میزبان: محمد اکرم خان، ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
شریک گفتگو
سینیٹر ثناء اللہ بلوچ (رہنما، بلوچستان نیشنل پارٹی، مینگل)
ڈاکٹر ہما بقائی ( تجزیہ کار، سیاسیات/بین الاقوامی تعلقات)
ناصر منصور ( سوشل سائنٹسٹ/ ہیومن رائٹس ایکٹی وسٹ)
صوبے کی پس ماندگی کی براہ راست ذمہ دار وفاق ہے۔ بلوچستان کے لیےاین ایف سی ایوارڈ ابھی بھی غیر منصفانہ ہے، سی پیک کے تحت بننے والی بجلی سرپلس ہے، سی پیک کے تحت بننے والی بجلی سرپلس ہےاس کا بھی ایک میگاواٹ بلوچستان کو نہیں مل رہا، سی پیک کے تحت کوئی ترقیاتی کام بلوچستان میں نہیں ہوا، گوادر بندرگاہ منصوبہ وفاق کا ہے اس کا سارا منافع اسلام آباد اور چین کوملےگا، بلوچستان کو دوفیصد بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
بلوچستان کے مسئلے کو غلط بتانے کے باعث پاکستانی عوام کی اکثریت بھی بلوچستان کے اصل مسئلے سے آگاہ نہیں، سنگین مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے۔ بنیادی مسئلہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، انتظامی اورآئینی تنازعہ ہے اسے اسلام آباد تسلیم کرکے آگے بڑھے۔
بلوچستان اسمبلی میں میری پیش کردہ قرارداد پرعمل کیا جائے جو بلوچستان میں ٹروتھ اینڈ ریکنسی لیشن اور مصالحتی کمیشن بنانے کے حوالے سے ہے، وفاق نے بلوچستان سے گیس تودریافت کرلی لیکن صوبے میں مواصلاتی نظام، تعلیمی ذرائع اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
سینیٹر ثناء اللہ بلوچ
بلوچستان کا مسئلہ نیا نہیں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، تازہ ترین پرتشدد کارروائی نہایت خطرناک ہے، اس مرتبہ یہ صرف قبائلی بغاوت نہیں ہے بلکہ اربن بھی ہے جسے نوجوان چلارہے ہیں، موجودہ تحریک سے تعلیم یافتہ بلوچ جڑا ہے، وفاق کے پاس یہ موقع ہے کہ آواز اٹھانے والے امن پسند تعلیم یافتہ بچوں سے سے بات کریں، لاپتہ افراد مسئلے پر ریاست سراسرغلطی پر ہے، ریاست انہیں مناسب جواب دینے اور مطمئین کرنے میں ناکام ہے، بلوچستان کا موجودہ سیاسی ماڈل کا بیشتر حصہ زمینی حقائق کے برخلاف غیرجمہوری اور غیرمنتخب ہے۔
طاقت کے استعمال کو درست حکمت عملی قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ کہنا ایک ایس ایچ او کی مارہیں، یہ بےعزتی ہے ان بلوچیوں کی جو یہ سمجھتے ہیں وہ یہ لڑائی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں، ماہ رنگ بلوچ تحریک کا ادراک کرتے ہوئے فوری طورپراس سے بات چیت کرنا چاہیے، ماضی میں جو اکبر بگٹی کے ساتھ ہوا اس واقعہ کو لوگ بلوچستان کا نو گیارہ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی
ماہ رنگ بلوچ نےاسلام آباد کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ پاکستان کے قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے مسائل کا حل چاہتی ہےلیکن اسلام آباد میں کسی نے بات نہیں سنی، اسے خالی ہاتھ اسلام آباد سے واپس کردیا یہ مناسب رویہ نہیں، 18ویں ترمیم کا ہونا پاکستانی سیاست کی بہت بڑی تبدیلی اور کامیابی ہے لیکن اصل مسئلہ اس پرعمل درآمد ہے، اس میں صوبائی خود مختاری تو بحال کردی گئی ہے لیکن جب نمائندے حقیقی نہیں ہوں گے تو ایسی آئینی ترامیم کا کیا فائدہ، بلوچ مسئلہ کی مرکزی وجہ ریاست کا رویہ ہے، بلوچستان کا بگاڑ خطرناک ہے، پاکستان کو اپنے ماضی سے سیکھنا چاہیے، بلوچستان کے لوگوں کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ انہیں سیاسی طور جمہوری انداز میں مسائل حل کرنے کا اختیار دیا جائے وہ کہتے ہیں کہ سائل اور وسائل پر ان کاجائز حق تسلیم کیا جائے۔
ناصر منصور
بلوچستان میں دہشت گردی کے نئے واقعات نے ملک بھر میں تشویش کی نئی لہر پیدا کردی ہے، سیکورٹی فورسزپر حملے ہوئے ہیں بسوں میں سفر کرنے والے پاکستانیوں کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ بلوچستان کومعدنی دولت سے مالامال صوبہ کہا جاتا ہے اہم ترین تجارتی گزرگاہ کے ساتھ گوادراورسی پیک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کے سبب تشدد کی لہر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے سوچا جائے کہ آخرسترسال گزرنے کے بعد بھی صوبہ پس ماندہ کیوں ہے ، اس کے ذمہ دار کون ہیں ؟ NFC ایوارڈ اور18 ویں ترمیم سےصوبے کو کیا فوائد حاصل ہوئے اگر نہیں تو کیوں وہ محروم ہیں، سی پیک سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہوا ، گوادر پورٹ اورسی پیک منصوبے بلوچستان میں متنازعہ کیوں بن گئے، لاپتہ افراد کا مسئلہ کیا ہے اور بلوچ ناراض ہیں یا بیزار؟
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے یا معاشی، مسائل کے حل کے لئے حکومت اور سیاسی جماعتوں کا کردار کیا ہے کیا ہونا چاہیے ، ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطالبات اور جدوجہد کو کیسے دیکھا جارہا ہے، کیا حکومت اسے ایک مفید موقع میں بدل سکتی ہے، ناراض یا باغی بلوچوں کو راضی کرنے کا راستہ کیا ہے۔
بلوچستان میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا الزام کس قدر درست ہے، کیا بلوچوں کے خلاف طاقت کا استعمال درست حکمت عملی ہے، موسی خیل جیسے سانحات کیا صوبائی منافرت کو ہوا دیں گے، اس طرح کے واقعات سے بلوچوں کا کیس کم زور ہو گا، ناراض بلوچ پرامن راستہ پر کیسے آئیں گے۔
اس حوالے سے آزادی اظہار میں رکاوٹیں کیوں ہیں، ان سوالوں کے جوابات کے لئے’’ جلتا بلوچستان …آگ کیسے بجھے گی‘‘؟ کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، فورم میں سینیٹر ثناء اللہ بلوچ (رہنما، بلوچستان نیشنل پارٹی، مینگل) ناصرمنصور(سوشل سائنٹسٹ/ ہیومن رائٹس ایکٹی وسٹ) ڈاکٹر ہما بقائی ( تجزیہ کار، سیاسیات/بین الاقوامی تعلقات) نے اپنی رائے کا اظہار کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے
سینیٹر ثناء اللہ بلوچ
صوبے کی پس ماندگی کی براہ راست ذمہ داری وفاق پر عائد ہوتی ہے۔ابتدا میں پاکستان ون یونٹ نظام کے تحت چلایا گیا، آئین بنایا لیکن اس میں کم ترقی یافتہ علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کےلیے کوئی مارشل پلان یا ترقیاتی پلان کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ وفاق نے بلوچستان سے گیس تودریافت کرلی لیکن صوبے میں مواصلاتی نظام ، تعلیمی ذرائع اور بنیادی ضرورت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
معاشی، معاشرتی، انتظامی، آئینی، سیاسی اور مرکزی سطح سے دانستہ نظراندازکرنے کی وجہ سے بلوچستان آج تک پس ماندہ ہے۔ اس دوران مختصر عرصے کی دو چارجمہوری حکومتیں آئی وہ بہت کمزور رہی ہیں۔ آج بلوچستان جیسے وَسِیع و عَرِیض صوبے میں71فیصد آبادی پس ماندگی اور غربت کا شکا ر ہے، یہ سرکاری اعداد وشمار دوہزار سولہ کی پلاننگ کمیشن کی رپورٹ ن لیگ حکومت کے احسن اقبال صاحب نے جاری کئے تھے۔
جس کے مطابق پنجاب کے کچھ علاقوں میں غربت 29فیصد تک اور بلوچستان بھر میں72 فیصد تک ہے۔ غربت اورپس ماندگی شرح میں اضافہ غلط پالیسیوں اورصوبے کو نظر انداز اور سنجیدہ ترقیاتی منصوبہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔
دوہزار دس سے پہلے تک وفاق وسائل کی تقسیم این ایف سی ایوارڈ کے تحت خالصتاً آبادی کی بنیاد پر کرتا تھا۔ صوبوں کو ترقی دینے کا یہ فارمولا امتیازی تفاوتی متعصبانہ اور احساس محرومی بڑھانے کا باعث تھا، جو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے، دنیا کے ہر بڑے خطے میں رقبہ جہاں بہت زیادہ ہے، وہاں وسائل کی تقسیم ضرورت، پسماندگی اور رقبے کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے،کیوں کہ وسائل انسانوں پر نہیں رقبے کی بنیاد پر خرچ ہوتے ہیں۔
دو ہزار دس کا این ایف ایوارڈ فارمولا بہت تھوڑا ہم اسے بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی سمجھتے ہیں، اس میں غربت اور پسماندگی کو بھی شامل کیا گیا لیکن اس میں ابھی بھی ایریا شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے لیےاین ایف سی ایوارڈ ابھی بھی غیر منصفانہ ہے، این ایف سی ایوارڈ غربت، پسماندگی، رقبے، صوبے میں ترقیات کے پوٹینشل، ڈیولپمنٹ اور اکنامک کےپوٹینشل کی لاگت اور دفاعی اہمیت مدنظر رکھتے میں نے بلوچستان اسمبلی میں تمام مسائل کو احاطہ کرتے دس نکات پیش کئے تھے۔
جس میں نیشنل فنانس کمیشن پراگلے تیس سے چالیس سال تک نظر ثانی ، پس ماندہ علاقوں کو زیادہ وسائل دینے تاکہ وہ پاکستان کے دیگر حصوں کے برابر آئیں۔ یہ قرارداد باقاعدہ پاس ہوئی اور بلوچستان حکومت نے منظور بھی کیاتھا۔ لیکن وفاق صوبے کی سی پیک اور این ایف سی کے حوالے سے قرارداد کو ہمیشہ نظر انداز کرتا ہے۔ میں پھر کہوں گا این ایف سی ایوارڈ پر دوبارہ بڑی سنجیدگی سے غورکیا جائے ،بلوچستان کو زیادہ وسائل فراہم کریں، صوبوں کے مابین جھگڑے کی وجہ وسائل کی تقسیم ہے اس کی وجہ سےوہ دوسرے کو مشکوک سمجھتے ہیں۔
جہاں تک سی پیک کی بات ہے بلوچستان کا کوئی فرد ترقی کے خلاف نہیں ہے، کسی بھی نام سےترقیاتی منصوبے سنجیدگی سے صوبے بھر میں یکساں شروع کئے جائیں بلوچستان کی عوام مخالفت نہیں کریں گے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں 27 سے 30 ارب ڈالر کے منصوبوں پر کام مکمل ہوا ہے۔
ان میں زیادہ بڑے منصوبےانرجی اور توانائی کے تھے، کوئلے، تیل اور سولر انرجی کے 12 منصوبےتھے یہ تمام صوبہ پنجاب اور سندھ میں لگے ہیں، نصف سندھ میں اور آدھے پنجاب میں لگے ہیں۔ بلوچستان کےلیے صرف ایک کوئلے کا پراجیکٹ تھا جوحب میں تجویز کیا گیا تھا، اس کی بجلی بھی کراچی کو فراہم کی جاتی ہے، آج کل وہ بھی کارآمد نہیں ہے ابھی بند ہے۔ایک گوادر میں تجویز کیا گیا تھا جو آج تک نہیں لگایا گیا۔
سی پیک کے تحت بننے والی بجلی جو سرپلس ہے اس کا بھی ایک میگاواٹ بلوچستان کو نہیں مل رہا ہے،نہ ملنے کی وجہ ٹرانسمیشن کا نہ ہونا ہے، جب تک بجلی کی ٹرانس میشن لائن یعنی تاریں بلوچستان کے دورافتادہ علاقوں میں بچھائی نہیں جائیں گی بجلی فراہمی ممکن ہی نہیں۔ سی پیک کے منصوبوں میں دوہزار کلومیٹر اور 500KV کی ٹرانسمیشن لائنیں بھی سندھ اور پنجاب میں بچھائیں گئیں ہیں۔انفرااسٹرکچر کی مد میں سڑکوں اور اورنج میٹرو وغیرہ جیسے طرز کے منصوبے بھی سندھ اور پنجاب میں شروع کئے گئے۔
بلوچستان کی جن ایک یا دو سڑکوں کا ذکر ہوتا ہے یہ سنگل روڈ ہیں جو پندرہ سال پہلے کے منصوبے تھے اس کی تعمیر میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی معاونت حاصل تھی لیکن کافی عرصے بعد بھی نامکمل تھے۔ سی پیک کے موقع پر مجبور ہوکر اسے زبردستی مکمل کیا گیا ہے، ایک کا افتتاح سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور میں ہوا تھا، وہ سڑک بھی آج ٹوٹی پڑی ہے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ سی پیک کے تحت کوئی ایک کلومیٹر سڑک ،ریلوے لائن، ٹرانسمیشن لائن یا کوئی پل انفرا اسٹرکچر طرز کا کوئی ترقیاتی کام بلوچستان میں نہیں ہوا ہے۔
گوادر بندرگاہ کا منصوبہ وفاق کا ہے اس کا سارا منافع اسلام آباد اورحکومت چین کو ملے گا، بلوچستان کو دوفیصدی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ہم نے کچھ عرصے پہلے سی پیک کی چند خامیوں کی نشاندہی کی تھی اگر اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تحفظات بروقت دور کردیئے جاتے تو سی پیک پر ناراضی اور تشویش ضرور ختم ہوجاتی۔ اگر سی پیک اور بلوچستان کے نام سے ملک میں فوائد آتے ہیں،27سے 30ارب ڈالر پانچ سے چھ ہزار ارب روپے بنتے ہیں یہ بہت بڑی رقم ہے یہ سارے پیسے دوسرے صوبوں میں خرچ کئے جائیں تو بلوچستان کی عوام میں تشویش اور احساس محرومی تو بڑھے گی۔
میں نے سی پیک پر بلوچستان اسمبلی میں دوبارہ قرارداد پیش کی تھی جو متفقہ منظور کی گئی، اس کے مطابق بلوچستان کے لیے خصوصی منصوبے شروع کئے جائیں، جس میں تعلیم ،صحت، انفرااسٹرکچر، انرجی اور انڈسٹرلائزیشن کوریڈور یہ تمام چیزیں تجویز کی ہیں۔ سولر انرجی پیدا کرنے میں بلوچستان کا پوٹینشل دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے، یہاں سورج کی حرارت زیادہ ہے اگر سولر انرجی کے منصوبے بلوچستان میں لگتے تو ایک ہزار میگاواٹ کا منصوبہ بلوچستان کے لوگوں کو بجلی فراہم کرسکتا تھا۔
سی پیک کے بڑے منصوبوں کا فوکس پنجاب اور سندھ میں ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ سی پیک منصوبوں میں ایک بلوچ بھی تعینات نہیں ہوا ہے اگر ہم غلط ہیں تو وفاقی حکومت دکھا دے ہم اپنی غلطی تسلیم کریں گے۔
ابتدا میں بلوچستان کا مسئلہ خالصتاً سیاسی تھا،برصغیر سےتاج برطانیہ کے خاتمے کے بعد نئی مملکت کا قیام اور ریاستوں کا الحاق سیاسی عمل تھا۔ بلوچستان کی شمولیت سے قبل بہت زیادہ گفت وشنید ہوئی، یقین دہانیاں ہوئیں، اس میں بداعتمادیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ الحاق کے لیے بلوچستان میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اس میں دو سوچ پائی جاتی ہیں۔
اس کے باوجود خان آف قلات اور دوسری ریاستوں نےپاکستان سے الحاق کیا۔ 1948 سے1956 تک پاکستان میں آئین نہیں تھا، اس دوران کے خلا نے نئے مسائل پیداکردئے تھے، اس زمانے میں بلوچستان کے لیے کچھ کمیٹیاں بنائی گئیں،تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صرف بلوچ نہیں بلکہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت قاضی عیسی اور دیگر رہنما وہ بھی ناراض تھے، انہوں نے بھی لیاقت علی خان اور اس کے بعد کی حکومتوں کے اقدامات پر احتجاج کیا تھا۔
بعد کی حکومتوں نے بلوچستان کےلیے ریفارمز کمیٹیاں بنائیں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔پھر ون یونٹ نظام آیا اس نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔پاکستان سے الحاق کے وقت بلوچستان کو کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں ،قائداعظم محمد علی جناح کا اکتوبر1947میں خان آف قلات سے ملاقات پھر بلوچستان کے زعما بھی اس حوالے سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ فروری1948 میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان سبی دربار سے خطاب کیا تھا،ان ساری تقاریر کوپڑھیں تو اس میں بہت سے وعدے کئے گئے تھے،جب کوئی سربراہ اور لیڈر الحاق کے موقع پر کوئی وعدے کرتے ہیں تو اس پر عمل درآمد بہت ضروری ہوتا ہے۔
جب یہ وعدے پورے نہیں ہوئے تو خان آف قلات نے بلوچوں کے قبائلی اور سیاسی رہنماوں پر مشتمل ایک بڑے وفد کے ہمراہ اسکندر مرزا سے ملاقات کی تھی اکتوبر 1958میں خان آف قلات کو گرفتار کیا گیا، اور مطالبات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد بلوچستان میں بغاوت جیسی صورت حال پیدا ہوگئی تھی ،اسی دور میں نواب زادہ نوروز خان کاوہ واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ اس ہی طرح 1962،1973 میں بھی تنازعات چلتے رہے، جس میں معاشی پہلو بھی سامنے آتا ہے۔
یہ ذکر ہوتا ہے کہ جب تک ون یونٹ رہا مشرقی پاکستان نظر انداز اور بلوچستان بھی پسماندگی کا شکارتھا، معاشی طور پر نظر انداز ہونے کی وجہ ہی مشرقی پاکستان کی سیاسی جدوجہد نظرآتی ہے، وہ اسی بنیاد پر ناراض ہوئے،اسی بنیاد پر ووٹ لئے اور اسی وجہ سے الگ ہوئے۔بلوچوں کے بھی اسی طرح کے معاشی مطالبات تھے، وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان کےلیے خصوصی طور پر معاشی پلان بنایاجائے، وہاں گیس نکلی، لیکن صوبے کو گیس فراہم نہیں کی گئی، یہاں صنعت سازی نہیں کی گئی۔
نہ یہاں سڑکوں کا جال بچھا نہ ریلوے لائن بنی، کوئی پل نہیں، نہ اسکول اور نہ یونی ورسٹی کا جال بچھایا گیا۔1970 تک بلوچستان میں نہ کوئی تعلیمی بورڈ تھا اور نہ ہی کوئی یونی ورسٹی اور نہ کوئی میڈیکل یونی ورسٹی تھی۔ان حالات نے بلوچوں میں مایوسی پیدا کی ہے اور یہ معاشی بدحالی کا بھی باعث بنا ہے۔ جس علاقے میں انرجی نہ ہو صنعتیں نہ ہوں ،انفرااسٹرکچر نہ ہو تویہ حالات معاشی بد حالی میں بدل جاتے ہیں، بتدریج بلوچستان کے سیاسی اور معاشی مسائل مل گئے اور جس کے سبب بلوچستان کو گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ درحقیقت انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، بلوچستان کا مسئلہ سیاسی اور معاشی تھا۔ دوہزار ایک اور دو میں بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں نے وفاقی حکومت کے سامنے بلوچستان کے سیاسی اور معاشی مسائل رکھے، ایک چارجماعتی ایک اتحاد قائم ہوا تھا جو نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیربخش مری، سردار عطا اللہ مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی پر مشتمل تھا۔ ہم سینیٹ کے رکن تھے،ہم نے صوبے کےان تمام مسائل کو اجاگر کیاتو وفاقی حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ہم نے اس موقع پر بلوچستان کے تمام اہم اعداد وشمار اسلام آباد کے سامنے رکھے۔
ہماری گیس کی قیمت 23روپے ایم ایم بی یو یعنی ملین مکعب میٹر فٹ کے حساب سے تھی،اس کے برخلاف پنجاب اور سندھ سے نکلنے والی گیس کی 270روپے قیمت تھی،ہم نے یہ ساری چیزیں سامنے رکھ کر کہا ہمیں دانستہ نظر انداز کیا جارہا ہے ، امتیازی پالیسی پر مبنی اس رویہ کو ختم کریں بلوچستان کے ساتھ انصاف کریں۔ اس میں ریکروٹمنٹ، ملازمتوں اوروسائل پر اختیار کا معاملہ تھا۔سوئی گیس سے حاصل ہونے والی رائلٹی اور ویل ایڈ پرائس بہتر کرنے کی بات کی گئی تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں درست معلومات فراہم کرنے کا فقدان ہے، اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے نواب اکبر خان بگٹی صرف رائلٹی لینا چاہتے ہیں حالانکہ رائلٹی براہ راست صوبائی خزانے کودی جاتی ہے،نواب اکبر خان بگٹی کا صرف ایک جھگڑا تھا گزشتہ پچاس سال سےان کی زمینوں پرقائم پائپ لائن اور انفراسٹرکچر کا کرایہ ان کو نہیں مل رہا تھا۔ خصوصی طور پرسابق صدر مشرف نے کہہ دیا تھا کہ پرانا یا ابھی کا اکبر خان بگٹی کو کرایہ نہیں دیا جائے، تاکہ وہ جھک جائیں لیکن نواب اکبر خان بگٹی جھکنے کےلیے تیار نہیں ہوئے۔بلوچستان کے مسئلے کو غلط بتانے کے باعث پاکستانی عوام کی اکثریت بھی بلوچستان کے اصل مسئلے سے آگاہ نہیں ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے سنگین مسئلہ لاپتہ افراد کا معاملہ ہے ۔ جب چار جماعتی اتحادکے مطالبات کا مسئلہ آگے بڑھا اور بلوچستان کے لوگوں نے احتجاج کا آغاز کیا، تو مشرف حکومت نے مسائل حل کرنے کے بجائے طاقت کااستعمال شروع کردیا، اس کے بعد بلوچستان کے بہت سے نوجوانوں نے بالکل الگ راستہ اختیار کیا۔جس کے جواب میں حکومت نے کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجے میں سیاسی کارکن ، لکھاری، پڑھنے والے آہستہ آہستہ سب غائب ہونا شروع ہوگئے مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔ لاپتہ افراد کامعاملہ براہ راست بلوچستان کے تنازع کے ساتھ منسلک ہے، اگر یہ حل ہوجاتا ہے تو یقیناً لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا انسانی حقوق اور دیگر مسائل بھی اس کے ساتھ حل ہوجائیں گے۔
بلوچستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتظامی اور آئینی تنازعہ ہے اسے اسلام آباد تسلیم کرکے آگے بڑھے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کے دیگر تمام مسئلوں سے زیادہ بڑا ہوکر سامنے ہے۔ یہ صوبے کے طویل تنازع کا نتیجہ ہے، تنازع حل نہیں ہوگا تو اس طرح کی مڈبھیڑجاری رہے گی افراد لاپتہ بھی ہوں گے۔ حکومت کو سنجیدگی سے انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الفور لاپتہ افراد کو بازیاب کرائے رہا کرے،جن پر الزامات ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کرے،اس مسئلے کو طاقت سے نہیں آئینی اور قانونی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔
سردار عطا اللہ مینگل نے کسی موقع پر بڑی اچھی بات کہی تھی بلوچستان آپ سے ناراض نہیں ہے بلکہ بیزار ہے، بیزاری ناراضی کی انتہا ہوتی ہے۔ بلوچ گزشتہ 77سال سے ناراض ہیں، وہ سمجھتے ہیں ان کے جغرافیہ، زمین اور وسائل کو تو اہمیت دی جاتی ہے ہیں لیکن بلوچ عوام کی کوئی اہمیت نہیں، آج زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا بلوچ ناراض ہے، جس میں مڈل کلاس، چرواہا، مزدور، دہقان، تعلیم یافتہ نوجوان یا استاد ان سب کو محرومیوں کا احساس ہے، وہ کسی نہ کسی سطح پر ان سے براہ راست مقابلہ کررہے ہیں، کہیں پر بجلی نہیں، توکہیں پانی نہیں، کہیں گیس نہیں، کہیں سڑکیں نہیں، کہیں پر روزگار نہیں، کہیں بھی اچھی زندگی نہیں ہے۔ یہ ساری محرومیاں دستاویزی ثبوت کے ساتھ موجود ہیں۔
جب بلوچ ناراض ہیں تو حکومت کا فرض تھاکہ وہ اس کانوٹس لیتی ،اگر ناراضی ختم کرنے کےلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جائیں گی اور عوام کے حقیقی نمائندوں کے بجائے من پسند کمزور سیاسی چہروں کو حکمرانی دیتے ہیں ، کٹھ پتلی حکومتیں اور اسمبلی بناکر غلط فیصلے کراتے ہیں، تو عوام میں نفرت بڑھتی پیدا ہورہی ہے، اور پھر دھیرے دھیرے رابطے اور تعلقات کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ریاستیں اصولوں کی بنیاد پر چلتی ہیں ناراض لوگوں کو جوڑنے کےلیے ریاست کے پاس بہت سے فورم ،وسائل اور طاقت موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی مقتدرہ کے پاس فہم اور دانش کی کمی ہے۔
میری بلوچستان اسمبلی میں پیش کی گئی وہ قرارداد ہے جو بلوچستان میں ٹرتھ اینڈری کنسی لیشن،بلوچستان میں مصالحتی کمیشن بنانے کے حوالے سے ہے۔یہ مفقہ فروری دوہزار بائیس اور تئیس میں منظور ہوئی ہے ،بلوچستان کے لوگ دو تین سال سے مسلسل وفاقی حکومت کو اس طرح کی سنجیدہ اقدامات کرنے کی نشاندہی کراتے رہے ہیں لیکن اسلام آباد اس پر توجہ نہیں دیتا اور معاملہ مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کی اسمبلی سے زیادہ بڑا فورم دوسرا کیا ہوگا۔ بلوچستان کے منتخب ارکان مسئلے کا حل چاہتے ہیں لیکن مقتدرہ اور طاقتور حلقے اس مسئلے کو اب تک حل کرنا نہیں چاہتے۔
ناصر منصور
بلوچستان کے مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، مسئلہ سیاسی اور معاشی دونوں ہے۔ قلات کی پاکستان میں شمولیت پر کئی سوالیہ نشان تھے، مختلف آرا موجود ہے۔ پاکستان میں بلوچستان کی شمولیت کےبعد سے وہاں کے لوگوں اور عوام کے ساتھ ریاست کا رویہ جمہوری طور پر بہتر نہیں رہا ہے، اسی وجہ سے وہاں مرکز گریز نقطہ نظر موجود رہا ہے۔
پہلی مارشل لا حکومت ایوب خان کے دور میں سردار نوروز خان اور ان کے نوجوان بچوں کو پھانسی دے دی گئی تھی پھرپچھلے70 سال میں پانچ سے چھ ملٹری آپریشن نے وہاں کی ناراضی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حکومتوں کا یہ رویہ سول اور ملٹری دونوں ادوار میں یکساں رہا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ انہیں سیاسی طور جمہوری انداز میں مسائل حل کرنے کا اختیار دیا جائے وہ کہتے ہیں کہ سائل اور وسائل پر ان کاجائز حق تسلیم کیا جائے۔ بلوچستان میں ایک ہی مرتبہ عطااللہ مینگل اور بزنجو دور میں جمہوری حکومت وجود میں آئی تھی لیکن انہیں بھی ڈیڑھ دوسال میں ہی چلتا کردیا گیا تھا۔
بلوچستان کے سیاسی اور معاشی مطالبات کو طاقت کے ذور پر حل کرنے کی کوشش کے نتائج نہ پہلے اچھے رہے ہیں اور نہ آئندہ ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مثبت کردار اداکرسکتی ہیں، لیکن وہ جماعتیں جو عوام کی حقیقی نمائندگی کرتی ہوں۔ پچھلے دس پندرہ سال کے الیکشن میں ملک میں جو ہوا سب جانتے ہیں، لیکن بلوچستان میں تو حد ہوگئی ہے یہاں وہ لوگ کامیاب ہوئے جنہیں لوگ پسند ہی نہیں کرتےجو جیت کر کونسلر نہیں بن سکتا تھا وہ لوگ وزارت اعلیٰ پر پہنچے توکوئی وزیراعظم بن گیا۔
سابق وزیراعلیٰ اخترمینگل کی مثال سامنے ہے، ان کے ماضی میں ایک بھائی لاپتہ ہوئے اور آج تک ان کی کوئی معلومات نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ پاکستانی آئین اور قانون میں رہتے ہوئے بلوچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی بھی پارلیمنٹ میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا آخر وہ مجبور ہوکرملک سے چلے گئے ہیں۔
اسی طرح ماہ رنگ بلوچ کا معاملہ ہے ،یہ کوسٹل بیلٹ سے نکل کرہزاروں کلو میٹر سفر کرکے دارلحکومت پہنچی اور اسلام آباد کا دروازہ کھٹکھٹایا،اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی پاکستان کے قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے مسائل کا حل چاہتی ہے، لیکن اسلام آباد میں کسی نے بات نہیں سنی بلکہ غیرمناسب القابات دیئے گئے اورماہ رنگ کو خالی ہاتھ اسلام آباد سے واپس کردیا۔
اسلام آباد میں جب اس نے کیمپ لگایا تھاتو اس کے سامنےسرکاری سرپرستی میں ان لوگوں کا کیمپ لگا دیا گیا تھاجس کے بارے بلوچستان کے لوگوں کی رائے بہت خراب ہے۔ ریاست بظاہر ایسے لوگوں کی سرپرستی کرتی ہے جس سے بلوچ نفرت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بات نہیں کرتی جو مقامی سیاست کرتے ہیں اور انہیں حمایت حاصل ہے۔ ماہ رنگ بلوچستان کی سیاست میں نیا ٹرینڈ ہے۔ ان سے بات کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر مالک، اختر مینگل جیسے لوگ قومی سیاست کرتے ہوئے پارلیمانی وفاق کی بات کرتے تھے، انہیں نظرانداز کرکے ایسی سیاست کو ناکام کردیا گیا ہے۔ بلوچستان کی تازہ ترین صورت حال میں ایک طرف ماہ رنگ کی قیادت میں تحریک چل رہی ہے یا پہاڑوں پر چڑھے لوگ ہیں اور دوسری طرف ریاست ہےاور ریاست کے لیے کام کرنے والے لوگ ہیں جب کہ پٹے ہوئے لوگ اقتدار میں بیٹھے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے، ماہ رنگ بلوچستان کی نوجوان قیادت ہے یہ ڈائیلاگ کرنا چاہتی ہیں، ان کے اپنے خا ن دان کے لوگ آئے ہوئے ہیں، سمیع بلوچ کے والد آئے ہوئے ہیں ابھی یہ لوگ صرف زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں، ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے،اس طرح خراب حالات کووقتی طور پر بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے، ان کا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے جولوگ زیرحراست ہیں انہیں رہا کیا جائے،جن پر کوئی الزام ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کریں۔
18ویں ترمیم کا ہونا پاکستانی سیاست کی بہت بڑی تبدیلی اور کامیابی ہے، آئین کے اصل رخ تک لے جانے کے لیے بہت بڑا قدم تھا، لیکن اصل مسئلہ اس پر عمل درآمد ہے، اس میں صوبائی خودمختاری تو بحال کردی گئی ہے، لیکن جب نمائندے حقیقی نہیں ہوں گے تو ایسی آئینی ترامیم کا کیا فائدہ، بلوچستان کے اصل منتخب نمائندے تک اٹھارویں ترمیم کو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، سی پیک کا بڑا ذکر ہوتا ہے اسے گیم چینجرکہا جاتا ہے، اس میں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی لیکن اس کا بلوچ عوام کی زندگی پر اب تک کوئی فرق نہیں پڑا ،وہاں کا نظام تعلیم ،صحت بہتر ہوا، کیا وہاں بے روزگاری میں کمی آئی، ایسا کچھ نہیں ہواہے، لوگوں میں زیادہ غصہ اس بات پر بھی ہے۔
بلوچستان کے نام پر بڑے بڑے منصوبے حاصل ہوئے لیکن بلوچ عوام کی محرومی دور نہ ہوسکی۔ گوادر پورٹ بنالیا لیکن گوادر کی عوام کے لیے صاف پانی کا بندوبست نہیں ہوا، وہاں صدیوں سے ماہی گیری کرکےزندگی بسر کرنے والے لوگوں کےلئے سمندر جانے کے راستے بند کردیئے ہیں۔
بلوچستان میں جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم ہیں، باہر سے آئی سیکورٹی بلوچوں کو روک کر پوچھتے ہیں تم کون ہو اور کہاں جارہے ہو، لوگ اس رویے پربھی بہت ناراض ہیں وہ کہتے ہیں ان سے ان کے وطن میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ آپ کہاں جارہے ہو۔ اگر حقیقی انتخابی نتائج کے تحت نمائندے منتخب ہوکر آجائیں تو اٹھارویں ترمیم کے فوائد مل جائیں گے۔
موسی خیل طرز کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، اس طرح کے واقعات کسی بھی حقوق کی تحریک کےلیے زہر قاتل ہیں،کسی بے گنا ہ کو رنگ نسل ، تعصب کی بنیاد پر کسی بے گناہ شہری، مزدور یا کسی بھی شعبے سے ہوقتل کرنا مارنا بدترین فاشزم ہے، ایسے بدترین کارروائی کی کوئی بھی معاشرہ حمایت نہیں کرتا۔
اسلام آباد میں جب ماہ رنگ کو پریشان کیا گیاتو کراچی میں مختلف زبان بولنے والے سب مزدوروں نے مل کر ان کی حمایت میں کراچی میں بہت بڑی ریلی نکالی تھی،ہم بلوچ تحریک کی حمایت کےہرپروگرام میں شامل ہوتے ہیں مزدوروں نے ہمیشہ یک جہتی کا اظہارکیا ہے۔ لیکن جب مزدوروں کو شناخت کرکے جو ڈرائیور ہو یا کچھ اور وہ کسی رنگ نسل سے ہو بے گنا ہ قتل کریں گے تو ایسے واقعات کے نتیجے میں بلوچ تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو بہت کامیابی ہوگی بلوچ عوام کے لیے مختلف حلقوں میں ہمدردیا ں پیدا ہونے سے فیصلہ سازوں کو دباو کا سامنا تھا،جنہوں نے یہ دہشت گردی کرکے ذمہ داری لی ہے انہوں نے اپنے ساتھ اچھا نہیں کیا، دنیا میں چلنے والی حقوق اور انقلاب کی تحریکیں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑتی ہیں،مارنے سے نتائج بھیانک نکلتے ہیں۔ ماہ رنگ اور دیگر لوگوں نے ان واقعات کی مذمت کی ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے جن دنوں دھرنا دیا ہوا تھا تو انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور دیگر لوگوں سے بات کی تھی،سمی دین بلوچ باہر جارہی تھی اس کے پاس پاسپورٹ ویزا سمیت دیگر دستاویزات تھی لیکن اسے جانے نہیں دیا گیا، وہ بات کرنے جارہی ہے ،ایک شہری جس نے تمام قانونی تقاضے پورے کئے ہیں اس کی نقل و حمل پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
اس رویہ سے بدنامی ہوئی یورپی یونین اور گرین پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے اس کی مذمت کی تھی۔ تو جو لوگ بات کرنا چاہتے ہیں حکومت کو چاہیے ان سے بات کرے بات چیت سے امن کے اقدامات کو آگے بڑھایاجاسکتا ہےلیکن بات چیت حقیقی نمائندوں سے ہی کی جائے ورنہ ایسی کسی مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
پاکستان کی تاریخ ہے جن لوگوں نے اپنے حقوق کےلیے آواز بلند کی ان پر غیر ملکی ایجنٹ اورغدار جیسےالزامات کا سامنا رہا ہے۔ مسئلہ ہےلیکن اسے حل نہیں کرتے اور جب خرابی بڑھ جائے تو الزام دوسرے پر ڈال دیتے ہیں۔ ایم آرڈی کی تحریک چلی اس پر ایسا ہی الزام لگا۔ اے آرڈی تحریک کے لیے بھی ایساہی کہا گیا تھا، ٹریڈ یونین اور سماجی تنظیموں کےلیے کام کرنے والوں کےلیے بھی کہاگیا، اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری طرز عمل پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو بھی کہا جاتا ہے۔
پہلے صرف آمرانہ دور حکومت میں ایسا ہوتا تھا اب سول حکومتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔لوگ پریشان ہوکر ادھر ادھر چلے جاتے ہیں ،جلاوطن ہوکر لوگ زیادہ تر یورپی ممالک کو رخ کرتے ہیں، لوگوں کو بات کرنے سے نہیں روکا جاسکتا، اس کا حل صرف یہ ہے کہ جہاں آگ لگی ہے اسے بجھائیں،یہ گھر کی آگ ہے گھر کےلوگ بجھائیں گے دوسروں پر الزام نہ لگائیں،بلوچ مسئلہ کی مرکزی وجہ ریاست کا رویہ ہے۔بلوچستان کا بگاڑ خطرناک ہے،پاکستان کو اپنے ماضی سے سیکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر ہما بقائی
بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی میں 74افراد قتل ہوئے ہیں۔ حملوں کی چھ منظم کارروائیاں سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ نیا نہیں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، تازہ ترین پرتشدد کارروائی نہایت خطرناک ہے۔جس کا اہم پہلو یہ ہے حملے چھ مختلف مقامات پر منظم انداز میں ہوئے اور حملہ آور ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، خاص طور پر پنجابیوں کو نشانہ بنایا گیا اور پنجاب اور سرائیکی بیلٹ سے ملے ہوئے علاقوں میں کی گئی۔
جو لوگ آج اقتدار کے کوریڈور میں ہیں یہ ان کے لیے یہ ویک اپ کال ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں بغاوت کی پانچویں لہر ہے۔ لیکن موجودہ پچھلی تمام سے زیادہ خطرناک ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس مرتبہ یہ صرف قبائلی بغاوت نہیں ہے، یہ اربن ہےجسے نوجوان چلارہے ہیں۔
موجودہ تحریک سے تعلیم یافتہ بلوچ جڑا ہے۔ ہمارے پاس بھی یہ موقع ہے کہ آواز اٹھانے والے تعلیم یافتہ بچوں سے سے بات کریں ان کی شکایت سنے ان کی تکالیف کا جائزہ لیں اور اس کا سدباب کریں اور شدت پسند طبقے کو کاونٹر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں اتحاد کرلیں اور پھر حالات ہاتھ سے نکل جائے۔
لاپتہ افراد مسئلے پر ریاست سراسر غلطی پر ہے، کچھ حد تک یہ درست ہے جونام لاپتہ افراد کی لسٹ میں لکھوائے گئے ہیں، جو ان کے خان دان کے لوگ نوٹ کرواتے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ بھارت سمیت دیگر ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے جو نوجوان آپ کے سامنے احتجاج کررہے ہیں ان کے باپ بھائی بیٹے شوہر لاپتہ ہیں اور ریاست انہیں مناسب جواب دینے اور مطمئین کرنے میں ناکام ہیں۔
لاپتہ افراد کے مسئلے پر احتجاج کرنے والے یہ لوگ سماجی رابطوں کے جدید ٹولز کے ذریعے آپس میں جڑ گئے ہیں۔ ماضی میں رابطہ اتنا آسان نہیں تھا۔لیکن آج مشترکہ دکھ رکھنے والے سماجی رابطوں کے ذریعے جوڑتا ہے تو وہ ایسی طاقت بن جاتے ہیں جس کے سامنے ریاست بھی کمزور پڑجاتی ہے، بلوچستان میں یہی ہورہا ہے، بلوچستان میں احتجاج کرنے والے بچے تعلیم یافتہ اور سوچ بوجھ کے حامل ہیں یہ دوسری فریڈم موومنٹ کو دیکھتے ہیں۔
اسی لیے ماہ رنگ بلوچ تحریک چلارہی ہے، وہ چھ سات دن گوادر میں بیٹھے ایک گملا نہیں ٹوٹا، ان کا احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا،ان کے پیچھے بہت بڑی تعداد کھڑی ہے، یہ کہناکہ لاپتہ افراد کا معاملہ کچھ جھوٹ ہے۔ یہ بیانیہ پچاس ساٹھ سال پرانا ہے، اس سے بلوچ ناراضی بڑھی ہے بہتر یہی ہے کہ ہم آدھاسچ بولنا بند کریں اور پورے سچ کا سامنا کریں اور اس کا ادراک کریں۔مجھے یہ کہتے ہوئے خوف آتا ہے کہ خدانخواستہ بلوچستان بھی آپ کے ہاتھ سے نکل جائے، بلوچستان پاکستانی حدود کا 44فیصد رقبہ ہے۔
اس معاملےپر وفاق کا انگیج کرنے کی ضرورت ہے،بلوچستان کا موجودہ سیاسی ماڈل کا بیشترحصہ زمینی حقائق کے برخلاف غیر جمہوری غیر منتخب ہے۔ وہاں کی عوام اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کے لوگوں کو بیٹھا کر یہ کہنا کہ یہ جمہوریت ہے میڈیا پر اپنی مرضی کے جملے کہلوانا پٹا ہوا طریقہ ہے، ہمیں اس سے نکل کر آگے بڑھنا ہوگا،اصل اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنی ہوگی مسائل کا حل صرف سیاست میں ہے طاقت میں اس کا کوئی حل نہیں۔
جہاں تک بلوچستان میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا امکان ہےبلوچستان میں بیرونی قوتیں بھی ملوث ہیں، اس کے ہمارے پاس مضبوط ثبوت و شواہد موجود ہیں جو ہم نے اقوام متحدہ کے بھی حوالے کیے ہیں جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ بلوچستان میں غیرملکی مداخلت ہورہی ہے۔
بلوچستان کا پورا خطہ تین ملکوں میں شامل ہے، بلوچستان کا ایک حصہ پاکستان میں ایک ایران میں افغانستان میں بھی ہے، یہ جغرافیائی صورت حال موجودہ صورت حال کا مزید پیچیدہ کررہا ہے۔اس طرح کی صورت حال ایران سے بھی ہوتی ہے، انڈیا بھی حالت خراب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے یہ ان کا ایجنڈا بھی ہے۔
کچھ لوگ امریکا کو بھی مورد الزام ٹہرارہے ہیں ان کی رائے میں اس طرح پاک چین سی پیک کے منصوبے کی سرمائے کاری اتنی فعال نہ ہوں،ان کا بھی اس طرح کا مفاد ہوسکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ 70 سال سے بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا گیا ہے، سات دہائیوں سے جاری بلوچستان کی فرسٹریشن جوں کی توں برقرار ہے اور اب تو بد سے بدتر کی جانب رواں دواں ہے، موجودہ شورش کا آغاز سن دوہزار سے شروع ہوا، ان کا صرف یہ مطالبہ تھا بلوچستان کے وسائل پر صرف بلوچ کا حق ہے ۔دوہزار سے آج دوہزار چوبیس ہے اس دوران حکومتوں نے ان کی محرومی دور کرنے کےلیےکوئی اقدامات نہیں کئے۔
طاقت کے استعمال کو حکمت عملی قرار نہیں دیا جاتا، بعض اوقات طاقت کا استعمال بہت غیر ضروری ہوجاتا ہے، ابھی بھی ہم نے جو بیانات سنے وہ بہت تکلیف دہ تھے،یہ کہنا ایک ایس ایچ او کی مار ہیں ،یہ بے عزتی ہے ان بلوچیوں کی جو یہ سمجھتے ہیں وہ یہ لڑائی اپنے حقوق حاصل کرنے کےلیے لڑرہے ہیں۔یہ واضح رہے کہ ایک لڑنے والا دہشت گرد اورایک لڑنے والا فریڈم فائیٹر کہلاتا ہے۔
لہٰذا اس کا ایک طریقہ پرتشدد ہے اور دوسرا بات چیت پر مشتمل ہوتا ہے، میرے خیال میں اسٹیٹ نے بہت اہم موقع گنوایا ہے جب جنوری میں ماہ رنگ بلوچ اسلام آباد آئی تھی،وہ اسٹیٹ کےلئے ایس او ایس تھا وہ داد رسی کےلیے آئی تھی، اسے گاڑی میں بھر کر واپس بھیج دیا گیا، آج وہ بھرپور طاقت بن گئی ہے ،گوادر میں جب اس نے جلسے کئے کچھ ہی دیر میں اسے باہر سے حمایت ملنا شروع ہوگئی ہے باہر سے کھانا آیا ہے، اور کوسٹ گارڈ نے آنکھیں بند کی ہیں جب اس کی ترسیل ہورہی تھی،یہ تمام باتیں اس بات کا اشارہ کررہی ہیں کہ ہم نہیں سمجھ رہے کہ یہ صورت حال کتنی گھمبیر ہورہی ہے اور کس طرف جارہی ہے، جو طبقہ ماہ رنگ بلوچ کے پیچھے اور ساتھ ہے ،جو بہت بڑا اور طاقت ور طبقہ ہے وہ نوجوان ہیں ان کا تعلق شہری آبادی سے ہے تعلیم یافتہ علم وفہم والے لوگ ہیں عورتیں بچے ہیں اس نے ان پرتشدد واقعات سے علیحدہ کیا ہوا ہے اس کا اعلان ریاست پاکستان کے لیے بہت بڑی آفر ہے اس کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر اس سے بات چیت کرنا چاہیے، ماضی میں جو اکبر بگٹی کے ساتھ ہوا اس واقعہ کو لوگ بلوچستان کا نو گیارہ کہتے ہیں۔