میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : جنید احمد
شرکاء
ڈاکٹر شاہد رسول (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر)
ڈاکٹر طارق محمود ( پروفیسر، ایمریٹس، ریڈی ایشن انکولوجی، سائبر نائف یونٹ/ پیشنٹس ایڈ فاؤنڈیشن)
ڈاکٹر کامران سعید ( ہیڈ آف ریڈی ایشن انکولوجی، سائبر نائف، ٹومو تھراپی، سائبر نائف یونٹ جے پی ایم سی )
جناح اسپتال کو کینسر کے مریضوں اور اس کی دوا کے لئے علیحدہ سے بجٹ نہیں ملتا،حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ کینسر کی مد میں ہمیں علیحدہ بجٹ فراہم کرے ۔میڈیکل انکالوجی کیموتھراپی ، اورل اور انجیکشن کا بجٹ علیحدہ سے مختص کردیا جائے۔ کیموتھراپی کے لیے انکالوجی کی نیشنل پالیسی بنالی جائے، افادیت والی سستی ترین دوائی کے متعلق پالیسی دی جائے۔
مفت بائی اوپسی لیب رپورٹ کی سہولت جناح اسپتال میںجلد دستیاب ہوگی، موروثی کینسر سے محفوظ رہنا مشکل ہوتا ہے ایسے خاندان کے لوگ باقاعدگی سے اپناچیک اپ کرواتے رہیں تاکہ اگر کینسر ہوتا بھی ہے توجلد پکڑا جاسکتا ہے اور علاج بھی ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد رسول
جناح ہسپتال کا سائبر نائف ریڈی ایشن سینٹرصرف پاکستان کانہیں بلکہ دنیا کے دس ٹاپ سینٹر میں شامل ہے، جہاں سائبر نائف تھراپی سے علاج کسی صوبے، نسل، مذہب اور قومیت سے بالا ہوکر بالکل مفت ہے۔ پاکستان کے167 علاقوں اور پندرہ ملکوں سے لوگ مفت علاج کرواچکے ہیں ، ہمارے ادارے میں کوئی کیش کاوئنٹر نہیں ہے ،تشخیص، علاج، فالواپ ہرچیز بلامعاوضہ ہے، سائبرنائف سے ابتدائی اسٹیج مریض کا علاج ہوتا ہے ، ٹوموتھراپی ون ٹو اور فوراسٹیج کے لیے ہے۔
دنیا میں مرض تشخیص اورعلاج کے لیے پچاس ہزارسے لے کرایک لاکھ بیس ہزار ڈالر تک مریض سے فیس لی جاتی ہے، حکومت سندھ اور پینشٹس ایڈفاونڈیشن کے سبب یہاں بلامعاوضہ علاج کیا جارہا ہے، جلد بارہ منزلہ کینسر ٹاور بنائیں گے، سالانہ بنیادی سی بی سی ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہیے
ڈاکٹر طارق محمود
اگر کینسر کو چھیڑا تو یہ پھیل جائے گا اس میں قطعی کوئی حقیقت نہیں ہے اگر مریض کا شروع میں ہی پورا چیک اپ کرلیا جائے توعلاج بہتر ہوسکتا ہے۔بائی اوپسی ٹیسٹ سے مرض تیزی سے نہیں پھیلتا ،پاکستان میں ہرطرح کے کینسر کا علاج ہورہا ہے، کیسز کمپری ہینسیو گائیڈ لائن کےمطابق جو علاج کرنا چاہیے وہ پاکستان میں موجود ہے، فرسٹ ٹائم ڈرگس زیادہ تر اتنی مہنگی نہیں ہیں اس میں دوچیزیں ہیں ایک جنرک ہے اور ایک نان جنرک ہے، جنرک مہنگی ہوتی ہے اور نان جنرک سستی مل جاتی ہے، اگر علاج ٹھیک طرح سے ہوجائے تو مریض محفوظ ہوجاتا ہے۔ کینسر کی کوئی بھی اسٹیج ہو مریض کو کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر کامران سعید
آج ہمارا موضوع مہلک بیماری کینسرہےجس کا نام سنتے ہی دہشت محسوس ہوتی تھی اور بیماری خوف اور موت کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن اب امید کی کرن نظرآئی ہے ،کیوں کہ اب کینسر کی تشخیص ہوجاتی ہے اور ابتدائی اور کسی بھی اسٹیج کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کینسر کا مریض بروقت علاج کروانے سے موت سے بچ جاتا ہے اور نارمل بھی ہوجاتا ہے ۔امراض دل، شوگر اور دیگرامراض کی طرح کینسر بھی ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
مرض کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں اسے روکا کیسے جائے اور تدارک کیسے ہو، کیا دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ہمارے مریضوں کوعلاج کی جدید سہولت دستیاب ہے، پاکستان خصوصاً سندھ میں کینسر کے مریضوں کے لیے جدید علاج کی سہولت کس حد تک دستیاب ہے ،کیاعلاج کی ان سہولت سے متاثرہ مریضوں کی زندگی بچ جاتی ہے۔
دوسرے ممالک جیسے انڈیا وغیرہ کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ،کینسر کا علاج مہنگا ترین سمجھا جاتا ہے تو کیا غریب بھی اپنا علاج کرواسکتا ہے، انہیں کس حد تک مفت علاج کی سہولت مل رہی ہے اگر نہیں تو اس کی کیا وجوہ اور مشکلات ہیں ،اس طرح کے دیگر مزید سوالوں کے جواب کےلیے ہمارے ساتھ موجود ہیں، ڈاکٹر شاہد رسول (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر) ڈاکٹر طارق محمود ( پروفیسر ایمریٹس ، ریڈی ایشن انکولوجی، سائبر نائف یونٹ/ پیشنٹس ایڈ فاؤنڈیشن) اور ڈاکٹر کامران سعید ( ہیڈ آف ریڈی ایشن انکولوجی، سائبر نائف، ٹومو تھراپی) گفتگو کا آغاز ڈاکٹر کامران سعید سے کریں گے۔
جناح ہسپتال کے سائبر نائف یونٹ میں "کینسر کا پھیلاؤ، اسباب اور علاج کی جدید سہولتیں؟" کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ
جنگ: پاکستان میں کینسر تیزی سے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں ؟
ڈاکٹر کامران سعید : پاکستان اور سندھ میں سب سے زیادہ ہیڈ این نیک اور پھیپھڑوں کے کینسر مریضوں کی تعداد زیادہ ہے اور خواتین میں چھاتی کے کینسرکی شرح زیاد ہے ،ہیڈ اینڈ نیک کینسرجراثیم کی جو وجوہ سامنے آئی ہیں اس کی وجہ عوام کا بعض مضر اشیا کا بہت زیادہ استعمال کرنا ہے ۔جس میں سگریٹ نوشی ، پان ، گٹکا ، چھالیہ اور اسی طرح کی مضر غیر ضروری چبانے والی دیگر اشیا شامل ہیں، کینسر کے تیزی سے پھیلاو میں ان کا بڑا کردار ہے۔
عوام میں ان مہلک عادتوں کے جان چھڑانے کے لیے کافی تشہیر کی جاتی ہے انہیں سنگین نتائج کا بتایا بھی جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے آگاہی مہم کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، البتہ اگر ان کے خاندان میں کوئی شخص متاثر ہوجائے تو لوگ تکلیف دیکھ کر ڈر جاتے ہیں ورنہ مضر اشیا کا استعمال معمول کے مطابق رہتا ہے، اس کے علاوہ ہماری روزمرہ استعمال کی خوراک میں بھی بعض طرح کے زہر کینسر کی وجوہات میں شامل ہیں ۔ اشیا خوردونوش کی جوچیزیں استعمال ہورہی ہیں ان میں مصنوعی اجزا اور کیمیکل کا بڑا آزادانہ استعمال ہورہا ہے جو کینسر کے پھیلاو کا سبب ہے۔
جنگ : کینسر کا تعلق کیا موروثیت سے بھی ہے؟
ڈاکٹرکامران سعید: اس مرض کا تعلق موروثیت سے بھی ہے، جیسا کہ بریسٹ کینسر ہے، کینسر کے جینز فیملی سے بھی چل رہے ہوتےہیں۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی کئی اقسام بھی فیملی میں سفر کررہے ہوتے ہیں۔
جنگ : کینسر کے شکار زیادہ ترمریضوں کا تعلق کسی طبقے جنس یا عمر سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کامران سعید: سائبرنائف میں90فیصد برین ٹیومرکاعلاج ہورہا ہے ۔ برین ٹیومرزیادہ ترعورتوں میں پایا گیا ہے، یہ 60فیصد بینائی ٹیومر ہوتے ہیں مردوں میں جی پی ایم ہے جو ہائی لی میگنیٹیزڈ ٹیومر ہے وہ پایا جاتا ہے کینسرکی شرح عورتوں میں زیادہ ہے ۔ یہ مرض ہر عمر اور جنس میں ہے۔ جہاں تک امیر غریب کی بات ہے ایسا بھی ہے۔ اس مرض کا تعلق لائف اسٹائل سے بہت زیادہ ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں پراسٹیٹ کینسر کی شرح زیادہ ہے۔
جنگ : کینسر تشخیص کیسے ہوتی ہے اس کی علامات کیا ہیں؟
ڈاکٹر کامران سعید: کسی بھی غیرمعمولی علامت جیسے مسلسل کھانسی ہورہی ہو، جسم کے کسی حصے میں سوجن ہو ، اجابت میں مشکل ہورہی ہو اس میں ضرورت سے زیادہ وقت لگ رہا ہےتو پھر فوری کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ، ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے علامت کی بنیاد پرعلاج کرے اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ اسپیشلائزڈ ٹیسٹ پر جائیں ، خدانخواستہ کینسرکی تشخیص ہوجاتی ہے تو معالج کو فوری کینسر کے ڈاکٹر کو ریفر کردینا چاہیے۔
جنگ: پاکستان میں غربت زیادہ ہے اور اس طرح کے ٹیسٹ مہنگے ہیں ، کیا ہمارے پاس ایسی سہولت ہے جہاں لوگ آسانی سے ٹیسٹ کراسکیں اورلوگ سنی سنائی باتوں پر بھی عمل کرتے ہیں؟
ڈاکٹر کامران سعید: ہمارے معاشرے میں لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں ، بائی اوپسی کی مثال لیں ، کینسر کی تشخیص بائی اوپسی ٹیسٹ پر ہوتا ہے ، یہ ٹیسٹ جسم سے ٹکڑا نکالنے سے ہوتا ہے ۔ دوسری طرف یہ تصور عام ہے کہ اگر کینسر کو چھیڑا تو یہ پھیل جائے گا ، اس بات میں قطعی کوئی حقیقت نہیں ہے اگر مریض کا شروع میں ہی پورا چیک اپ کرلیا جائے توعلاج بہتر ہوسکتا ہے۔
بائی اوپسی ٹیسٹ سے مرض تیزی سے نہیں پھیلتا لوگوں کی یہ غلط فہمی ختم ہوناچاہیے ، دنیا میں جہاں بھی کینسر مریض کا علاج ہورہا ہے اور وہ شفایاب ہورہا ہے، وہ سائینٹیفک طریقہ علاج سے ہی ہورہا ہے ، لیکن علاج مفروضے کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا، اگر مریض کو شفا کی خواہش ہے تو ڈاکٹر جس ٹیسٹ کی ہدایت کررہا ہے وہ کروانے ضروری ہیں اس میں کسی طرح کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
جنگ: کینسر کے علاج کا بھارت سے موازنہ کریں تو ہم اس کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟
ڈاکٹر کامران سعید: بھارت میں آگاہی اور علمی ماحول ہمارے سے کچھ بہتر ہے، بھارتی مصنفوں نے اس پر کافی کام کیا ہے۔
جنگ: ہمارے یہاں علاج کے دوسیکٹرز ہیں ایک نجی اور دوسرا سرکاری، ہر کوئی پرائیوٹ علاج نہیں کرواسکتا اگر علاج سرکاری کرواتا ہے تو اس سے اخراجات میں کتنا فرق پڑتا ہے۔
ڈاکٹر کامران سعید: کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے ، ہمارے ادارے میں کیمو تھراپی پر جو ریڈیشن دی جاتی ہے اس کا موازنہ اگر آغا خان اسپتال سے کیا جائے تو وہاں یہ علاج سات سے آٹھ لاکھ روپے میں ہوتا ہے اور ہمارے پاس علاج بالکل مفت ہورہا ہے ، علاج کے آغاز سے پہلے سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کیا جاتا ہے ، آغا خان اسپتال میں اس پر سوا سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے ہمارے ادارے میں یہ بالکل فری ہے ، پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیومر بلک میں پاکستان اٹامک انرجی کے سینٹرز نے کیا ہے، پورے ملک میں اس کے 17 سے اٹھارہ مرکز ہیں، شوکت خانم یا کوئی اور کینسر اسپتال میں علاج کرنے کی شرح بہت کم ہے، ان اداروں نے ایک معیار بھی بنایا ہوا ہے کہ فلاں مرض کو دیکھیں گے۔
کینسر کے ابتدائی علاج میں اخراجات کم ہوتے ہیں ، خدانخواستہ لے اسٹیج یا کرونک ہوجائے تواخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ اس لیے زیادہ بوجھ اٹامک انرجی کے سینٹرز پر ہے۔ یہاں علاج زکوت فنڈ، فری یا کم سے کم پیسوں پر ہورہا ہے۔
جنگ: کیا پاکستان میں ہرطرح کے کینسر کا علاج موجود ہے یا بعض کیسوں میں مریض بیرون ملک لے جانا مجبوری ہے۔
ڈاکٹر کامران سعید: پاکستان میں ہرطرح کے کینسر کا علاج ہورہا ہے ، بہت زیادہ ایڈوانس اور کوالٹی کی بات کی جائے تواس پرمیں کچھ نہیں کہوں گا۔ کینسر کمپری ہینسیو گائیڈ لائن جو امریکا سے شائع ہوتی ہے ، اس گائیڈ لائن کو تمام ڈاکٹر فالو کرتے ہیں ، یہ ایک طرح کا کینسرعلاج کا عالمی اتفاق رائے ہے کہ کس مرض اور اسٹیج کا علاج کیسے کیا جائے ، یو کے میں نائس گائیڈ لائین ہے لیکن دنیا میں زیادہ تر امریکی گائیڈلائن پر عمل کیا جاتا ہے ، اس کےمطابق جوعلاج کرنا چاہیے وہ پاکستان میں موجود ہے۔
جنگ: عام طور پر کس اسٹیج پر مرض کی تشخیص ہوجاتی ہے؟
ڈاکٹر کامران سعید: اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ، علامت محسوس ہو تو ڈاکٹر سے جلد رجوع کرنا چاہیے تاکہ تشخیص میں تاخیر نہ ہو ۔ اکثر کیس میں لوگوں کو کینسر کامعلوم ہوجاتا ہے لیکن وہ علاج کے بجائے فضول وقت ضائع کرتے ہیں ، کوئی آپریشن نہیں کرانا چاہتا ۔ کوئی کیمو تھراپی سے انکار کرتا ہے، اگر مریض ایسا رویہ اختیار کرے گا تو نہ علاج ہوسکتا ہے اور نہ شفایابی ممکن ہے۔
جنگ: پاکستان میں کینسر کا سب سے مہنگا جدیدعلاج سائبر نائف ہے ، سائبر نائف ہے کیا؟
ڈاکٹر طارق محمود: کینسر کے تین طریقہ علاج ہیں ، پہلا سرجری، جو سرجن کرتا ہے، دوسرا کیموتھراپی جودوائی کی صورت میں کھائی بھی جاتی ہے اور انجیکشن لگا کر بھی ہوتا ہے اور تیسرا ریڈیشن سے علاج ہے، جے پی ایم سی میں سرجری طریقہ علاج کےلیے سب سے زیادہ آپریشن تھیٹر موجود ہیں اس لیے یہاں ہر طرح کے کینسر کی سرجری ہوتی ہے، اس کے بعد کیموتھراپی ہے جناح اسپتال میں کیموتھراپی بھی دستیاب ہے ، یہ پاکستان کا ڈیزیزسینٹر ہے پورے سندھ میں سب سے زیادہ کیموتھراپی جے پی ایم سی میں ہوتی ہے اور تیسرا طریقہ علاج ریڈی ایشن ہے۔
پاکستان میں اکثر مقامات پر ہر طرح کی سرجری ہوتی ہیں ،کیموتھراپی میں بڑی سرمایہ کاری نہیں ہے کچھ دوائیاں مہنگی ہیں تو کچھ سستی بھی ہیں جو پاکستان بھر میں مل جاتی ہے، تیسرا طریقہ علاج ریڈی ایشن ہے جس میں پاکستان پیچھے ہے ، ریڈیشن طریقہ علاج میں انویسٹمنٹ بہت زیادہ ہے اور انویسٹمنٹ ریکوری کےلیے بہت وقت لگتا ہے۔
سرجری کے لیے آپریشن تھیٹر کی ضرورت ہوتی ہے،تھیٹر ایک سے دو لاکھ ڈالر میں تیار ہوجاتا ہے، کیموتھراپی میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے، کمپنی اسپتال میں دوائی رکھتی ہے ، فروخت ہوگئی تو پیسے مل جاتے ہیں اور نہیں تو کوئی بات نہیں اسپتال کی کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے۔
لیکن ریڈیشن کے لیے بھاری سرمائے کی ضرورت ہے، ابتدا میں ہاف ملین ڈالر کی جگہ پھر ہاف ملین ڈالر کا بنکر پھر دو،چارملین ڈالر کی مشین لینے کے بعد علاج شروع ہوگا جس کے بعد دھیرے دھیرے اخراجات کی ریکوری ہونی ہے جس میں دس سال بھی لگ سکتے ہیں، اس ہی وجہ سے پاکستان ریڈی ایشن پالیسی میں دنیا سے بہت پیچھے ہے۔
ماضی میں ایسا نہیں تھا ،1960 میں جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر میں کیموتھراپی کے پانچ یونٹ تھے ، ان دنوں یہ سہولت سعودیہ، مشرق وسطی یا سارک ممالک میں کہیں نہیں تھی ۔ لیکن جب کراچی سے دارلحکومت منتقل ہوگیا تو اس کے بعد سے اسپتال خراب سے خراب ہوتا گیا ہے۔ کیوں کہ جدید ٹیکنالوجی میں کسی طرح کی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
آج جب ریڈی ایشن ٹیکنالوجی میں دنیا سے موازنہ کریں جس کےلیے گوگل میں سرچ کرکے چیک کریں توجناح پوسٹ میڈیکل سینٹر دنیا کے دس ٹاپ سینٹرمیں شامل ہے، آج یہاں ایک چھت کے نیچے دو سائبر نائف دو ٹوموتھراپی ہے ہمارا ارادہ تیسرے کا بھی ہے جسے ٹیچنگ کے طور پر استعمال کریں گے۔
ریڈی ایشن ٹیکنالوجی میں ہمارے سینٹر کے علاوہ دیگر میں بھی کچھ بہترسہولت موجود ہیں، لیکن دیگرمیں جوریڈی ایشن آفرکی جارہی ہے وہ بیس سے تیس سال پرانی ٹیکنالوجی ہے ۔ ٹیکنالوجی تبدیل ہوگئ ہے ریڈی ایشن میں ایسی سیفٹی آگئی ہے جو سرجری میں تھی ، پراسٹیٹ کینسر ، برین سوکینسر کےلیے سائبر نائف سرجری زیادہ محفوظ ہے ۔ اسی طرح کیموتھراپی بھی عام ریڈیوتھراپی کی نسبت زیادہ محفوظ ہے کیوں کہ وہ360 ڈگری سے کٹتی ہے۔
کینسر کے بعض مریض ایک ہی طریقہ علاج سے صحت یاب ہوجاتے ہیں ، اگلے اسٹیج کی ضرورت نہیں پڑتی ، کئی مریض دو کمبی نیشن سے اور بعض کوتین کے کمبی نیشن کی ضرورت پڑتی ہے ۔ سرجری اور کیموتھراپی بہت اچھی ہوجائے لیکن ریڈی ایشن اچھی نہ ہوتومریض کا آوٹ کم اچھا نہیں ہوتا۔
ریڈی ایشن علاج کے لئے پاکستان کوآبادی کے لحاظ سے 420 لینرایکسی لیٹر کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے پاس 86 موجود ہیں اس لیے ہم ابھی اس میں بہت پیچھے ہیں ، لیکن اگر ایکسی لینس کی بات کریں توہمارا ریڈی ایشن سینٹرصرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا کے دس ٹاپ سینٹر میں شامل ہے۔
جنگ : آپ کے ادارے کی طرح کیا یہ طریقہ علاج دنیا بھر میں مفت میسر ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: ہمارا دنیا کا واحد ادارہ ہیں جہاں سائبر نائف تھراپی سے علاج کسی نیشلٹی،مذہب اور قومیت سے بالا ہوکر بالکل مفت ہے ۔ پاکستان کے 167 چھوٹے بڑے مقامات اور پندرہ ملکوں سے لوگ مفت علاج کرواکر گھر جاچکے ہیں ، ہمارے ادارے میں کوئی کیش کاوئنٹر نہیں ہے ، علاج کی ہر سہولت مفت ہے ۔ وہ چاہے تشخیص ہو علاج ہو یااس کے بعد کا فالواپ ہر چیز بلامعاوضہ مفت ہے۔
جنگ : کیا کینسر کےلئے سائبرنائف تیسرا طریقہ علاج ہے یعنی کینسر کے علاج سرجری یا کیمو سے ہونے کے بعد سائبر نائف علاج ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود : چالیس فیصد ٹیومر ایسے ہیں اگر مریض ابتدامیں آگیا تواس کا علاج صرف سائبر نائف سے ہوجائے گا اسے سرجری اور کیموتھراپی کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ سائبرنائف سے ابتدائی اسٹیج مریض کا علاج ہوتا ہے، ٹوموتھراپی ون ٹو اور فوراسٹیج کےلیے ہے ۔ دنیا میں مرض تشخیص اور علاج کے لیے پچاس ہزارسے لے کرایک لاکھ بیس ہزار ڈالرتک مریض سے فیس لی جاتی ہے ، یہ پاکستان ، حکومت سندھ اور پینشٹس ایڈفاونڈیشن اور جے پی ایم سی کو فخر ہے کہ یہاں علاج بلامعاوضہ کیا جارہا ہے۔
جنگ : تمام اقسام کے کینسر کے لیے ریڈی ایشن نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود : ریڈی ایشن ہرطرح کی ہوتی ہے لیکن طے کرنا ہوتاہے جراثیم کو بندوق سے مارنا ہے یا توپ سے اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جراثیم سائبر سے ختم ہوگا یا ٹوموتھراپی سے ، ہم چڑیا کا شکار بندوق سے نہیں کرسکتے اس لئے سائبر نائف کو اسٹیج فور ٹیومر کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ، اس کے لیے ہمارے پاس لوکاسٹ مشینیں ہیں ابتدائی اسٹیج کے مریض کے لیے سائبر نائف استعمال کیا جاتا ہے۔
جنگ: مہنگا علاج اور وہ بھی مفت ان اخراجات کے فنڈ کہاں سے مل رہے ہیں ؟
ڈاکٹرطارق محمود : اخراجات پیشنٹس ایڈ فائونڈیشن اور حکومت سندھ دونوں مل کر برداشت کررہے ہیں ۔ دوہزار اٹھارہ تک سوفیصد اخراجات پیشنٹس ایڈ فاونڈیشن اٹھا رہا تھا لیکن اب حکومت سندھ اور پیشنٹس ایڈ دونوں برابر کے پارٹنر ہیں۔
جنگ : سالانہ کتنا بجٹ خرچ ہورہا ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود : پیشنٹس ایڈ فاونڈیشن نے دوہزار بارہ سے اب تک جناح اسپتال میں106 ملین ڈالرانویسٹ کئے ہیں۔ اس عرصے میں اسپتال گیارہ سو سے بائیس سو بیڈ پر چلا گیا ہے ،اسپتال میں سالانہ سو بیڈ کا اضافہ ہوا ہے اور دس ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کی گئی ہے۔
دوہزار بارہ میں سائبر نائف کا ایک یونٹ تھا اور خرچ ایک اعشاریہ دو ملین ڈالر تھا ، آج یہاں چار سے پانچ یونٹ ہیں اور دیگرمشینیں بھی ہیں اب ہمارے اخراجات ایک بلین ڈالرکے ہیں جس میں پیشنٹس ایڈ فاونڈیشن اور حکومت سندھ برابر کے حصہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پندرہ سو ملازمین ہیں جن کی ایک بلین کے قریب تنخواہیں ہیں یہ علیحدہ اخراجات ہیں۔
جنگ : جناح اسپتال میں کینسر کے علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال میں مکمل کینسر وارڈ ہے ،ہفتے میں پانچ دن کام کرنے والی اس کی اپنی او پی ڈی ہے جو ریجن وائزچلتی ہے ، مختلف ٹیومر کے چیک اپ کے لیے مختلف دن ہیں ، وہاں پورا یونٹ موجود ہے ، بیڈزہیں ، پیشنٹس ایڈ فاونڈیشن کی مدد سے نیا وارڈ بھی بنا ہے جسے مزید اپ گریڈ کررہے ہیں ۔جناح اسپتال میں کیموتھراپی بھی دی جاتی ہے ، جناح اسپتال کی ریڈی ایشن میں سہولت کمزور ہے ، سرجری کے لیے سرجری وارڈ ہے لیکن وہاں مریضوں کا بہت دبائو ہے۔
جنگ: کیا جناح کا کینسر وارڈ اور اٹامک انرجی میڈیکل سینٹر علیحدہ ادارے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول : اٹامک انرجی سینٹر وفاقی حکومت کا ادارہ ہے جو ہماری حدود میں قائم ہے ،وہ خودمختار باڈی ہے اس کا بجٹ بھی وفاقی حکومت سے آتا ہے۔ ان کے پاس زیادہ تر ریڈی ایشن ٹیسٹ کی مشینیں ہیں لیکن وہ ہرسروس کی فیس لیتے ہیں وہ ریڈی ایشن کی بھی فیس لیتے ہیں۔ ان کے بجٹ میں بھی مناسب اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ جناح کا ریڈی ایشن یونٹ پیف نے ہی لگایا ہے، ریڈی ایشن سے متعلق مشینوں اور دیگر اخراجات کو پیف ہی ادا کرتا ہے۔
کینسر کے مریضوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تودوہزار اکیس اور بائیس میں 35ہزار مریض او پی ڈی میں چیک کئے گئے اور 1276مریضوں کا داخل کرکے علاج کیا گیا ، دوہزار بائیس تئیس میں1406 مریض داخل کرکے علاج کیا گیا اور چالیس ہزار مریض او پی ڈی میں چیک کئے گئے ۔ اگر ان چالیس ہزار مریضوں کو کو ادویات کی ضرورت بھی ہوگی۔ دواؤں کی مد میں جناح اسپتال کا کل بجٹ ایک اعشاریہ 7ارب روپے ہے ۔ پچھلے سال جناح اسپتال میں57 ہزار مریض داخل ہوئے تھے اور 12 لاکھ سے زائد او پی ڈی میں چیک کئے تھے۔
اگر فی کس اوسطاً مریض کا خرچ نکالیں تو ایک ہزار دوسو 94روپے ہوتے ہیں۔ جناح اسپتال کو کینسر کے لئے علیحدہ سے بجٹ نہیں ملتا، ہم نے پچھلے سال دس سے بیس کروڑ روپے کی دوائیں حاصل کی تھیں لیکن وہ بھی پوری نہیں ہوئیں ، سینٹرل جیل ، سول اور جناح اسپتال ان تین کے علاوہ ہر جگہ فیس لی جاتی ہے ، کراچی کےعلاوہ سندھ میں گمبٹ میں کینسر مریض دیکھے جاتے ہیں۔
اٹامک انرجی کے بھی کچھ سینٹرہیں ۔ کینسر کی دوائیاں مہنگی ہیں ایک اور مسئلہ اس کا اسٹینڈرائزڈ علاج کہیں درج نہیں ہے ، ایک انکالوجسٹ پانچ لاکھ کا انجیکشن لکھ رہا ہے توکوئی پانچ ہزار والا لکھ رہا ہے۔ کوئی اسٹینڈرڈ گائیڈلائن ہونی چاہیے ۔ دوائوں کا ایک ذریعہ ڈرگ اینڈ میڈیسن کا بجٹ ہے دوسرا زکوة فنڈ اور تیسرا بیت المال بھی دوائوں میں ہمیں سپورٹ کرتا ہے۔لیکن ہماری حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ کینسر کی مد میں ہمیں علیحدہ بجٹ فراہم کرے ۔میڈیکل انکالوجی کیموتھراپی ، اورل اور انجیکشن اس کا بجٹ علیحدہ سے مختص کردیا جائے۔
ڈاکٹر طارق محمود: کیمو اور ریڈی ایشن علاج کا ایک حصہ ہے ، جناح میں سب سے زیادہ کینسر سرجری ہوتی ہے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: کینسر سرجری کا جائزہ لیں تو برین ٹیومرز،اسپائنل ٹیومرزبعض ٹیومرز ایسے ہوتے ہیں جو اسپائن سے نکل کر پیٹ میں آجاتے ہیں، تھائی رائیڈ ٹیومرز، لیورٹیومر، بڑی آنت کا ٹیومر، پھپھڑوں کا ٹیومر،ہیڈ این نیک، منہ اور زبان کے کینسر کی سرجری ، گائنی والے خواتین کے ٹیومر کا علاج کرتے ہیں، یورولوجی، بلیڈر تھرمالوجی، آنکھوں کےٹیومر یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کینسر کی سرجیکل سرجری کی تمام سہولتیں جناح اسپتال میں موجود ہیں ، اصل دباو کینسر انکالوجی پر ہے اس کی وجوہات ہیں، جیسے کچھ مریض آخری اسٹیج پر ہوتے ہیں ایسے مریضوں کے علاج سے سب معذرت کرلیتے ہیں، ان مریضوں کے تیماردار پھرہم سے لڑتے ہیں کہ ہمارے مریض کا علاج کون کرےگا۔
سچ یہ ہی ہے یہ وسائل کا ضیاع ہے ، ہم اس لئے ایک سسٹم بنارہے ہیں اس پر کئی میٹنگ ہوچکی ہے۔بہت سارے اسپتال جسے ہوسٹیس کہا جاتا ہے، لاعلاج مریضوں کو ہوسٹیس منتقل کردیں گے ، دوسرا وہ مریض جو اسٹیج فور پر ہیں جنہیں تھوڑا بہت علاج کی ضرورت ہے لیکن مثبت نتائج کی اتنی امید نہیں ہوتی ،ان کے لیے بھی ہم بجٹ رکھنا چاہتےہیں ، کیموتھراپی کے لیے انکالوجی کی نیشنل پالیسی بنالی جائے افادیت والی سستی ترین دوائی کے متعلق پالیسی دی جائے۔
ڈاکٹر کامران سعید: فرسٹ ٹائم ڈرگس زیادہ تر اتنی مہنگی نہیں ہیں اس میں دو چیزیں ہیں ایک جنرک ہے اور ایک نان جنرک ہے ، ڈاکٹر اگر جنرک لکھ رہا ہے تو وہ اس کی صوابدید پر ہے کہ کسی دوسری دوائی کے متعلق اس کے پاس رسپانس اچھا نہیں ہے تویہ ذکر آجاتا ہے کہ جنرک مہنگی ہوتی ہے اور نان جنرک سستی مل جاتی ہے، سیکنڈ لائن اور تھرڈلائن میں علاج ختم نہیں ہوتا مریض کو کافی عرصے تک کیمو کی ضرورت رہتی ہے۔
شوکت خانم اسٹیٹ آف آرٹ اسپتال ہے جس کی چھت کے نیچے تمام سہولیات میسر ہے ، ان کا داخلہ طریقہ کار بڑا سخت ہے وہ صرف ابتدائی اسٹیج مریض کو لیتے ہیں اس اسٹیج کے مریضوں پر اخراجات اتنے نہیں آتے،اس اسٹیج کی کیمو سستی بھی ہیں اور مرضی سے مہنگی بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پانچ بیماریوں میں ٹارگٹڈ تھراپیز ہوتی ہیں اس میں بھی جنرک اور نان جنرک ہیں۔
جنگ: کینسر کی تشخیص یہاں کن طریقوں سے ہوتی ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول : سی ٹی اسکین ، ایم آرآئی ، ریڈیو آئیسکوپ
ڈاکٹر طارق محمود: اس میں سب سے بڑا پیف سی ٹی اسکین ہےجو مہنگا بھی ہے ۔ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اور مکمل فری ہم ہی کرتے ہیں ۔ دیگر مقامات پر یہ چالیس ہزارسے ایک لاکھ روپے میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جگہ چاہے وہ پرائیوٹ علاج کرارہا ہو اگراس مریض کو ضرورت ہے پیف بالکل فری کرتا ہے۔ یہ سہولت پاکستان میں کسی اور جگہ نہیں ہے۔
جنگ: مستقبل کے مزید کیا منصوبے ہیں؟
ڈاکٹر طارق محمود: دوہزار بارہ میں ایک سائبرنائف لگایا تھا پھراسے اپ گریڈ کیا دوسرا آیا اب تیسرا سائبر آیا ، حکومت سندھ نے چاراشاریہ تین ملین ڈالر کا سے پیف کو عطیہ کیا ہے ، اس سائبر کی ڈیوٹی ہے کہ جوسائبر دوہزار بارہ میں ڈھائی گھنٹے میں کام کرتا تھا نیا والا اس کام کو بیس سے پچیس منٹ میں کرلے گا، علاج میں اس کا سب سے بڑا فائدہ ٹائم کم ہوجائے گا اور ٹریٹمنٹ لینے والے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔
دوسرا بہت عرصے سے کوشش ہے جناح اسپتال میں کینسر کا بارہ منزلہ ٹاور بنایا جائے ۔ ایک ڈونر نے اس مقصد کےلیے 30ملین ڈالر کا بندوبست بھی کردیا تھا ہم نے کام کا آغاز کردیا تھا ، بدقسمتی سے جس جگہ پر یہ کام ہونا تھا اندرونی طور پر جے پی ایم سی کے لوگوں سے معاہدہ نہیں ہوسکا لہذا ہم نے اسے منسوخ کردیا ، لیکن ہمارے وہ تیس ملین ڈالر بائیس ملین ڈالر رہ گئے۔
پھر ہم نے اس سے بارہ منزلہ میڈیکل ٹاوربنایا جس میں 532 بیڈ ہیں اور ہرطرح کی او پی ڈی بھی ہوگی ، جناح میں تین سے چار میڈیکل وارڈ ہیں میڈیکل ٹاور میں چھ ہوں گے آئی سی یو ہوگا جس میں کارڈیالوجی بھی شامل ہے وہاں میڈیسن سے تعلق رکھنے والی ہرچیز موجود ہوگی۔
ہمارا کینسر کا سیکشن جس جگہ پر ہے وہاں فیڈرل ایمپلائز وارڈ بھی ہے پرانی بلڈنگ ہونے کی وجہ سے بارش میں ڈوب جاتا تھا اس کے لیے ہمیں کوئی ڈونر نہیں مل رہا تھا اب ایک ملا ہے ہم نے ان سے کہا ہے کہ اگرکینسر کے وارڈ کے ساتھ نئی بلڈنگ بنادیں توجب کینسر کا وارڈ بنائیں گے تو اس کا گراونڈ فلور آپ کے نام پروقف کردیں گے۔ ہم نوے کروڑ سے سات منزلہ جس میں 60 پرائیوٹ کمرے ہوں رابعہ رشید سورتی بلڈنگ ایمپلائز ونگ بنارہے ہیں سردار یاسین ملک میڈیکل کمپلیکس ہے۔
جیسے ہی بلڈنگ بن جائے گی اسپیشل وارڈ وہاں شفٹ ہوجائے گا، جس کے بعد یہاں کینسر کا ٹاور بنائیں گے جس میں ہماری کوشش ہے کہ تین سو سے چارسو بیڈ اورہرچیز ایک ہی چھت کے نیچے ہو ، جے پی ایم سی جیسا صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں بہت کم ایسے سینٹر ہیں جہاں ایک اسپتال میں کینسر کی جدید سہولیات کے آٹھ لینرایکسیلیٹرز موجود ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ ہے اگلے پانچ سال میں جے پی ایم سی وہ سینٹر ہو جہاں دنیا کے سب سے زیادہ لینرایکسیلیٹرز ہوں گے۔
جنگ : سائبرنائف صوبہ سندھ کراچی کے علاوہ اور کہاں موجود ہے؟
ڈاکٹرطارق محمود: لاہور اور اسلام آباد میں سائبر شروع ہے لیکن وہاں فیس مقرر ہے۔ ٹومو تھراپی صرف ہمارے پاس ہے۔
جنگ: کینسر کے علاج کے لیے لوگ آج بھی ہومیوپیتھک ، حکیم ، اور دیگر طریقہ علاج کی طرف جاتے ہیں،مریض کا اس پر کیا فرق پڑتا ہے۔
ڈاکٹر کامران سعید : مرض کو معلوم ہوتے ہی آغاز میں لوگ ان طریقہ علاج کی طرف چلے جاتے ہیں اور جب مرض بڑھ جاتا ہے تو پھر سائنٹیفک جدید علاج کی طرف آتے ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
جنگ: اکثرلوگ تو ٹھیک ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کامران سعید: لوگ اپنی تشہیر کےلیے دعوی کرتے ہوں گے سائنٹیفک ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے، عوام اس طریقہ علاج سے کوئی امید نہ باندھے،کینسر میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔
جنگ: کہا جاتا ہے کیموتھراپی یا سرجری سے کینسر تیزی سے پھیل جاتا ہے ؟
ڈاکٹر طارق محمود : لوگوں میں یہ بھی تاثر ہے کہ بائی اوپسی کرانے سے کینسر پھیل جاتا ہے ، لوگوں کو سمجھانے اور ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے اگر بائی اوپسی نہ بھی کراتے تو کینسر ویسے بھی پھیل رہا تھا ، جب علامات نظر آئیں تو تمہیں معلوم ہوا تو اس کامطلب ہے کہ کینسر پھیل رہا تھا نہ بھی چیک کرتے تو اس نے پھیلنے ہی تھا ، ہم نے چالیس سال کی پریکٹس میں کوئی ایسا مریض نہیں دیکھا اس کی بائی اوپسی کی یا سرجری کی اورہم کہیں کہ اس کی وجہ سے کینسر پھیلا ۔ یہ مفروضہ ہےاس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
جنگ: کیاجناح اسپتال میں بائی اوپسی کی سہولت ہے؟
ڈاکٹرشاہد رسول: بائی اوپسی کی سہولت موجود ہے لیکن لیب رپورٹ باہر سے ہوتی ہے لیکن اگلے ایک دو ہفتے میں یہ بھی دستیاب ہوگی ،کچھ عرصے پہلے تک یہ سہولت صرف جناح اسپتال میں تھی اور شہر کے کئی پرائیوٹ اسپتال ہماری سستی خدمات لے کر مہنگا چارج کرتے تھے۔
جنگ: کراچی میں کون سا کینسر زیادہ ہے؟
ڈاکٹر کامران سعید: ہیڈ این نیک منہ کاکینسربہت عام ہے،خوراک کی نالی کا بھی بہت ہے۔ دنیا میں ہیڈ این نیک کینسر پانچ فیصد ہےیعنی کینسر کےسو میں سے پانچ لوگوں کو یہ والا ہوتا ہے، کراچی میں یہ کینسر سو میں سے تیس سے بھی زیادہ مریضوں کو ہوتا ہے جس کی وجہ سگریٹ نوشی، پان، چھالیہ ، گٹکا ، ماوا وغیرہ کھانا ہے۔ مریض اور اس کے اہل خانہ دونوں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ علاج بھی اسی ہی کینسر کا ہے۔
جنگ : ٹھیک ہونے کے بعد کینسر کے دوبارہ ہونے کا امکان ہوتا ہے ؟
ڈاکٹر کامران سعید : جی بالکل دوبارہ ہوسکتا ہے، بریسٹ کینسر بیس سال بعد بھی ہونے کا امکان رہتا ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود: کینسر دوبارہ ہوسکتا ہے،جس کی وجہ میں یاتو سرجری ٹھیک طرح سے نہیں ہوتی یا کیموتھراپی ٹھیک نہیں ہوتی یا بہت گھٹیا معیار کے ایکوئمپنٹ سے ریڈی ایشن دی گئی ہو۔ پھیپھڑوں اور بریسٹ کے ٹیومر ایسے ہیں جس کے لیے کبھی نہیں کہہ سکتے کہ مریض محفوظ ہوگیا وہ بیس سے پچیس سال بعد بھی مرض دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر شاہدرسول : اس میں ٹیومر کا فرق بھی ہوتا ہے بعض بہت جارحانہ مزاج ٹیومر ہوتے ہیں ان کی واپسی کی شرح زیادہ ہے۔
جنگ : جدید علاج کے بعد کینسر کس حد تک موت کی علامت ہے؟
ڈاکٹر کامران سعید: صورت حال بہتر ہوئی ہے، اگر علاج ٹھیک طرح سے ہوجائے تو مریض محفوظ ہوجاتا ہے۔ کینسر کی کوئی بھی اسٹیج ہو مریض کو کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹرطارق محمود: حالات بدل گئے ہیں کینسراب لاعلاج نہیں رہا ہے۔بروقت تشخیص میں اسٹیج ون اور کچھ کیس میں اسٹیج ٹو بھی ہے ۔ کینسرکی بروقت تشخیص سو فیصد مریض کو محفوط کردیتا ہے کینسر قابل علاج ہے یہ اب لاعلاج نہیں ہے۔
ڈاکٹر کامران سعید: سب سے زیادہ اموات دل اور سڑک حادثات میں ہوتی ہے،ٹراما سینٹر جاکر دیکھیں 99فیصد روڈ ایکسیڈنٹ کے مریض ہوتے ہیں اکثریت بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل سوار ہوتے ہیں جب آپ موٹرسائیکل استعمال کرتے ہیں تو ہیلمٹ لازمی پہنیں اپنی جان کے ساتھ اپنی فیملی کو بھی تکلیف سے بچائیں گے۔ہیلمٹ کا استعمال لازمی کریں۔ تو صرف کینسر کیوں ہرمرض میں مرنے کا امکان رہتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد رسول : کینسر وارڈ میں ہم یہ اکثر دیکھتے ہیں مریض منہ کے کینسر کاعلاج کروارہا ہے اور اس کے تیمار دار حسب معمول گٹکا کھارہے ہیں لوگ اپنے مریض کی تکلیف سے سبق نہیں لے رہے تو کس سے لیں گے ۔ موروثی کینسر سے محفوظ رہنا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن ایسے لوگ باقاعدگی سے اپناچیک اپ کرواتے رہیں تو اگر کینسر ہوتا بھی ہے توجلد پکڑا جاسکتا ہے اور علاج بھی ہوسکتا ہے ۔ جاپان میں استہما کینسرعام ہےتوانہوں نے اس ریشو کو کم کرنے کے لیےاس کی چیکنگ بڑھادی وہاں ایک عمر کے بعد ہرشخص کی انڈسکوپی ہوتی ہے۔
جنگ: کیا ہر طرح کے کینسر کی سرجری ممکن ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود : قریبا ہرطرح کے کینسر کی سرجری ممکن ہے۔ ہمارے اسپتال میں ایک ٹیومر بورڈ ہے جہاں پہلے گفتگو ہوتی ہے۔ کولون اور ریکٹم کے کینسر میں پہلے ریڈی ایشن لازمی دی جاتی ہے تاکہ وہ چھوٹے ہوجائیں ان کا ڈیٹا کا رزلٹ زیادہ بہتر ہو، کینسر کا ٹریٹمنٹ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس میں سرجن انکالوجسٹ، ریڈی ایشن انکالوجسٹ سب مل کر اس مریض کے لیے تیاری کرتے ہیں ۔ آج کل سرجری سے پہلے پری آپریٹ ریڈی ایشن کا رول بریسٹ کے کینسر میں بہت بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود: ہر کینسر کے علاج کے لیے ٹیومر بورڈ مشورہ دیتا ہے وہاں تین چار ٹیومر ایکسپرٹس موجود ہوتے ہیں جہاں ہربات سچائی سے کی جاتی ہے۔
ڈاکٹرشاہد رسول: جناح اسپتال میں بھی باقاعدگی سے ٹیومر بورڈ بیٹھتا ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود : فوری تشخیص کےلیے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی فیملی میں کسی کو کسی طرح کا بھی کینسر جس عمر میں ہوا ہے اس جنس کے لوگ دس سال پہلے سے اس کی اسکینگ شروع کردیں، اگر کسی خاندان کی خاتون کو 45سال کی عمر میں بریسٹ کینسر ہوا ہے تو اس خاندان کی خواتین جو جینٹک لی ان سے تعلق رکھتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ 35 سال سے اسکیننگ شروع کردیں، انجلینا جولی نے 35 سال کی عمر میں اپنے دونوں بریسٹ ختم کروادیئے کیوں کہ اس کی جینٹک ویلیوز بتارہی تھیں اسے سو فیصد کینسر ہونا ہے، اگر کسی فیملی کے مرد بزرگ کو 65 سال کی عمر میں بڑی آنت کا کینسر ہوا ہے تو اس گھرانے کے دیگر مردوں کو چاہیے وہ 55 سال کی عمر سے اپنی آنت کی اسکیننگ شروع کردیں۔ موروثیت سے متاثرہ افراد دس سال پہلے سے اپنی اسکیننگ شروع کردیں توصورتحال سے باخبر بھی رہیں گے محفوظ رہیں گے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: بریسٹ کینسر میں میمو گرافی کا بڑا ذکر آتا ہے کہا جاتا ہے ایک عمر کے بعد یہ ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہیے انڈیا میں ایک اسٹڈی کی گئی اور انہوں نے چالیس سے اوپر کی تمام خواتین کوہرپانچ سال بعد ان کی میمو گرافی کی لیکن بیس سال کے بعد بھی اموات کی تعداد کم نہیں ہوئی۔
جنگ: کوئی علامت نہ ہو لیکن لوگ احتیاطً اپنا چیک اپ کرواسکتے ہیں؟
ڈاکٹر طارق محمود: جس طرح خواتین میں میمو گرافی ہوتی ہےمردوں کو پچاس سال بعد ایک ہزار روپے تک ٹیسٹ کروانا چاہیے مردوں میں سب سے زیادہ پراسٹیٹ کینسر ہوتا ہے تو اسے پراسٹیٹ کے لیے ٹیسٹ کروالینا چاہیے، اس کے علاوہ سالانہ بنیادی سی بی سی ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہیے یا جیسی علامت ہو ناک سے منہ سے خون آتا ہو ، وزن کم ہورہا ہو یا نظر ٹھیک سے کام نہیں کررہی، چکر آتے ہوں، پیٹ خراب ہورہا ہے الکوحل استعمال کررہے ہیں ہر مریض کو اپنے مطابق سوچنا پڑتا ہے۔
حکومت سندھ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت این جی او’’ پیشنٹ ایڈ فاؤنڈیشن‘‘ کے ساتھ مل کر ریڈیو سرجری کی سب سے جدید مشینوں ’’ٹومو تھراپی اورسائبر نائف‘‘ کے ذریعے کینسر کا مفت علاج کر رہی ہے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے پاس تین سائبر نائف ہیں جن میں سے دو مریضوں کی دیکھ بھال جب کہ ایک ٹیچنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
ان روبوٹس کے ذریعے دماغ، سر اور گردن، ریڑھ کی ہڈی، پھیپھڑوں خصوصاً مثانے کے غدود پراسٹیٹ، وغیرہ کے ابتدائی اسٹیج کے کینسر کا مکمل علاج سائبر نائف کے ذریعے کیا جارہا ہے اس میں ریڈیو سرجری آدھے سے ایک گھنٹے کے ایک سے پانچ سیشنز ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ علاج کینسر کے علاوہ امراض جیسا کہ دائمی درد (ٹرائیجیمنل نیورلجیا)، شریانوں کی خرابی، اور فنکشنل عوارض کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
سائبر نائف جدید ٹیکنالوجی جدید طریقہ علاج ہے، درد سے پاک علاج ہے جس میں کسی انجیکشن کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مریض کو بے ہوش کیا جاتا ہے جس میں کوئی خاص سائیڈ ایفیکٹس نہیں۔ مریض اگلے دن کام پر واپس جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں 500 سے بھی کم سائبر نائف نصب ہیں۔ یورپ ،امریکا میں علاج کے اخراجات فی مریض پچاس ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر تک ہیں۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں دنیا کی واحد سہولت ہے جو مفت سائبر نائف علاج کر رہی ہے۔ یہاں کوئی کیش کاؤنٹر نہیں ہے، اسی طرح ٹوموتھراپی کی سہولت بھی 2020 میں جناح ہسپتال میں متعارف کرائی گئی۔ اس کا دوسرایونٹ رواں برس متعارف کرایا گیا۔ یہ مشین 360 ڈگری سے ریڈیو تھراپی کرتی ہے۔ اس مشین میں سی ٹی اسکینر نصب ہے، ہر روز ٹیومر ٹارگٹ کا سی ٹی اسکین ٹومو تھراپی پر کیا جاتا ہے اور پھر ریڈی ایشن دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بچوں کے لیے بہترین یونٹ ہے اور ایک بار میں 40 150x سینٹی میٹر تک بڑی جگہ کا احاطہ کیاجا سکتا ہے۔
جن مریضوں کو ٹوموتھراپی سے تابکاری موصول ہوتی ہے ان مریضوں میں بیماری دوبارہ واپس آنے کی شکایت نہیں آرہی اور ٹومو تھراپی جسم کے تمام حصوں میں کینسر کا علاج کر رہے ہیں۔ ایڈوانس اسٹیج کینسر کےلیے ریڈیو تھراپی Equinox مشین کے ذریعے دی جا رہی ہے۔ روزانہ 70سے80 مریض اسی مشین پر ہی علاج کرواتے ہیں۔
حکومت سندھ اور پیشنٹس ایڈ فاؤنڈیشن کے درمیان کامیاب شراکت داری کی وجہ سے ہے۔ 2012 سے اب تک سائبر نائفس پر19776 کامیاب ریڈیو سرجری، 2020 سے ٹومو تھراپی پر 20037 ریڈیو تھراپی اور 2018 سے ایکوینوکس پر 66187 ریڈیو تھراپی سیشن ہو چکے ہیں۔
تاب کاری ٹیکنالوجی کے ساتھ کینسر کے علاج کے لحاظ سے جے پی ایم سی دنیا کے 10 بہترین مراکز میں سے ایک ہے جس میں ایک ہی چھت کے نیچے تین سائبر نائف اور دو ٹوموتھراپی یونٹس ہیں جس کے ساتھ ہر پاکستانی کے لیے خاص طور پر کراچی کے شہریوں کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ یہ دنیا کا واحد سینٹر ہے جو قومیت ، مذہب اور نسل سے بالا مفت سائبر نائف اور ٹوموتھراپی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے 167 شہروں اور 15 ممالک کے مریضوں نے جے پی ایم سی کراچی میں مفت سہولت حاصل کی ہے۔
جو شخص بھی مذکورہ کینسر میں مبتلا ہے وہ سائبر نائف سے cyberknifejpmc@gmail.com پر ای میل کے ذریعے رابطہ کر سکتا ہے اور ہماری ٹیم تین دنوں میں جواب دے گی بصورت دیگر ریڈایشن آنکولوجی (سائبر نائف ٹومو تھراپی)، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، رفیق شہید روڈ، کراچی پر تشریف لائیں۔