، صوبہ سندھ نےوفاق سے حیدرآباد سے سکھر موٹر وے بنانے کا مطالبہ کیا ہے، سندھ نے وفاق پر بہت زیادہ انحصار کیا ہوا ہے کہ وفاق کرے گا تو ہم کریں گے، میں اس موقع پر خیبر پختون خوا صوبے کی مثال دوں گا اس نے سوات موٹر وے خود بنائی ہے، سندھ حیدرآباد سےسکھر تک موٹروے وفاق سے ضرور بنوائے لیکن باقی شاخیں بھی صوبائی وسائل سے بنانی چاہیے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کی صلاحیت صوبہ سندھ میں ہے جس کی وجہ بندرگاہ پھر پراپرٹی ٹیکس بھی ،کراچی پاکستان کی آبادی کا دس فیصد ہے اس شہر میں ملک کا بڑا کاروبار ہے پورے پاکستان کی گاڑیاں کراچی میں رجسٹرہوتی ہیں، سندھ اس ایڈوانٹیج سے کراچی سمیت پورے سندھ کے ترقیاتی کام کے لیے استعمال کرے۔ ابھی تک وفاق نے ہائیرایجوکیشن کواپنے پاس رکھا ہوا ہے اس لیے تمام یونی ورسٹیاں پہلے وفاق کی طرف دیکھتی ہیں، کئی سال پہلے وفاق جو فنڈ دیتا تھا اسی پر منجمد کردیا ہے اسی وجہ سے صوبوں کو گرانٹس دینی پڑ رہی ہیں بہترتو یہ ہے کہ وفاق فنڈ براہ راست صوبوں کو دے ابھی یونی ورسٹیاں دونوں جانب سے پیسے لے رہی ہے۔
زرعی ٹیکس صوبوں کا معاملہ ہے ،یہ پنجاب اورسندھ کے لیےمشکل کام ہے یہاں کے زمین دار بڑی زمینوں کے مالک اور طاقت ور ہیں، صوبہ خیبرپختون خوا میں 85 فیصد کے پاس بہت کم زمینیں ہیں زیادہ تر دو سے تین ایکٹر والے ہیں، لہذا نئے زرعی ٹیکس میں انہیں استثنی ملے گا، میں نے ٹریڈرز کے لیے وفاق کو تجویزدی ہے کہ جس طرح زرعی ٹیکس صوبہ لگارہا ہے اکثر ٹریڈرز گلیوں سڑکوں کے کاروباری ہیں لہذا یہ ٹیکس بھی صوبہ کو منتقل کردیا جائے یا صوبوں کے ساتھ شراکت داری کی جائے، صوبوں سے یہ ٹیکس وصولی کا کہا جائے جس میں صوبوں کو کچھ حصہ دینے کی آفرکریں لیکن وفاق اپنا کوئی بھی اختیارصوبوں کو دینا ہی نہیں چاہتا بلکہ اس کی کوشش ہے کہ وہ کنڑول واپس حاصل کرے۔
وزیراعظم اور وزیرخزانہ نے بجٹ میں تن خواہ دار طبقے کی چھوٹ بڑھانے کے اعلانات بھی کردئے لیکن سن رہے ہیں آئی ایم نہیں مان رہا،آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اگلے سال کے ٹیکس کے ہدف کو معقول رکھنا ہے تو اپنے اخراجات پر نظر ثانی کریں۔ پاکستان میں اخراجات پر نظر ثانی صرف ترقیاتی اخراجات میں ہوتی ہے، اس مرتبہ صرف921 ارب ترقیاتی اخراجات کے لیے کررہے ہیں اس میں خرچ کتنے ہوتے ہیں وہ علیحدہ معاملہ ہے۔
پچھلے سال 1400 اعلان کیا تھا گیارہ سو ارب کے قریب خرچ ہوئے تھے۔ پچھلے سال سود کی ادائی 10 ہزارارب کے قریب تھی اور 22 فیصد شرح سود تھا، اس سال21 فیصد شرح سود ہوگیا ہے اس لیے سود کی ادائی کم ہوگی لیکن اس کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں اتنی کمی سمجھ نہیں آرہی۔ میں نے پچھلے سال ایکنک کی میٹنگ میں وفاق اور وزیراعظم سے کہا تھا کہ اتنی بڑی وزارت اور نوسو ارب سات سو ارب لے کر بیٹھے ہیں اورپھر چاروں صوبوں میں بھی تقسیم پر آپ سے لڑائی رہتی ہے کس کو کتنے دینے ہیں لہذا یہ وزارت بند کریں اور صوبوں سے وفاقی کام پرعمل درآمد کروائیں اگر کوئی وفاقی میگا پراجیکٹ دو صوبوں کے درمیان ہے تو وفاق ایجنسی بنے، ایک مثال پٹرول کی قیمتوں کی دوں گا، جب ہم روزمرہ کی چیزیں مارکیٹ ریٹ پر خریدتے ہیں ہمیں معلوم ہے کس دکان سے سودا سستا ملے گا، اسی طرح پٹرول کو بھی اوپن کردیں ہرپٹرول پمپ اپنی قیمت دے وفاق بلاوجہ چوہدری بن کر ہر 15 دن بعدریٹ کا اعلان کرتا ہے۔
وفاق اپنا ٹیکس مختص کردے باقی کمپنیوں پر چھوڑ دے یہاں تو کمپنی کا مارجن بھی وفاق طے کررہا ہے ٹرانسپورٹر کے کرائے بھی طے کررہے ہیں اس میں کسی کو فائدہ ہورہا ہے اور کسی کو نقصان یہ سارے کام مارکیٹ کے حوالے کریں۔ آنے والا بجٹ کسی طور بھی عوام دوست نہیں ہوگا خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
زبیر طفیل
انڈسٹری ابھی کچھ دبائو میں ہے اس کی دو وجوہات ہیں ،پہلی بجلی ریٹ کا بہت زیادہ ہونا ہے، پورے ریجن کی سب سے مہنگی بجلی پاکستان میں استعمال ہورہی ہے، جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور ہم ٹھیک طرح سے ایکسپورٹ نہیں کرپا رہے، دوسرا مسئلہ بینک انٹرسٹ ہے لیکن وہ 22فیصد سے کم ہوکر گیارہ پر آگیا ہے اسے اگلے دو ماہ میں مزید کم ہونا چاہیے، حکومت انڈسٹری کو جائز مراعات دے ،ہم کسی قسم کی سبسڈی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے، اس کے ساتھ نقصان میں چلنے والی اسٹیٹ انٹرپرائزز کی جلد نج کاری کریں اور قومی خزانے سے اس کا بوجھ کم کریں، جب تک یہ بوجھ کم نہیں ہوگا، اسے چلانے کے لیے حکومت کو پیسوں کی ضرورت پڑتی رہے گی اور پیسوں لینے کے لیے وہ صنعتوں پر بوجھ ڈالتے رہیں گے اور صنعت کار سوچتے ہیں اب کیا ہوگا، ہمیں امید ہے آنے والے بجٹ سے صعنتوں کے حالات بہتر ہوں گے، جس کی وجوہات ہیں، اب اکثر صعنت کار سولر انرجی پیدا کررہے ہیں، صنعت کار سستی بجلی سے مال بنا کر ایکسپورٹ کریں اور دنیا سے مقابلہ کریں، تمام کاروباری طبقے کو چاہیے وہ ایمان داری سے ٹیکس ادا کریں ،ٹیکس دینے سے سڑکیں بنیں گی، تعلیمی ادارے بنیں گے اورعوامی صحت کے مسائل حل ہوں گے ان بنیادی ضروتوں کے لیے ٹیکس کا ایمان داری سے دینا بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو زرعی ملک کہا جاتا ہے، لیکن حکومتیں زراعت کو ہمیشہ غیر ضروری مراعات دیتی ہیں ،ہم کافی عرصے سے زراعت پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن آخر کار آئی ایم ایف کے کہنے پر ہونے جارہا ہے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا اچھا اقدام ہے۔
ہم نے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے کچھ تجاویز دیتے ہوئے حکومت سے چھ لاکھ روپے تک کی حد پر ٹیکس چھوٹ کو بڑھا کر 12 لاکھ کرنے کوکہا ہے ۔ایک لاکھ ماہانہ تک آمدنی والے پر ٹیکس چھوٹ ہوناچاہیے۔ مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ پہلے سے بہت کم ہے ،ہمارا مڈل مین بہت ظالم ہے، وہ ملنے والے فائدے کوآگے فراہم نہیں کرتا مڈل مین کا کردار کم سے کم ہونا چاہیے، اگر کسی شے کے سرکاری ریٹ500 روپے ہے تو مارکیٹ میں1000 روپے میں بیچا جارہا ہے، مڈل مین سارا منافع اپنی جیب میں ڈال رہا ہے اور عوام بے جا مہنگائی کا شکار بن رہی ہے۔
انڈسٹری پر49 فیصد ٹیکس ہے اور جب سپر ٹیکس دے گا تو60 فیصد تک بن جاتا ہےحکومت کو انڈسٹری کا خیال کرنا پڑے گا، اطلاعات ہیں سپر ٹیکس میں آدھے فیصد کمی کی جائے گی ،لیکن یہ کمی نہ ہونے کے برابر ہے ،حکومت کم آمدنی والے طبقے کا خیال کرے کم از کم 37 ہزار ماہانہ اجرت بہت کم ہے، اسے بڑھا کر 50 ہزار روپے کیا جائے۔
ہمارا مزدور 37ہزار ماہانہ تنخواہ لیتا ہے وہ 35 ڈالر بنتے ہیں ،جب کہ امریکا میں 20 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ ہے ،حکومت اس کے لیے پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ مشاورت کرے، اس کے ساتھ اسٹیٹ انٹر پرائزز کو پرائویٹائزڈ کرے، حکومت کہتی ہے اداروں کی قیمت کم لگ رہی ہے ہم سمجھتے ہیں ادارے خسارے میں چلانے سے بہتر ہے اسے بیچ دیں ،اس کے بغیر حکومتی خسارے میں کمی ممکن نہیں ہے۔
حکومت کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی خواہش ہے اس کے لیے حکومت پہلے کوئی ٹارگٹ طے کرے پھر مرحلہ وار سالانہ ایک فیصد بڑھائے، اس طرح پانچ سال میں بتدریج دس سے پندرہ فیصد پر چلاجائے گا، ٹیکس مشینری کو بھی چاہیے لوگوں کو تنگ نہ کرے، ایف بی آر ٹیکس بھی لیتا ہے اور ان کے اہلکاروں کاذاتی ٹیکس ریٹ بھی ہوتا ہے انہیں وہ بھی چاہیے ہوتا ہے۔
ایف بی آر کے افسران کے اختیارات کا صدارتی آرڈرنینس واپس لینا چاہیے فیڈریشن نے اس قانون کی سخت مخالفت کی ہے ،بغیر اجازت کسی کے اکاوئنٹ سے پیسے نکالنا فیڈریشن کو بالکل منظور نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کام ایف بی آر کے افسران کی ہدایت پر ہوگا، معاشرے میں بگاڑ کے ذمے دار یہ ہی افسران ہیں اگر ایسے افسران کی ڈیمانڈ پر لوگوں کے اکاوئنٹ سے بلااجازت پیسے نکالے جائیں گے تو پھر حکومت بھی کسی غلط فہمی میں نہ رہے کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو لوگ کاروبار بند کردیں گے، ٹریڈرز ایک فیصد بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں، ٹریڈرز مافیا بنے ہوئے ہیں یہ حکومت کو کچھ نہیں دینا چاہتے، شٹر بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
ٹریڈرز کو پہلے ٹیکس نیٹ میں آنے کا کہا جائے،ان کے ٹرن اوور پر ایک فیصد ٹیکس لگایا جائے اگر ایک پر نہیں مانتے تو آدھے فیصد پر بات چیت کریں اگر یہ بھی تسلیم نہیں تو حکومت سختی کرے ٹیکس نیٹ سے انکاری کرنے والوں کی بجلی بند کردی جائے۔
معیشت کی ڈاکومینٹیشن کی کئی مرتبہ تجویز آئی ہے اس طرح ہر شخص کی ٹرانزیکشن تفصیلات سامنے آجائیں گی، اس کے گھر گاڑی یا سفری اخراجات سارے اخراجات کا ریکارڈ سامنے آجائے گا، چھپا شخص خود بہ خود ٹیکس نیٹ میں آئے گا، ڈاکومینٹیشن سے ٹیکس کلیکشن میں اضافہ ہوگا حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہیں۔
امپورٹر ٹیکس دینے سے نہیں بچتا وہ بندرگاہ پر ہی ٹیکس اداکردیتا ہے اس کا چھ فیصد تک ٹیکس ہوتا ہے اس سے زیادہ لینا نہیں چاہیے کیوں کہ اتنا منافع بنتا نہیں ہے ۔اصل مسئلہ دکان داروں کا ہے وہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔انڈسٹری والے ٹیکس چوری نہیں کرسکتے، انڈسٹری والا جو مال بناتا ہے، اس کا سارا سسٹم بنا ہوا ہے، سسٹم میں جتنا مال بنے گا اسے وہ ٹیکس دینا ہی پڑے گا، انڈسٹری میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے وہ پیداوار بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ آٹو موبائل انڈسٹری پچھلے دو سالوں میں گرکر25 فیصد پرچلی گئی تھی اب دوبارہ دھیرے دھیرے بہتری کی طرف آرہی ہے، ہمیں توقع ہے آنے والے مالی سال میں مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں بہتری آئے گی۔
حکومت ٹیکس کا زیادہ سے زیادہ حصول چاہتی ہے، لیکن یہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے، صعنت کار خوشی سے مینوفیکچرنگ میں کمی نہیں لارہا ،اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوگئی ہے اور دوسرا خریدار کی قوت خرید کم ہوگئی ہے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو خریدے کیسے ،جو شخص ماہانہ ایک لاکھ روپے سے کم کماتا ہے وہ کم آمدنی والا ہے جب تک اس کے حالات بہتر نہیں ہوتے معاملات آگے نہیں چل سکتے۔
پاکستان میں بعض انڈسٹری کے بہت مزے بھی ہیں ،شوگر انڈسٹری کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتے ہیں، شوگر انڈسٹری والے ہر حکومتی پلیٹ فارم پر موجود ہیں اس لئے وہ شوگر انڈسٹری پر کوئی ٹیکس لگنے نہیں دیتے، دیکھتے ہیں دیکھتے چینی 120 روپے فی کلو سے 180 روپے ہوگئی ہے، چینی کا مہنگا ہونا شوگر انڈسٹری کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جاوید بلوانی
پاکستان میں انڈسٹری کی گروتھ منفی میں ہے،اس کی وجہ یوٹیلٹی کی قیمت کا زیادہ ہونا ہے، پچھلے ڈیرھ دو سال میں ڈھائی تین سو فیصد اضافہ ہوا ہے، ہمارے تمام کمپیٹیٹرز ممالک میں سب سے سے زیادہ یوٹیلٹی کی قیمت پاکستان میں ہے۔
دوسری وجہ شرح سود کا بہت زیادہ ہونا تھا، کم از کم اجرت پہلے کم تھی اب زیادہ ہوگئی ہے، پھر انکم ٹیکس کا اضافہ اتنا زیادہ ٹیکس ہمارے کمپیٹیٹر کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔ یہاں بنگلہ دیش کی مثال دی جاتی ہے ،بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہم نے سیٹ کی ہے، بنگلہ دیش کی ساری ایکسپورٹ پاکستان کی ہونی چاہیے تھی، مڈل سے لے کر ٹاپ مینیجمنٹ یہ سب پاکستان سے بنگلہ دیش گئے ہیں۔
پاکستان اسپننگ، جننگ سے کاٹن کاشت کرکے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آیا ہے لیکن بنگلہ دیش نے 100 فیصد خام مال درآمد کیا اور پھر ایکسپورٹ کیا ہے، پاکستان کامیاب اس لئے نہیں ہواکیوں کہ یہاں زراعت پر کنڑول نہیں رہا ،پہلے زراعت کا شعبہ وفاق کے پاس تھا ،18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس ہے اب اور کنڑول ختم ہوگیا ہے۔
اب کسی کو نہیں معلوم اس مرتبہ کتنی روئی پیدا ہوئی ہے اور کیا کرنا ہے کوئی سسٹم نہیں ہے۔ منسٹری نام کی ہیں اگر اس کے کنٹرول میں کچھ ہوتو وہ پیشگی بتائے، پاکستان میں کبھی گندم کم ہوتی ہے تو کبھی روئی۔ ایک زمانے میں کپاس کی 14 ملین بیلز ہوتی تھی، آج ساڑھے پانچ ملین بھی نہیں ہیں، پندرہ بیس سال پہلے ہم کپاس کےلیے نئی سیڈ استعمال کرنے کا شور مچاتے تھے، انڈیا نے وہ سیڈ استعمال کی اس کی فصل پاکستان سے بہت زیادہ ہوگئ ہے، انڈیا میں بیلز35 ملین پر چلی گئی ہے۔ایک زمانے میں ہم یہ خام مال ایکسپورٹ کرتے تھے۔
حکومت کو ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر نے سمجھایا آپ نے1125ایس آراو ختم کردیا ہے، وہ پانچ سکیٹرز تھے اس سیکٹر میں ٹیکسٹائل، لیدر، کارپیٹ، سرجیکل اسپورٹس وغیرہ شامل تھی۔ وہ پانچ سیکٹرز زیرو ریٹڈ اس لئے بنائے گئے تھے ہم اس وقت کہتے تھے اگر کسی سیکٹرکا 80 فیصد ایکسپورٹ ہے تو اسی فیصد ایکسپورٹ کو زیرو ریٹڈ پر لے آئو، کیوں کہ ہمارا 80 فیصد مال ایکسپورٹ ہورہا ہے،پھر فائیو زیرو سیکٹر بنایا گیا، ہم نےحکومت کو سمجھایا تو انہیں ہماری بات سمجھ آئی تھی۔
ہم کہتے تھے جب آپ نے پیسے لے کر دینے ہی ہیں تو پھر وہ پیسے کیوں لیتے ہیں، پیسے لے کر دینے سے ایکسپورٹر کا لیکویڈیٹی کا مسئلہ ہوتا ہے، ایف بی آر کا بجٹ بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، بجٹ بنانا وزارت خزانہ اور کامرس کا کام ہے۔
آج حالات یہ ہیں کہ بینکوں سے 90 فیصد قرض حکومت پاکستان لے رہی ہے انڈسٹری کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اس ملک کو بینک اور آئی پی پیز کھاگئے ہیں انڈسٹری کی ساری آمدنی آئی پی پیز کو جارہی ہے، کسی کمپنی کی بیلنس شیٹ چیک کریں حیران ہوجائیں گے جو کمپنی کبھی منافع 9 ارب منافع کماتی تھی وہ صرف پچاس سے پچپن کروڑ روپے منافع میں ہیں، کئی انڈسٹریز بند ہوجائیں گی، اسمال اور میڈیم تو باہر ہوگئے اور نیا کوئی نہیں آرہا یہ سب صرف انرجی کی زیادہ قیمت کی وجہ سے ہے، سونے پر سہاگہ ایک اور ہوا ہے ایک ای ایف ایس اسکیم بنائ گئی کیوں کہ 1125 ختم کردیا ہے۔
ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ انرجی سستی ہوگی تو ملک میں انڈسٹری لگے گی حکومت انرجی ریٹ ہمارے ریجنل کمپی ٹیٹر کے برابر کردے ، کم سے کم ایکسپورٹر کے لیے توکرہی دے تاکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو اور یہ ایکسپورٹ بڑھنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
حکومت اپنے اخراجات کم کرے ،لیکن یہاں اخراجات بڑھ رہے ہیں وزارتیں بڑھیں، نئی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، فاٹا پاٹا پر 100 ارب ضائع ہورہے ہیں، کمرشل امپورٹر کو بھی انڈسٹری کے برابر سہولت دینی چاہیے، ہم نے ایسا سسٹم بنانے کا کہا ہے جس میں آسانی سے کوئی پروپرائیٹر سے پارٹنرشپ یا پرائیوٹ سے پبلک لمیٹڈ کرنا چاہیں تو وہ آسانی سے شفٹ ہوجائے۔
جھینگے کی بہت زیادہ فارمنگ ہورہی ہے یہ زیادہ تر ایکسپورٹ ہورہا ہے ہم نے اس پر سے ڈیوٹی ختم کرنے کےلیے کہا ہے ،انڈسٹری کے کیپٹی پر سے لیوی پاورز ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔ ٹیکس آرڈرنینس کے ذریعے ایف بی آر کو نیا اختیار دیا گیا، دنیا میں کاروباری لوگوں سے ٹیکس لینے والوں کا رویہ دوستانہ ہوتا ہے لیکن یہاں الٹا ہورہا ہے، جو چالیس سال سے ٹیکس دے رہا ہے اس کے اکاوئنٹس سے بلااجازت پیسے نکال لیے جائیں اس کے اکاوئنٹس سیزد کردیا جائے ،اس کا مطلب ہے ٹیکس دینے والا بھاگ جائے ہم نے اس قانون کی مخالفت کی ہے۔
سی پیک میں انڈسٹریل زون بنانے کا کہا گیا تھا، سندھ میں دھابے جی زون بنایا گیا، میں چارمرتبہ اس کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوچکا ہوں لیکن آگے کچھ نہیں ہوا۔ میری ریلوے حکام سے بات ہوئی، ان کے مطابق پاکستان کا صرف چار سے چھ فیصد کارگو ریلوے کے ذریعے جاتا ہے، ہمارے پڑوسی انڈیا میں 30 سے چالیس فیصد کارگو ریلوے کے ذریعے جاتا ہے جس ڈالر کے حصول کے لیے ہم اتنی محنت کررہے ہیں، بلین ڈالروں کا ہمارا فیول ٹرالروں میں خرچ ہورہا ہے اس کے بعد ٹرانسپورٹرز نے چاردن ہڑتال کی تو پورٹ بند رہا، مجموعی طور پر17 دن کی ہڑتالوں کے اثرات 170 سے 200 دن تک رہیں گے، ایک سال تو ویسے ہی ضائع ہوگیا اگر ٹرین کا سسٹم دستیاب ہوتا تو لوگ ٹرین کے ذریعے مال نکال لیتے ٹرک سے جانے کے کئی نقصان ہیں۔
پہلا نقصان ٹرک امپورٹڈ ہے، ہمارا فارن ریزرو ضائع ہورہا ہے پھر استعمال کےٹائر اور فیول امپورٹڈ وسائل ضائع ہورہے ہیں، سڑکیں خراب ہورہی ہیں، اگر صرف مال کارگو ٹرین سے جائے تو ملکی وسائل کے بلین ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس سال حکومت ملک کا کتنا قرض اتارے گی ،جب قرض اتارنا ٹارگٹ ہی نہیں تو وہ کیسے اترے گا۔